قسط: 11
وہ نیچے آئی تو اسے وہ لڑکی وہیں ہال میں زمین پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی نظر آئی – چچی اور اقرا ضرور اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں اسی لیے نظر نہیں آ رہی تھیں وہاں – وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاٹی اس کے پاس پہنچی تو قدموں کی آہٹ پر زبرش نے چہرہ گھٹنوں سے اٹھاٹے اسے دیکھا تھا –
اسے دیکھتے ہی وہ جان گئی تھی کہ وہ زوریز کی بہن ہے کیونکہ اس کی شکل کافی حد تک زوریز سے ملتی تھی اور پھر زوریز کی آنکھوں کی طرح اس کی آنکھیں بھی گرین کلر کی تھیں – نام کیا ہے تمہارا ؟؟ اقرا نے اس کے پاس نیچے بیٹھتے پوچھا – زبرش نام ہے میرا – زبرش نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا جبکہ اقرا تو اس کی آواز میں جھلکتی مضبوطی دیکھ حیران تھی –
اسے لگا تھا وہ دوسری لڑکیوں کی طرح روتے ہوئے جوب دے گی مگر رونا تو دور اس کا لہجہ بھی نہ لڑکھڑایا تھا اپنا نام بتاتے – میرا نام اقرا ہے اور میں سردار زوریز کی بہن ہوں جس کے و….- ونی میں میں آئی ہوں – اقرا جو ابھی بول رہی تھی مگر زبرش نے اس کی بات بیچ میں ہی ٹوک کر خود پوری کی –
جبکہ اقرا نظریں چڑا گئی تھی – تم کیوں نظریں چڑا رہی ہو ؟؟ تم نے کون سا کوئی گناہ کیا ہے یاں پھر کسی پر ظلم کیا ہے – زبرش نے اس کے نظریں چڑانے پر کہا جس پر اقرا نے کوئی جواب نہ دیا تھا – خیر چھوڈو ان باتوں کو تم اٹھو یہاں زمین سے اور صوفے پر بیٹھو – اقرا نے خود کھڑے ہوتے اسے بھی صوفے پر بیٹھنے کو کہا جبکہ اس کی بات پر زبرش نے اسے ایسے دیکھا تھا جیسے وہ اسے کسی کو قتل کرنے کا کہہ رہی ہو –
کیا ہوا ایسی کیوں دیکھ رہی ہو ؟؟ زبرش کے خود کو دیکھنے پر اقرا نے پوچھا – کچھ نہیں بس یہ دیکھ رہی ہوں کہ ایک ہی گھر میں رہتے افراد میں سے ایک فرد کیسے مختلف ہو سکتا ہے ؟؟ کوئی مجھے دھتکار کر زمین پر پھینکتا ہے تو کوئی ا کر مجھے زمین سے اٹھانے کی بات کرتا ہے –
زبرش کی بات پر اقرا نے ایک لمبا سانس کھینچا تھا – تم اٹھو نہ بیٹھو صوفے پر – اقرا نے پھر سے اسے اٹھانا چاہا جبکہ زبرش نے نا میں سر ہلایا تھا – نہیں میں نہیں بیٹھوں گی میں یہاں کیسے بیٹھ سکتی ہوں زبرش نے انکار کرتے کہا ؟؟ کیوں تم کیوں نہیں بیٹھ سکتی ؟؟ اقرا نے حیرت سے پوچھا –
کیونکہ میں ونی میں ائی ہوئی لڑکی ہوں – اور مجھ جیسی لڑکی ملازموں کی طرح ہوتی ہے غلام ہوتی ہے وہ بیکار فالتو چیز ہوتی ہے اور فالتو چیزوں کو مہنگے صوفوں پر نہیں رکھا جاتا – زبرش کی بات پر اقرا نے نظریں چرائی تھیں – وہ کیا کہتی اسے اس کے تو اپنے بھائی کا سارا قصور تھا وہ تو کچھ کہنے کے قابل بھی نہ تھی – ہاں لیکن وہ اسے دلاسہ دے سکتی تھی –
دیکھو زبرش میں تمہارے لیے کچھ کر تو نہیں سکتی لیکن تم کبھی بھی یہاں خود کو اکیلا مت سمجھنا – تم یہ سمجھنا کہ تمہاری ایک بہن ہے یہاں پر – میں زیادہ تو نہیں تمہاری مدد کر پاؤں گی لیکن ہاں بہت حد تک تمہارے لیے اسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کروں گی – اقرا کی بات زبرش مسکرائی تھی –
شکریہ مجھے امید نہیں تھی کہ ایسے الفاظ سننے کو ملیں گے مجھے یہاں پر کسی کے منہ سے لیکن سن کر خوشی ہوئی – زبرش نے اس کا شکریہ ادا کرتے کہا جس پر اقرا بھی مسکرائی تھی –
اے لڑکی تو یہاں ارام کرنے کے لیے ائی ہے ؟؟ چل اٹھ کر کچن میں جا اور کام کر – زبرش وہیں ہال میں زمین پر بیٹھی تھی لیکن اب جگہ صوفوں کے پاس سے دیوار کے ساتھ تبدیل تھی –
وہ کہاں جاتی اسے تو اس حویلی کی کسی بھی کونے کا نہیں پتہ تھا اور ویسے بھی وہ کون سا یہاں کی مالکن تھی جو دھرلے سے یہاں وہاں گھومتی پھرتی – اس لیے وہ وہیں ہال کی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئی تھی کہ تبھی چچی اس کے پاس اتی اس پر بھڑکتی بولیں جس پر وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی –
کچن کس طرف ہے اس نے سادگی سے پوچھا جس پر چچی نے اسے گھوری سے نوازا تھا – تمہاری نوکر ہوں جو بتاؤں گی کہ کچن کہاں ہے اور دوسری چیزیں کہاں ہیں ؟؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے ڈھونڈو خود اور خبردار جو اج کے بعد اپنا یہ منہ کھولنے کی کوشش کی تو –
تمہیں جو کام دیا جائے چپ کر کے وہ کام کرو اگر تمہیں اس کام کا نہیں پتہ تو اس کے بارے میں خود جا کر معلوم کرو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں – نوکرانی ہو تو نوکرانی بن کے رہو مالکن بننے کا سوچنا بھی مت – چچی تو زہریلی ناگن کی طرح اس پر بھڑک رہی تھیں جبکہ زبرش ان کی بات کا بنا کوئی جواب دیے تاسف سے نہ میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی تھی –
اس کے یوں تاسف سے سر ہلانے پر چچی کو اس پر اور غصہ ایا تھا لیکن انہوں نے اپنا یہ غصہ سنبھال کر رکھ لیا تھا کیونکہ ان کا ارادہ کھانے کی ٹیبل پر اس چیز کا بدلہ لینے کا تھا – یہ تو طے تھا کہ وہ اس کو سکون سے نہیں رہنے دینے والی تھی –
اقرا جب کچن میں گئی تو اسے زبرش وہاں کام کرتے ہوئے نظر ائی جبکہ کسی بھی ملازمہ کا کچن میں نام و نشان بھی نہ تھا – وہ حیران ہوئی اسے دیکھ کر کیونکہ رات کے کھانے میں پانچ چھ ڈشز تو بنتی تھیں اور ہر وقت کچن میں تین ملازمہ تو موجود ہوتی تھیں لیکن اج ایک بھی ملازمہ نہیں تھی صرف زبرش ہی کھانا بنا رہی تھی جبکہ اس کے چہرے پر پریشانی تھی –
ارے زبرش تم اکیلے ہی کچن میں کام کر رہی ہو اقرا نے اسے بلاتے کہا جبکہ اس کی آواز پر اس نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا – ہاں وہ تمہاری چچی نے کہا ہے کھانا بنانے کے لیے لیکن مجھے سمجھ نہیں ا رہا کہ کون کون سی ڈش بناؤں اور مصالحے کتنے ڈالنے ہیں اس میں – زبرش نے پریشانی سے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی اگر ذرا سی بھی مصالوں میں اونچ نیچ ہوئی تو چچی اور زوریز اس کا جینا حرام کر دیں گے –
اس میں ٹینشن والی کون سی بات ہے میں ہوں نا میں تمہیں بتاتی ہوں – اقرا اس کی پریشانی کی وجہ سمجھ چکی تھی اس لیے اس کے پاس جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتی بولی جس پر زبرش مسکرائی تھی – پھر تھوڑی دیر تک اس نے اسے ساری ڈیٹیل بتا دی تھی کھانے کی کہ صبح سب کھانے میں کیا لیتے ہیں دوپہر کو اور شام کو کتنی ڈشز ہونی چاہیے اور کتنا مصالحہ ہونا چاہیے –
اس کے ڈیٹیل بتانے پر زبرش نے اسے تشکر بھری نگاہوں سے دیکھا تھا – بہت بہت شکریہ اقرا تمہارا – زبرش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا جس پر وہ مسکرائی تھی – ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں تمہیں باقی ساری ڈیٹیل بتا دوں گی تاکہ تم ارام سے سارے کام کر سکو اور کوئی تمہیں ڈانٹے نا کیونکہ میں جانتی ہوں یہاں گھر کا ایک ایک فرد تمہیں ڈانٹنے کے بہانے ڈھونڈے گا –
ویسے تو ہمارے گھر میں زیادہ لوگ ہیں نہیں – صرف بھائی میں فرح اور چچی ہوتے ہیں – چچا قومہ میں ہیں – تین سال پہلے ان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ قومے میں چلے گئے – مجھ سے تو تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے ہاں تین لوگوں سے ہے لالہ سے فرح سے اور چچی سے – ویسے تو میں اپنے لالا کو کنٹرول میں کر سکتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں وہ اس بار کسی بھی بات کو مان نہیں رہے –
اقرا نے اسے سارے گھر والوں کا بتاتے اخر میں پریشانی سے کہا جس پر مسکرا بھی نہ پائی تھی – کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کیوں اس بار اپنی بہن کی بات نہیں مان رہا نہیں – اقرا تمہیں میری خاطر اپنے لالا سے کسی قسم کی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہوں اور ویسے بھی میں کون سا کوئی کمزور لڑکی ہوں –
میں مضبوط ہوں تو میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کر سکتی ہوں تم میری وجہ سے اپنے پیار کرنے والے لالا سے یوں بگاڑو مت – زبرش نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا جس پر اقرا نے ہم سر ہلایا تھا – ٹھیک ہے ویسے میرے خیال سے چچی تمہیں ملازموں سے بھی بےعزت کروائیں گئیں – لیکن تم اس کی فکر نہ کرو ملازم سارے میری مٹھی میں ہیں ان کو میں خود ہی سیٹ کر لوں گی –
شاید چچی کے سامنے وہ تمہارے ساتھ مس بیہیو کریں لیکن جب چچی کی نظروں سے اوجھل ہوں گے تو وہ تمہیں بہت سپورٹ کریں گے – اقراء کے کہنے پر زبر نے اگے ہوتے اسے گلے لگایا تھا – تم بہت اچھی ہو اقرا بہت زیادہ اچھی ہو – زبرش کو وہ واقعی بہت اچھی لگی گی تھی جبکہ اس کے تعریف کرنے پر اقرا نے ایک ادا سے اپنے بال جھٹکے تھے – او ہو یہ تو میں جانتی ہوں کوئی نئی بات بتاؤ –
اقرا کے شوخی سے کہنے پر زبرش ہسی تھی – اچھا چلو میں کام کر لوں تاکہ جلدی سے کھانا بن جائے اور جلدی سے سب کو کھانا دے دوں ورنہ میری انسلٹ ہو گئی اور شاید پھر مار کٹائی بھی – پہلے مسکراتے ہوئے کہتے اخر میں اس کا لہجہ دکھی ہو گیا تھا جبکہ اقرا اسے دلاسہ بھی نہ دے پائی تھی کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی ونی میں ائی لڑکی کے ساتھ یہی سب تو ہوتا ہے –
کھانے کے ٹیبل پر زوریز ، اقرا ، فرح چچی چاروں موجود تھے جبکہ زبرش نے ٹیبل پر کھانا سیٹ کر دیا تھا – اس کام کو بھی اسے اکیلا ہی کرنا پڑا تھا کسی بھی ملازمہ کو اس کی مدد کرنے کی اجازت نہ دی گئی تھی –
چچی دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ اسے کیا پتا ہمارے کھانے کے ٹیسٹ کے بارے میں ضرور اس سے کوئی نہ کوئی اونچ نہیں ہو گئی ہوگی اس لیے اسے ذلیل کریں گی اور ماریں گی خاص طور پر زوریز کے سامنے لیکن جیسے ہی انہوں نے بریانی کا چمچ منہ میں لیا تو ان کی انکھیں ایک دم سے کھل گئی تھیں –
نمک مرچ ہر قسم کا مصالحہ ایک دم پرفیکٹ تھا اور ذائقہ بھی بہت اچھا تھا – انہوں نے حیرت سے زبرش کی طرف دیکھا جبکہ ان کے خود کو حیرت سے دیکھنے پر زبرش نے انہیں مسکراہٹ پاس کی تھی –
وہ جانتی تھی ان کی حیرت کی وجہ اس لیے اسے خوشی ہو رہی تھی جبکہ یہی حال فرح اور زوریز کا تھا وہ دونوں خود اس کے ایک دم پرفیکٹ کھانا بنانے پر حیران ہوئے تھے – چچی کو یہ موقع اپنے ہاتھ سے جاتا ہوا دکھائی دیا اس لیے پیر پٹختی وہ اٹھ کھڑی ہوتیں اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی –
ان کے جاتے ہی فرح بھی ان کے پیچھے ہی چلی گئی تھی جبکہ اقرار اپنی چچی اور اپنی کزن کے یوں جانے پر مسکراہٹ چھپا گئی تھی – اس نے زوریز کی نظروں سے بچتے زبرش کو تھمزاپ کا اشارہ کیا تھا جس پر زبرش نے سر کو جھکاتے داد وصول کی تھی – اقرا نے کھانا کھا لیا تھا لیکن وہ پھر بھی وہیں ٹیبل پر بیٹھی تھی جبکہ زوریز ابھی کھانا کھا رہا تھا –
اقرا کا ارادہ تھا زوریز کے اٹھ جانے کے بعد ہی وہ اٹھتی تاکہ اس کے جانے کے بعد وہ کسی طرح سے بھی زبرش کو ٹارچر نہ کر پاتا لیکن تبھی اس کا موبائل فون جو کمرے میں پڑا تھا بجنے لگا تو اسے مجبوری میں اٹھ کر جانا پڑا – اس کے جاتے زوریز کا کھانا ختم ہوا تھا اور وہ نیپکین سے ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہوا تھا –
یہ سارے برتن اٹھا کر اوو دھو کر میرے کمرے میں ا جانا – زوریز اسے کہتا جانے لگا کہ زبرش کی بات پر رکا تھا – آ… اپ کے کمرے میں کیوں ؟؟ زبرش نے پریشانی سے پوچھا جب کہ دل سے یہ اواز نکل رہی تھی کہ جو دماغ سوچ رہا ہے زوریز وہ الفاظ ادا نہ کرے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تھی –
یہ تو جب تم کمرے میں آو تب ہی میں تمہیں بتاؤں گا بلکہ کر کے دیکھاوں گا کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے اور ہاں خود کو تیار کر کے انا کیونکہ اج کی رات تم پر آسان نہیں ہوگی – زوریز اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا جبکہ پیچھے زبرش سکتے کی حالت میں کھڑی ابھی بھی اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں پر کچھ دیر پہلے زوریز کھڑا تھا –
ارے کیا ہوا تمہیں زبرش ؟؟ اقرا جو ابھی واپس ائی تھی اس کو یوں سکتے ہیں میں ایک ہی جگہ کھڑا دیکھ اس سے ہلاتے ہوئے بولی جس پر زرش ہوش میں ائی تھی – ہہ..ہاں کچھ نہیں وہ بس ویسے ہی – زبرش نے اس کو ٹالتے ہوئے کہا اور خود برتن اٹھانے لگی جبکہ اقرا بھی اس کی مدد کرنے لگی – تھوڑی دیر تک برتن صاف کرتے اس نے اپنے دوپٹے سے ہاتھ خشک کیے اور کچن سے نکلی –
اقرا کب کی اپنے کمرے میں جا چکی تھی جبکہ زبرش سوچ رہی تھی کہ وہ زوریز کے کمرے میں جائے یا نہ جائے – اسے رہنے کے لیے سٹور روم کا کمرہ دے دیا گیا تھا وہ ایک نظر سٹور روم کی طرف دیکھتی تو ایک نظر سیڑھیوں کی جانب دیکھتی جن سے اوپر جا کر دائیں جانب ہی زوریز کا کمرہ تھا –
کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنے قدم سٹور روم کی جانب بڑھائے تھے اس کا زوریز کے کمرے میں جانے کا بالکل بھی ارادہ نہ تھا خاص طور پر تب جب وہ جانتی ہو کہ زوریز کے کیا ارادے ہیں –