قسط: 1
یہ منظر ہے لندن کے مشہور کلب The Fabric Club کا جہاں لندن کے ٹاپ کلاس لوگ آتے ہیں وہیں ایک سائیڈ کی ٹیبل پہ کوئی بیٹھا ڈرنک کر رہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ڈانس بھی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی جس نے بولڈ ڈریسنگ کی ہوتی ہے اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی ایک ادا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آتی ہے۔Hello handsome, can I sit here?تو ازمیر اسے اوپر سے لیکر نیچے تک دیکھتے ہوئے?Yes why, not. تو وہ اس کے قریب چئیر کرکے بیٹھ جاتی ہے اور اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ پھیرنے لگتی ہے ازمیر سیدھا ہو کر اسے دیکھنے لگتا ہے۔۔اور وہ لڑکی اٹھ کر اس کی گود میں بیٹھ کر بانہیں اس کے گلے میں ڈال دیتی ہے۔۔۔اور اس کے چہرے پہ اپنی انگلی ٹریس کرتے ہوۓ
Hey ,Handsome, do you plan to stay all night or will you have a few minutes of fun?
ازمیر ایک آئبرو آچکا کر اسے دیکھتا ہے
You Think, will you be able to tolerate my way of enjoyment?
وہ ہنستے ہوۓ
Try it and see
ازمیر مسکراتے ہوۓ اٹھتا ہے اور اسے ساتھ لے کر ایک روم میں چلا جاتا ہے اور اسے بیڈ پہ دھکا دیتا ہے اور پھر اسے وحشیوں کی طرح نوچنے لگتا ہے۔۔وہ لڑکی چیختے ہوۓ چھوڑو مجھے یو باسٹرڈ۔۔اس کے منہ سے اپنے لیے ایسے الفاظ سن کر وہ اور زیادہ زور سے hit کرنے لگتا ہے۔۔وہ لڑکی روتے ہوۓ معافیاں مانگنے لگتی ہے پلیز چھوڑ دو مجھے جانے دو لیکن ازمیر اس کی ایک نہیں سنتا اور اسے انگلش میں کہتا ہے کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی وارن کیا تھا۔۔تمہیں شوق تھا انجواے کرنے کا تو سوچا پوری طرح ہی کروا دوں تم سب لڑکیاں ایک جیسی ہو کہا ں پیسے والا کوئی انسان دیکھا جا کر خود کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیتی ہو لیکن آج کا پیش کرنا تمہیں ہمیشہ یاد رہے گا جب وہ لڑکی بے ہوش ہو جاتی ہے تو ازمیر اس کے منہ پہ پیسے پھینک کے چلا جاتا ہے
ازمیر کہاں سے آرہے ہو۔۔ازمیر گھر میں داخل ہوتا ہے کہ اپنے دادا جانی کو اپنا ویٹ کرتے ہوۓ پاتا ہے۔۔کہیں نہیں دادا جانی دوستوں کے ساتھ تھا۔۔لیکن تمہاری چال سے تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے۔۔۔کلب سے آ رہے ہو نا؟ ازمیر خاموش رہتا ہے۔۔اتنی دیر سے نہ آیا کرو مجھے ٹینشن ہونے لگتی ہے۔۔۔جی آئندہ خیال کروں گا۔۔ہمم جاؤ جا کر سو جاؤ صبح بات کریں گے۔۔دونوں اپنے اپنے روم میں چلے جاتے ہیں
اسلام و علیکم ماما۔۔عرشیہ سکول سے آتی ہے۔۔وعلیکم اسلام آگئی میری بیٹی۔۔نہیں ماما میرا بھوت آیا ہے میں تو ابھی راستے میں ہوں۔۔۔ٹھہر جا تجھے میں بتاتی ہوں کرنی تیری زبان چلتی ہے۔۔کہاں۔ماما میری زبان تو میرے منہ میں ہی رہتی ہے اگر چلتی ہوتی تو کبھی کہیں ہوتی کبھی کہیں اور میں بے چاری گونگی بن کے اسے ڈھونڈنے میں لگی رہتی۔۔ہیں نا بڑی ماما؟ وہ اپنی تائ یعنی ازمیر کی ماما کو ساتھ ملاتی ہے۔۔ہاں بالکل میری بیٹی کی زبان کہاں چلتی ہے تمہاری ماں تو ایسے ہی کچھ بھی بولتی رہتی ہے۔۔