قسط: 14
بالاج اپنے لیے کچن میں کھڑا ناشتہ بنا رہا تھا – اس کے ہاتھ جلدی جلدی کام کر رہے تھے کیونکہ اسے اج انور ملک کے ساتھ ڈیٹیکٹو سے ملنے جانا تھا – اس لیے وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے جانے کا ارادہ رکھتا تھا –
ناشتہ بنا کر اس نے ٹیبل پر رکھا اور چیئر کو سیٹ کرتا اس پر بیٹھا مگر سامنے والی چیئر پر نظر پڑتے اسے زبرش کی یاد ائی تھی – ایک دم سے ناشتے سے اس کا دل اٹھ گیا تھا لیکن زبرش سے اسے دیا کا خیال آیا جسے کل اس نے زبرش کے کمرے میں رہنے کو کہا تھا –
وہ ناشتہ وہی چھوڑتا اٹھ کر زبرش کے روم کی طرف چل پڑا – دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا لیکن دروازہ خود بخود کھل گیا – اس نے اندر دیکھا تو دیا کمفرٹر اوڑھے بیڈ پر لیٹی تھی لیکن اس کا وجود کانپ رہا تھا –
ایسے جیسے اسے بہت زیادہ سردی لگ رہی ہو بالاج کو حیرت ہوئی تھی اس کے کانپنے پر کیونکہ اپریل کا مہینہ تھا اور اس مہینے موسم سرد بلکل نہیں تھا اس لیے دیا کا کانپنا اسے سمجھ نہ ایا تھا – تشویش زدہ ہوتے وہ اگے بڑھا اور اس کے بیڈ کے پاس پہنچا –
اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا ٹمپریچر چیک کرنا چاہا لیکن جیسے ہی اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اسے یوں لگا جیسے اس نے کسی گرم توے پر ہاتھ رکھ لیا ہے – او نو اسے تو بہت تیز بخار ہے بالاج نے فکر مندی سے خود کلامی کی –
اگر وہ ڈاکٹر کو لینے جاتا تو لے کر انے میں اسے کافی دیر لگنی تھی جبکہ اسے جلدی تھی جانے کی اس لیے اس نے اپنا رخ کچن کی جانب کیا اور وہاں پر اپنے لیے بنایا ناشتہ اٹھا کر دیا کہ کمرے میں واپس ایا – ٹیبل پر کھانا رکھتے اس نے دیا کو اٹھانا چاہا مگر وہ تو غنودگی میں تھی – پاس پڑے پانی کی گلاس مجھ سے کچھ پانی لیتے اس نے اس کے منہ پر چھڑکا تو اسے ہوش ایا –
بمشکل انکھیں کھولتے اس نے دیکھا تو سامنے خان کو دیکھ کے اس کے چہرے پر بے خیالی میں ہی مسکراہٹ ائی تھی – کتنا حسین احساس ہے نا یہ کہ صبح انکھیں کھولوں تو تمہارا دیدار ہو لیکن میں جانتی ہوں یہ میرا خواب ہی رہے گا – دیا یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ابھی تک خواب دیکھ رہی ہے اس لیے وہ ہلکی اواز میں وہ مشکل ہاتھ کو اٹھاتے اس کے چہرے پر رکھتی بولی جبکہ بالاج نے اس کے ہاتھ کو اپنے چہرے سے ہٹاتے کندھوں سے پکڑ کر اسے ہلایا تھا – اٹھو مس ملک اٹھ کر بیٹھو اور لو یہ کچھ کھاؤ تاکہ میں تمہیں میڈیسن دوں –
بالاج نے اسے کہتے ہیں باقاعدہ اٹھا کر بٹھایا تھا جبکہ دیا تو یوں اچانک اس کے بیٹھانے پر حیران تھی کہ یہ خواب نہیں اور ڈالا تو وہ حقیقت کی دنیا میں ائی اور کل کا سارا واقعہ سے یاد ایا تو یہ خواب نہیں تم واقعی اس کے سامنے ہے –
کیا میرا خواب حقیقت ہے ؟؟ اوہ خدایا یہ کتنا پیارا احساس ہے کہ صبح اٹھتے ہی تمہارا دیدار ہوا ہے – اس نے انکھیں بمشکل کھلی رکھتے کہا جب کہ بالاج کو اس پر غصہ ا رہا تھا جو بیماری میں ہوتے ہوئے بھی کس طرح سے اس کے ساتھ فلرٹ کر رہی تھی –
لو ناشتہ کرو تاکہ تم دوائی کھا سکو – بالاج نے ٹیبل سے ٹرے اٹھا کر اس کے سامنے کرتے کہا جس میں جوس کا گلاس ، بریڈ اور املیٹ پڑا تھا – اس کے یوں سامنے ٹرے کرنے پر دیا نے پہلے تو اسے دیکھا لیکن پھر فرمانبردار بیوی کی طرح ٹرے میں سے بڑیڈ اٹھا کر اسے توڑا لیکن اس دوران اس کے ہاتھ بری طرح سے کانپ رہے تھے –
بالاج نے جب اس کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا تو اس کے ہاتھ سے توڑی ہوئی بریڈ کا ٹکڑا لے لیا تھا اور پھر بنا کچھ بولے بریڈ کے ساتھ انڈا لگاتے اس نے نوالہ اس کے منہ کے سامنے کیا تھا اس کے یوں خود کو کھانا کھلانے پر دیا نے پہلے تو بے یقینی سے اسے دیکھا لیکن پھر چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا اور اس نے خوشی سے منہ کھولتے نوالہ منہ کے اندر لیا تھا –
اس کا کھانے کو دل تو نہیں کر رہا تھا کچھ بھی لیکن اسے اس بات کی مسرت تھی کہ اس کو خان کھلا رہا تھا – وہ اسے زہر کھلا دیتا تو بھی وہ کھا لیتی یہاں تو پھر بریڈ تھی – بالاج نے ایک ایک کرتے نوالہ اس کے منہ میں ڈالا جبکہ دیا بس اسے اپنی نظروں سے نہارتی کھا رہی تھی – اور چاہیے ؟
جب تین بریڈ ختم ہو گئی تو بالاج نے اس سے پوچھا جس پر دیا نے ہاں میں سر ہلایا تھا – اس کا پیٹ تو بھر چکا تھا لیکن اسے اچھا لگ رہا تھا بالاج کے ہاتھوں سے کھانا – بالاج سمجھ چکا تھا کہ اس کی بھوک ختم ہو گئی ہے وہ صرف اور صرف اس لیے اور کھانا چاہتی ہے کہ بالاج اسے کھلا رہا ہے –
میرے خیال سے ابھی کے لیے تمہارا ناشتہ بہت ہے – لو اب جوس پی لو -اس کا گلاس ختم کرو بلاز نے ٹرے سائیڈ پر تو اس میں پڑا جوس کا گلاس اٹھا کر اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگایا تھا جس پر دیا نے اچھے بچوں کی طرح سارا جوس ختم کیا تھا – میں تیار ہو کر اتا ہوں پانچ منٹ ویٹ کرو پھر تمہیں دوائی دیتا ہوں –
بالاج وہاں سے برتن اٹھا کر کہتا چلا گیا جبکہ دیا ابھی بھی یہ سوچ سوچ خوش ہو رہی تھی کہ بالاج اس کی کیئر کر رہا ہے – اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ بالاج نے اس کی کیئر اس لیے کی کیونکہ وہ جانتا تھا اگر دیا کو کچھ ہوا تو انور ملک اس کی مدد نہیں کریں گے –
تیار ہو کر وہ اپنے کمرے میں پڑی بخار کی میڈیسن لے کر ایا اور دیا کو کھلائیں تھی – میں جا رہا ہوں تمہارے ڈیڈ کے پاس کچھ کام ہے- تم یہیں گھر پر رہو گی ارام کرنا زیادہ دیر تک میں نہیں وہاں رہوں گا جلدی ا جاؤں گا –
بالاج اسے کہتے وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ دیا نے کسی قسم کا ویلا نہیں مچایا تھا کہ وہ اسے ساتھ نہیں لے کر جا رہا – بالاج نے جاتے ہوئے گیٹ کو باہر سے تالا لگا دیا تھا جبکہ دیا اس کے جاتے ہی دوبارہ بیڈ پر لیٹتی کمفرٹر میں گھس کر سو گئی تھی –
صبح کا گھر سے نکلا زوریز رات کو بھی گھر واپس نہ ایا تھا اقرا کو اس کی فکر ہو رہی تھی لیکن اس کا موبائل بھی بند جا رہا تھا – ایسے کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ رات گھر سے باہر رہتا اور اقرا کو اطلاع نہ کرتا –
وہ ابتظار کے علاوہ کیا کر سکتی تھی کیونکہ اس کے پاس کوئی بھی انفارمیشن نہ تھی اس کے متعلق اس لیے اسے اپنے اللہ کے حوالے کرتی وہ سو گئی تھی – وہ لاکھ اس سے ناراض ہونے کی کوشش کرتی لیکن وہ اس کا لالہ تھا اسے جان سے پیارا تھا –
ان دونوں بہن بھائیوں کا ایک دوسرے کے علاوہ اس دنیا میں کوئی بھی سگا رشتہ نہ تھا جو ان سے سچی محبت کرتا – اگلی صبح جب وہ اٹھی تو اس کی انکھ باہر ہوتے شور سے کھلی تھی شاید باہر زوریز ا چکا تھا اور اس کی چچی سے پھر سے بحث شروع ہو گئی تھی – وہ گھبرا کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی اور اپنا جوتا پہن کر جلدی سے کمرے سے باہر نکلی تھی –
زوریز گھر ایا تو اس کی سب سے پہلے نظر زبرش پر پڑی تھی جو ہال میں پوچھا لگا رہی تھی – اسے اگنور کرتا وہ چچی کے پاس گیا جو فرح کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف تھیں – ابھی تھوڑی دیر تک اقرا کا نکاح ہے میرے دوست کے ساتھ –
زوریز نے ان کے پاس جاتے ہی سیدھا مدے کی بات کی تھی جبکہ اس کی بات سن چچی غصے سے کھڑی ہوئی تھیں – کیا بدتمیزی ہے یہ زوریز ؟؟ تم میری بات ٹال رہے ہو – میں نے صبح تم سے کہا تھا کہ اقرا ساری زندگی میرے بیٹے کے نام پر رہے گی – تو یہ بات ہوئی اور اگلے دن اس کے لیے اپنے دوست کا رشتہ لے ائے ہو بلکہ وہ بھی نکاح خواں کے ساتھ – چچی کا غصے سے برا حال ہوا تھا –
ہوتا بھی کیوں نہ ان کا ارادہ اقرا کو ساری زندگی گھر میں قید کر کے رکھنے کا ؟؟تاکہ باہر اگر اس کی کہیں شادی ہوتی تو جائیداد باہر نہ جائے گی – لیکن یہاں تو زوریز پوری ان کی بازی ہی پلٹ رہا تھا –
جی بالکل اپ کی بات سن کر ہی میں نے یہ فیصلہ کیا ہے چچی پہلے میری ارادہ نہیں تھا اقرا کا دو تین سال شادی کرنے کا لیکن اپ کے ارادے جان کر مجھے کافی دکھ ہوا اور اپنی بہن کی فکر بھی ہوئی اس لیے میں اپنے دوست کے ساتھ اس کا نکاح کرنے والا ہوں – میرے خیال سے میری بہن کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق صرف میرا ہے کسی کو میں اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میرے اور میری بہن کے معاملات میں دخل اندازی کرے –
ہمارے درمیان آنے کی کوشش کرے لہذا اپ بھی ہمارے معاملات سے دور رہیں میں اپ کی عزت کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپ جو کہیں گی وہ میں مان لوں گا – اقرا کا نکاح ہوگا ابھی اور اسی وقت ہوگا میرے دوست بہرام خان کے ساتھ اور میں دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے –
زوریز بھی اگے سے چچی کو غصے سے جواب دے گیا تھا جبکہ زبرش ان دونوں کو غصے میں ایک دوسرے سے بات کرتا دیکھ پریشان ہوئی تھی لیکن اپنے کام میں مصروف رہی کیونکہ وہ جانتی تھی اگر وہ ان کی طرف متوجہ ہوتی تو ان دونوں نے اس سے بھی بےعزت کر دینا تھا – آٹھو تم جاؤ اقرا کو بلا کے لاؤ –
زریز نے چچی کو جواب دیتے زبرش کو کہا جب کہ اس سے پہلے کہ زبرش اقرا کو بلانے جاتی اقرا خود ہی کمرے سے نکل ائی تھی – کیا ہو رہا ہے یہاں پر ؟ اقرا نے وہاں ا کر پریشانی سے پوچھا جبکہ زریز اس کے وہاں اتے اس کے پاس جا کر اس کے کندھوں کے گرد بازو حل کر چکا تھا –
بس کچھ لوگوں کو فکر ہو رہی ہے کہ میں نے ان کی بات کو ٹالا ہے – لیکن تمہیں سب کی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں بلکہ تم جاؤ جا کر صحیح سے کپڑے بدل کر تیار ہو کر اؤ کیونکہ ابھی تھوڑی دیر تک تمہارا نکاح ہے میرے دوست بہرام خان کے ساتھ – زریز کی بات پر اقرا کے سر کے اوپر جیسے پوری حویلی کی چھت ہی گر گئی تھی –
یہ اپ کیا کہہ رہے ہیں لالا ؟؟ میرا نکاح اپ کے دوست سے کیسے اچانک ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا جب کہ زوریز نے اس کے دونوں کندھوں سے اسے تھامتے اپنے سامنے کیا تھا – ہاں میری جان بالکل تمہارا نکاح وہ بھی میرے دوست کے ساتھ اج نکاح کرنا ہے بس رخصتی تمہاری مہینے دو مہینے بعد ہوگی –
زوریز نے اسے کہا جب کہ اقرا کبھی ٹینشن سے چچی کو دیکھتی جن کا غصے کے مارے برا حال تھا تو کبھی وہ زوریز کو دیکھتی – پر یہ سب کیوں بھائی؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – کیونکہ اس گھر میں بہت سے لوگ ہیں اقرا جنہوں نے تمہیں گھر میں قید کرنے کا ارادہ رکھا ہوا ہے اور میں ایسا بالکل نہیں ہونے دؤں گا میں ہمیشہ تمہیں مضبوط ہاتھوں میں دیکھنا چاہوں گا اور میرے خیال سے میرا دوست ایک اچھا ہسبینڈ ثابت ہوگا تمہارے لیے –
زوریز نے اسے اپنا نقطہ نظر بتایا تھا جبکہ اقرا چپ کر گئی تھی ہاں وہ صحیح کہہ رہا تھا – اگر زوریز کا یہ فیصلہ اس کے لیے بہتر تھا تو اسے قبول تھا – کیونکہ چچی کا واقعی ہی ارادے خطرناک لگ رہے تھے اسے اس لیے وہ چپ کر گئی تھی ٹھیک ہے بھائی جیسے اپ کی مرضی وہ اسے کہتی اپنے کمرے کی جانب واپس بڑھ گئی تھی جب کہ زوریز نو سنجیدہ نظروں سے چچی کو دیکھا تھا اور پھر زبرش کی طرف متوجہ ہوا – اٹھو تم اور جا کر اقرا کی مدد کرو –
وہ اسے کہتا ہوا باہر واپس جا چکا تھا جبکہ زبرش خاموشی سے نظریں جھکائے وہاں سے اقرا کے کمرے کی جانب چل پڑی تھی – اس نے غلطی سے بھی چچی کی جانب دیکھنے کی غلطی نہ کی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ زخمی شیر نہیں بنی ہوئی ہے اور اگر ان کی نظر اس پر پڑ جاتی تو ان کا غصہ اسے ہی سہنا پڑتا –
تھوڑی دیر تک اقرا کا نکاح زوریز کے دوست سے ہو چکا تھا – اسے سمجھ نہ ائی تھی کہ ابھی یہ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ ایک ایسا انسان جسے اج تک اس نے دیکھا بھی نہ تھا بلکہ اس کا نام بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اسے معلوم ہوا تھا وہ اس شخص کے نام لگ چکی ہے – اس شخص کا نام اس کے نام کے اگے جڑ چکا ہے –
ہزار غم زدہ کیوں نہ ہوتی وہ لیکن اسے یہ یقین تھا کہ اس کے لالا اس کے لیے جو بھی فیصلہ کریں گے بہتر کریں گے – نکاح کے بعد وہ واپس کمرے میں اپنے جا چکی تھی اس نے بس ایک نظر اپنے شوہر کو دیکھا تھا وہ پیارا تھا بہت پیارا تھا اگر اس وقت نارمل حالات ہوتے تو اقرا ضرور خوشی سے اچھلتی –
وہ خوبصورتی میں بالکل ویسا تھا جیسے اقرا نے سوچا تھا -ہلکی بئیرڈ ، سفید رنگ ، تیکھی ناک اور شہد رنگ انکھیں جبکہ جسامت ایسے جیسے وہ روز جم جاتا ہو بالکل اس کے لالہ کے جیسے – وہ خوش ہوتی مگر ابھی یہ وقت نہیں تھا اس کا خوشی منانے کا اور نہ ہی اسے اس بات پر خوشی ہو رہی تھی وہ مطمئن ضرور تھی لیکن اسے یہ بھی ڈر تھا کہ ابھی چچی ضرور خاموش ہیں لیکن وہ واویلا ضرور مچائیں گیں –
لیکن پھر اچانک اسے یاد ایا کہ وہ تو اقرا ہے اقرا گل اقرا گل کسی سے نہیں ڈرتی اس کی طرف سے بھاڑ میں جائے سب یہ سوچ اتے ہی اس نے لمبا سانس کھینچتے خود کو نارمل کیا تھا اور شیشے میں اپنا عکس دیکھا – اسے زبرش نے ہلکا ہلکا میک اپ کرتے تیار کیا تھا جس کے سبب اس کے خوبصورت نین نقش اور زیادہ پیارے لگ رہے تھے –
خود کو شیشے میں دیکھتے اس نے شرمانے کی ایکٹنگ کی تھی اور پھر اپنے اوپر لیے دوپٹے کو گھونگھٹ کی صورت میں سیٹ کرتے پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنا گھونگٹ اٹھا کر خود کو شیشے میں دیکھا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی جبکہ زبرش جو اس کے پیچھے ہی کمرے میں ائی تھی اس کو یوں خوش دیکھ کر وہ بھی خوش ہوئی تھی اور اس کے دل سے دعا نکلی تھی کہ وہ پیاری سی لڑکی ہمیشہ یوں ہی خوش رہے اور خوشیاں اس کی منتظر رہیں –
نظروں ہی نظروں اس کی نظر اتار وہ واپس مڑ گئی تھی کیونکہ اسے بہت سے کام تھے لیکن ہاں ان سب کاموں کو ختم کرتے اسے زوریز کی نظروں سے بھی بچنا تھا کیوں کہ چچی تو ابھی کمرے میں بند تھی اس سے پتہ تھا کہ وہ ابھی اج کمرے سے نہیں نکلیں گی لیکن جب بھی نکلیں گی اپنا غصہ اسی پر ہی اتاریں گی لیکن جب تک وہ کمرے میں تھیں زوریز باہر ہی تھا اور زوریز سے بچنا اس کے لیے زیادہ ضروری تھا پر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ جتنا مرضی زور سے بچ لیتی بخشنے والا وہ پھر بھی نہیں تھا –