Obsession of Beast

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

وہ ٹریڈ مل پر تیز تیز دوڑ رہا تھا اسکا خاص ملازم اسکے پیچھے اپنے ہاتھ میں ٹاول لیے کھڑا تھا جبکہ پاس پڑی اس چھوٹی میز پر فریش جوس رکھا ہوا تھا جو ابھی ابھی داد نے لا کر رکھا تھا
“سر سر” کمرے کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا اسلیے وہ شخص بنا دستک دیے خوشی سے اندر آگیا
اسکے اس طرح آنے پر جہاں داد نے اسے گھبرا کر دیکھا وہیں ٹریڈ مل پر دوڑتا ہوا شخص بھی اس سے اتر کر اسے دیکھنے لگا
اسنے بیلک کلر کا بنیان پہنا ہو تھا جسم پورا پیسنے سے بھیگا ہوا تھا جس سے صاف لگ رہا تھا وہ کافی دیر سے اپنے جم۔روم میں موجود ایکسرسائز کررہا ہے
اسکے چاکلیٹ براؤن بال پسینے کی وجہ سے ماتھے پر چپکے ہوے تھے جبکہ ہیزل براؤن آنکھیں سامنے موجود شخص کو دیکھ رہی تھیں
“سر آپ نے یہ شرٹ منگوائی تھی نہ تو میں لے آیا” اسنے شاپنگ بیگ میں موجود وائٹ کلر کی شرٹ نکال کر اسے دکھاتے ہوے کہا جو کہ سلور ریپر میں پیک تھی اسے لگ رہا تھا کہ اسکے اتنے اچھے کام پر سامنے کھڑا اسکا سر اسے کوئی تو انعام دے گا اور وہ سہی تھا انعام تو اسے ملنا تھا لیکن بیسٹ اسٹائیل میں
اسک اشارہ کرتے ہی داد اسکے قریب چلا گیا اور اپنے ہاتھ میں موجود ٹاول اسکی طرف بڑھایا
“تمہیں یہاں کام کرتے ہوے کتنا وقت ہوا ہے” بھاری گمبھیر آواز اس جگہ گونجی اسکی نظریں مستقیم پر جمی ہوئی تھی جبکہ ہاتھوں سے وہ اپنے سفید بدن پر موجود پسینہ ٹاول کی مدد سے صاف کررہا تھا
“سر ایک ہفتہ”
“اس ایک ہفتے کے اندر میں نے تم سے کتنے کام کرواے ہیں”
“سر آپ نے مجھ سے یہ پہلا کام کروایا ہے” اب کی بار مستقیم بھی گڑبڑا چکا تھا
“مطلب پہلا کام پہلی غلطی اور آخری دن” اسکے آخری دن بولتے ہی مستقیم کا جیسے سانس رک چکا تھا
“فکر مت کرو زندگی کا آخری دن نہیں کہہ رہا کام کا کہہ رہا ہوں پہلی غلطی ہے اس لیے چھوڑ رہا ہوں ورنہ تم مجھے جانتے نہیں ہو آج کے بعد مجھے تم یہاں پر نظر نہ آؤ” جوس کا گلاس جو داد نے اسے دیا تھا اس میں سے چند سپ لے کر اسنے واپس رکھا اور وہاں سے چلا گیا
“سر اس شرٹ کا کیا کروں”اسنے اپنے ہاتھ میں موجود وہ مہنگی شرٹ اسکی طرف بڑھائی لیکن اسے اسے نہیں چھوا
“جلادو” ایک لفظ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ مستقیم حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
“کیا ہوا منہ کیوں کھل گیا” اسکے کمرے سے جاتے ہی داد نے مستقیم کو دیکھتے ہوے کہا
“تو کیا خوش ہوں مجھے بولا تھا دو گھنٹے کے اندر اندر یہ شرٹ لاکر انہیں دوں چاہے کتنے کی ہی کیوں نہ لینی پڑے اور وہ بھی صرف اسی سے جس نے یہ خریدی تھی میں اس آدمی کو ڈبل قیمت دے کر یہ شرٹ لایا وہ بھی ڈیڑھ گھنٹے میں اور مجھے انعام کے بجاے نوکری سے نکالا جارہا ہے اور بول رہے ہیں شرٹ جلادو”
“یہ بیسٹ کی طرف سے انعام ہی ہے کہ تم یہاں زندہ کھڑے ہو ورنہ جس طرح تم بنا اجازت کمرے میں آے تھے نہ اس وقت اپنی اخری سانسیں لے رہے ہوتے”
” یہ شرٹ”
” بیسٹ اسے نہیں پہنے گا”
“تو اتنے پیسے خرچ کرکے منگوائی کیوں”
“کیونکہ اس پر بیسٹ کی نظر پڑچکی تھی لیکن شوپ کیپر نے کہا کہ یہ بک چکی ہے اسلیے اسنے یہ شرٹ منگوائی کیونکہ اسے یہ پسند آچکی تھی اور جو چیز اسے پسند آجاے تو وہ اسے کسی کو نہیں دیتا اور اگر کوئی اور اس کی پسند کی ہوئی چیز کو لے لے تو نہ تو بیسٹ اسے خود استعمال کرتا ہے نہ ہی دوسرے شخص کو کرنے دیتا ہے اس شخص کو بھی مار دے گا جو اسکی چیز لینا چاہے گا اور اپنی پسندیدہ اس چیز کو بھی ختم کردے گا اگر کسی نے ہاتھ لگایا ہوگا لیکن کسی کو دے گا نہیں”
داد کے کہنے پر اسنے اپنا ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا اچھا ہی تھا جو بیسٹ نے اسے نوکری سے نکال دیا تھا جو شخص آدھ کھلے دروازے سے بنا اجازت آنے پر جان سے مار سکتا ہے وہ بڑی غلطی پر کیا سزا دے گا اسکی پہلی غلطی معاف کردی لیکن دوسری وہ معاف نہیں کرتا بلکہ شاید معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں دیتا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اے سی ٹھنڈی ہوا اسکے وجود سے ٹکرائی کمرے کی ہر چیز سے سی کی کولنگ سے ٹھنڈی ہورہی تھی
وہ سیدھا اپنے واشروم میں چلا گیا اور واشروم میں ہی بنی وارڈروب کو کھولا جس کے کھلنے پر اس میں لائٹس جلتی تھیں
اسنے اپنا سوٹ نکالا جب نظر وارڈروب میں رکھے سفید دوپٹے پر گئی
وہ چند لمحے اس ڈوپٹے کو دیکھتا رہا اور پھر اس ڈوپٹہ کو اٹھا کر اسنے اس پر اپنے لب رکھ دیے کانوں میں وہی معصوم سی بچوں جیسی آواز گونجنے لگی
“دعا کرو کہ ہماری ملاقات پھر نہ ہو کیونکہ اگر ہوگئی تو تمہیں اس بیسٹ کی قید سے کوئی نہیں بچا سکتا تم میری محبت ہو اور دعا کرو یہ محبت محبت ہی رہے اگر تم میرا جنون میرا پاگل پن بن گئیں نہ تو تمہیں مجھ سے کوئی دور نہیں کرسکے گا پھر تمہیں ساری عمر بیسٹ کی قید میں ہی رہنا ہوگا دعا کرو کہ ہم پھر کبھی نہ ملیں کیونکہ تمہاری نازک جان مجھے جھیل نہیں پاے گی تمہاری اور میری دنیا الگ ہے اور میں تمہیں اپنی اس دنیا میں نہیں لانا چاہتا بس شرط صرف یہ ہے کہ ہم پھر کبھی نہ ملیں” اس ڈوپٹے پر نظریں جمائے وہ شرگوشی بھرے انداز میں کہہ رہا تھا
لیکن دل میں یہی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ مل جاے اس لڑکی کو ڈھونڈنا بیسٹ کے لیے مشکل نہیں تھا لیکن اسنے اسے کبھی نہیں ڈھونڈا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ معصوم اس خون خرابے والی دنیا میں آے ہاں لیکن اگر اسے دوبارہ وہ ملی تو وہ اسے کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا اگر قدرت نے اس لڑکی کو اس کے لیے رکھا تو وہ اسے ضرور ملے گی اور پھر بیسٹ کی ہی رہے گی
°°°°°
“احد میرا بچہ تم باپ بن گئے ہو ماشاءاللہ سے بیٹی ہوئی ہے” اسکے فون اٹھاتے ہی زہرہ بیگم نے خوشی سے لبریز لہجے میں کہا جب کہ دوسری طرف تو وہ انکی بات سن کر شاکڈ ہو چکا تھا
“آ-آپ سچ کہہ رہی ہیں ماما کیا میں واقعی”خوشی سے اسکے الفاظ ادا نہیں ہوپارہے تھے
“ہاں میرا بچہ تم بس جلدی سے آجاؤ”
“حریم کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نہ”
“وہ بھی بلکل ٹھیک ہے بس یہاں تمہارا ہی انتظار ہے”
“آپ فکر مت کیجیے میں جلدی آنے کی پوری کوشش کروں گا” اسکی آواز بھیگ چکی تھی اور زہرہ بیگم جانتی تھیں کہ وہ اس وقت رو بھی رہا ہوگا اسکی آنکھوں سے خوشی کی وجہ سے آنسو گررہے ہوں گے
اسے دعائیں دے کر انہوں نے فون رکھ دیا
“کیا ہوا احد بھائی آپ رو رہے ہیں” کیپٹن شاداب نے اسکے پاس آکر کہا جس پر اسنے مسکراتے ہوے اپنے آنسو صاف کیے
“میں باپ بن گیا شاداب میری بیٹی ہوئی ہے” خوشی اسکے لہجے سے پھوٹ رہی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ہر کسی کو اپنی اس خوشی کی خبر میں شریک کرے
“آپ سچ کہہ رہے ہیں مطلب کیپٹن احد کے بیٹی ہوئی ہے”
“ہاں شاداب میری بیٹی ہوئی ہے” خوشی اسکے چہرے سے ہی جھلک رہی تھی بس اب اسے تو اس بات کا انتظار تھا کہ جلدی سے وہ یہ مشن کمپلیٹ کرکے اپنی بیوی اور بیٹی کے پاس چلا جاے
°°°°°
“روحیہ کیا دیکھ رہی ہو”روحیہ کب سے زہرہ بیگم کی گود میں موجود کمبل میں لپٹی اس بچی کو دیکھ رہی تھی اور اسکے مسلسل اسی طرح سے دیکھنے پر حریم نے فکرمندی سے اسے دیکھتے ہوے کہا
اس وقت ہاسپٹل کے کمرے میں حریم کے ساتھ اس وقت بس وہ دونوں ہی موجود تھیں
“میں کچھ سوچ رہی ہوں”
“تم بھی سوچتی ہو خیر کیا سوچ رہی ہو” زہرہ بیگم نے ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھ کر دوبارہ نظریں اپنی پوتی کی طرف کرلیں
“میں یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ پیدا کیسے ہوئی”
“روحیہ جیسے سارے بچے پیدا ہوتے ہیں یہ بھی ویسے ہی پیدا ہوئی ہے”
“نہیں ماما میری دوست بتارہی تھی کہ جب میاں بیوی ایک ساتھ ہوتے ہیں نہ جب بےبی پیدا ہوتے ہیں لیکن بھائی تو ایک مہینے سے مشن پر گئے ہوے ہیں تو یہ پیدا کیسے ہوئی”
اسنے الجھن بھرے انداز میں کہا اسکا چہرہ دیکھ کر حریم نے اپنی ہنسی دبائی جبکہ زہرہ بیگم نے زور سے اسکا کان کھینچا
“اف ماما کیا کررہی ہیں چھوڑیں”
“کونسی دوست ہے جو یہ الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہی ہے تمہیں زرا مجھے نمبر دو اسکا میں بھی تو پوچھوں کے میاں بیوی کے ساتھ ہونے سے ایسا کیا ہوتا ہے جو بچے پیدا ہوجاتے ہیں” زہرہ بیگم کے سخت لہجے سے اسے یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ اسنے کچھ غلط بول دیا ہے
لیکن کیا غلط بولا یہ اسے سمجھ نہیں آئی تھی اسنے تو وہی کہا تھا جو اس کی دوست نے اسے بولا تھا
اسنے ایک نظر بیڈ پر لیٹی حریم کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ دبا رہی تھی اور پھر ایک نظر زہرہ بیگم کو جو اپنی گود میں موجود اپنی روتی ہوئی پوتی کو چپ کروارہی

زہرہ بیگم نے اسے ڈانٹ دیا تھا مطلب اب انکے سامنے یہ بات کرنے سے اگلی دفعہ مار بھی پڑ سکتی ہے تو اسلیے اب یہ بات اسے حریم سے پوچھنی تھی تاکہ اسکی کنفیوژن ختم ہو

UMM E OMAMA NOVEL: فیس بک پیج

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial