قسط: 12
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ کمرے میں زرش کے آنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن زبرش نے نہ تو انا تھا اور نہ ہی وہ ائی – جب کافی انتظار کے بعد بھی وہ نہ ائی تو زوریز غصے سے کمرے سے باہر نکلتا اسے ڈھونڈنے چل پڑا – نیچے جا کر کچن میں جب وہ نہ نظر ائی تو وہ سمجھ گیا کہ وہ ضرور سٹور روم میں جا چکی ہے –
سٹور روم کے دروازے کے پاس پہنچ اس نے دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ اندر سے لاک تھا – دروازے کو لاک دیکھ زوریز کا غصہ اور بڑھا تھا – وہ غصے سے مٹھیاں میچتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی جانب گیا اور وہاں سے ڈپلیکیٹ کی لے کر آیا –
دروازہ کھولتے جب وہ اندر گیا تو زبرش جو سارا دن کی تھک چکی تھی زمین پر لیٹتے ہی اس کی انکھ لگ گئی تھی اور اب وہ گہری نید کے مزے لے رہی تھی –
زبرش کو سویا دیکھ زوریز کو غصہ ایا تھا – وہ اندر اس کا انتظار کر رہا تھا اور وہ یہاں اس کی بات نہ مان کر خود سو رہی تھی – اس کے پاس جاتے وہ اس کو بازو سے پکڑتے زوریز اسے جھنجھوڑا تھا جبکہ زبرش جو مزے کی نیند میں تھی ایک دم سے ہڑبڑا کر اٹھی تھی –
لیکن زوریز کو سامنے دیکھ اس کا سانس سوکھ چکا تھا – تمہیں میں نے کمرے میں بلایا تھا نا ؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بات کو انکار کرنے کی ؟؟ زریز نے اس کا بازو چھوڑ اس کا منہ اپنے ہاتھ کی سخت گرفت میں دبوچ کر کہا جب کہ زبرش کی انکھوں سے درد کے مارے انسو نکلنے لگے تھے –
مجھے نہیں جانا اپ کے کمرے میں اب مجھے ونی میں لائے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپ کا جو دل میں ائے گا وہ کریں گے میں یہاں ہر ظلم سے سہوں گی لیکن اپ کی قربت نہیں –
زبرش نے ڈرتے ڈرتے کہا جبکہ زوریز اس کی بات پر تنزیہ مسکرایا تھا – ونی کے ساتھ ہر قسم کا سلوک کیا جاتا ہے اور ویسے بھی تمہارے بھائی سے تو میں نے الگ ہی بدلہ لینا ہے نا تو اس بدلے کے لیے تو میں ہر حد پار کروں گا پھر چاہے مجھے اس حد کو پار کرنے کے لیے گھٹیا پن کی حد ہی کیوں نہ توڑنی پڑے –
زوریز نے اسے کہتے زبردستی کھڑا کیا تھا جبکہ زبرش خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی – میں نے کہا نا مجھے نہیں جانا مجھے نہیں جانا اپ کے ساتھ –
زبرش نے انکار کرتے کہا جب کہ زوریز اس کی بنا سنے اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جانے لگا جبکہ اس کی چیخوں اور اواز سے کہیں اقرا نہ اٹھ جائے اس لیے اس نے اس کے منہ پر بھی ہاتھ رکھ دیا تھا اور زبرش بیچاری بن اب کے مچھلی کی طرح تڑپتی رہ گئی تھی –
کمرے میں لے کر جاتے ہی زوریز نے ایک جھٹکے سے اس کا وجود اپنی گرفت سے ازاد کیا تھا جبکہ اس کے چھوڑنے پر وہ بیڈ پر گری تھی – دیکھیں سردار اپ چاہیں تو مجھے ہر قسم کی سزا دے مجھے ماریں ، مجھے پیتیں ، مجھے ھو مرضی کہیں – چاہے تو مجھے جان سے مار دیں لیکن خدارا مجھ سے اس سے زیادہ کی امید مت رکھیے گا مجھ سے میرا غرور مت چھینیے گا –
وہ بیڈ پر سیدھی ہو کر بیٹھتی روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی جبکہ زوریز تو اپنے بدلے میں ہر انتہا کو چھوڑ چکا تھا – اسے صحیح غلط سب بھول چکا تھا ا – اس کی بات کا بنا کوئی جواب دیے اس کے پاس جاتے اپنا ایک گھٹنا بیٹھ پر رکھتے وہ اس کی جانب جھکا تھا –
تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں تمہاری بات مانوں گا – ویسے بھی اچھا ہے نا جب تک میری فرح سے شادی نہیں ہو جاتی تم سے اپنی ضرورت پوری کر لیا کروں گا – اسی بہانے میری ضرورت بھی پوری ہوگی اور میرا بدلہ بھی – کیونکہ تم میری قربت میں ترپو گی تو تمہاری ترپ پر تمہارا بھائی ترپے گا –
جب تمہارا بھائی ترپے گا تو مجھے سکون ملے گا – زوریز نے ایک ایک لفظ چباتے اسے کہا اور اپنی بات ختم کرتے ہی اس کی تھوڑی کو سختی سے پکر اس کا چیرہ اوپر کرتے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کی سخت گرفت کر چکا تھا جبکہ زبرش اس کو پیچھے کرنے کی کوشش کرتی ہلکان ہو رہی تھی –
اس کی انکھوں سے انسو بہہ رہے تھے لیکن زوریز کسی صورت بھی پیچھے ہونے کو تیار نہیں تھا بلکہ وہ تو اپنی شدت پسندی کی انتہا کرتا اس کے ہونٹوں سے خون نکال چکا تھا –
اگلی صبح جب اس کی انکھ کھلی تو رات کا سارا منظر اس کی انکھوں کے سامنے سے گزرا تھا – زوریز نے اسے کل رات اچھے سے اس کی اوقات دکھائی تھی – کتنا روئی تھی وہ کتنا گڑگڑائی تھی اس سنگ دل کے سامنے لیکن اس نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنی من مانی کرتا گیا –
وہ جتنی مرضی خود کو مضبوط کرتی لیکن زوریز کے سامنے ٹک نہیں پائی تھی -رات اس پر اپنی وحشت اتارتا وہ خود تو سو گیا تھا لیکن وہ بیچاری روتے ہوئے اپنا دکھتا وجود لیے واپس سٹور روم میں اگئی تھی اور روتے روتے کب سوئی اس سے پتہ ہی نہ چلا –
اس کی عادت تھی صبح نماز فجر پڑھنے کی اس لیے اس کی انکھ خود بخود فجر کے ٹائم کھل گئی تھی لیکن اب اسے غسل کرنا تھا اور اسے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کیسے غسل کرے –
پھر اسے اچانک اقرا کا کمرہ یاد ایا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اقرا کے کمرے کی جانب چل پڑی – کمرے میں جاتے اسے اقرا سوئی ہوئی نظر ائی اس لیے بنا اسے جگائے وہ واش روم میں جا کر غسل کرنے لگی –
اسے کل ہی اقرا نے اپنے کچھ کپڑے دیے تھے ان میں سے ایک جوڑا وہ اپنے ساتھ لے ائی تھی اور ابھی وہی نہا کر بدل لیا تھا – نماز پڑھنے کے بعد وہ کچن کی جانب چل پڑی کیونکہ اسے اقرا نے بتا دیا تھا کہ صبح صبح چچی اٹھ کر چائے پیتی ہیں –
اس لیے وہ جانتی تھی کہ نماز کا ٹائم ہے وہ اٹھ تو گئی ہوں گی اور پھر چائے بھی مانگیں گی لہذا ان کے مانگنے سے پہلے ہی وہ چائے بنانے کھڑی ہو گئی تھی –
چچی کی چائے لینے ملازمہ خود ائی تھی اس لیے اسے چچی کو چائے دینے نہیں جانا پڑا تھا صبح کے اٹھ بجے کے قریب سب لوگوں نے ناشتہ کرنا تھا اور اس نے اتنی دیر تک سب کا ناشتہ تیار کر لیا تھا –
وہ کچن میں کھڑی ابھی چائے بنا رہی تھی کہ تبھی چچی نے پیچھے سے اتے اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں کرتے اس کا سر پیچھے کو کیا تھا جبکہ درد کے مارے زبرش کی چیخ نکلی تھی – کس خوشی میں تو نے اقرا کے کپڑے پہنے ہیں گھٹیا لڑکی ؟؟ کس کی اجازت سے تو نے اس کے کپڑوں کو ہاتھ لگایا ؟؟
چچی کو جب کوئی اور بہانہ نہیں ملا تھا تو انہوں نے اسی بات کو بہانہ بنا لیا کہ اس نے اقراء کے کپڑے کیوں پہنے ہیں – جبکہ زبریش ان کے ہاتھوں کی گرفت سے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی –
مجھے اقرا نے خود دیے ہیں میں نے بنا اھازت خود نہیں اٹھائے – میرے پاس کپڑے نہیں تھے اس لیے اقرا نے خود دیے تھے میں اپنے گھر سے سامان نہیں لائی تھی – زبرش نے تکلیف کے مارے اٹکتے ہوئے کہا جب کہ چچی نے اس کے بال ازاد کرتے اس کے منہ پر رکھ کر ایک تھپڑ لگایا تھا –
کتنی بار تجھے کہا ہے کہ مجھے سامنے سے جواب مت دینا – بڑی کوئی تو خود کو چیز سمجھتی ہے جب دیکھو اگے سے جواب دینے کھڑی ہو جاتی ہے – ونی میں ائی ہوئی لڑکی ہے تو ونی میں –
اپنی اوقات میں رہ بھول مت کہ تیری پاؤں کی جوتی سے بھی بدتر اوقات ہے – چچی کے الفاظوں پر اس نے انکھیں زور سے میچتے اپنے اندر کے دکھ کو آنسوں کے زریعے باہر انے سے روکا تھا لیکن پھر بھی انکھوں سے انسو بہنے لگے تھے – چل جلدی سے ناشتہ لگا ٹیبل پر سب نے ناشتہ کرنا ہے –
اسے غصے سے کہتی چچی اسے ایک اور لگا چکی تھیں اور تن فن کرتی باہر چلی گئی تھیں جبکہ زبرش نے ان کے جاتے ہی اپنے انسو صاف کرتے اپنا دھیان چائے کی طرف کیا تھا –
چار دن ہو گئے تھے بالاج کو اصل مجرم کی تلاش کرتے لیکن ایک ثبوت تک اس کے ہاتھ میں نہیں لگا تھا – لگتا بھی کیسے جب وہ لوگ وہاں تھے تب وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا – اس وقت اس کے پاس کسی زی روح کا نام و نشان نہیں تھا اور جب وہ وہاں سے چلے گئے ان کے بعد کون وہاں ایا کوئی نہیں جانتا تھا –
اب تو اسے ایک ہفتہ سے اوپر ہو گیا تھا گاؤں ائے ہوئے – اس کا ارادہ نہیں تھا زبرش کو یہاں چھوڑ کر جانے کا – وہ حویلی میں نہیں جا سکتا تھا لیکن یہ تو دلاسہ تھا دل کو کہ ہاں وہ اپنی بہن کے پاس گاؤں میں ہی ہے –
وہ نہ جاتا کبھی واپس شہر مگر اس کے دوست نے اسے مشورہ دیا کہ تم انور ملک سے مدد لو کیونکہ وہ بہت بڑے ادمی ہیں اور تمہاری اس معاملے میں مدد کریں گے اس لیے ان سے مدد لینے کے لیے بالاج کو مجبوراً شہر جانا پڑا –
کب ائے گا اخر بالاج ڈیڈ ؟؟ کب ائے گا ؟؟ میں نے اپ سے کہا تھا نا وہ نہیں واپس انے والا لیکن اپ نے میری بات کو نہیں مانا – مجھے نہیں پتا بالاج کو واپس لائیں – مجھے خان چاہیے میں اپ سے کہہ رہی ہوں مجھے وہ چاہیے آج رات تک اپنی آنکھوں کے سامنے ورنہ میں اپنی جان لے لوں گی –
دیا جو ویسے ہی بیماری کے سبب چڑچڑی ہوئی تھی لیکن اب خان کے دور ہونے کے سبب پاگل ہونے کے در پر تھی اس لیے اپنی جنونی طبیعت کی وجہ سے انور ملک کے سامنے اپنی کلائی پر چھری رکھتے وہ بول رہی تھی –
اس کے یوں کلائی پر چھڑی رکھنے پر انور ملک کو اپنی جان جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی کیونکہ دیا نے چھری کا دباؤ کافی سخت رکھا ہوا تھا – سخت دباو کے سبب چھڑی کسی بھی وقت اس کے ہاتھ پر لگ سکتی تھی –
دیا میری جان میں کہہ رہا ہوں نا میں اس کا پتہ کروا رہا ہوں بہت جلد تمہارے پاس ہوگا وہ – بس میری بیٹی یہ چھوڑ دو یہ اپنے ہاتھ سے نیچے رکھ دو لگ جائے گی بیٹا. – انور ملک نے اسے پیار سے سمجھاتے چھری ہٹانے کو کہا جب کہ وہ ان کی بات نہیں مان رہی تھی –
نہیں میں کہہ رہی ہوں نا جب تک خان میرے سامنے نہیں ائے گا میں اسے اپنے ہاتھ سے نہیں ہٹاؤں گی اور اگر اج رات تک وہ میرے پاس نہ ایا تو میں اپنی جان لے لوں گی – دیا نے جنونی انداز میں کہا – انور ملک کو سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ وہ کیا کریں –
وہ سوچ ہی رہے تھے کہ تبھی ان کا فون بجا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ایک ملازم کی کال تھی – انہوں نے کال ریسیو کی تو اگے سے ملازم کی بات سن کر ان کی جان میں جیسے جان ائی تھی –
دیا تم نے کہا نا کہ اج رات تک تمہیں خان اپنی انکھوں کے سامنے چاہیے تو یہ میرا وعدہ ہے کہ اج رات تک تمہارے سامنے ہوگا اور تمہارے پاس ہی رہے گا ہمیشہ کے لیے –
انور ملک فون بند کرتے اسے کہتے کمرے سے نکل گئے تھے جبکہ ان کے لہجے کا اعتماد دیکھ دیا کہ چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی – وہ جانتی تھی اگر اس کے ڈیڈ نے پورے اعتماد سے کہہ دیا تو مطلب ضرور اج رات تک خان اس کا ہوگا –
انور ملک جب نیچے ائے تو انہیں خان صوفے پر بیٹھا نظر ایا – کہاں تھے تم خان ؟؟ ایک ہفتے کا کہہ کر گئے تھے اور دو تین دن اوپر لگا کر ائے ہو – انور ملک نے اس کے پاس جاتے تھوڑے سخت لہجے میں پوچھا جبکہ خان نے اپنا سر جھکائے ہی رکھا – کیا بات ہے خان تم پریشان لگ رہے ہو ؟!
بالاج کو پریشان دیکھ انور ملک اس کے پاس جاتے پریشانی سے پوچھنے لگے جس پر اس نے چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھا اور اس کی انکھوں میں نمی دیکھا انور ملک ایک دم حیران رہ گئے تھے – کیا ہوا ہے خان تمہیں ؟؟
انہوں نے حیرت سے پوچھا کیونکہ بالاج تو بہت مضبوط مرد تھا وہ کیسے رو سکتا تھا – ان کے پوچھنے پر بالاج نے انہیں ساری کہانی بتا دی جب کہ اس کے ساری بات بتانے پر انور ملک حیران رہ گئے تھے – یہ کس طرح کی بیہودہ بکواس قسم کی روایات ہیں ؟؟ تم نے مجھ سے کنٹیکٹ کیوں نہیں کیا ؟؟
میں اسی وقت پولیس لے کر وہاں پہنچتا – انور ملک نے اسے کہا جب کہ بالاج نہ میں سر ہلانے لگا – نہیں سر وہ علاقے قبائلی علاقے ہیں وہاں کے گاؤں میں یہ پولیس اور عدالت نہیں چلتی وہاں پنچایت چلتی ہے اور اس کا فیصلہ –
