قسط: 1
”نیم اندھیرے کمرے میں بیڈ کے واسط میں آنکھوں پر ہاتھ رکھے سرمیہ رنگ کی کڑتی کے ساتھ سفید ٹراؤزر پہنے چت لیٹی وہ شائد سونے کی کوشش کر رہی تھی کہ کسی کی آواز نے کمرے اراتاش پیدا کیا۔
آپی………!! آپی………!! آپی…….!! مضطرب سی آواز دیتی ہوئی آسمانی رنگ کے ڈھیلے سے کڑتے کے ساتھ پلازو پہنے آدھے بالوں کو کیچر میں قید کیے کمرے میں داخل ہوئی جہاں نیم اندھیرے ہونے کے باعث اسے کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
”کیا ہو گیا کیوں شور کر رہی ہو آئزہ؟ بازو منہ سے ہٹا کر اٹھے بغیر سوال کیا۔
”آپی! آپ کمرے میں آرام فرما رہی ہیں آپ کو پتا ہے میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں؟ لائٹس اون کرتے ہوئے اسکے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا تھا لائٹس اون ہونے سے پورے کمرے میں روشنی پھیل گئی جس کے باعث طیبہ کی آنکھیں چندھیا گئیں تھی۔
ہوا کیا ہے کیوں آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ اسکے سوال سے تنگ آتے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
آپی! مجھے اور لائبہ کو شاپنگ پر جانا ہے امی جی نے صاف منا کر دیا ہے. اسکے اٹھ کر بیٹھتے ہی آئزہ نے منہ بسور کر اپنا مسئلہ پیش کیا تو وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کھڑے نین نقش دودھیا رنگت بڑی بڑی آنکھیں گلابی ہونٹ سیاہ بال وہ کسی شہزادی کی مانند ہی تو تھی۔
اچھا میں امی جی!! سے بات کرتی ہوں کمر پر پھیلے لمبے سیا ریشمی بالوں کا جوڑا بناتے سرسری انداز میں بولی جبکہ روشنی کے باعث اب وہ اپنی آنکھوں کو پوری طرح سے کھول نہیں پائی تھی۔
”میں کچھ نہیں جانتی آپی! ابھی بولیں مجھے ابھی جانا ہے وہ ضدی لہجے میں بولی۔
”اچھا اچھا بولتی ہوں پہلے تم وہ میری وہیل چیئر تو میرے پاس کر دو؟ وہیل چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تو آئزہ نے کی وہیل چیئر پر بیٹھے میں طیبہ کی ہیلپ اسکے بعد اسنے نے اپنا ڈوپٹہ سلیقے سے سر پر سیٹ کیا پھر آئزہ اسکی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے کمرے سے باہر لے کر آئی۔
”آئزہ!!‘ امی جی کو میں مناؤں شاپنگ پر تم دونوں جاؤ ان سب میں میرا کیا فائدہ.؟؟ لاؤنچ میں آتے ہوئے طیبہ نے کچھ سوچتے ہوئے جاننا چاہا۔
”اپ ہمارے ساتھ چل نہیں سکتی نہیں تو آپکو بھی ساتھ لیجاتے لیکن آپی آپ کی ائسکریم اور چوکلیٹ ضرور لے کر آئیں گیں پرومس۔ آئزہ کے عام سے انداز پر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا مگر وہ اسے نظر انداز کر گئی اور وہ اپنی بے نیازی میں اپنی طرف سے فوراً سے رشوت کی پیشکش کی جس پر وہ صرف ہاں میں سر ہلا کر رہ گئی تھی۔
”ہمممم!! اب تو کچھ سوچنا پڑے گا۔ اسکی بات پر وہ جو کچھ بھج سی گئی تھی اپنے چہرے پر مسنوئی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولی۔
”امی جی! کہاں ہیں آپ؟ طوبیٰ نے آواز دی تو سائرہ جو کچن میں کچھ کام کر رہی تھی اسکی کی آواز پر باہر آئی۔
