دشتِ ہرجائی

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

رات کی تاریکی ہر سو چھائی ہوئی تھی فضا میں چلتی تیز ہوا سے درختوں کے ہلتے جھنڈ جن سے خاموشی میں ایک سرسراہٹ پیدا ہوتی۔۔ ۔۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے ماحول کو اور ہیبت ناک بنایا ہوا تھا۔ایسے میں وہ شخص رات کے اس پہر اپنی مطلوبہ قبر کے پاس بیٹھا ہر چیز ، ہر خوف کو بلائے تاک رکھے قبرستان میں بیٹھا اپنے کیے تمام تر ظلم ،نا انصافی کو یاد کرتا اشق بار تھا۔۔
پر اب آنسوں بہانے کا کیا فائدہ ۔کیونکہ وقت بیت چکا تھا معاف کرنے والی جا چکی تھی بے وفائی کا غم ،محبت نا ملنے کا غم اور بھی بہت سے غم اپنے ساتھ قبر میں لیے جا چکی تھی جب کہ مقابل کے لئیے پیچھے تحفے میں ایک چیز ایک احساس چھوڑ چکی تھی جو آخر تک اس کے ساتھ رہنا تھا۔۔
پچھتاوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نو وے موم ۔۔۔ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
آپ کو میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اس دیہاتن سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔
بیٹا بات کو سمجھو۔۔۔نکاح میں ہے وہ تمہارے۔۔۔اب سے نہیں بچپن سے۔۔نام جڑا ہے اس کا تمہارے ساتھ۔۔۔
مسسز شمائیلہ نے اپنے خود سر اور ضدی بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
سو واٹ مام۔۔۔؟؟ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔
مجھ سے پوچھ کر کروایا تھا نکاح آپ نے۔۔
ویسے بھی اس کا اور میرا کوئی جوڑ نہیں ہے۔۔۔
ہم کہاں ہائی کلاس سوسائیٹی اور وہ کہاں ٹیپیکل لوگ۔۔سوری میں اس کے ساتھ ایڈجیسٹ نہیں کرسکتا۔۔۔
میں شادی اپنی مرضی سے کروں گا۔۔
اپنے ٹائپ کی لڑکی سے جو میرے ساتھ کھڑی ہو تو پتہ بھی چلے کہ میر حازم کے ساتھ کھڑی ہے۔۔
بیٹا تم تو اس سے ملے بھی نہیں ہو۔۔ایک دفع سماہرہ سے مل تو لو۔۔بیوی ہے تمہاری وہ۔۔
کم از کم میری عزت کا خیال کر لو ۔۔کیا جواب دوں گی بھائی کو۔۔کتنی چاہت سے میں نے سماہرہ کو تمہارے نکاح میں رکھا تھا۔۔تم بھی تو خوش تھے ۔۔
پر اب کیوں تم نے اپنے آپ کو انگریزوں کے ماحول میں ڈھال لیا ہے۔۔
میں اس رشتے کو نہیں مانتا ۔۔یہ سب آپ نے اپنے شوق سے کیا ہے ماموں لوگوں کو کیسے سمجھانا ہے وہ آپ خود دیکھیں گی۔۔وہ نہایت بدتمیزی سے کہتا اپنا فون اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے چلا گیا۔۔
جبکہ پیچھے مسسز شمائیلہ اپنے خود سر اور ضدی بیٹے کی ہٹ دھرمی پر کلس کر رہ گئیں۔۔
میر حازم ۔۔میر زاویار اور شمائیلہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔جس کا نکاح مسسز شمائیلہ نے بچپن میں اپنے بھائی کی بیٹی سمائرہ سے کروایا تھا۔وہ اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنی دلہن کے روپ میں تصور کیے بہت خوش تھیں۔۔۔اس بات سے انجان کے ان کا بیٹا ان کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گا۔۔
نکاح کے اگلے دن میر زاویار کی فیملی واپس امریکہ جا چکی تھی کیونکہ ان کا کاروبار باہر کے ملک میں سیٹل تھا۔۔باہر کے ملک میں رہتے ہوئے میر حازم کو باہر کی ہوا لگ چکی تھی۔جس کی وجہ سے وہ اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا۔۔اس کو ہر چیز ویل سیٹلڈ چاہیے ہوتی تھیں۔۔جبکہ وہ اپنی دنیا میں مگن یہ تک بھول چکا تھا کہ وہ کسی کے نام کے ساتھ منسوخ ہے۔۔کوئی کتنی شدت سے اس کی واپسی کا منتظر ہے۔۔دوسری طرف سمائرہ کے دل میں حازم کی محبت اندر تک جڑ پکڑ چکی تھی وہ اس کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ہر رات اس امید سے سوتی کہ شائد اگلا دن میر حازم کا دیدار کروائے گا۔
🌷🌷🌷🌷🌷
وہ آفس میں اپنی راکنگ چیر پر بیٹھا آفس کی فائل سائین کر رہا تھا کہ اس کے فون کی بجتی بیل نے اس کا تسلسل توڑا۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔!!