انور ملک کی بات پر بالاج بولا جبکہ انور ملک بھی پریشان ہو گئے تھے – اچھا تو اب تمہیں مجھ سے کیا مدد چاہیے ؟؟ کس طرح سے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں ؟؟ انور ملک نے پوچھا – زیادہ تو کچھ نہیں سر بس اپ سے یہ مدد چاہیے کہ مجھے اصل مجرم کو پکڑنا ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا مجھے سمجھ نہیں ارہی میں کیا کروں اگر اپ میری مدد کروا دیں تو اپ کی بہت مہربانی ہوگی –
بالاج نے ایک آس سے کہا جب کہ انور ملک جو ہاں کہنے ہی لگے تھے کہ تب ہی ان کے دماغ میں ایک ترکیب ائی تھی – میں تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہوں بالاج لیکن اس کے بدلے تمہیں میری شرب ماننی ہوگی –
انور ملک کے شرط رکھنے پر بالاج نے فورا ہاں میں سر ہلایا تھا – اپ جو مرضی کہیں سر میں اپ کی ہر بات مانوں گا اگر اپ کہیں کہ اپنی جان دے دو میں اپنی جان بھی دے دوں گا لیکن پلیز سر مجھے اصل مجرم کو ڈھونڈنے میں مدد کروا دیں کیونکہ مجھے اپنی بہن کو صحیح سلامت واپس لانا ہے اور جلد بھی –
بالاج نے ان کا ہاتھ پکڑتے جلدی سے کہا جب کہ اس کے ماننے پر انور ملک مسکرائے تھے – تمہیں میری بیٹی دیا سے شادی کرنی ہوگی – انور ملک کے ایک دم سے اپنی شرط بتانے پر خان کے ہاتھوں کی گرفت انور ملک کے ہاتھوں پر ہلکی ہوئی تھی اور اس نے بے یقینی والی نگاہوں سے انہیں دیکھا –
تھا یہ اپ کیا کہہ رہے ہیں سر اس نے حیرت سے پوچھا جب کہ انور ملک نے کندھے اچکا دیے تھے – یہی شرط ہے میری تم میری بیٹی کی محبت ہو اور وہ کہتی ہے کہ تم اس کا عشق ہو تمہارے بغیر یہ پچھلے دس دن کیسے میری بیٹی پر گزرے ہیں میں جانتا ہوں –
اس کی حالت دیکھ میں اندر ہی اندر روتا تھا وہ خوش نہیں رہتی اور اس کی خوشی تم میں ہے تمہیں پا کر وہ خوش رہے گی اور میرا اس سے وعدہ ہے کہ میں کچھ بھی کروں گا لیکن تمہاری اس سے شادی کرواؤں گا تو بس یہی میری شرط ہے تم میری بیٹی سے شادی کر لو میں تمہاری بہن والے معاملے میں تمہاری مدد کروں گا –
انور ملک نے ساری بات اس کے اگے رکھتے کہا جب کہ بالاج ابھی بھی بے یقینی بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا – پھر لمبا سانس کھینچتے اس نے خود کو نارمل کیا تھا – میں اپ کی بیٹی سے شادی کے لیے تیار ہوں لیکن اس سے زیادہ مجھ سے کوئی امید مت رکھیے گا کیونکہ میں اپ کے کہنے پر شادی تو کر سکتا ہوں لیکن محبت نہیں کیونکہ مجھے اپ کی بیٹی سے محبت بالکل نہیں ہے اور یہ بات میں اپ سے سرعام کہتا ہوں کہ یہ شادی بھی میں صرف اپنی بہن کی وجہ سے کر رہا ہوں کہ اپ اس کے بدلے میں میری مدد کریں گے –
بعد میں مجھ سے شکایت مت کریے گا کہ آپ کی بیٹی کو اٹینشن نہیں دیتا میں – بالاج نے انہیں ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا جب کہ اس کی بات پر انور ملک مسکرائے تھے – تم شادی کر لو محبت خود ہی تمہیں میری بیٹی سے ہو جائے گی –
تو پھر میں بات پکی سمجھوں ؟؟ انور ملک نے کہتے اس کے سامنے ہاتھ بڑھایا تھا جبکہ بالاج نے ایک ہاتھ کی مٹھی میچتے دوسرے کو بمشکل ان کے ہاتھ سے ملایا تھا –