کیا امی جی!! ان دونوں کے ہوتے ہوئے آپ کام کر رہی ہیں۔ طوبیٰ کو فکر ہوئی۔
”نہیں لائبہ میرے پاس ہی تھی اور کام کیا تمھارے ابو نے صبح سوجی کے حلوے کی فرمائش کی تھی بس وہی بنانے گئی تھی تو لائبہ آگئی مجھے کچھ کرنا ہی نہیں پڑا، بس لائبہ کو پاس کھڑی ہوکر گائیڈ کر رہی تھی۔ سائرہ نے وضاحت کی تو وہ پر سکون ہوئی مگر اگلے ہی پل آئزہ نے کوہنی مار کر طوبیٰ کو یادہانی کروائی۔
”آپی! آپ نے کچھ بات کرنی تھی۔
”امی جی! میں نے کچھ چیزیں منگوانی تھیں اگر آپ اجازت دیں تو آئزہ اور لائبہ سے منگوا لوں طوبیٰ نے بہانا بناتے ہوئے استفسار کیا تو سائرہ بیگم نے فوراً سے آئزہ کو دیکھا جو یہاں وہاں دیکھتی ہوئی انجان بنی۔
”ہاں! جیسے میں تو جانتی ہی نہیں ہوں ناں تمھیں کون سی چیزیں منگوانی ہیں، سب معلوم ہے مجھے تم بہنوں کی چالاکیاں۔ وہ بھی ماں تھی فوراً سے جان گئی۔
تو جب آپ سب جانتی ہی ہیں تو پھر جانے دیں نا“ میں وعدہ کر رہی ہوں دونوں ٹائم سے واپس آجائیں گی، آجاؤ گی ناں! اپنی ماں کو یقین دہانی کروانے کے بعد آئزہ سے بھی تائید چاہی تو وہ فوراً سے ہاں میں سر ہلا گئی۔
”طوبیٰ! تمہارے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے دونوں کو مسنوئی خفگی سے کہتی صوفے پر آکر بیٹھی تھی
”اب یہ دونوں ہی تو میری دنیا ہیں میری بہنیں ہی میری دوستیں بھی ہیں، انکے لاڈ نہیں اٹھاؤ گی تو اور کون ہے میرا، ویسے بھی ابھی دونوں چھوٹی ہیں بڑی ہو گی تو خود سمجھ جائیں گی، چلو اب تم دونو جاؤں، جلدی واپس آجانا، امی جی! کچن میں اگر کوئی کام ہے تو مجھے بتا دیں سبزی وغیرہ تو بنا کر دے ہی سکتی ہوں۔ اپنے کندھے پر دھرے آئزہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر لبوں سے لگاتے ہوئے متانت سے کہتے اسے تاکید کرنے کے بعد پوچھا۔
“نہیں آپی میں نے سارا کام کر دیا ہے۔ بلیک کلر کی شفون کی فراک کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ لیے بالوں کی چٹیا بنائے جس کی دو لٹے اسکے چہرے پر جھول رہی تھی اتنے میں لائبہ نے کچن سے باہر آکر اطلاع دی۔
”امی جی!! اب آپ بھی آرام کر لیں میں نے کھانا بھی بنا دیا ہے اور فکر نہیں کریں روٹیاں بھی میں آکر بنا لوں گی۔ مزید بتاتے ہوئے پاس آئی تھی۔
”ہاں بھئی.! اب تم لوگوں نے ساری پلاننگ کر ہی لی ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں، کرو مرضی۔ سائرہ نے نیم رضامندی ظاہر کی جس پر تینوں کے چہرے چمک اٹھے جسے دیکھ کر سائرہ کے دل میں سکون کی لہر دوڑ گئی۔
”تھنک یو آپی!!“ آپ ہمیشہ ہماری پروبلم حل کرتی
ہیں چہک کر طوبیٰ کے گلے لگتے ہوئے بولیں۔
“بس! بس! اب یہ مکھن آکر لگا لینا چلو جاؤ بھی۔
طوبیٰ نے انھیں چلتا کیا تو وہ دونوں بھی موقع ملتا ہی جلدی سے نکلی تھی۔
”کیا بات ہے امی جی.! آپ مجھے پریشان لگ رہی ہیں۔ دونوں کے جانے کے بعد اپنی ماں کو خاموش دیکھ کر طوبیٰ نے سوال کیا تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر رہ گئی کتنی خوبصورتی دی تھی خدا نے عقل اور ذہانت میں بھی کوئی کمی نہ تھی بس ایک کمی تھی جو ان سب پر بھاری تھی۔
”کچھ نہیں سائرہ بیگم نے ٹالنا چاہا۔
”کیا بات ہے امی جی.! آپ مجھے کچھ پریشان لگ رہی ہے، کیا اب آپ مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ اپنی پریشانی مجھ سے بانٹ سکیں۔ اس نے اصرار کیا۔
”اصولاً مجھے کہنے تو یہ چاہیے کہ تمھارا لیے رشتہ آیا جس پر مجھے تمھاری رائے درکار ہے مگر..!! متفکرانہ انداز کہتے ہوئے انھوں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی۔
”مگر..!! وہ سمجھی نہیں۔
”لائبہ کے لیے رشتہ آیا ہے۔ سنجیدگی بتایا۔
تو امی جی!!” یہ تو خوشی کی بات ہے۔ طوبیٰ نے خوشی کا اظہار کیا۔
”تم دونو سے بڑی ہو.! میں تم سے پہلے کیسے لائبہ کے بارے میں سوچ سکتی ہوں، پہلے ہی تمھاری باتوں میں آکر میں نے آئزہ کا نکاح کر دیا لوگ کیا کہیں گیں، بڑی کے ہوتے ہوئے ہم چھوٹیوں کے رشتے کر رہے ہیں۔اسی انداز میں اپنی بات مکمل کی تو طیبہ گھہرا سانس لے کر رہ گئی۔
” کن لوگوں کی بات کر رہی ہیں آپ وہی جو مجھے بوجھ“ اپاہج“ آپ سب کے لیے آزمائش اور جانے کن“ کن“ القابات سے پکارتے ہیں؟ ان لوگوں کی پروا کرناچھوڑ دیں امی جی! لوگوں کا تو کام ہی ہے باتیں کرنا اور ویسے بھی مجھے ان جھمیلوں سے دور رکھیں میں خود کو تو سنبھال نہیں سکتی کسی اور کی زمیداری کیا خاک سنبھالو گی، ویسے بھی میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر کہی نہیں جانے والی۔ اپنی ماں کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر نرم مگر سنجیدہ لہجے میں سمجھانے کی سعی کرتے آخر میں بات بدلنی چاہی۔
”بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے اور اللہ کی ذات سے ناامید نہیں ہوتے اسنے تمھارے لیے بھی۔۔۔۔۔؟؟
”امی جی! نہ تو میں نامید نہ ہی مایوس ہوں لیکن یہی سچ ہے کہ میں اپاہج ہوں اسلئے میں کوئی خوش فہمی نہیں پالنا چاہتی، بہتر ہے کہ آپ بھی اپنے ذہن سے میری شادی کی بات نکال دیں، یہی بہتر ہوگا اس سے آپکو بھی دکھ نہیں ہوگا، اور جہاں تک لائبہ کے رشتے کی بات ہے اگر لڑکا اچھا ہے تو لائبہ اور آئزہ کی شادی کر دیں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ خوشی ہوگی۔ اپنے اندر کے خلفشار سے لڑتے ہوئے بظاھر خود کو متواتر انداز میں رکھتے ہوئے گویا ہوئی تو سائرہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھ کر رہ گئی۔
“جہاں تک میری شادی کی بات ہے تو اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیں، دیکھیں میری طرف اس وہیل چیئر کے ساتھ کوئی نہیں اپنائے گا، اسلئے یہ سب سوچ کر خود کو اذیت نہ پہنچائے، آپکو تکلیف میں دیکھ کر مجھے بھی دکھ ہوگا اور میں جانتی ہوں آپ کبھی مجھے دکھ نہیں پہنچانا چاہے گی طوبیٰ کی باتیں سن کر سائرہ کی آنکھیں بھیگنا شورع ہو گئ تھی طوبیٰ نے اپنے دل پر ضبط کر کے سائرہ کو سنبھلا وہ جانتی تھی اگر وہ اپنی ماں کے سامنے کمزور پڑ گئی تو انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
