Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 13

بالاش کے مانتے ہی انہوں نے فورا اپنے سیکنڈری کو کال کر کے نکاح خواں کو لانے کا کہا تھا اور خود دیا کہ کمرے کی جانب چل دیے تاکہ اسے بھی خوش خبری دے سکیں – دیا کے کمرے میں جاتے ہی انہوں نے اسے پیار سے پکارا تھا –
دیا میری گڑیا میری جان میں نے تم سے کہا تھا نا رات سے پہلے بالاج تمہارے پاس ہوگا – تو جان وہ ا گیا ہے نیچے اور ابھی تھوڑی دیر تک …. !
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتے دیا ان کی پہلی بات پر ہی خوش ہوتی ننگے پاؤں ہی کمرے سے باہر بھاگ گئی تھی – بنا ادھر ادھر کی پرواہ کیے وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتری تو اسے سامنے صوفے پر بالاج بیٹھا نظر ایا جبکہ اسے دیکھ دیا کے اندر تک روح کو سکون ملا تھا –
تت..ت.تم ا گئے واپس ؟؟ اس نے خوشی سے نم ہوئی انکھوں سے اسے دیکھتے پوچھا جب کہ لہجہ بھی خوشی کے سبب لڑکھڑا رہا تھا – اسے دیکھ بالاج کا میٹر اور گھما تھا اس لیے اس نے اس کی بات کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا –
تم کہاں تھے اتنے دن ایک ہفتے کا کہہ کر گئے تھے اور اتنے دن تک تم نہیں ائے تمہیں کوئی فکر نہیں تھی میری ؟؟
دیا نے ایسے شکایت کی جیسے وہ بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہو جتنی دیا اس سے کرتی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی وہ ایک انکھ بھی اچھا نہیں سمجھتا تھا اسے – پر وہ کیا کرتی وہ تو دیوانی تھی اپنے خان کی اور دیوانے کب کسی بات کی سوچ سمجھ رکھتے ہیں –
دیا کے شکایت بھرے لہجے میں کہنے پر بالاج نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن اسے دیکھتے اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا تھا – یہ دیا تو بالکل ہی الگ دیا تھی – جس دیا کو وہ چھوڑ کر گیا تھا وہ تو اپنے کپڑوں پر ایک سلوٹ بھی نہیں ڈلنے دیتی تھی مگر اس کے سامنے کھڑی دیا تو بالکل الٹ تھی –
نہ جانے اس نے کب بال کنگھی کیے تھے انکھوں کے نیچے گہرے ہلکے پڑے ہوئے تھے ہونٹ جو پہلے ڈارک شیڈ کی لپسٹک مہں ہر وقت رنگے رہتے اس وقت خشک ہوئے پڑے تھے اور جلد جو چمکتی رہتی تھی اس وقت ڈل ڈل سی لگ رہی تھی –
اسے دیکھ کر بالاج کو واقعی میں ہی حیرت ہوئی تھی کہ کیا واقعی وہ اس کی خاطر یوں خود کا حلیہ بگاڑ کھڑی تھی – لیکن وہ کیا جانتا تھا کہ جب عشق کا مرض لگتا ہے تو انسان یوں ہی خود کو بھول جاتا ہے اسے یاد رہتا ہے تو صرف محبوب اس کے اگے کچھ بھی نہیں –
اس سے پہلے دیا اسے کچھ اور کہتی وہاں انور ملک ائے تھے اور انہوں نے دیا کہ کندھے کے گرد بازو حائل کرتے اسے بولنے سے روک کر تھا – باقی باتیں بعد میں دیا ابھی پانچ منٹ تک مولوی صاحب ا جائیں گے اور پھر تمہارا اور خان کا نکاح ہو جائے گا – تو جاو تم تیار ہو جاو –
انور ملک کی بات پر دیا سکتے کی حالت میں چلی گئی تھی اسے سمجھ نہ آیا کہ ابھی جو اس کے ڈیڈ نے بولا وہ سچ ہے یا پھر مذاق کر رہے تھے وہ – اس نے انکھوں میں بے یقینی لیے انہیں دیکھا جس پر وہ ہنس دیے تھے – میں سچ کہہ رہا ہوں میری جان مجھے بے یقینی بھری نگاہوں سے مت دیکھو –
میں نے اپنی بیٹی سے وعدہ کیا تھا کہ اج رات تک خان اس کا ہوگا تو میں کیسے اپنی بیٹی سے کیا وعدہ توڑ سکتا ہوں – انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا جب کہ دیا کا تو خوشی سے برا حال ہوا تھا –
وہ ایک دم سے خوشی سے چیختی ان کے گلے لگتی زور سے انہیں ہگ کر گئی تھی جبکہ اس کے خوش ہونے پر جہاں انور ملک بھی خوش ہوئے تھے وہیں بالاج کو اس سے اور نفرت ہوئی تھی –
تھوڑی دیر تک ان کا نکاح ہو گیا تھا اور اب دیا مطمئن تھی اس کے چہرے سے مسکراہٹ جدا ہی نہیں ہو رہی تھی – چہرہ جو پہلے مرجھایا مرجھایا تھا خود بخود کھل اٹھا تھا – اس نے تو اپنے کمرے میں دوبارہ جا کر کپڑے چینج کر کر تیار ہو کر انے کی بھی زحمت نہ کی تھی کیونکہ اسے ڈر تھا کہیں بالاج پھر سے انکار نہ کر دے –
نکاح ہوتے ہی انور ملک بالاج سے گلے ملنے لگے تو بالاج نے ہاتھ کی اشارے سے انہیں روک دیا تھا – سر میں نے اپ کی بات پوری کر دی اب اپ کی باری ہے میری مدد کرنے کی – بالاج کی بات پر انور ملک نے سر ہلایا تھا – کیوں نہیں بیٹا ظاہر سی بات ہے میں کروں گا تمہاری مدد –
کل ہی میں کسی اچھے سے ڈیٹیکٹو کو لے کر اتا ہوں اور پھر تم اسے ساری ڈیٹیل بتانا وہ خود ہی تمہارا سارا مسئلہ دیکھے گا – انور ملک کی بات پر بالاج نے ہاں میں سر ہلایا تھا اور جانے لگا کہ تبھی دیا نے اواز دیتے اس سے روکا تھا –
کہاں جا رہے ہو تم ؟؟ دیا نے پریشانی سے کہتے بھاگ کر اس کا بازو تھاما تھا جبکہ اس کے یوں اپنا بازو پکڑنے پر بالاج نے خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا لیکن دیا نے اس کی نظروں کا نوٹس ہی نہ لیا تھا –
گھر جا رہا ہوں اپنے – کیوں تمہیں کیا کہنا تھا ؟؟ بلاج نے کاٹ کھانے کے انداز میں جواب دیا جبکہ دیا کو اس کے لہجے کی کہاں پرواہ تھی وہ تو ابھی اپنی خوشی میں مگن تھی – اب یہ بھی تو تمہارا گھر ہے تم اب سے میرے شوہر ہو –
تم یہاں رہ سکتے ہو – دیا نے اسے یہاں رہنے کی افر دی جسے بالاج نے بڑے اچھے انداز میں ٹھکرایا تھا – نہیں شکریہ مجھے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اپنے گھر جا کر ارام کرنا چاہتا ہوں –
بالاج نے اپنے بازو کو اس کے ہاتھ سے نکالتے کہا اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا لیے تھے اور دروازے سے باہر نکل گیا جبکہ دیا کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھتی جس سے ابھی اس نے بالاج کا بازو پکڑا تھا تو کبھی دروازے کی جانب دیکھتی جہاں سے بالاج ابھی گزر کر گیا تھا –
اٹس اوکے دیا وہ کہہ رہا ہے نا کہ اسے اپنے گھر جا کر ارام کرنا ہے – تو تم کیوں ٹینشن لے رہی ہو ؟؟ انور ملک اس کے پاس جاتے بولے جب کہ دیا نے ان کی بات پر بھی اپنی نظریں دروازے سے نہ ہٹائی تھیں –
نہیں ڈیڈ وہ یہاں کیوں نہیں رہا ؟؟ اب اس کا بھی تو یہ گھر ہے نا – اس کا رہنا بنتا تھا مجھے نہیں پتا وہ ابھی مجھے نظر ایا اتنے دنوں بعد اور وہ پھر سے چلا گیا – میں نے اسے جی بھر کر دیکھا بھی نہیں –
لیکن کوئی نہ وہ نہیں رہا یہاں تو کیا ہوا میں تو اس کے گھر جا سکتی ہوں نہ – مجھے اس کے گھر بھیجیں میں اس کے گھر جاؤں گی اگر وہ یہاں نہیں رہ سکتا تو کیا ہوا وہ میرا شوہر ہے تو میں اس کے گھر رہوں گی لیکن میں اس کے پاس ہی رہوں گی اور وہ مجھے روک نہیں سکتا –
دیا نے ضدی لہجے میں کہا جب کہ اس کی بات پر انور ملک حیران ہوئے تھے – تم کیسے رہو گی اس کے چھوٹے سے گھر میں ؟؟ تمہارا وہاں گزارا نہیں ہوگا – انور ملک نے اسے سمجھانا چاہا مگر دیا نے کوئی بات نہ سنی تو وہ کچھ نہ بولے اور انہوں نے گارڈ کو اواز دیتے دیا کو بالاج کی طرف چھوڑنے کو کہا –
ان کے ڈرائیور کو کہتے ہی وہ اپنے نائٹ ڈریس میں ہی بھاگتی باہر گاڑی میں جا کر بیٹھی تھی کیونکہ اسے جلدی تھی بالاج کو پھر سے دیکھنے کی – اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی –
سچی مسکراہٹ ! ہوتی بھی کیوں نہ آخر اسے اس کا عشق مل گیا تھا – اب سے وہ اس کا محرم تھا یعنی صرف اس کا تھا – اور یہ بات اسے ہواوں میں اڑا رہی تھی –
بالاج ابھی ابھی گھر ایا تھا اوع وہ ابھی اپنے کمرے میں جاتے لیٹا ہی تھا کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی – اسے حیرت ہوئی تھی کہ کون اگیا ؟؟ وہ اٹھ کر دروازہ کھولنے گیا تو دروازہ کھولتے اسے سامنے دیا کا چہرہ نظر ایا –
اسے دیکھتے بالاج کی انکھیں کھلی تھیں – وہ یہاں ا گئی تھی ؟؟ اس کے دل نے سوال کیا – بولو کیسے انا ہوا ؟؟ بالاج نے روکھے انداز میں پوچھا جب کہ دیا اس کے روکھے انداز پر بھی مسکرائی تھی – وہ پاگل لڑکی خود کو پوری طرح سے بدل رہی تھی اور اسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا –
وہ جو کسی کی اونچی اواز بھی اپنے سامنے برداشت نہ کرتی تھی اب وہ خوشی خوشی بالاج کی بے رخی برداشت کر لیتی تھی – لیکن شرط یہی تھی کہ اس بے رخی کے باوجود وہ اس کے سامنے رہے –
اپنے گھر ائی ہوں میں نے سنا ہے شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی عورت کا اصل گھر ہوتا ہے – میں اچھے سے جانتی ہوں تم تو وہاں رہنے والے تھے نہیں تو میں نے سوچا کیوں نہ میں ہی اپنے اصل گھر ا جاؤں –
دیا نے مسکراتے ہوئے کہا اور خود ہی بالاج کو سائیڈ پر کرتے اندر اگئی – جبکہ بالاج اس کی ہٹ دھرمی اور بے شرمی پر خول کر رہ گیا تھا – دروازہ زور سے بند کرتے اس نے اپنا غصہ ظاہر کیا تھا اور پھر لمبی پھلانگے بھرتا وہ اس تک پہنچ کر اس کا بازو کہنی سے دبوچ چکا تھا –
میں نے تم سے نکاح صرف تمہارے ڈیڈ کے کہنے پر کیا ہے ورنہ یہ بات تم بھی اچھے سے جانتی ہو کہ مجھے تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے – مجھے صرف اور صرف اپنی بہن کی فکر ہے جس کی وجہ سے میں یہ کڑوا گھونٹ پی گیا کہ تم سے نکاح کر لیا میں نے –
میں جانتا ہوں میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا تمہارے ڈیڈ کی مدد کے بغیر اور اسی بات کا فائدہ اٹھایا تمہارے ڈیڈ نے لیکن تم زیادہ کسی خوش فہمی میں مت رہنا کیونکہ میں تمہیں کبھی بھی بیوی کی طور پر قبول نہیں کروں گا –
تم جیسی لڑکی میری ائیڈیل بالکل نہیں – سنا تم نے ؟؟ اور اگر اب اتنا ہی شوق ہے تمہیں یہاں رہنے کا تو یہی رہو گی تم اور اپنے باپ کے گھر نہیں جاؤ گی – جب تک میری بہن واپس نہیں آ جاتی اس رشتے اور تمہارے نام کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال بجانا ہی پڑے گا – لیکن زیادہ عرصہ نہیں –
بہت جلد میں یہ رشتہ ختم کر دوں گا – لیکن ابھی جب تم یہاں رہ رہو گی تو وہ رہا کمرہ وہاں جا کر تم رہ سکتی ہو – بالاج نے غصے سے کہتے اخر میں زبرش کے کمرے کی جانب اشارہ کرتے اسے وہیں رہنے کو کہا جب کہ اس کے الفاظوں پر اب کی بار دیا کے دل میں درد اٹھا تھا –
وہ اس کی لاکھ پہ رخی برداشت کرتی لیکن یوں اس کا خود کو دھتکارنا اور رشتے کو ختم کرنے کی بات کرنا اسے تکلیف دے رہا تھا لیکن اس سب کے باوجود اس نے مسکرا کر اس سے دیکھا تھا –
بہت جلد میں تمہاری سوچ بدل دوں گی تمہاری ائیڈیل ، تمہاری پسند ، تمہاری محبت ، تمہارا عشق سب کچھ نادیہ ملک ہوگی اور جو اب تم کہہ رہے ہو کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا دیکھنا ایک دن تم میرے ذرا سے دور جانے پر بھی تڑپو گے – دیا نے ایک یقین اور امید سے کہا جب کہ اس کے بات پر بالاج ہسا تھا –
تمہاری خوش فہمیاں ہیں اپنے اندر کی اس خوش فہمی کو باہر نکالو کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہونے والا – خواہ مخواہ جب بعد میں تمہاری خوش فہمیوں کی مینار گرے گی تو تمہیں دکھ ہوگا –
بالاج اسے تنزیہ کہتا اس کا بازو چھوڑ کر اپنے کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر چکا تھا جبکہ دیا نے نم انکھوں سے اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا – کتنی دیر تک خود کو بچاؤ گے میری محبت سے ؟؟ دیکھ لینا میری محبت تمہارا دل میرے لیے نرم کر ہی دے گی اور ایک دن میں تمہیں پا ہی لوں گی ہمیشہ کے لیے –
اور پھر تم صرف میرے ہی رہو گے – دیا نے خود کلامی کرتے کہا جب کہ تصور میں وہ بالاج سے مخاطب تھی – پھر لمبا سانس لیتے وہ خود کو نارمل کرتی زبرش والے کمرے کی جانب چل پڑی تھی –
کیونکہ ابھی وہ پروپر ٹھیک نہیں ہوئی تھی اور زیادہ دیر کھڑے ہونے کے سبب اس کی کمر میں درد ہونے لگ گیا تھا اور ٹانگیں بھی کانپنے لگی تھیں اس لیے ابھی اسی وقت اسے لیٹنا تھا –
بالاج نے تو اپنا کمرہ بند کر لیا تھا تو زبرش کے کمرے کا ہی اس کے پاس آپشن تھا اس لیے وہ بھی کمرے میں جا کر بیڈ پر لیٹ گئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اقرا کھانا ختم کر کے تم اپنا عبایا پہن اؤ میں تمہیں بازار لے چلتا ہوں اپنی چیزیں لے لینا – صبح کا ناشتہ کرتے ہوئے زوریز نے اقرا سے کہا جس پر اس نے سر ہلایا تھا لیکن چچی نے حیرت سے زوریز کو دیکھا تھا – کیا چیزیں لینی ہیں اقرا نے ؟؟
چچی کے پوچھنے پر زوریز نیپکین سے منہ اور ہاتھ صاف کیے تھے – اس کی یونی کی کچھ چیزیں ہیں کتابیں اور بیگ وغیرہ بس وہی لینا ہے – تین دن بعد اس کی کلاسز سٹارٹ ہونے والی ہیں اس کیے –
