قسط: 10
نہیں مجھے خون کے بدلے خون نہیں چاہیے – بلکہ میں سردار زوریز خان اس پنچایت میں کھڑا بالاج خان سے اپنےکزن فیاض خان افریدی کا قتل کرنے کے جرم میں اس کی بہن کو ونی میں مانگتا ہوں –
زوریز نے بالاج خان کی انکھوں میں دیکھتے بلند اواز اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس کی اواز پر پنچایت میں ایک دم سے خاموشی نے اپنا بسیرہ کیا تھا – تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں ایسا کہنے کی ؟؟ اگر تم سردار ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی کہو گے –
خبردار جو میری بہن کے بارے میں ایسے الفاظ نکالے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا – ٹھیک ہے مجھ پر نہیں یقین کہ میں نے فیاض کا قتل نہیں کیا تو میں اپ لوگوں کے سامنے ہوں ابھی اسی وقت مجھے مارو اور اپنا بدلہ پورا کرو لیکن میں اپنی بہن کو ونی میں کسی صورت نہیں دوں گا –
بالاج کا غصے سے برا حال ہوا تھا اس کا بس چلتا تو پاس کھڑے گارڈ کی گن چھین کر وہ ساری گولیاں زوریز کے سینے میں اتار دیتا – لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا کیونکہ پہلے ہی اس پر بے بنیاد الزام لگا دیا گیا تھا –
میں نے کہا نا مجھے خون کے بدلے خون نہیں چاہیے بلکہ مجھے ونی چاہیے اور تمہیں اپنی بہن کو ونی میں دینا ہوگا –
کیونکہ پنچائت میں سردار کا فیصلہ چلتا ہے اور اس خاندان کا فیصلہ جس کے گھر کا فرد قتل ہوا ہوتا ہے یہاں قتل بھی میرے خاندان کے فرد کا ہوا ہے اور سردار بھی میں ہوں – تم میرے فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے –
زوریز نے اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہا جب کہ بلاج اچھے سے اس کے چہرے پر جھلک دکھاتی تنزیہ مسکراہٹ کو دیکھ سکتا تھا جو اس کی بے بسی پر زوریز کے چہرے پر اپنی جھلک دکھانے کو بے تاب تھی – میں نے کہا نا میں اپنی بہن کو ونی میں نہیں دوں گا تو مطلب نہیں دوں گا –
اگر اپ لوگوں کو بدلہ لینا ہے تو مجھے مار لیں کیونکہ اپ لوگوں کو ویسے تو یقین ہے نہیں میری بات پر – مجھے یہاں مجرم تو ثابت کر دیا گیا ہے اور ظاہر سی بات ہے بدلا بھی لینا ہے تو لو بدلا لیکن مجھ سے میری بہن کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہوگا –
بالاج کسی طور بھی ماننے پر تیار نہیں تھا جبکہ اس کی ہٹ دھرمی دیکھ زوریز کو اور غصہ ا رہا تھا – ٹھیک ہے نہیں دینی تمہیں ونی تو ٹھیک ہے پھر تیار ہو جاؤ مرنے کے لیے کیونکہ بدلہ تو میں لوں گا – زوریز ایک دم غصے سے کہتا پاس کھڑے گارڈ سے اس کی گن پکڑ چکا تھا اور گن کا رخ اس نے بالاج کی طرف کر دیا تھا –
اس سے پہلے وہ فائر کرتا زبرش بھاگتے ہوئے بالاج کے سامنے ا چکی تھی – نہیں میرے لالا کو کچھ مت کرنا میں تیار ہوں ونی میں جانے کے لیے – زبرش نے ہانپتے ہوئے کہا –
جب کہ انکھوں میں ایک الگ ڈر تھا کھو دینے کا ڈر وہ تو گھر میں بالاج کے لیے پریشان ہو رہی تھی اس لیے جب اس سے رہا نہ گیا تو پنچایت کی طرف ا گئی تھی لیکن جب وہ پنچائت میں پہنچی تو اس کے کانوں میں زوریز کے الفاظ گونجے جو اسے ونی میں مانگ رہا تھا – اس کے تیز چلتے قدم ایک دم سے ساکت ہوئے تھے –
آس پاس کی اوازیں انا بند ہو گئی تھیں جب کہ کانوں میں تو زوریز کے الفاظ ہی گونج رہے تھے – وہ ہر بار اس کی سوچ کو غلط ثابت کرتا تھا وہ جتنا برا اسے سمجھتی تھی وہ تو اس سے زیادہ گھٹیا نکلا تھا –
اس کی انکھوں سے انسو خود بخود بہنے لگے تھے – وہ انکھوں میں انسو لیے سامنے کھڑے زوریز کو دیکھ رہی تھی جو بالاج سے بحث میں مصروف تھا جبکہ زوریز کی اس پر نظر نہیں پڑی تھی –
وہ مرتے قدموں سے چلتی اگے بڑھ رہی تھی کہ تب ہی زوریز کے اچانک بالاج پر گن تان لینے پر اس کی سانس رکی تھی – پہلے جو قدم چلنے سے انکاری تھے اچانک انہوں نے سپیڈ پکڑی تھی اور وہ بھاگتے ہوئے بالاج کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی تھی اور خود کو اپنے بھائی پر وارنے کے لیے تیار ہو گئی تھی –
آج تو اس نے پھر سے بالاج کو لالا کہا تھا – وہ بالاج کو لالا تبھی کہتی جب وہ بے حد درد اور غم میں ہوتی تھی – یہ کیا بے وقوفی ہے زبرش اور تم یہاں کیا کر رہی ہو گھر جاؤ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں میں بات کر رہا ہوں نا – بالاج نے اس کی بے وقوفی پر اسے ڈانٹتے ہوئے کہا جب کہ وہ تو کچھ بھی سمجھنے اور سننے کے موڈ میں نہیں تھی –
نہیں ڈالا میں اپ کو مرتا ہوا نہیں دے سکتی اپ کے علاوہ میرا کوئی نہیں ہے اس دنیا میں اگر اپ کو کچھ ہو گیا تو میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی – زبرش نے روتے ہوئے اسے کہا – جب کہ بلاج کا بس نہیں چل رہا تھا وہ زبرش کو کہیں چھپا دیتا بس زوریز اور پنچائیت کی نظروں سے دور کر دیتا –
زبرش میری جان میری گڑیا تم چلی جاؤ گھر تمہارا بھائی تمہیں کچھ نہیں ہونے دے گا – خود مر جائے گا لیکن تم پر کبھی انچ نہیں انے دے گا – میں موت کو گلے لگا لوں گا لیکن تمہیں تمہیں ونی میں نہیں بھیجوں گا – میں جانتا ہوں ونی کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور اور پھر زوریز کے ونی میں میں تمہیں نہیں دے سکتا – تم جاؤ گھر –
اسے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کس طرح سے زبرش کو سمجھائے – وہ نان سٹاپ بولتا اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ زبریش نا میں سر ہلا رہی تھی – نہیں لالا مجھے ہر تکلیف منظور ہے لیکن اپ کی دوری نہیں – اگر اپ کو کچھ ہو گیا تو زبرش مر جائے گی –
میں اپ کے لیے ہر تکلیف اٹھا لوں گی پر اپنے بھائی کو کچھ نہیں ہونے دوں گی – زبرش نے ابھی پھر انکار کیا تھا – تمہیں سنا ہی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہا ہوں ؟؟ جاؤ یہاں سے ، جاؤ –
بالاج نے اسے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا مگر وہ اس کی بات سننے سے انکاری تھی اور پلٹتی زوریز کی طرف متوجہ ہوئی – میں تیار ہوں ونی میں جانے کے لیے لیکن میرے بھائی کو چھوڑ دو – اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا جبکہ اس کے ماننے پر زوریز کے چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی – نہیں زبرش تم ایسے کیسے کر سکتی ہو ؟؟
بلاج نے اسے پھر سے سمجھانا چاہا – مجھے یہ یقین ہے میرے بھائی پر کہ وہ بہت جلد اپنی بے گناہی کا ثبوت لے کر ائے گا اور مجھے لے جائے گا – اپ اپنی بے گنائی کا ثبوت ڈھونڈو بھائی تب تک اپ کی بہن اپ کا انتظار کرے گی –
میں ہر تکلیف برداشت کر لوں گی لیکن اگر میں نے ابھی یہ تکلیف کو نہ اپنایا تو اپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں گی اور ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی کو دکھوں کے لیے چن لوں گی – پلیز بھائی میرے اس فیصلے میں میرا ساتھ دیں – زبرش نے روتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنا ماتھا اس پر رکھتے کہا جبکہ بالاج اس کی بات نہیں مان رہا تھا –
نہیں میری جان میں کیسے تمہیں جانتے بوجھتے کھائی میں دھکا دے دوں ؟؟ کیسے تمہیں اگ میں دھکیل دوں خود کو بچانے کے لیے ؟؟ بالاج نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑاتے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے کہا جب کہ اس کا لہجہ لڑکھڑا رہا تھا کیونکہ اسے برش اپنے فیصلے پر پورا اعتماد لگ رہی تھی اور خود اپنا آپ بےبس اور گناہ گار –
پلیز لالا میں نے پہلے یہ فیصلہ بہت مشکل سے لیا ہے میرے لیے اور مشکل مت بنائیں – میں کہہ رہی ہوں نہ اپ جائیں اور اپنی بے گناہی کا ثبوت دھونڈیں – اور وہ مل جائے گا اپ کو میں جانتی ہوں کیونکہ یہ تو اپ اور میں ہی جانتے ہیں نا کہ فیاض کو اپ نے نہیں مارا – پلیز بھائی جائیں اور اصل قاتل کو ڈھونڈیں –
اپ کو میری قسم ہے کہ اپ مجھے نہیں روکیں گے اپ اصل مجرم کو ڈھونڈیں گے اپنی بے گناہی کا ثبوت لائیں گے اور مجھے ساتھ لے جائیں گے مجھے یقین ہے میرا بھائی زیادہ دیر مجھے اس جہنم میں رہنے نہیں دے گا –
زبرش نے اس کے گلے لگتے اسے منانا چاہا جب کہ بالاج اس کے گرد بازو بھی حائل نہ کر پایا تھا – تم کیوں مجھے اپنی قسم دے کر بے بس کر دیتی ہو ؟؟
خدایا مت کرو خود پر یہ ظلم- اب کی بار بالاج کی انکھوں سے بھی انسو بہنے لگے تھے جب کہ زبرش کسی طرح نہ مانی اور بلاج کو ہی اس کے فیصلے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے – تھوڑی دیر بعد پنچایت میں ہی زبرچ کا نکاح زوریز سے ہو گیا تھا اور وہ نور زبرش خان سواتی سے نور زبرش زوریز خان افریدی بن گئی تھی –
لیکن یہ رتبہ بیوی کا رتبہ نہیں تھا یہ تو ایک ونی کا رتبہ تھا اور ونی کو کہاں بیوی مانا جاتا ہے – وہ تو ونی ہوتی ہے جسے جانوروں کی طرح مارا پیٹا جاتا ہے – بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک اس کے ساتھ کیا جاتا ہے اور وہ جانتی تھی کہ اج سے اس کی زندگی بھی جانوروں سے بدتر ہونے والی ہے –
میرا انتظار کرنا زبرش میں اؤں گا تمہارا لالا جلد ائے گا اور تمہیں واپس لے جائے گا میں زیادہ دیر تمہیں یہاں نہیں رہنے دوں گا – زبرش تمہیں کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مضبوط بن کر رہنا کیونکہ تم جتنا ڈرو گی یہ تم پر اتنا ظلم کریں گے –
تم دیکھ لینا میں جلد آوں گا – بالاج نکاح کے بعد اخری بار جب زبرش سے مل رہا تھا تو وہ اس سے زیادہ خود کو دلاسہ دے رہا تھا جبکہ زبرش اس کی باتوں پر روتے ہوئے ہاں میں سر ہلا رہی تھی – مجھے یقین ہے لالا اپ پر –
یقین ہے اسی لیے تو خود کو اس کھائی میں دھکیل رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں میرا بھائی مجھے کھائی سے نکال لے گا – اس نے بالاج پر اپنا اعتماد ظاہر کرتے کہا اور بلاج نے اسے کس کر گلے لگایا تھا –
اب نہ جانے وہ کب اپنی بہن سے ملتا لیکن جو بھی تھا اب اسے دن رات ایک کر کے اصل مجرم کو ڈھونڈنا تھا تاکہ اپنی بے گناہی ثابت کر کے وہ زبرش کو واپس لا سکے زوریز کی قید سے –
زوریز جب زبرش کو لے کر حویلی پہنچا تو اسے حویلی کے ہال میں ہی غم سے نڈھال بیٹھی چچی اور فرح نظر ائی تھی جبکہ اقرا وہاں موجود نہیں تھی – اس کے پیچھے چلتی زبرش نے نظریں اٹھا کر حویلی کو دیکھا تھا جبکہ قدموں کی اہٹ پر فرح اور چچی نے دروازے کی جانب دیکھا تو زوریز کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ انہیں کسی انہونی کا احساس ہوا تھا –
یہ لڑکی کون ہے زوریز اور کیا فیصلہ ہوا پنچائیت میں ؟؟ چچی نے کھڑے ہوتے پریشانی سے پوچھا جس پر زوریز نے زبرش کو کہنی سے پکڑ کر ان کے سامنے اسے دھکا دیا تھا جس کے سبب وہ زمین پر گری تھی – یہ لیں ونی میں ائی ہے یہ لڑکی –
بالاج خان کی بہن ہے جس نے ہمارے فیاض کا قتل کیا ہے – اج سے یہ لڑکی یہیں رہے گی ونی کے طور پر اور یہی پنچائیت کا فیصلہ ہے – زوریز کے الفاظوں پر چچی اور فرح دونوں کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا – یہ کیا کہہ رہے ہو تم زوریز ؟؟
تم کیسے اس لڑکی کو لے کر ا سکتے ہو اپنی ونی میں جب کہ تم جانتے ہو کہ فرح سے تمہارا رشتہ طے ہے – چچی نے حیرانگی سے اس سے پوچھا جس پر زوریز نے سر جھٹکا تھا – چچی یہ میری بیوی نہیں ونی ہے جبکہ میری بیوی فرح ہی ہو گی –
آپ جانتی ہیں بیوی اور ونی میں بہت فرق ہوتا ہے – زوریز نے جیسے بات ہی ختم کی تھی اور لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا تھا – پیچھے وہ معصوم خوف بھری نگاہوں سے چچی اور فرح کو دیکھ رہی تھی جن کی انکھوں میں اسے اپنے لیے صاف نفرت دکھائی دے رہی تھی –
تو تو ہے اس کمینے کی بہن جس نے میرے بیٹے کا قتل کیا ؟؟ تیری زندگی تو میں عذاب بناؤں گی پل پل سکون کو ترسے گی تو – تیرا جینا نہ حرام کر دیا تو میرا نام بھی قدسیہ نہیں – تجھے اتنی تکلیف دوں گی کہ تیرا بھائی بھی ترپ اٹھے گا –
چچی نے اس کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے کہا جب کہ بال کھینچنے کی وجہ سے زبرش کو بہت درد ہو رہی تھی اور آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا – اور ہاں کسی خوش فہمی مت رہنا کہ زوریز تمہیں ونی کے طور پر لے ایا ہے تو تم اس کی بیوی کی جگہ بھی لے لو گی – بھولنا مت کہ اس کی بیوی صرف میں بنوں گی –
فرح نے بھی اپنی نفرت دکھاتے کہا جب کہ زبرش کو اصل معنوں میں اپنی زندگی عزاب ہوتی نظر آئی تھی – مگر وہ خود کو مضبوط کر چکی تھی –
زوریز اوپر کمرے میں پہنچا تو اقرا پہلے سے اس کے کمرے میں موجود تھی – اسے دیکھ کر زوریز کے چہرے پر مسکراہٹ ائی لیکن ہر بار کی طرح اس بار اقرا کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی بلکہ وہ سنجیدہ چہرہ لیے اسے دیکھ رہی تھی – کیا ہوا گڑیا ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟ زوریز نے اسے سنجیدہ دیکھتے پوچھا –
کسی نے تو کچھ نہیں کہا لالا لیکن اپ بتائیں وہ لڑکی کیا سچ میں اپ اپنی ونی میں لے کر ائے ہیں ؟؟ اقرا کے سوال پر زوریز چند پل کے لیے خاموش ہو گیا تھا – تمہارا ان سب باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اقرا تو تم ان باتوں میں نہ ہی انٹرسٹ لو تو اچھا ہے – ویسے بھی بہت جلد تمہاری یونی کلاس سٹارٹ ہونے والی ہے پانچ دن ہی رہ گئے ہیں تو اپنی پڑھائی کے بارے میں سوچو –
زوریز نے اسے ٹالنا چاہا – کیوں نہیں ہے میرا تعلق لالا میرا تعلق ہے کیونکہ بات میرے لالا کی ہے – میرے لالا کیسے کر سکتے ہیں ایسا ؟؟ ایک معصوم کو کسی اور کے کیے گئے گناہ کی سزا کیسے دے سکتے ہیں –
جس لالا کو میں جانتی ہوں اسے تو ان روایتوں سے نفرت تھی پھر وہ کیسے خود ایک ونی مانگ سکتا ہے – اقرا کے لہجے میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی جبکہ زوریز اس سے نظریں چرا رہا تھا –
میں نے کہا نا اقرا تمہارا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں میں بہتر جانتا ہوں سب کچھ اور تم نہیں جانتی ہو کچھ بھی – اس لیے تم خاموش رہو اور ان سب ٹینشنوں سے دور رہو اور خوش رہو – زوریز کی بات پر اقرا نا میں سر ہلانے لگی – مجھے اپ سے یہ امید ہرگز نہیں تھی لالا ، مجھے اپ سے یہ امید ہرگز نہیں تھی –
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میرا لالا ایسا کرے گا – اپ نے ظلم کیا ہے ایک لڑکی کے ساتھ اور خود یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اپ کی بہن خوش رہے – ایک معصوم کیا آہیں کیسے خوش رہنے دیں گی اپ کو اور مجھے ؟؟ اقرا نے اس سے سوال کیا تھا جس کا جواب زوریز کے پاس نہیں تھا لیکن وہ کیسے ہار مان لیتا –
وہ معصوم نہیں ہے – سنا تم نے ؟؟ نہیں جانتی تم ان کی اصلیت اس لیے تمہیں اس پہ ترس ا رہا ہے تمہیں اس پر ترس کھانا ہے تو کھاؤ لیکن تم میرے معاملوں میں نہیں بولو -زوریز نے جیسے بات ہی ختم کی تھی جبکہ اقرا اسے ایک نظر دیکھتی اس کے کمرے سے چلی گئی تھی –
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ زوریز اور اقرا کی بحث ہوئی ہو ، زوریز نے اسے ڈانٹا ہو ، اسے انکار کیا ہو اور اقرا اس کے پاس سے روتی ہوئی گئی ہو – کیونکہ زوریز کی جان تھی وہ اس لیے وہ اس کی بات کبھی نہیں ٹالتا تھا اسے رلانا تو بہت دور کی بات تھی – لیکن اج وہ روئی تھی اس کے مطابق وجہ زبرش تھی –
زوریز کو زبرش سے اور زیادہ نفرت محسوس ہوئی تھی – لیکن اسے کون سمجھاتا کہ غلطی اس کی اپنی تھی اس معصوم زبرش کی نہیں مگر انا میں اور بدلے میں لپٹا شخص ان سب باتوں کو کب سوچتا ہے –