واٹ۔۔۔؟؟
آپ وہیں رکیئے میں ابھی آتا ہوں۔
مقابل سے ملنے والی خبر پر وہ تمام کام کو چھوڑتا جلدی سے گھر کی جانب روانہ ہوا۔۔
نجمہ۔۔نجمہ۔۔
وہ ہڑبڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور میڈ کو آواز دیتے ہوئے بولا۔۔
ج۔۔جی صاحب۔۔
مام کہاں ہیں۔۔؟؟
جی وہ اپنے کمرے میں۔۔۔
مام۔۔۔!!!
وہ دروازا کھولتا اندر کی جانب آیا جبکہ حازم کو دیکھ کر وہ منہ موڑ چکی تھیں۔۔
ناراض ہیں آپ۔؟؟
ائیم سوری موم مجھے آپ سے ویسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔
پلیز ناراض تو نہ ہوں۔۔وہ کسی بچے کی طرح ہاتھ سے ان کا چہرا اپنی جانب کرتے ہوئے بولا۔۔
کیوں آئے ہو اب بھی نا آتے بات تو تم نے میری ماننی ہی نہیں ہے۔۔
اچھا ہے جلدی مر جاوں گی۔۔جان چھوٹے گی تمہاری بھی پھر کرتے رہنا اپنی مرضی۔۔
موم۔۔۔پلیز ایسا تو نا بولیں آپ جانتی ہیں ڈیڈ کے بعد میرا سب کچھ آپ ہی ہیں۔۔
وہ ایکدم تڑپتے ہوئے بولا۔۔
بیٹا تو مان لو نا میری بات۔۔یوں اس عمر میں مجھے میرے اپنوں کے سامنے رسوا نا کرو بیٹا ۔۔
میں چاہتی ہوں اپنی آنکھوں کے سامنے تمہارا گھر بستے ہوئے دیکھ لوں۔۔
روز خواب میں تمہارے بابا مجھے لینے آتے ہیں۔۔میں بھی ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔۔وہ بہت اکیلے ہیں۔۔مجھے پکارتے ہیں۔۔
بیٹا ۔۔میرے پاس وقت بہت کم ہیں۔۔
اپنی ماں کی یہ آخری خواہش سمجھ کر پورا کر دو۔۔
مام۔۔۔می۔۔میں تیار ہو ۔۔بس آپ اس طرح کی باتیں نا کرا کریں۔۔وہ آنکھوں میں آئی نمی کو پرے دھکیلتے ہوئے بولا۔۔۔
بہت شکریہ بیٹا۔۔۔تم نہیں جانتے تمہارے اس فیصلے نے مجھے کتنا پرسکون کیا ہے۔۔
وہ اس کی پیشانی کے بالوں کو ہٹائے محبت اس ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے بولیں۔۔
اب آپ ریسٹ کریں موم میں چلتا ہوں۔۔
🌷🌷🌷🌷
سمائرہ۔۔۔
سمائرہ۔۔۔۔۔
کون سی بلا ہو تم ۔۔۔جس نے میری موم کو اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔۔کہ وہ تمہارے لئیے مجھ سے ناراض تک ہو گئیں۔
بس ایک دفع ۔۔تم میر حازم کی دسترس میں آہ جاو۔۔
میں تمہیں ایسا سبق سکھاوں گا کہ تمہارے پاس آخری راستہ فرار کا ہو گا۔۔حیات تنگ نہ کی تم پر تو میرا نام میر حازم نہیں۔۔
وہ کمرے سے منسلک بالکونی میں ، سیگرٹ کے گہرے گہرے کش لگاتا اپنے اشتحال پر قابو پاتا سماہرہ کے خلاف پروپریگینڈا بنا رہا تھا۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial