قسط: 1
آ…آپ م..مز..ا..ق کر ر..رہے ہ..ہیں نہ ؟؟ اس حسن کی دیوی نے آنکھوں میں امید لیے پوچھا جبکہ نیلی آنکھوں سے نکلتے آنسوں اس کی سفید روئی سی گالوں پر بہتے چھوٹی سی ٹھوڑی کے زریعے نیچے قطرہ قطرہ گر رہے تھے –
رونے کے سبب اس کی چھوٹی سی نوز پن پہنی ناک لال ہو چکی تھی – دودھ کی سفیدی کی سی رنگت رکھتے چہرے پر اس وقت خوف سجا تھا –
وہ خوبصورتی کی مورت روتے ہوئے سامنے کھڑے سنگ دل کو ایک آس سے دیکھ رہی تھی کہ شاید ابھی وہ کہہ دے کہ ہاں دلِ جانم میں تو مزاق کر رہا ہوں مگر ستم یہی تو تھا کہ وہ ایسا کچھ بول نہیں رہا تھا –
بلکہ وہ تو عجیب سی مسکراہٹ اپنے خوبصورت نقوش والے چہرے پر سجائے اس دیکھ رہا تھا – تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں مزاق کر رہا ہوں ؟؟ تمہارے بھائی کی وجہ سے میری زندگی نے موت کو گلے لگایا اور تمہارے بھائی کی زندگی تم ہو –
تو بس تمہارے بھائی کو تکلیف دینے کے لیے تمہیں مہرا بنایا – ورنہ کہاں میں سردار زوریز خان آفریدی اور کہاں تم غریب سی لڑکی –
اپنا نام لیتے اس کے انداز میں غرور ہی غرور تھا – جبکہ اس کے کہے گئے الفاظ سامنے کھڑی نازک لڑکی کی سانسیں ختم کر رہے تھے –
مم.میرے بھائی ا..یسے نہیں ہیں – آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی – پلیزز ایسے نہ کریں – ہم ج..جا…نتے ہیں کہ آپ کو بھی ہم سے محبت ہ…ہے –
وہ روتے ہوئے اسے سمجھاتے ہوئے بولی جبکہ سامنے کھڑے سنگ دل سردار کے دل کو اس کے آنسوں بھی نہیں پگلا رہے تھے –
میں نے پگھلا دیا پتھروں کو !!
اک تیرا دل پگھلتا نہیں ہے !!
گڑیا ! اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا زبرش کا بھائی وہاں اسے آواز دیتا پہنچا تھا جبکہ بھائی کی آواز سن وہ روتے ہوئے اس کی جانب بھاگتے اس کے گلے لگی تھی –
لالہ جان د..دیکھیں نہ خان کہہ رہے ہیں کہ انہیں م…مجھ س..سے محبت نہ..یں ہے – وہ اپنے بھائی کے سینے میں منہ چھپاتی اسے اپنا غم بتانے لگی جبکہ وہ تو حیرت میں سامنے کھڑے اپنے گاوں کے سردار کو دیکھ رہا تھا جو آنکھوں میں نفرت اور ہونٹوں پر تنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا –
آو بالاج خان آو – امید نہیں تھی کہ تمہیں علم ہو گا اپنی بہن کے میرے ساتھ چلتے افئیر کا – خیر میں کیسے بھول گیا کہ گھٹیا بھائی کی گھٹیا بہن ہی ہوگی – بڑی ہی کوئی بے شرم بہن ہے تمہاری –
زوریز کے الفاظ پر بالاج زبرش کو سائیڈ پر کرتا غصے سے اس کی جانب بڑھا تھا اور اس کی قمیض کے گریبان کو اپنی مٹھیوں میں جکر چکا تھا – بکواس بند کرو تم – خبردار جو میری بہن کے بارے میں کوئی گھٹیا لفظ نکالا تو –
میں بھول جاوں گا کہ تم ہمارے گاوں کے سردار ہو – بالاج نے غصے سے لال ہوتے اپنی نیلی آنکھوں سے اسے گھورتے کہا جبکہ اس کے گریبان تک پہچنے پر زوریز کو بھی غصہ ایا تھا – دونوں کا غصہ دیکھ زبرش کی جان ہلکان ہوئی تھی –
وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ٹکر کے تھے – خوبصورتی میں بھی اور جسامت میں بھی – غصے سے لال چہرا لیے زوریز نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھوں کو گریبان سے دور کیا تھا –
چلے جاو اپنی بہن کو لے کر یہاں سے اس سے پہلے کہ میں اپنا ضبط کھو دوں اور تمہاری جان لے لوں اپنے ہاتھوں سے – اور اب تم دیکھنا تڑپنا اپنی بہن کا – اسے کہو بند کر دے میری دلہن بننے کا خواب دیکھنا –
زوریز نے نفرت سے پہلے اسے کہا جبکہ آخر زبرش کو دیکھتا بولا – ارے تم کیا بولتے ہو میں خود ہی اپنی بہن کی شادی تم جیسے شخص سے نہ کروں – اگر مجھے پہلے پتا ہوتا کہ جیسے گڑیا پسند کرتی ہے وہ تم ہو تو میں اپنی بہن کو بہت پہلے روک دیتا –
اور تمہاری خام خیالی ہے کہ میری بہن تمہارے غم میں اپنی زندگی برباد کر دے گی – نہیں سردار زوریز خان – میں اپنی بہن کو تم جیسے شخص کی وجہ سے دکھ میں نہیں رہنے دوں گا –
چلو گڑیا – وہ زوریز کو اچھے سے جواب دیتا اپنی بہن کا ہاتھ پکرتا اسے وہاں سے لے گیا تھا جبکہ زوریز اس کی بات پر مٹھیاں میچ کر رہ گیا تھا –
….
دو سال بعد
گاڑی بڑے سے مال کے سامنے آکر رکی تھی جبکہ گاڑی رکتے ہی ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ کا دروازہ کھولتے گارڈ کے حلیے میں خوبرو مرد باہر نکلا تھا –
بلیک کلر کے مکمل گارڈ کے ڈریس میں اپنی خوبصورت بناوٹ والی آنکھوں کو بلیک ہی گلاسزز سے چھپائے خوبصورت چہرے پر سنجیدگی کی چادر چڑھائے وہ سٹریٹ کھڑا ہوتا بیک سیٹ کا دروازہ کھول چکا تھا –
دروازہ کھلتے ہی اندر بیٹھے وجود نے اپنا پنک پینسل ہیل میں مقید سفید نازک پاوں باہر نکالا تھا – ڈائمنڈ اور سونے کی انگوٹھیوں سے سجا ہاتھ گاڑی کے دروازے پر رکھتے وہ مغرور شہزادی پنک شرٹ اور وائٹ پینٹ میں باہر نکلی تھی –
باہر نکلتے ہی اس مغرور حسینہ نے گرے رنگت رکھنے والی آنکھوں پر لگے گلاسزز کو اتار کر سر پر بین کی طرح سیٹ کیا تھا اور پھر سامنے مال کا جائزہ لیتے اپنے سلکی بالوں کو جو کندھوں سے تھوڑا نیچے آتے تھے اور انہیں نیچے سے کرل ڈال کر کھلا چھوڈ رکھا تھا مگر ابھی وہ کندھے سے آگے آئے ہوئے تھے انہیں اپنے نازک ہاتھ سے پیچھے کرتے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے –
اس کے چلتے ہی وہ خوبرو گارڈ بھی اس کے پیچھے چل پڑا تھا – ساری شاپنگ کرتے وقت وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی تھا جبکہ وہ مغرور زادی تو جیسے آج سارا مال خریدنے کے در پر تھی –
وہ اچھے سے جانتا تھا کہ یہ سب وہ جان بوجھ کر اسے ٹیس کرنے کے لیے کر رہی ہے تاکہ وہ تنگ آکر اس کے گارڈ کی نوکری چھوڈ دے – وہ روز نئے نئے طریقے آزماتی مگر وہ بھی اپنے صبر کو آزماتا تھا – اسے سخت چڑ تھی اس لڑکی سے مگر نوکری کی خاطر مجبور تھا – اچھا خاصا پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اسے دھنگ کی نوکری نہ ملی تھی –
آخر ایک ایم این اے کے گارڈ کے طور پر نوکری ملی پھر اپنی لگن ، ایمانداری اور ایک بار ایم این اے کی جان بچانے سے وہ گارڈ سے ایم این اے کا خاص آدمی بن گیا مگر ناجانے کون سی منہوس گھڑی تھی جب ایم این اے کی بگری بیٹی لندن سے پاکستان واپس آئی اور اپنی بیٹی کی سیکیوڑٹی کی فکر میں ایم این اے نے اسے اپنی بیٹی کا گارڈ بنا دیا –
وہ مغرور زادی آزادی پسند تھی اسی لیے اسے نفرت تھی اپنے ساتھ چلتی سیکیوڑٹی سے مگر باپ کے آگے اس معملے میں نہیں چلتی تھی اس کی اس لیے وہ جان بوجھ کر اسے ستاتی تھی تاکہ وہ خود نوکری چھوڈ دے –
اب کیا چینجنگ روم میں بھی ساتھ آو گے ؟؟ اس نے غصے سے اپنے سرخ لپ سٹک میں رنگے ہونٹوں سے لفظ ادا کیے تو وہ ایک دم رکا تھا – وہ تو اپنی ہی سوچوں میں گم جان ہی نہ سکا کہ وہ اپنی مالکن کے ساتھ چینجنگ روم میں جانے لگا ہے –
سوری میم مینے دیہان نہیں دیا – وہ سر نیچے کرتا بولا جبکہ وہ اسے ایک گھوری سے نوازتی واپس پلٹ کر چینجنگ روم میں چلی گئی تھی – تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلی تو اس نے اسے دیکھ کر آنکھیں گھمائی تھیں –
اسے سخت نفرت تھی لڑکیوں کی بولڈ ڈریسنگ سے – اور اس کی مالکن اسی طرح کی ڈریسنگ کرتی تھی -ابھی بھی وہ بلیک کلر کی جینز اور ریڈ کلر کی شڑٹ پہنے نکلی تھی – کیسی لگ رہی ہوں ؟؟
اس کے پوچھنے پر وہ حیران نہیں ہوا تھا بلکہ خاموش رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی مالکن کو عادت تھی کہ جب بھی وہ شاپنگ پر آتی تو اسے جب خود سمجھ نہ آتا تو آس پاس کے ورکرز یاں اس سے پوچھتی کہ کیسی لگ رہی ہوں –
بہت اچھی میم – اس نے سادہ سا جواب دیا جس پر وہ ہمم کہتی واپس چینج کرنے چلی گئی – شاپنگ پوری کرتے ریسٹوڑینٹ سے کھانا کھاتے رات تک ان کی واپسی ہوئی تھی اور اسے شکر کا سانس آیا تھا کہ اب گھر جا کر سکون کی نید لے گا –
یار بس کیا بتاوں سر خان نے زلیل کر رکھا ہے ہمیں – اتنے کوئی سڑے ہوئے انسان ہیں نہ کیا بتاوں – وہ اپنی دوست سے میسج پر بات کر رہی تھی اور اس کی دوست اپنے دکھڑے پھول رہی تھی اس سے –
ایک بات تو بتا ایمان تیرے سر خان ینگ ہیں ؟؟ اس نے اچانک سوال کیا – ہاں ہیں تو ینگ ہی – ایمان کے جواب کو پڑھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – پیارے ہیں ؟؟ ایک اور سوال –
ہاں پیارے بھی ہیں مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟؟ ایمان کے سوال پر وہ ہونٹ دانٹوں میں دباتی مسکراہٹ چھپا گئی کیونکہ وہ اس وقت چچی اور کزن کے ساتھ لاونچ میں بیٹھی تھی – تو چھوڈ اس سوال کو یہ بتا کہ تیرے سر سنگل ہیں ؟؟
اس کے اگلے سوال پر ایمان شاید اس کی بات سمجھ گئی اور ایک ہی بار میں ساری ڈیٹیل لکھنے لگی – ہاں سنگل ہیں پورے کے پورے –
نہ کوئی منگنی ہوئی ہے نہ ہی بات کہیں تہہ ہے ، سڑے ہوئے کھڑوس شخص ہیں ان کے کھڑوس پن کا اندازہ اسی سے لگا لو کہ میٹھ ٹیچر ہیں مگر ہاں وہ ناول پڑھتے ہیں اور تو اور شاعری بھی کرتے ہیں –
ایمان کا میسج پڑھ کر اس کی آنکھوں میں چمک ائی تھی – ہائےےےے ایماننن مجھے تیرا سر چاہیے – پلیزززز جانم اپنے سر سے بات کر نہ میری –
اس کے میسج پر ایمان کا سر گھوما تھا – اقرا گل شرم کر لو – میں کوئی بات نہیں کر رہی سر سے تیری – دفع ہو جا – ایمان کے جواب پر اس نے منہ بگاڑا تھا –
کر دے تو تجھے پتا ہے نہ مجھے اپنے شوہر میں تین کوالٹیز چاہئے ہیں – ایک وہ پٹھان ہو دوسرا وہ کھڑوس ہو اور تیسرا وہ ناول پڑھتا ہو – اب یہ تینوں کوالٹیز تیرے سر میں ہیں بلکہ ایک زیادہ ہی ہے کہ وہ شاعری کرتا ہے تو بتا میں کیا کروں –
پلیز نہ بہن نہیں میری – اقرا نے اسے منانا چاہا – کوئی نہیں دفع ہو جا – ایمان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی – اچھا چل سر کے سامنے زکر کر دینا کہ میری دوست بھی ناول لکھتی ہے آپ اس کے ناول پڑھنا –
اقرا نے اسے کہا جبکہ دوسری طرف ایمان نے اس کے میسج پر دانت پیسے تھے – نہیں بلکل نہیں میں نہیں کہوں گی – اب کے ایمان کے انکار پر اسے بھی غصہ آنے لگا تھا – کیوں ؟؟ کیوں نہیں کرے گی ؟؟ تیرا کیا جاتا ہے ؟؟
اس نے فوراً پوچھا – عزت اور مقام – ایمان نے دو لفظوں میں بات ختم کی تھی – وہ کیسے ؟؟ اقرا نے پوچھا – ابے تیرے ناول ہیں کہ میں سر کو بتاوں کہ سر جی آپ پڑھو – اگر بتایا نہ تو سر نے پڑھ کر کہنا ہے کہ ماشاللہ بیٹا ہم ہوں گے کامیاب –
جب صحبت ایسی ہے تو ہم نے تو پھر کامیاب ہونا ہی ہے – ایمان کے ریپلائی کو پڑھ اس کا قہقہہ بے ساختہ گونجا تھا جبکہ اس کے ہسنے پر چچی اور کزن نے اسے گھور کر دیکھا تھا جس پر وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی –
ایمان کی بات سہی تھی اس کے ناول واقع بہت رومینٹک ہوتے تھے – ویسے اگر تیرے سر خان میرے مسٹر خان بن جاتے تو تجھے بڑا فائیدہ ہونا تھا – اس نے مسکراہٹ چھپاتے ٹیکسٹ کیا – وہ کیسے ؟؟ ایمان نے تجسس سے پوچھا –
وہ ایسے کہ میں نے انہیں دھمکی دینی تھی کہ اگر اپ نے میری دوست کو ڈانٹا تو میں ناراض ہو جاوں گی – جس سے وہ تمہیں کبھی نہ ڈانٹتے اور پھر جب انہوں نے پیپر بنانا تھا تو میں نے ان سے چوری پیپر دیکھ کر تمہیں بتا دینا تھا اور تم پیپر کی تیاری کر لیتی –
اقرا کا جواب پڑھ کر ایمان ہسی تھی – تیرے خوابوں خیالوں میں اور بہن تو پہلے اپنی سٹڈی پوری کر – سر نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور تو بارہویں کے بعد یہ سال فری کر کے بیٹھی ہے – ایمان کا میسج پڑھتے اس نے اپنا جواب ٹائپ کرنا شروع کیا تھا –
او بہن اگر پڑھائی پوری ہونے کا انتظار کیا تو لڑکا نکل جائے گا ہاتھ سے – اور تو فکر نہ کر اگر تیرے سر خان سے شادی ہوئی تو وہ خود ہی پڑھا لیں گے مجھے – اقرا کے جواب پر ایمان نے ہستے ہوئے نہ میں سر ہلایا تھا –
اور سن تو میری بات ایک بار میں تیرے سر خان کے سامنے چلی گئی نہ تو دیکھنا تیرے سر خان نے مجھ پر مر مٹ جانا ہے – اقرا نے گرین آنکھوں میں شرارتی چمک لیے اگلا میسج لکھتے سینڈ کیا – وہ سہی کہہ رہی تھی –
ہاں وہ اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی پہلی نظر میں دل اس پر وار سکتا تھا – بس بس بہن بس کر – وہ بندہ آج تک خود سے راضی نہیں ہوا تجھ سے کیا ہو گا – ایمان کا جواب پڑھ اس کا منہ ایسے ہوا جیسے کوئی کڑوی چیز منہ میں آ گئی ہو –
اچھا تو اس کی کوئی پک ہی سینڈ کر دے – نہیں ہے میرے پاس – اقرا کے پک مانگنے پر آگے سے ایمان کا ٹکا سا جواب آیا تھا –
اچھا پھر نمبر ہی دے دے – ایک اور فرمائش – نہیں ہے بہن وہ کسی کو نمبر نہیں دیتے – ایمان نے پھر سے انکار کیا – اچھا ایمان بات سن – اقرا نے میسج سینڈ کیا – ہاں بول –
ایمان کا فوراً ریپلائے آیا – بھاڑ میں گئی تو اور تیرا سر خان – مجھے زرا برابر بھی انٹرسٹ نہیں اس میں – اقرا کا جواب پڑھ پر ایمان کا ہس ہس برا ہال ہوا تھا – توبہ توبہ تو بھی دفع ہو مجھے بہت کام ہیں تیرے گھر کہ طرح میرے گھر نوکر نہیں ہیں –
ایمان نے ہستے ہوئے میسج ٹائپ کرتے اسے سینڈ کیا اور فون بند کر دیا – اسے پتا تھا کہ ساری اقرا نے بکواس ہی کی تھی – اسے محبت وغیرہ سے چڑ تھی بس یونہی شغل لگانے کے لیے بکواس کرتی رہتی تھی –