”امی جی دیکھیں اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی، آپ کو تو مجھے سمجانا چاہئے، الٹا میں آپ کو سمجھا رہی ہوں۔ اپنی ماں کے آنسو صاف کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے انسوں پر بند بھندے ہوئے تھی جس پر سائرہ بیگم نے بھی خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
”کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی تھی اتنی دیر تک وہ جو خود پر جبر کیے ہوئے تھی کمرے میں آتے ہی ضبط کی ساری طنابیں ٹوٹ گئی نمکین پانی لڑی کی صورت میں بہنا شروع ہوگیا وہ چاہے خود کو اپنی ماں کے سامنے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ثابت کر لیتی مگر تھی تو وہ بھی ایک عام لڑکی جس کے کچھ خواب کئی ارمان جو اسنے اپنے لیے سجائے تھے مگر ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے خوابوں کا گلا اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹ دیا تھا کیونکہ اگر یہ کام کوئی اور کرتا تو شاید وہ تکلیف یہ برداشت نہ کر پاتی۔











”اریان چودھری ارو سائرہ کی تین بیٹیاں طوبیٰ لائبہ آئزہ تھی طوبیٰ پیدائشی طور پر دونو پیرو سے معذور تھی، جبکہ لائبہ اور آئزہ دونوں ایک دم ٹھیک آئزہ کا نکاح اس کے مامو زادہ ارحم سے ہو گیا تھا۔













”یہ منظر ہے خان ولا کا جہاں کشادہ کمرے سے منسلک جم میں ٹریڈ مل پر دوڑتے ہوئے بلیک ٹراؤزر کے ساتھ بلیک ہی بنیان میں کسرتی جسم نمایاں ہو رہا تھا اور تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم اور ماتھے پر پڑی شکنیں اس بات کا ثبوت تھی کے وہ شخص کسی گہری سوچ میں غلطاں ہے۔
”بابا!! آپ میری زندگی کا اتنا اہم فیصلہ مجھ سے پوچھے بغیر کیسے کر سکتے ہیں؟۔ اپنے باپ کی بات سن کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی۔
بابا جان.! وہ بھی نتاشا.! آپکو خاندان میں اور کوئی لڑکی نہیں ملی اسکے علاو، مطلب میرے لیے وہی سر پھری منہ پھٹ رہ گئی تھی آپ جانتے ہیں ہمیشہ سے ہم دونوں کی کبھی بننی نہیں اور اپ اسے میری بیوی بنانے کا سوچ رہیں۔ اصفر خان کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے آزر خان کی حیرت بنوز قائم تھی
”برخوردار.! سوچ سمجھ کر بولو تم کسی عام لڑکی کے بارے میں نہیں بلکہ میری بھتجی کے بارے بول رہے ہو، کبھی نہیں بنی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آگے بھی کبھی نہیں بنے گی، کزنز میں یہ چھوٹی موٹی نوک جھونک تو چلتی رہتی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں اور مجھے معلوم ہے وہ مزاج کی تھوڑی تیز ہے مگر میں جانتا ہوں میرا بیٹا سب سنبھال لے گا، اور ویسے بھی یہ سب شادی سے پہلے کی باتیں ہوتی ہیں شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک مان سے سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن بابا.!!اسنے احتجاج کرنا چاہا
”تم.! کسی اور کو پسند کرتے ہو.! تو ہم زبردستی نہیں کریں گے، ہمیں اپنے بیٹے کی خوشی اپنی خوشی سے زیادہ سے عزیز ہے۔ اصفر خان نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیتے ہوئے استفسار کیا۔
”نہیں بابا“ ایسی کوئی بات نہیں۔ اسنے فوراً سے انکار کیا۔
“تو پھر ٹھیک ہے اب نہ کوئی سوال ہوگا نہ جواب، نتاشا ہی ہماری بہوں بننے گی اور یہی ہمارا اخری فیصلہ ہے۔ انہوں نے ختمی فیصلہ سنایا تو آزر کو اپنے باپ کے سامنے سر جھکانا پڑا۔
یک دم منظر بدل گیا
”آزر خان دولہا بنا سٹیج پر اپنی دلہن کا منتظر تھا کہ اتنے میں کسی نے آکر اصفر خان کے کان میں خبر دی کہ انکی بھتجی اور آزر خان کی دلہن اپنے آشنا کہ ساتھ بھاگ گئی ہے۔
چونکہ اس شادی میں آزر خان کی دلی رضامندی شامل نہ تھی اور وہ یہ سب باپ کی خواہش پر ہی کر رہا تھا پھر بھی اسے اس خبر پر شدید غصے اور دکھ کے مل جلے تاثرات کے ساتھ اپنے باپ کو دیکھا جو خود اس خبر پر ششدر رہ گیا تھا۔
شکایتی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھتے سر پر پہنے کلے کو اتار کر پھینکتے ہوئے سے لمبے لمبے ڈاگ بھرتا سٹیج اتار ہی تھا کے اصفر خان وہی ڈھے گیا۔
بھائی صاحب..!!“
”یک دم ایک بار پھر منظر بدل گیا تھا اور ٹریڈ مل پر اس کے ڈورتے قدموں کی رفتار مزید بڑھ گئی اور اسکے تنے ہوئے ئے اعصاب مزید تن گئے تھے۔
”آزر بیٹا!!“ مجھے۔۔۔معاف کر دو! میں مان۔۔تا ہوں میں نے جو فیصلہ کیا وہ غلط تھا، مگر میرا مقص۔۔د ہرگز تم۔۔ھیں تکلیف پہچانا نہیں تھا،، پلیز مجھے معاف کر دو.!۔ آئی سی یو کے بیڈ پر مشینوں میں جکڑے اصفر خان نے اٹکتے ہوئے بات مکمل کی تو آزر خان جو پہلے ہی اپنے باپ کی اس حالت پر افسردہ تھا اصفر خان کی بات پر سن کر تڑپ کر رہ گیا۔
پلیز بابا جان..!!یہ سب کہہ کر اپنے بیٹے کو گنہگار نہ کریں مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں بابا جان.!!اپنے باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر لبوں سے لگاتے ہوئے بولا کرب سے آنکھوں سرخ ہوچکی تھی۔
”میں جانتا ہوں میرا بیٹا بہت بڑے دل کا مالک ہے اور اسنے دل سے اپنے باپ کو معاف کر دیا ہوگا، لیکن جس طرح تمھیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے نہ بیٹا! اسی طرح کسی اور کے لئے بھی اپنے دل میں کوئی بغض نہ رکھنا، بیٹا یہ جو نفرتیں۔۔۔عداوتیں ہوتی ہیں نہ دلوں میں زہر گھول دیتی ہیں، بیٹا زندگی ایک بار ملتی ہے اسے ان جذبات میں ضائع نہ کرنا، اُسنے جو کیا وہ اسکا ظرف تھا تم ایسا کچھ نہ کرنا جس سے ہماری تربیت پر لوگ سوال اُٹھیں۔ اپنے چہرے پر لگا ماسک اتار کر گھہرے گھہرے سانس لیتے ہوئے اپنے بیٹے کو نصیحت کی جس پر پر نم آنکھوں سے آزر نے اثبات میں سر ہلایا تھا
”بابا جان.!! آپ جو کہیں گے میں کرو گا بس آپ جلدی سے ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اس سے قبل آزر اپنی بات مکمل کرتا ٹووووو کی آواز نے اسے ششدر کر کے رکھ دیا تو وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔
”نہیں بابا….!!!! آپ میرے ساتھ یہ نہیں کر سکتے۔۔!!
بابا جان۔۔۔۔!!!
”دلخراش چیخ کے ساتھ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور ٹریڈ مل پر چلتے ہوئے قدم یک دم رک گئے تیز چلنے کے باعث گھہرے گھہرے سانس لیتے ہوئے وہ اس وقت پوری طرح پیسنے میں شرابور ہو چکا تھا۔
دو سال گزر چکے تھے اس سب کو لیکن آج بھی اسکے لیے زخم اُسِطرح تازا تھا جس کی تکلیف اسے ہر لمحے محسوس ہوتی تھی، ماں کو تو وہ بہت پہلے ہی کھو چکا تھا ایک باپ ہی تھا جو اسکی قل کائنات تھا جسے دیکھ کر وہ جیتا وہ تھا وہ بھی جو اسکی شادی کی خواہش میں دل میں لئے اپنی بھتجی کا دیا صدم سہہ نہ سکا اور خالق حقیقی سے جاملا
کچھ دیر تک یونہی بے سود کھڑے رہنے کے بعد آنکھیں بند کر کے خود کو نارمل کر کے ٹریڈ مل سے اتر کر سامنے رکھی پانی بوتل کا ڈھکن کھول کر منہ سے لگایا چندھ گھونٹ حلق میں اتارنے کر بوتل واپس رکھی اور ٹاول اٹھا کر اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے اپنا موبائل اٹھا کر چیک کرنے لگا اسی انداز میں چلتے ہوئے کمرے میں آکر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاں سورج اپنی کرنیں بکھرتے ہوئے لان کو روشن کر رہا تھا جبکہ کچھ کرنیں کھڑکی اوٹ کر آزر خان کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی جس کے باعث اسکی آنکھیں چندھیا گئیں تھی۔
چند سانیہ یونہی گزار کر وہ ہاتھ میں پکڑا موبائل ٹیبل پر رکھا اور ٹاول کو ٹاول سٹینڈ سے لٹکاتے ہوئے اپنی کبرڈ کا کانچ کا دوڑ سائیڈ پر دھکیل کر اپنے لئے کپڑے نکال کر شرٹ بیڈ پر رکھ کر واشروم میں بند ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں فریش ہو کر کتھائی رنگ کی ڈریس پینٹ سفید بنیان پہنے بالوں کو خشک کرتے باہر آیا۔
”آزر اپنے انمہک میں تیار ہو رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر پلٹا اور سامنے نتاشا کو دیکھ کر اس کا خون کھول کر رہ گیا تھا مگر اپنے باپ کی آخری وقت کی گئی نصیحت نے اسکے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔
”یہ کیا طریقہ کوئی مینرز ہیں تم میں یا پھر……!! بیڈ پر رکھی شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے خود پر ضبط کرتے ہوئے اسنے جملہ ادھورا چھوڑا۔
”اپنے کمرے میں آنے کے بھی بھلا کوئی مینرز ہوتے ہیں جان.! بے باکی سے کہتے ہوئے آگے بڑھی ہی تھی کہ آزر نے ایسی نظروں سے اسے دیکھا کہ وہ اپنی اپنی جگہ منجمند ہو گئی۔
”اپنی حد میں رہو.!! مت بھولو کہ تم نہ مجھ پر نہ میرے اس گھر پر ایسا کوئی حق رکھتی ہو کہ مجھ سے اس طرح بے تکلف ہو.!! سو دونٹ کروس یور لمٹس.!! انگلی اٹھا کر اسے باور کرواتے اسے اس حد یاد دلائی تھی جس پر وہ محض اسے دیکھ کر رہ گئی تھی کہتی بھی کیا اپنی ہی بیوقوفی کی وجہ سے اس نہج پر آئی تھی۔
ایک بات اپنے اس دماغ میں بیٹھا لو.! آزر خان نہ پہلے کبھی تمھارا تھا اور نہ آگے جا کر کبھی ایسا ہونے کی توقع رکھنا، تم جو یہاں نظر آرہی ہو نہ تو اسکی وجہ صرف میرے باپ کی وہ نصیحت جو انھوں نے مجھے آخری وقت میں کی تھی، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں وہ سب بھول گیا ہوں جو تم نے کیا، اس لیے بلاوجہ یہاں مت آیا کرو یہ نہ ہو کے میں سارے لحاظ بھول جاؤں.! اپنے بالوں میں برش کرنے کے بعد برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر پٹکنے کے انداز میں رکھتے ہوئے آنکھوں میں طیش لیے سخت گیر لہجے میں کہتے کوٹ اٹھا کر اپنے بازو پر ڈالتے اپنی گاڑی کی کیز اور موبائل اٹھا کر کمرے سے نکلا تو وہ جو خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی اسکے پیچھے لپکی۔
”آزر بات تو سنو.!! میں جانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے، لیکن جو ہوچکا اسے بدلہ نہیں جاسکتا نا۔ اسکے پیچھے آتے ہوئے ملتجی انداز بولی جسے نظر انداز کیے تیزی لاؤنچ سے ہوتے ہوئے راہداری عبور کر چند سیڑھیاں اتر کر پورچ میں کھڑی اپنی بلیک مرسیڈ تک آیا اور رک کر گارڈ کو آواز دی۔
”گارڈ.!! جب یہ یہاں سے چلی جائے تو گیٹ اچھے سے لوک کر دینا، اگر دوبارہ مجھے یہ یہاں نظر آئی تو تم یہاں کسی کو نظر نہیں آؤ گے سمجھے.!! اسکی باتوں کو ان سنا کرتے گارڈ کو حکم جاری کرکے اپنی بلیک مرسیڈ میں بیٹھا۔ آزر کا یو نظر انداز کرنا اسے سلگا ہی گیا تھا
”اچھا ہم اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گیں ابھی تم غصے میں ہو شاید لیکن یونیورسٹی تک تو چھوڑ ہی سکتے ہو۔ فوراً سے گاڑی کی دوسری طرف آکر فرنٹ سیٹ کا دروازا کھول کر بیٹھتے ہوئے وہ اسکی کہی ساری بات ایسے اگنور کر گئی جیسے ان میں بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو جس پر آزر زہر کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
”چلو.! جلدی میں لیٹ ہو رہی ہوں.!۔ آزر غصے سے اپنی مٹھیا بھنچے اپنے آپ کو کچھ غلط کہنے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا نتاشا نے دھیان دیلایا جس پر وہ ایک نظر اسے دیکھتا جو کالے رنگ کے پٹیالا شلوار اور شارٹ کڑتی کے ساتھ سٹمپ کٹنگ گولڈن براون بالوں کو کھلا چھوڑے سامنے دیکھتی اسے انجان بنی ہوئی تھی نفی میں سر ہلا کر گاڑی سٹارٹ کر کے پورچ سے نکال کر مین روڈ لے آیا تھا۔
”آزر مجھ سے تو غلطی ہوگئی جو میں نے اپنے دل کی سننے میں دیر کر دی، مگر اب تم وہی غلطی دوہرا رہے ہو میں جانتی ہوں تم مجھ سے محبت..!! جھولی میں رکھے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ آزر کے چہرے تک لائی ہی تھی کہ آزر نے اسے بے دردی سے جھٹکتے ہوئے گاڑی روک دی۔
”میں نے تم سے پہلے بھی کئی مرتبہ کہا ہے.!! مگر لگتا تمھیں میری بات سمجھ نہیں آئی.!! اس لئے اسے میری آخری تنبیہ سمجھنا اسکے بعد میں بولوں گا نہیں اپنی حد میں رہو.!! مجھے وہ بننے پر مجبور مت کرو جو میں نہیں ہوں!! اگر میرے اندر کا شیطان جاگ گیا تو میں کسی رشتے کا لحاظ کیے بغیر سب کچھ جلا کر بھسم کر دونگا آئی سمجھ.!۔ بازوں کو دبوچ کر اپنے سامنے کر کے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگ برساتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہر آلود لہجے کہتے ہوئے جھٹکے سے پیچھے کی جانب جھٹکا جس پر وہ دروازے کے ساتھ جا لگی اپنی اس قدر تذلیل پر سلگ کر رہ گئی تھی مگر فل وقت اسنے خاموش رہنے میں افایت جانی۔
” ناؤ.! گیٹ لاسٹ.!!۔ ابھی وہ پہلی تسخیر سے سنبھلی نہ تھی کہ سڑک کے بیچوں بیچ اسنے گاڑی سے اترنے کا فرمان جاری کیا جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی عمل درآمد کرنا پڑا ورنہ اس وقت کوئی بید نہیں کے وہ ہاتھ پکڑ کر اتار دیتا اسلئے اپنا ہینڈ بیگ اور نوٹ بک لیے وہ گاڑی سے اتر گئی۔
اسکے اترتے ہی وہ اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے فوراً سے پیشتر اسکی گاڑی فراٹے بھرتی دھواں اڑاتی جاچکی تھی جبکہ وہ وہی کھڑی اپنی اسے جاتا دیکھ کر رہ گئی۔
”جتنا مرضی تم میری محبت سے انکار لو.! ایک نہ ایک دن میں تمھیں اپنا بنا کر رہو گی، میں نے تمھیں خود سے دور کیا ہے نہ آزر.! اب میرا وعدہ ہے تم سے میں ہی تمھیں خود کے قریب آنے پر مجبور کر دونگی۔ گال پر پھسلے آنسوؤں کو صاف کرتے خود سے عہد کیا تھا۔
”اوفس پہنچ کر اپنی سیکرٹری کو اپنی آج کی ساری میٹنگ کینسل کرنے کا حکم دیتے اپنے کیبن میں آگیا تھا وہ جتنا یہ سب بھولنے کی کوشش کرتا تھا وہ لڑکی اتنا ہی اسکے زخموں کو کرید کر اس اذیت میں مبتلا کرنے کا کام کرتی تھی۔
کوٹ ایک طرف رکھتے اپنی سنگل کرسی پر بیٹھ کر سر بیک پر ٹکاتے اپنے اندر چلتے خلفشار کو کم کرنے کی خاطر آنکھیں موند گیا۔
انٹر کوم بجنے پر ناگواری سے رسیور اٹھا کر کان سے لگایا تو سیکرٹری نے وہاج کے آنے کی اطلاع دی۔
سر.! وہاج صاحب آئیں ہے۔
اچھا بھیج دو۔ بے سپاٹ انداز میں جواب دے کر رسیور واپس رکھ دیا وہاج کا نام سنتے ہی ازر کا غصہ کم ہوا تھا














ولید خان کے دو بیٹے تھے
اصفر خان احمد خان اصفر کی شادی نائلہ سے ہوئی تھی اور احمد کی شادی نائمہ سے ہوئی تھی
اصفر اور نائلہ کا ایک بیٹا تھا ازر خان جو کہ ایک سلجھا ہوا سمجھدار اور قابل شخص ہونے کے ساتھ اپنے ماں باپ کی فرمانبردار اولاد تھی
احمد اور نائمہ کی ایک بیٹی نتاشا تھی جسنے اپنے اکلوتے ہونے کا خوب فائدہ اٹھا اور ماں باپ کے لاڈ پیار نے بھی بگاڑ دیا تھا۔
دونوں فیملی ہسنی خوشی اپنی زندگی گزار رہی تھی کہ ایک حادثے نے آزر خان سے اسکے باپ کو بھی چھین لیا ماں کو وہ پہلے ہی کھوچکا تھا باپ کے مرنے کے بعد وہ اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔
از قلم: طیبہ یاسمین