جی بالکل۔۔اب دیکھیں میں معصوم سکول سے آئی ہوں اتنا نہیں کہ کوئی پانی یا جوس کا پوچھ لیں۔۔لیکن نہیں یہاں میری فکر ہی کسے ہے۔۔کوئ نہیں جب آپ لوگ اور بوڑھے ہو جائیں گی نا کہ آپ کا چلنا پھرنا بھی مشکل ہو جاۓ گا پھر میں بھی نہیں ہو چھا کروں گی دیکھنا آپ لوگ۔۔عرشیہ دھمکی دیتی ہے تو وہاں بیٹھے سب اسے گھور کر رہ جاتے ہیں۔۔ہاں جیسے تمہیں تو ہم ساری زندگی ادھر ہی بٹھا کر رکھیں گے نا۔۔ہم تمہاری شادی کرکے چلتا کریں گے۔۔۔کوئ نہیں جب آپ لوگوں کے بیٹے اپنی بیویوں کے پیچھے لگ کر آپ سے لڑا کریں گے اور شائد گھر سے بھی نکال سکتے ہیں تب میری قدر ہو گی آپ لوگوں کو۔۔توبہ ہے لڑکی کبھی کچھ اچھا بھی سوچ لیا کر۔۔۔آپ سوچنے دیتے ہی نہیں۔۔وہ معصومیت سے اپنے سوچنے کا الزام بھی ان سب کے سر پہ ڈال دیتی ہے۔۔۔چل اٹھ جا اپنے کمرے میں چینج کر اور پھر آکر کھانا کھا لینا۔۔اور عرشیہ اٹھ کر چلی جاتی ہے۔۔۔پتا نہیں کیا بنے گا اس کا۔۔۔فکر نا کر ابھی چھوٹی ہے نا بڑی ہوگی تو خود ہی سمجھ جاۓ گی
ارتضیٰ آپ بابا سائیں سے بولیں نہ کہ اب تو ازمیر کو لے کر واپس آ جاۓ پچیس سال ہوگئے انہیں گئے ہوۓ میری تو مامتا ترس گئی ہے اپنے بیٹے کے لیے۔۔ایسی بھی کیا بات ہوئی جو اچانک سے اسے لے گئے اور ابھی تک واپس نہیں آۓ۔۔۔عائشہ جو کہ ازمیر کی ماں رو کر اپنے ہسبینڈ سے التجا کرتی ہیں۔۔تم فکر نہ کرو میری بابا سائیں سے بات ہوئی ہے کہہ رہے تھے کہ میں بہت جلد لے کر آ رہا ہوں ازمیر کو پاکستان شائد اسی ہفتے دس دن میں آجائیں۔۔۔کیا آپ سب کہہ رہے ہیں عائشہ خوشی سے پوچھتی ہیں۔۔ ارے ہاں بالکل سچ کہہ رہا ہوں میں بھلا جھوٹ کیوں بولوں گا۔۔اچھا تو پھر میں ازمیر کا روم وغیرہ تیار کرواؤں۔۔نہیں ایسا کرتی ہوں ازمیر سے پہلے پوچھتی ہوں کہ کیسا کمرہ چاہیئے اس کے مطابق تیار کرواؤں گی۔۔چلیں میں ابھی کال کرتی ہوں.. ابھی رک جاؤ میری ایکسپریس اتنی جلدی نہ کر پہلے بابا سائیں کو بات کرنے دے پھر تم پوچھ لینا جو بھی ہو چھنا ہو۔۔اچھا۔۔چلیں ٹھیک ہے
مصطفیٰ صاحب پاکستان کے جانے مانے Industrialist ہیں نا صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان کے چاہے مختلف ممالک میں ان کا بزنس پھیلا ہوا ہے ان کے تین بیٹے ہی تھے اللّٰہ تعالٰی نے انہیں کوئی بیٹی عطا نہیں کی حالانکہ انہیں بیٹی کی بہت خواہش تھی لیکن اللّٰہ کی رضا سمجھ کر چپ کر گئے۔۔۔تین بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا مرتضیٰ جو کہ لندن سے MBA کرکے آیا تھا اس کے بعد ارتضیٰ تھا اس نے بھی اپنے بھائی کی طرح لندن سے ہی بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا تھا اس کے بعد آتے ہیں عادل جو کہ پاکستان میں ہی اسلام آباد کی مشہور یونیورسٹی قاعد اعظم یونیورسٹی سے MBA کیا تھا۔۔اور ادھر ہی اسے اپنی کلاس فیلو زارا سے پیار کر بیٹھے اور گھر والوں کی رضامندی سے شادی بھی کر لی اور ان کی دو بیٹیاں عریشہ اور عرشیہ تھیں مرتضیٰ کی شادی اپنے تایا زاد سائرہ سے ہوئی تھی ان کے تین بیٹے دو بیٹیاں تھیں بڑا بیٹا شہروز اس کے بعد شایان اور چھوٹے بیٹے کا نام شیراز تھا اور بیٹی کا نام صنم اور چھوٹی کا نام عائزہ تھا۔۔جبکہ ارتضیٰ کے تین بیٹے تھے بڑا بیٹا شہیر اس کے بعد فیروز اور چھوٹا ازمیر تھا۔۔۔ازمیر جب ایک سال کا تھا اپنے دادا جانی کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی عجیب سی حرکتیں کرنے لگا اس کے دادا جانی دیکھ کے حیران ہوۓ اور جلدی سے اپنے روم کو لاک کیا اور غور سے اپنے پوتے کو دیکھنے لگے کہ آخر ایسا کیسے ہوا۔۔۔بہت سوچ بچار اور غور کرنے کے بعد انہوں نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔اور اس کے بعد مصطفیٰ صاحب نے اپنے پوتے کو دن رات اپنے پاس رکھا یہاں تک کہ اس کی ان عجیب حرکتوں کے بارے میں اپنے بیٹے اور بہو کو بھی پتا نہیں لگنے دیا۔۔۔ازمیر کو اپنے پاس رکھنے کے لیے انہوں نے کہا کہ میں اس کے بنا ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتا یہ مجھے بہت پیارا ہے تم لوگ اس کا فیڈر وغیرہ مجھے دے دو میں خود فیڈ کروا دیا کروں گا اس بات سے سب حیران تھے لیکن کسی میں پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔پھر کچھ یوں ہوا کہ ایک ہفتے کے اندر مصطفیٰ نے ازمیر کو ساتھ لے کر چپکے سے پاکستان چھوڑ دیا اور بنا بتاۓ لندن چلے گئے اور اپنے روم میں ایک نوٹ چھوڑ گئے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر میں ازمیر کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں جیسے ہی مجھے لگے گا کہ اب ہم پاکستان آ سکتے ہیں تو میں ازمیر کو لے کر واپس آ جاؤں گا ان کے اس فیصلے سے سب حیران اور شاکڈ تھے لیکن چپ کر گئے۔۔لیکن عائشہ دن رات اپنے بیٹے کے لیے تڑپتی رہتی ظاہر ہے ماں تھی وہ چاہے کوئی آپ کی اولاد کو سونے کے چمچ سے بھی کھلاۓ لیکن پھر بھی سکون نہیں آتا۔۔کبھی کبھی تو ازمیر کے کپڑے اور کھلونے دیکھ کر رونے لگ جاتیں تو کبھی بالکل چپ کر جاتیں۔۔ان کی حالت دیکھ کر ارتضیٰ کا بہت دل دکھتا اور پھر ایک دن انہوں نے اپنے بابا کو کال کی اور کہا کہ کم سے کم دن میں ایک دفعہ ازمیر سے عائشہ کی ویڈیو کال کروادیا کریں جس سے اس کو تسلی ہو جایا کرے گی۔۔مصطفی صاحب کچھ سوچتے ہوۓ ٹھیک ہے اور پھر ویڈیو کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا جس سے عائشہ کو اپنا بیٹا دیکھ کر تسلی ہو جاتی اور وہ اب تھوڑا سکون میں آ گئ تھی۔۔
مصطفیٰ صاحب نے ازمیر کو بالکل باہر نہ نکالا اور اس کا سکول میں ایڈمشن کروانے کی بجاۓ خود پڑھایا اور تب تک خود پڑھایا جب تک وہ ہر بات سمجھنے نہیں لگ گیا جب مصطفیٰ صاحب کو لگا کہ اب ہر بات ازمیر کی سمجھ میں آنے لگی ہے اسے اچھے برے اور فائدے نقصان کا پتا چل گیا ہے پھر انہوں نے لندن میں ہی اس کا ایڈمشن کروادیا۔۔اب مصطفیٰ صاحب کے ایسا کرنے کے پیچھے کیا وجہ ہے کیوں انہوں نے اسے ایک عرصے تک گھر تک ہی محدود رکھا اس راز کا جواب تو آگے چل کر ہی پتا چلے گا۔۔
ازمیر ایک خوبرو نوجوان تھا جس کی اوشین گرے آنکھیں تھیں وہ جب بولتا بھی تھا تو اس کی گالوں پہ ڈمپل پڑتے تھے اور اپنی پراسرار شخصیت کی بنا پر بہت اٹریکٹو تھا جو ایک دفعہ دیکھتا مڑ دوبارہ دیکھنے پہ مجبور ہوتا۔۔وہ سکول میں بھی سب سے الگ تھلگ رہتا تھا اس کے گنے چنے دو دوست آرتھر اور اولیور تھے ان کے علاوہ وہ کسی سے بھی بات نہ کرتا ہوں کہہ لیں وہ ایک مغرور شہزادہ تھا۔۔جب وہ یونیورسٹی لیول پہ پہنچا تو ہر لڑکی اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی۔۔لیکن وہ کسی کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔۔لیکن پھر اچانک سے ایک دن اسے ایملیا نام کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی اور دونوں پوری یونی میں ایز آ کپل جانے جانے لگے آہستہ آہستہ ان کی محبت پروان چڑھتی گئی۔۔۔جب یونی سے فارغ ہوئے تو ازمیر نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی لیکن ایملیا ٹال گئی کچھ دن یونہی گزر گۓ ایک ازمیر نے ایک دفعہ پھر شادی کے لیے کہا لیکن ایملیا نے نا صرف انکار کر دیا بلکہ وہ ازمیر سے کہنے لگی کہ میں تمہارے جیسے کنزرویٹو شدت پسند انسان سے کبھی شادی نہیں کرسکتی جسےابھی سے مجھے میرے لباس اور میرے تعلقات سے پرابلم ہے وہ شادی کے بعد تو مجھے قید ہی کر لے گا میں آزادی سے رہنے والی لڑکی ہوں اور ایسا لڑکا مجھے مل گیا ہے جو مجھے پوری آزادی سے رہنے دے گا مجھے روک ٹوک نہیں کرتا اس لیے ہمارا تعلق یہیں پہ ختم ہوتا ہے۔۔اتنا کہہ کر وہ تو چلی گئی لیکن ازمیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا وہ فل سپیڈ سے گاڑی چلاتے ہوۓ گھر کی طرف آیا اور اپنے کمرے میں پہنچ کر سارا کمرہ الٹا دیا وہ اپنی ہر چیز پہ غصّہ اتارنے لگا اس نے مجھے چیٹ کیا چھوڑوں گا نہیں میں اسے اگر وہ میری نہیں تو پھر کسی کی نہیں۔۔میں اپنی چیزیں توڑ سکتا ہوں لیکن کسی کو دے نہیں سکتا یہی سوچ کر اس نے ایملیا کو میسج کیا ۔۔Hello emelia can you see me one last time then i will be gone from your life forever۔۔۔اور اس کے ریپلائے کا ویٹ کرنے لگا۔۔۔کچھ ہی دیر میں اس کا ریپلائے آگیا۔۔Yes, but this should be the last time اور اگلے دن ازمیر اسے لینے گیا دونوں نے پہلے کافی شاپ سے کافی پی۔۔ہا بولو کیا بات ہے؟ ایملیا اکتاۓ لہجے میں پوچھتی ہے۔۔۔یہاں نہیں آؤ میرے ساتھ ازمیر اسے لیکر ایک خطرناک جنگل میں جاتا ہے جنگل کے بیچ و بیچ۔۔۔یہ تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ایملیا پریشانی میں پوچھتی ہے۔۔ڈونٹ وری ماۓ ڈئیر ازمیر اسے ہگ کرتا ہے اور پھر اپنی مخصوص آواز میں وہاں کے خونخوار جانوروں کو اکٹھا کرکے ایملیا کو ان کے درمیان کھڑا کرکے انہیں سمجھاتا ہے کہ اسے اپنی خوراک بنا لو۔۔وہ سب جانور ایملیا پہ اٹیک کر دیتے ہیں اور ایملیا کی چیخیں پورے جنگل میں گونجتی ہیں۔۔۔پلیز ازمیر مجھے معاف کر دو میں آج ہی تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن ایک دفعہ جو تعلق ٹوٹ گیا وہ بس ختم۔۔۔اور وہاں کھڑے ہو کر اس کی چیخوں سے خود میں سکون اتارتا اس کی آخری سانس نکلنے تک کھڑا رہتا ہے جب وہ جانور اسے کھا جاتے ہیں تو وہ سائیڈ سمائل پاس کرتا آپ ے گھر کی راہ لیتا ہے۔۔۔جانوروں کو اپنی بات سمجھانا ان کو اکٹھا کرنا یہ سب اس میں خدا کی طرف سے دی گئ پاور تھی جس کا استعمال وہ اپنے مخصوص دشمنوں کے لیے کرتا ۔