جنون محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

موسم آج کچھ زیادہ ہی سرد تھا لیکن ہر چیز سے بے نیاز وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیھٹا اپنی سوچوں میں گم تھا
تیز ہوا سے اسکے بال بکھر رہے تھے جب کے سبز آنکھیں غیر مری نقطے پر جمی ہوئی تھیں
اب تک کی گزری یونیورسٹی لائف میں اسے پہلی بار کسی پروفیسر کا غصہ سہنا پڑا تھا
وہ ایک نہایت ہی قابل اسٹوڈنٹ تھا اپنے سارے کام وہ بہت ذمیداری سے کرتا تھا
لیکن جب سے حورم یہاں پر آئی تھی تب سے وہ اپنے ہر کام میں بہت لاپروائی دکھانے لگ گیا تھا
ہر سال اپنے فارغ دنوں میں وہ گاؤں جاتا تھا صرف حورم کی وجہ سے تاکہ اس سے ملاقات ہوسکے وہ اسکے ساتھ وقت گزار سکے جبکہ یہ اور بات تھی کہ اسے وہاں کا ماحول بلکل نہیں پسند تھا بلکہ اس ماحول میں رہنے سے وہ بیمار پڑ جاتا تھا اسے ایسی جگہ پر رہنے کی عادت جو نہیں تھی
اسنے اب تک کی ساری زندگی نیو یارک جیسے شہر میں گزاری تھی اور اسکے ماں باپ نے اسے بہت نازوں سے پالا تھا کیسے عادت ہوتی اسے اس ماحول کی
لیکن اس بار اپنی مصروفیت کی وجہ سے وہ گاؤں نہیں جاسکا تھا اور شاید یہ اسکی خوش قسمتی ہی تھی جو پھر بھی اسکی حورم سے ملاقات ہوگئی
معتصم اپنے کام کی وجہ سے ساحر کے ساتھ یہاں پر آیا تھا جس کی وجہ سے وہ حورم المیر اور ازمیر کو بھی اپنے ساتھ لے آیا
باقی بچے حویلی میں ہی موجود تھے کیونکہ انہیں اپنے ماں باپ کے بغیر رہنے کی عادت نہیں تھی
جب سے حورم آئی تھی تب سے ہی وہ سب کچھ بھول گیا تھا ہر کام زمیداری سے کرنے والا ارتضیٰ اپنی پڑھائی کے معاملے میں لاپرواہ ہوگیا جس کی وجہ سے آج پروفیسر سے اسے اچھی خاصی ڈانٹ سننے کو ملی تھی
اسے غصہ آرہا تھا آج تک اسکے ماں باپ نے اس سے اس طرح بات نہیں کی تو پھر کوئی اور کیسے کرسکتا تھا لیکن اپنے غصے کو اسنے قابو ہی کیے رکھا کیونکہ اسے پتہ تھا غلطی اسکی اپنی تھی
“ارتضیٰ”
اسنے سبز آنکھیں اٹھا کر سامنے کھڑے جیک کو دیکھا جو ہنستے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا
“Today the professor praised you a lot”
(آج پروفیسر صاحب نے تمہاری بہت تعریف کی)
اسکا انداز جلانے والا تھا ایسا پہلی بار ہی تو ہوا تھا کہ ارتضیٰ نے کوئی لاپروائی دکھائی تھی تو پھر وہ کیوں اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اسے نہیں چھیڑتا
“What is the problem”
(کیا مسلہ ہے)
اسنے دانت پیستے ہوئے کہا
“Nothing, he just wanted to know who Hooram was”
(کچھ نہیں، وہ صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ حورم کون ہے)
اسکی بات سن کر وہ غصے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور اس سے پہلے ارتضیٰ اسے کوئی اچھا سبق سکھا پاتا ان دونوں کے درمیان زارون آگیا
“ارتضیٰ چھوڑ اسے کمینہ بکواس کررہا ہے” ارتضیٰ کو پکڑ کر وہ اس سے دور لے جانے لگا اسنے اپنے الفاظ اردو میں کہے تھے یقیناً جیک کو وہ سمجھ نہیں آنے تھے
“چھوڑ مجھے” اسے جھٹکا دے کر وہ واپس جیک کی طرف بڑھا جب زارون جلدی سے اسکے قریب آیا
اگر ارتضیٰ اسے مارنے لگ جاتا تو اسکے لیے ایک بڑا مسلہ بن جانا تھا لیکن غصے میں وہ بندہ کسی کی سنتا کب تھا
“ارتضیٰ حورم آئی ہے” اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر جیک وہاں سے بھاگ چکا تھا لیکن ارتضیٰ اسکے پیچھے نہیں گیا تھا کیونکہ زارون کے الفاظ اسکے قدم روک چکے تھے
“حورم یہاں آئی ہے”
“ہاں ڈرائیور کے ساتھ تجھے لینے کے لیے آئی ہے اسلیے یہ معاملہ یہیں ختم کر اور گھر جا وہ باہر انتظار کررہی ہے”
اسکے کہنے پر گرا سانس لے کر اسنے وہاں رکھا اپنا بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف چلا گیا جہاں باہر نکلتے ہی غصہ دلانے کے لیے ایک اور منظر اسکا منتظر تھا
°°°°°
“تم کتنی پیاری ہو لیکن یہ تو تم نے بتایا نہیں ارتضیٰ تمہارا کیا لگتا ہے” حسام اسکے سامنے بیٹھا مسکراتے ہوے اسے دیکھ رہا تھا
“وہ میرے چاچو ہیں”
اسنے اپنے ڈمپلز کی بھرپور نمائش کرتے ہوئے اسے بتایا جس پر ہنستے ہوئے حسام نے اسکا گال کھینچا اور اس سے زیادہ ارتضیٰ کی برداشت کی حد نہیں تھی
“حور”
اسکی آواز سن کر حورم اسکی طرف دیکھنے لگی وہ بےحد پیاری تھی خوبصورتی میں تو وہ اپنی ماں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی
وہ حد سے زیادہ کیوٹ اور اسکے پھولے پھولے گال اسکی کیوٹنیس میں مزید اصافہ کرتے تھے
اس وقت بھی ریڈ کلر کی فراک پہنے وہ کوئی چلتی پھرتی گڑیا لگ رہی تھی
“یہاں کیا کررہی ہو”
“میں آپ کو لینے آئی ہوں ارتضیٰ”
اسنے ایسے بتایا جیسے گاڑی تو خود وہی ڈرائیو کرکے آئی تھی
“گاڑی میں بیٹھو”
اسکا سخت لہجہ دیکھ کر وہ بنا کچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گئی اور اسکے جاتے ہی وہ گھور کر حسام کو دیکھنے لگا
“بہت کیوٹ ہے یہ ویسے اسنے بتایا تم اسکے چاچو ہو”
“بڑبڑاتی رہتی ہے وہ اسکی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے ہاتھ اس سے دور ہی رکھو آج کے بعد اگر میں نے تمہیں کبھی اسے چھوتے ہوئے دیکھا تو تمہارا ہاتھ توڑنے میں دیر نہیں لگاؤں گا”
اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ حسام یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اسنے ایسا کیا کردیا تھا جس کی وجہ سے ارتضیٰ کو اتنا غصہ آگیا
°°°°°
“یہاں کیا کررہی ہو تم” گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے اپنے برابر بیٹھی حورم کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا
“میں آپ کو لینے آئی تھی ارتضیٰ”
“میں نے کہا تھا تم سے اور اگر تم یہاں پر آئی بھی تھیں تو گاڑی میں ہی بیٹھی رہتیں باہر نکلنے کی کیا ضرورت تھی”
اسکے کہنے پر حورم نے منہ بسور کر اسے دیکھا
اتنی ضد کرکے تو اسنے حفصہ سے یہاں پر آنے کی اجازت لی تھی اور اب یہ بندہ اسے ڈانٹ رہا تھا
“آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں”
“ہاں میں تمہیں ڈانٹ رہا ہوں” اسکا ہاتھ پکڑ کر ارتضیٰ نے اسے اپنے قریب کیا اور اسکا گال رگڑنے لگا جیسے اس پر سے حسام کا لمس مٹانا چاہ رہا ہو
جبکہ اسکی اس حرکت کے باعث حورم کا سرخ گال مزید سرخ ہوچکا تھا
“ارتضیٰ مجھے درد ہورہا ہے”
اسنے اپنا چھوٹا سا نازک ہاتھ ارتضیٰ کے مظبوط ہاتھ پر رکھا جبکہ اسکا لہجہ بھیگا ہوا تھا اور اسکا بھیگا لہجہ دیکھ کر ہی تو اسکا غصہ اترا تھا
“حور اگر کوئی تمہیں ہاتھ لگائے گا تو تم اسے ایسا کرنے دو گی”
“تو کیا میں اسے منع کروں”
اسنے سوالیہ نظروں سے ارتضیٰ کی طرف دیکھا
“ہاں”
“آپ بھی تو مجھے ہاتھ لگاتے ہیں”
“حور میری بات الگ ہے میں تمہارا اپنا ہوں میں تمہیں ہاتھ لگا سکتا ہوں لیکن کوئی اور اس طرح کی حرکت کرے تو تم اسے منع کرو گی اور اگر تم نے ایسا انہیں کیا تو اس شخص کا ہاتھ میں بعد میں توڑوں گا پہلے تو تمہارے یہ گال نوچ کر پھینک دوں گا جنہیں ہر کوئی کھینچتا رہتا ہے”
اسکے کہنے پر حورم نے سہم کر اسے دیکھا اور اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ لیے
جبکہ اسکے ایسا کرنے پر ارتضیٰ کو بھی اپنے لہجے کی سختی کا اندازہ ہوگیا تھا اسلیے گہرا سانس لے کر اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگا
°°°°°
گھر آتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور فریش ہوکر اسٹڈی روم میں چلا گیا اسے اپنا اسائنمنٹ بنانا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ لاپروائی دکھانے سے جو ڈانٹ اسے آج سننے کو ملی ہے وہ پھر سے ملے
اسے کام کرتے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی جب دروازہ بجنے لگا
وہ لاکڈ تھا ورنہ باہر کھڑا شخص دروازہ بجانے کے بجائے اندر آچکا ہوتا کیونکہ یہ اسکا کمرہ نہیں تھا جہاں آنے کے لیے کوئی اس سے اجازت لیتا
اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر اسنے دروازہ کھولا جہاں نظریں جھکانے پر اسے وہاں کھڑی حورم دکھائی دی
ہاتھ میں ٹیڈی بیئر پکڑے وہ سر اٹھائے ارتضیٰ کو دیکھ رہی تھی
“حور کیا ہوا ہے”
‘میرے ساتھ کھیلیں”
اسکے تھوڑا پیچھے ہوتے ہی وہ بھاگ کر اندر آگئی اور اسکے اندر آتے ہی ارتضیٰ نے پھر سے دروازہ لاکڈ کردیا کیونکہ اس وقت اسے بس پڑھنا تھا
“میں کام کررہا ہوں حور ہم بعد میں کھیلیں گے لیکن اچھا ہوا تم آگئیں یہاں پر ہی بیٹھ جاؤ تمہیں دیکھ کر میں اپنا کام زیادہ اچھے سے کرسکوں گا”
دھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسنے حورم کی طرف دیکھا آج سارا دن میں وہ پہلی بار مسکرایا تھا
“نہیں پہلے میرے ساتھ کھیلیں”
“حور اگر تم مجھے تنگ کرو گی تو میں تمہیں کمرے سے باہر نکال دوں گا”
اسکا لہجہ پھر سے سخت ہوا اور جاکر وہ اپنی پہلے والی جگہ پر بیٹھ گیا
جب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اسکے قریب آئی اور اپنا ہاتھ اسکے گھٹنے پر رکھ دیا
“پلیز ارتضیٰ چاچو کھیلیں نہ”
اسکے کہنے پر ارتضیٰ نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں
یقینا وہ حویلی کے کسی افراد سے بات کرکے آئی تھی تب ہی اسے چاچو کہہ رہی تھی
جب اسنے بولنا شروع کیا تھا تب سب نے اسے یہی سکھایا تھا کہ ارتضیٰ اسکا چاچو ہے اسلیے شروع شروع میں وہ اسے چاچو ہی کہتی تھی
لیکن ارتضیٰ کے منع کرنے اور ٹوکنے کی وجہ سے اسکی یہ عادت چھوٹ گئی تھی
لیکن جب بھی وہ حویلی میں رہتی یا پھر یہاں پر ہی حویلی کے کسی افراد سے بات کرتی تو وہ سب اسے یہی کہتے تھے کہ ارتضیٰ کو چاچو بلایا کرے کیونکہ بڑوں کا نام لینا اچھی بات نہیں ہوتی اور ارتضیٰ تو اس سے عمر میں تھا بھی کافی بڑا
“کس سے بات کرکے آئی ہو”
گہرا سانس لے کر اسنے ٹیبل پر رکھا پین دور اچھالا
“دادی سائیں سے”
“حور میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے مجھے چاچو مت بلایا کرو مجھے صرف ارتضیٰ بلایا کرو”
“ٹھیک ہے پھر اب ہم کھیلیں”
“ہم بعد میں کھیلیں گے حور”
“اگر آپ میرے ساتھ نہیں کھیلیں گے تو میں آپ کو چاچو بلاؤں گی”
“حور”
اسکے لہجے میں سختی اتر آئی جسے وہ سمجھنے سے انجان تھی
“ارتضیٰ چاچو”
“حور ایک لفظ مزید مت کہنا’
“ارتضیٰ چاچو ارتضیٰ چاچو ارتضیٰ”
اسکے کہنے پر غصے میں ارتضیٰ کا مظبوط ہاتھ اٹھا جس کی وجہ سے وہ نازک وجود فاصلے پر جاگرا اسکے ہاتھ میں موجود ٹیڈی بھی دور جاگرا تھا
جبکہ ارتضیٰ حیرت اور صدمے سے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا اتنی بڑی غلطی اسنے کیسے کردی
“حور دیکھو میری بات سنو”
اسکے قریب جاکر ارتضیٰ نے اسے اٹھایا جو روتے ہوئے اسکے ہاتھ سے اپنا بازو چھوڑا رہی تھی
اسکے چہرے پر چھپے انگلیوں کے نشان دیکھ کر ارتضیٰ کا دل چاہ رہا تھا اپنا ہاتھ کاٹ لے
“چھوڑو مجھے”
اسکے رونے پر ارتضیٰ نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا جو اسکے چھوڑتے ہی دروازہ کھولنے لگی لیکن لاکڈ کافی اوپر تھا اور وہاں تک اسکا ہاتھ نہیں جاتا تھا
“حور میری بات سنو”
اسکے قریب جاکر وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا لیکن وہ روتے ہوئے اپنا ہاتھ اوپر کی طرف بڑھائے جارہی تھی جیسے ایسا کرنے سے تو اسکا ہاتھ لمبا ہو جائے گا اور لاک کھل جائے گا
“دروازہ کھولیں”
“حور”
“کھولیں”
اسکے رونے میں مزید شدت آئی جسے دیکھ کر ارتضیٰ نے دروازہ کھول دیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ بھاگ کر باہر چلی گئی
یہ بات اب اسنے سارے گھر میں بتانی تھی لیکن اسے پرواہ نہیں تھی اسکے لیے تو بس یہی بات اہم تھی کہ حورم اس سے ناراض ہوگئی ہے اور اسنے حورم پر ہاتھ اٹھایا ہے
وہ آج کل اس پر کچھ زیادہ ہی سختی کرنے لگ گیا تھا
انجانے میں وہ اسے کتنی تکلیف دینے لگ گیا تھا جس کے بعد وہ خود بھی ازیت میں ہی رہتا تھا
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ حورم کے معاملے میں اسے کیا ہو جاتا تھا
حورم کے معاملے میں وہ کتنا جنونی تھی اسکا اندازہ اسے خود بھی نہیں تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial