قسط: 1
ڈور بیل بجانے کے چند منٹ بعد دروازہ کھل چکا تھا اور اسے دیکھتے ہی خاتون کے چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ آگئی
“وصی کیسے ہو بیٹا”
اسے لے کر وہ اندر آگئیں
“جی بلکل ٹھیک ہوں آپ شاید سورہی تھیں”
اسنے شرمندگی سے کہا کیونکہ انکے چہرے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ ابھی سو کر اٹھی ہیں
“ہاں بس آج کافی دیر ہوگئی میں تو شاید اب تک سوتی رہتی اگر ابھی تم نہیں آتے اچھا تم بیٹھو بتاؤ کچھ کھاؤ گے”
رقیہ اسے لے کر ڈرائینگ روم میں آگئیں
“نہیں بس آپ کے ہاتھ کی چاے پینی ہے اور بھابھی کو بھی بلادیں میں انہیں لینے کے لیے آیا ہوں”
“شہناز تو کہہ رہی تھی فرہاد اسے لینے کے لیے آے گا”
“بھائی کو ضروری کام آگیا تھا اسلیے انہوں نے مجھے بھیج دیا ورنہ وہی آتے “
شہناز ایک ہفتے کے لیے اپنی ماں کے گھر آئی ہوئی تھی آج فرہاد اسے لینے کے لیے آنے والا تھا لیکن ضروری کام کی وجہ سے اسنے اپنی جگہ اپنے چھوٹے بھائی وصی کو بھیج دیا
“اچھا رکو میں شہناز کو اٹھا دیتی ہوں وہ اپنی تیاری کرلے اور پھر تمہارے لیے چاے بھی بناتی ہوں”
انکے جاتے ہی وہ وہاں موجود کمرے میں لگی ڈیکوریٹ چیزوں کو دیکھنے لگا جب چند منٹ بعد رقیہ ہانپتی ہوئی اسکے پاس آئیں
“وصی شہناز کو ہوش نہیں آرہا ہے اسے ہاسپٹل لے کر چلو”
انکے کہنے پر وہ شہناز کے کمرے کی طرف بھاگا اور اگلے ہی پل اسے اپنی بانہوں میں اٹھاکر گھر سے نکل گیا
اسکے پیچھے پیچھے رقیہ گھبرائی ہوئی سی آرہی تھی اور دل میں اپنی بیٹی اور اسکی ہونے والی والاد کے لیے مسلسل دعا کررہی تھی
°°°°°
فجر کی آذان ہوتے ہی موبائل پر لگایا الارم شور مچانا شروع ہوگیا
کمبل کے اندر سے اپنا ہاتھ نکال کر اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا اور الارم بند کردیا کمرے میں پہلے کی طرح خاموشی چھاگئی
نورتھ ناظم آباد میں اس وقت فجر کی آذان کا وقت ہورہا تھا
اسنے کمبل اپنے اوپر سے ہٹایا اور ہر روز کی طرح زہہن مکمل بیدار ہوتے ہی اسے یہ خیال آچکا تھا کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے وہ اپنے گھر والوں کے پاس نہیں ہے ان سے دور ہے
ساری باتوں کو جھٹک کر اسنے گہرا سانس لیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر واشروم میں چلی گئی شاور لے کر اسنے نماز ادا کی جاے نماز طے کرکے اسنے سائیڈ پر رکھی
جب نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس انگوٹھی پر گئی جس پر باریک سا پی اور ڈبلیو لکھا ہوا تھا
یہ انگھوٹھی اسکی تھی لیکن اسنے ایک بار کے علاوہ کبھی اسے نہیں پہنا تھا کبھی کبھی اسکا دل چاہتا کہ اسے پھینک دے لیکن وہ ایسا بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ یہ انگوٹھی اسے اسکے گھر والوں کی یاد دلاتی تھی جو اسکی جان سے عزیز خالا نے اسے دی تھی
اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیل کر اسنے اپنے بالوں کو ڈراے کرکے ڈھیلا سا جوڑا بنایا مفلر اسٹائل میں ڈوپٹہ ڈالا اور اپنا کوٹ اور سامان اٹھا کر گھر سے نکل گئی
کیونکہ اسکی ڈیوٹی کا ٹائم شروع ہونے والا تھا
°°°°°
“مبارک ہو بیٹا ہوا ہے”
ڈاکٹر کی بات سنتے ہی ان دونوں کے چہرے پر موجود پریشانی ختم ہوکر اب اطمینان بھری مسکراہٹ آچکی تھی
“اور میری بیٹی کیسی ہے”
رقیہ نے آگے بڑھ کر شہناز کے بارے میں پوچھا
“وہ بھی بلکل ٹھیک ہیں اور بےبی بھی بلکل ٹھیک ہے آپ لوگ میرے ساتھ آئیں مجھے بےبی کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا ہے”
انہیں تسلی دے کر ڈاکٹر نے انہیں اپنے پیچھے آنے کا کہا
°°°°°
“نرس ڈاکٹر ثمینہ کہاں ہیں”
اپنے پیشنٹس کو چیک کرکے اسنے نرس سے ڈاکٹر ثمینہ کے بارے میں پوچھا
“ڈاکٹر وہ اپنے کیبن میں ہیں”
نرس کی بات سن کر وہ ڈاکٹر ثمینہ کے کیبن کی طرف بڑھ گئی جہاں وہ اپنے کیبن سے نکل رہی تھیں انکے ساتھ ایک مرد اور عورت کھڑے تھے جن کی پشت اسکی طرف تھی
وہ وہیں تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوکر انکے جانے کا انتظار کرنے لگی
وصی مڑ کر جانے لگا جب نظر تھوڑے فاصلے پر کھڑی لڑکی کی طرف گئی اور اسکے قدم اپنی جگہ جم گئے
اس پر نظر پڑتے ہی سن تو پریشے بھی ہوچکی تھی لیکن فورا ہوش میں آتے ہی وہ الٹے قدموں وہاں سے بھاگ گئی
“پری رکو”
وصی تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے پیچھے بھاگا اور اسکی آواز سنتے ہی پریشے کے بھاگتے قدم مزید تیز ہوگئے
وہ تیزی سے بھاگ رہی تھی اسکا سانس بری طرح پھول رہا تھا لیکن پھر بھی وہ رک نہیں رہی تھی
گھر ہاسپٹل کے قریب ہی تھا اسلیے پانج منٹ بھاگنے پر ہی وہ گھر پہنچ چکی تھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اسنے مڑ کر پیچھے دیکھا وہاں وصی نہیں تھا اپنے آپ کو نارمل کرکے وہ لاک کھول کر اندر چلی گئی
یہ جانے بنا کہ وصی تھوڑے فاصلے پر دوسرے گھر کی اوٹ میں چھپ کر وصی اسکی ہر حرکت دیکھ رہا تھا
°°°°°
کافی دیر اسکا زہہن انہی خیالات میں الجھا پڑا تھا
کیا اسنے جو کیا وہ ٹھیک تھا بلکل بھی نہیں اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
وہ جب سے ہاسپٹل سے آئی تھی کونے میں بیٹھی بس پرانی باتیں سوچ رہی تھی اور اسی طرح سوچتی رہتی اگر ڈور بیل نہ بجتی
ڈور بیل کی آواز سن کر اسکا دل زوروں سے دھڑکا یہاں پر بھلا کون آ سکتا تھا
ڈھڑکتے دل کے ساتھ اسنے دروازہ کھولا اور اسکا اندازہ سہی تھا
وہاں وصی سمیت اسکے سب گھر والے موجود تھے
°°°°°
“دو تولے کی مندری لادے”
“تین تولے کا کنگنا”
“منہ دکھائی دے دے پھر تو لے جا اپنے آنگنا”
“نہ سمجھ تو چیز پرانی”
“چہرہ میرا پیس نرانی”
“دیکھے گا تو کھا جاے گا سو سو جھٹکے”
فل آواز میں گانا چل رہا تھا
لاؤنج میں شور مچا ہوا تھا وہاں موجود سب لڑکیاں عینہ کو دیکھ کر زور زور سے تالیاں بجا رہی تھیں جو کمر کے گرد کس کے ڈوپٹہ باندھے مہارت سے ڈانس کررہی تھی
“بس کرو لڑکیوں جاؤ جا کر کھانا کھالو کب سے اس کھیل میں لگی ہوئی ہو”
اماں جان جو ابھی وہاں پر آئی تھیں ان سب کو دیکھ کر کہنے لگیں کیونکہ وہ سب کافی دیر سے یہی کام کررہی تھیں
“ہمیں بھوک نہیں ہے اماں جان”
عینہ نے ان لڑکیوں کے درمیان بیٹھ کر اپنی دادی کو دیکھتے ہوے کہا
“ہاں کل آپی جارہی ہیں جتنا وقت مل رہا ہے ہمیں ان کے ساتھ گزارنے دیجیے”
پریشے نے حفصہ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوے کہا جس پر حفصہ نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا
“میری پیاری بہن تمہیں میرے دور جانے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایک بار وصی آجاے تمہیں تو میں اپنے پاس بلالوں گی”
وصی کا نام سن کر جہاں عینہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری وہیں اسکا نام پریشے کے ساتھ سن کر وہ مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی
الماس بیگم حفصہ اور پریشے کی خالا تھیں جن کے تین بیٹے تھے فرہاد احسان اور وصی انکا ارادہ اپنے تینوں بیٹوں کے لیے اسی گھر کی لڑکیاں لینے کا تھا
لیکن انہوں نے آج تک اپنے بچوں کے ساتھ کسی معاملے میں زبردستی نہیں کی تھی اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا
انکے پوچھنے پر فرہاد نے اپنی کلاس میٹ شہناز کا نام لے لیا اور احسان نے حفصہ کا وہ دونوں بہترین دوست تھے اور بقول احسان کے اسے حفصہ سے زیادہ اچھا لائف پارٹنر نہیں مل سکتا اسلیے اسکی چوائس وہی تھی اور وصی کے لیے انہیں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی وہ جانتی تھیں کے وصی بچپن سے پریشے کو پسند کرتا ہے
فرہاد اور شہناز کی شادی انکی پڑھائی مکمل ہوتے ہی ہوچکی تھی جبکہ الماس بیگم کا حفصہ اور احسان کے بارے میں بھی یہی خیال تھا کہ انکی شادی انکی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہو
اور ایسا ہی ہوا تھا
حفصہ کے گریجویشن کرنے کے بعد فورا ہی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں الماس بیگم کا ارادہ پریشے اور وصی کی شادی بھی انہی کے ساتھ کرنے کا تھا لیکن وصی اس بات سے انکار کرچکا تھا وہ چاہتا تھا کہ پریشے اپنی ہاؤس جوب مکمل کرلے جو کے ہونے ہی والی تھی
اور جب تک وہ خود بھی اپنی پڑھائی مکمل کرکے کینیڈا سے واپس آجاتا اسکا بی-بی-اے کا لاسٹ ائیر چل رہا تھا اسکے امتحان ہونے والے تھے اسلیے وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا
جہاں حفصہ کو ہمیشہ احسان کے نام سے چڑایا جاتا تھا وہیں پریشے کو بھی وصی کے نام سے یہی سب کچھ سننے کو ملتا تھا
عینہ جانتی تھی کہ پریشے اور وصی ایک دوسرے کے ساتھ منسوب ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو اسے سے محبت کرنے سے روک نہیں پائی وصی اسکا اچھا دوست تھا لیکن اسنے کبھی عینہ کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا جس نظر سے وہ اسے دیکھتی تھی
اسنے آج تک یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی اور نہ ہی کبھی اپنے رویے سے کسی کو ایسا محسوس ہونے دیا تھا جس سے کوئی بھی اسکے دل کا حال جان پاتا وہ بس رب سے دعا کرتی تھی کہ وصی کا خیال اسکے دل سے نکل جاے کیونکہ وہ کسی اور کا تھا اور وہ خود بھی اپنے دل میں بس اپنے محرم کو رکھنا چاہتی تھی لیکن جب بھی وہ اپنے دل سے وصی کی محبت نکل جانے کی دعا کرتی تھی اسے وصی مزید اپنے دل کے قریب محسوس ہوتا تھا
“جی نہیں اپنا وصی اپنے پاس رکھیں مجھے نہیں کرنی اس بندر سے شادی”
“غلط بات پری ہم تو آپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور آپ کہہ رہی ہیں آپ کو بندر سے شادی نہیں کرنی ویسے میں بندر کہاں سے لگتا ہوں”
وصی کی آواز سن کر ان سب نے حیرت سے اس آواز کی طرف دیکھا
جہاں بلیک جینز اور جیکیٹ میں وہ خوبرو مرد کھڑا گہری نظروں سے پریشے کو دیکھ رہا تھا
“وصی تم کب آے”
اسے دیکھ کر حفضہ اپنی جگہ سے اٹھ کر خوشی خوشی اس سے ملی
“بس جب میری شان میں ڈاکٹر پری قصیدے پڑھ رہی تھیں”
اپنی بات کہتے ہوے اسنے دوبارہ پریشے کی طرف دیکھا اور وہاں بیٹھی اماں جان سے ملنے لگا جبکہ پریشے اٹھ کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی کیونکہ بھلے وصی سب سے مل رہا تھا لیکن نظریں اسی پر ٹکی ہوئی تھیں جو اسے کنفیوژ کررہی تھیں
°°°°°
شادی کا دن تھا ہر طرف گہما گہمی تھی برات آنے والی تھی اسلیے سب لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پلیٹ پکڑے انتظار میں کھڑی تھیں
لیکن سب کو پلیٹ تھما کر وہ بیچاری خود خالی ہاتھ رہ گئی تھی
اسلیے پچھلی طرف چلی گئی جہاں پر پھول رکھے ہوے تھے تاکہ اپنے لیے بھی پھول لے سکے وہ پھولوں کی ٹوکری لے کر جاہی رہی تھی جب اچانک وصی اسکے سامنے آگیا
پہلے تو اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ گھبرائی لیکن پھر خود پر قابو پا کر اسے ڈپٹنے والے انداز میں کہا
“کیا مسلہ ہے”
“مسلہ میرے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ ہے یار جب سے آیا ہوں مجال ہے جو تم پانچ منٹ بھی اکیلی میرے ساتھ بیٹھی ہو”
“میں تمہاری طرح فالتو نہیں ہوں مجھے تمہارے پاس بیٹھنے کے علاؤہ اور بھی بہت کام ہیں”
اپنی بات کہہ کر وہ جانے لگی جب وصی اسکے سامنے آگیا وہ دوسری طرف سے جانے لگی جب وصی نے پھر وہی حرکت کی وہ بار بار اسکے سامنے اسکے راستے میں آرہا تھا
“وصی میں تم سے بعد میں بات کرونگی ابھی پلیز مجھے جانے دو برات آنے والی ہوگی”
اسنے منت بھرے انداز میں کہا اور شاید وصی کو اسکے کہنے پر ترس آگیا تھا اسلیے اسکا راستہ چھوڑ دیا
ویسے بھی برات آنے والی تھی تو پریشے کو وہیں پر موجود ہونا چاہیے تھا
ویسے تو اسے بھی برات کے ساتھ ہی آنا تھا لیکن پریشے کو دیکھنے کی جلدی اور اس سے بات کرنے کو بے چینی نے اسے پہلے ہی یہاں آنے پر مجبور کردیا تھا
°°°°°
“بدتمیز جاہل فالتو”
خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ جارہی تھی جب عینہ اسکے پاس آگئی
“کس سے باتیں کررہی ہو”
“کسی سے نہیں بس ایک لوفر مل گیا تھا اسی پر غصہ ہے”
اسنے ایک نظر مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں اب وہ نہیں تھا
“کون لوفر خیر جو بھی تھا چھوڑو اسے اور چلو میرے ساتھ برات آگئی ہے”
اسکا ہاتھ پکڑ کر عینہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور پھر چند گھنٹوں بعد حفصہ رخصت ہوکر اپنے پیا گھر چلی گئی
°°°°°
شادی تقریبات ختم ہوتے ہی سب پھر سے اپنی اسی روٹین میں آگئے اور دن تیزی سے پر لگا کر اڑ گئے پریشے کی ہاؤس جوب مکمل ہوچکی تھی اور وصی بھی اپنی اسٹڈیز مکمل کرکے آنے والا تھا اور اسکے آنے سے پہلے ہی الماس بیگم اسے وصی کے نام کی انگھوٹھی پہنا کر جاچکی تھیں
جس پر باریک سا پی اور ڈبلیو لکھا ہوا تھا لیکن اسے اس سب سے کوئی خوشی نہیں ہورہی تھی
اپنے اس رشتے کی وجہ سے وہ تو پہلے ہی پریشان رہتی تھی اور اسکی پریشانی میں مزید اضافہ صائمہ بیگم کے ایکسیڈنٹ نے کردیا
وہ اور پریشے شاپنگ پر گئی تھیں جب ایک تیز رفتار ٹرک انہیں ٹکر مار کرچلا گیا وہ حواس باختہ سی ہوکر انہیں ہاسپٹل لائی تھی
اسنے سب گھر والوں کو انفارم کردیا تھا جو اسکی بات سنتے ہی ہاسپٹل آگئے تھے سب اسے سمجھا رہے تھے چپ کرا رہے تھے لیکن وہ بس روے جارہی تھی اور وہ جب تک روتی رہی جب تک صائمہ بیگم کو ہوش نہیں آگیا
اسکی شادی کی بات جو دبی ہوئی وہ صائمہ بیگم کے صحت یاب ہوتے ہی پھر سے اٹھ چکی تھی اور یہی تو وہ نہیں چاہتی تھی وہ بھلا وصی سے شادی کیسے کرسکتی تھی اسنے صائمہ بیگم کو اپنا انکار سنادیا جس کے بعد اسے اچھی خاصی ڈانٹ پڑ چکی تھی اور ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ اسے آئیندہ ایسی بات اپنے زہہن میں بھی نہیں لانی ہے
انکی طرف سے مایوس ہوکر وہ ظفر صاحب کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ اپنے باپ سے کہہ سکے کہ اسے وصی سے شادی نہیں کرنی ہے یا پھر انہیں حقیقت بتادے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں بتا سکی تھی اسکی شادی کو لے کر انکے چہرے پر پھیلی خوشی اسے کچھ کہنے ہی نہیں دے رہی تھی
اسلیے اسنے وصی سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا
“ہیلو وصی میں پری بول رہی ہوں”
“ایسا مت بولا کرو مجھے رونا آتا ہے کیا پری اتنی خوفناک ہوتی ہے”
اس نے شرارت بھرے انداز میں کہا کوئی اور وقت ہوتا تو پریشے اسے اچھی خاصی سنا چکی ہوتی لیکن اس وقت اسکا زہہن ان باتوں کی طرف تھا ہی نہیں
“وصی پلیز میں سیریس ہوں”
“تو میں نے کب مذاق کیا”
“وصی میں تم سے شادی نہیں کرسکتی”
اسکے کہنے پر دوسری طرف گہری خاموشی چھا چکی تھی لیکن چند سیکنڈ بعد اسے اسپیکر میں وصی کے قہقہے کی آواز سنائی دی
“اوہ مائی گاڈ پری میں نے تو ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا لیکن تم نے تو دل پر ہی لے لیا اوکے تم بہت خوبصورت ہو بلکہ اپنے نام کی طرح ہو”
اسکی باتیں وصی کو مذاق لگ رہی تھیں وہ اور کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن شاید اسکے کمرے میں کوئی آچکا تھا اسلیے اسنے بعد کا کہہ کر فون رکھ دیا
اسنے حفصہ سے بات کرنی چاہی لیکن وہ بھی اسے ہی سمجھا کر چلی گئی
کوئی اسکی بات سن ہی نہیں رہا تھا اسے سمجھ ہی نہیں رہا تھا گھر کا ماحول اسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا اور اس سب میں اسکی شادی کی ڈیٹ رکھی جا چکی تھی
اسے بس گھر سے دور جانا ہی اس سب کا حل لگا اور اسنے ایسا ہی کیا
وہ کراچی میں ہی رہتی تھی اور گھر چھوڑ کر بھی وہ اسی شہر میں رہی فرق بس اتنا تھا کہ اسنے علاقہ بدلا تھا
جس گھر میں وہ رہ رہی تھی اس گھر کے قریب ہی موجود ہاسپٹل میں وہ جوب کرنے لگی اسے گھر چھوڑے ہوے چند ماہ ہوچکے تھے اسکی پوری فیملی سب رشتے دار یہیں موجود تھے وہ جانتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو وہ اسے ڈھونڈ ہی لینگے اور شاید وہ کبھی آ چکی تھی
°°°°°
“یہ کیا بے وقوفوں والی حرکت تھی مجھے جواب دو پریشے شاہ”
وہ لوگ اسے گھر واپس لے کر آ چکے تھے اور وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح ان سب کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جب ظفر صاحب کی چنگھاڑتی آواز اسے سنائی دی
“بھائی بچی ہے اسے ڈانٹنے کے بجاے نرمی سے اس سے گھر چھوڑنے کی وجہ پوچھیں”
مظفر صاحب نے ظفر صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا
“اس سے نرمی سے بات کروں جو اپنی شادی کے دنوں میں یہ گھر چھوڑ کر ہمیں رسوا کرنے کے لیے چلی گئی اسے زرا اس بات کا احساس نہیں ہوا کے اسکے جانے سے اسکی بہن کی اور ہماری زندگی میں کیا اثر پڑے گا لوگوں کو ہم کیا جواب دینگے یہ تو شکر ہے کہ الماس ایسی نہیں ہے وہ حفصہ کو کچھ کہتی ہے ورنہ کوئی اور ہوتا تو ان سب باتوں کے طعنے دے دے کر اسکا جینہ حرام کردیتا”
“بابا”
اسنے آنسو ضبط کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ظفر صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا
“بہت نازوں میں پالا تھا میں نے تم دونوں کو لیکن تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے پریشے شاہ” وہ انکی پری سے پریشے شاہ بن چکی تھی
“میں آج ابھی اسی وقت تمہارا اور وصی کا نکاح کرواؤنگا”
انکی بات سن کر اسنے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا اور پہلے انہیں پھر وصی کی طرف دیکھا اسے یہی لگا تھا کہ شاید وصی اس سے شادی سے انکار کردے گا
بھلا وہ کیسے ایک ایسی لڑکی سے شادی کرسکتا تھا جو اسے شادی سے پہلے چھوڑ گئی ہو اور اتنے ماہ سے پتہ نہیں کہاں غائب تھی
اسے امید تھی کہ وصی انکار کردے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اسکے چہرے پر تو سکون پھیل چکا تھا جیسے یہی تو اسکی بھی مرضی تھی
“میں وصی سے شادی نہیں کرونگی”
اسکے کہنے پر ظفر صاحب نے بمشکل اپنے اشتعال کو قابو میں کیا
“بیٹا آخر مسلہ کیا ہے”
الماس بیگم نے آگے بڑھ کر کہا لیکن اسنے کوئی جواب نہیں دیا
“پری بتاؤ تمہیں نکاح کیوں نہیں کرنا ہے”
یہ آواز مظفر صاحب کی تھی اسے ہر کسی کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اس سے یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اسے نکاح کیوں نہیں کرنا
“بتاؤ کیا مسلہ ہے”
“پری بتادو”
“بیٹا بولو”
سب کی آوازیں جیسے اسکے کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اسنے چیختے ہوے کہا
“کیوں کہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں”
اسکی یہ بات جہاں سب کو سکتے میں ڈال گئی تھی وہیں وصی کی تو جیسے دنیا ہی لوٹ چکی تھی