زوریز کے کہنے پر چچی اور فرح دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا – یہ تم کیا کہہ رہے ہو زوریز یہ کیسے یونیورسٹی جا سکتی ہے ؟؟ چچی کے یوں کہنے پر زوریز نے انکھیں چھوٹی کیے انہیں دیکھا – کیوں کیوں نہیں جا سکتی وہ ؟؟
اس نے ہاتھ سینے پر باندھتے چئیر کی بیگ سے ٹیک لگاتے ان سے پوچھا – اقرا بھی اپنا کھانا چھوڑ کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جبکہ زبرش کچن میں کاموں میں مصروف تھی – اس لیے کیونکہ ابھی تین دن پہلے ہی اس کا منگیتر مرا ہے اور یہ میرے بیٹے کے نام پر بیٹھی ہوئی ہے –
جب میرا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے تو اس پر بھی دنیا کی ہر اسائش ہر رنگینی ختم – یہ میرے بیٹے کے نام پر ہی بیٹھی رہے گی اور اس حویلی سے باہر نہیں جائے گی – چچی کی فالتو بات پر زوریز کا میٹر گھوما تھا –
کیا بے ہودہ بکواس ہے یہ ؟؟ اپ کو کیوں لگا کہ میں اپ کی اس بکواس بات کو مانوں گا ؟؟ زوریز ایک دم غصے سے کھڑا ہوتا دھاڑتے ہوئے بولا جبکہ اس کے دھاڑنے پر وہ سب کانپ اٹھی تھی اور کچن میں کھڑی زبرش سے ڈر کے مارے ہاتھ سے گلاس گرتے گرتے بچا تھا – بکواس نہیں ہے یہ –
بھولوں مت کہ ہمارے خاندان کی یہی روایت ہے کہ بچپن سے لڑکی جس کے نام پر ہوتی ہے اگر وہ مر جائے تو وہ ساری زندگی اس کے نام پر ہی بیٹھی رہتی ہے – چچی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی اس لیے وہ بھی اگے سے بولیں جب کہ زوریز نے ٹیبل پر پرا گلاس اٹھا کر زور سے زمین پر پٹخا تھا –
وہ لڑکیاں نکاح میں ہوں تو ایسا ہوتا ہے جبکہ میری بہن کی صرف بات ہی پکی ہوئی تھی منگنی بھی نہیں ہوئی تھی اور یہ اپ کی خام خیالی ہے چچی کہ میں اپنی بہن کی زندگی یوں برباد کروں گا – سنا اپ نے ؟؟
میری بہن اپنی زندگی جیے گی جیسے اس کا دل کرے گا اور میں اس کی شادی بھی کرواؤں گا اگر فیاض مر گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میری بہن پر زندگی تنگ کر دی جائے –
زوریز نے غصے سے کہتے اقرا کو انکھوں سے وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا تھا جس پر اقرا فورا وہاں سے اٹھتے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور زوریز بھی غصے بھری انکھوں سے چچی کو دیکھتا وہاں سے چلا گیا تھا –
پیچھے چچی بل کھا کر رہ گئی تھی – ان کا پورا ارادہ تھا اقرا کو گھر میں ہی قید کر کے رکھنے کا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ زوریز سے ٹکرا رہی ہیں اور وہ بھی اقرا کے نام پر – زوریز تو اقرا کی خاطر پوری دنیا کو اگ لگا دے یہاں تو پھر چچی کی بات تھی –
وہ ان کی عزت ضرور کرتا تھا لیکن اتنی بھی وہ اس کے لیے اہم نہیں تھی کہ وہ ان کے کہنے پر اپنی بہن کی زندگی برباد کر دیتا – وہ ہزار کوششیں کر لیتیں لیکن زوریز ان کی ساری کوششوں پر بہت جلد پانی پھیرنے والا تھا –

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial