Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 15

وہ ڈیٹیکٹو سے مل کر واپس ایا تو دیا ابھی تک رسو رہی تھی – اس کے سونے پر بالاج کو کوئی مسلہ بھی نہ تھا اس کی بلا سے وہ مرضی کرتی – کچن میں جا کر اس نے راشن کا سامان دیکھا تو لانے والا تھا اس لیے وہ راشن کا سامان لینے واپس باہر چلا گیا -جب راشن کا سامان لے کر وہ واپس ایا تو دیا جاگ چکی تھی –
اسے دیکھ کر پہلے تو بالاج حیرت ہوئی مگر پھر اچانک سے غصہ اس پر ہاوی یہ ہوا تھا کیونکہ دیا اس کے کپڑوں میں موجود تھی – اس کے کمزور سے جسم پر بالاج کی شرٹ یوں لگ رہی تھی جیسے تار پر کپڑے ڈالے ہوں جبکہ پینٹ کو بھی پورا کرنے کے لیے نیچے سے فولڈ کیا گیا تھا اور پینٹ کی فٹنگ اپنے حساب سے کرنے کے لیے اسنے بیلٹ میں کچھ نئے سوراخ خود کیے تھے –
کس کی اجازت سے تم نے میرے کپڑے پہنے ہیں ؟؟ سامان کو وہیں زمین پر رکھتے وہ غصے سے دیا کے پاس جاتا بولا جبکے دیا جو پہلے سے کافی بہتر تھی اور مسکرا کر بالاج کو دیکھ رہی تھی مگر اس کے یوں غصہ ہونے پر ایک دم سے کانپ گئی تھی – میرے پاس کپڑے نہیں تھے پہننے کے لیے اور یہ کپڑے بھی میں نے پچھلے دو دن سے پہن رکھے ہیں – اب کیا میں نائٹ ڈریس چینج نہیں کرتی ؟؟
گھر سے کوئی ڈریس نہیں لائی تھی – اس لیے میں نے تمہارے کپڑے پہن لیے – دیا نے معصومیت سے اسے ایکپلین کرتے کہا – ڈھیلی شرٹ جو کافی بڑی ہونے کی وجہ سے اس کے کندھوں سے سائیڈ کو ڈھلک رہی تھی اور اس کا ایک کندھا واضح نظر ا رہا تھا – بال کھلے چوڈے ہوئے تھے جبکہ چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے پاک تھا – وہ سادگی میں خوبصورت کے ساتھ ساتھ معصوم بھی لگتی تھی لیکن بالاج کو تو وہ ہر روپ میں زہر لگتی تھی –
تمہاری غلط فہمی ہے یہ کہ میں تمہیں اس طرح کے بہودا کپڑے پہننے دوں گا جو اپنے باپ کے گھر میں پہنتی تھی – جو بھی ہے اب تمہارا نام میرے نام کے ساتھ جڑ چکا ہے اور میں کبھی یہ برداشت نہیں کروں گا کہ تم اس طرح کی گھٹیا کپڑے پہنو – مس ملک تم نے اپنی باپ کے گھر کر لی جتنی عیاشی کرنی تھی یہاں پر تمہیں بالکل ویسے رہنا ہوگا جیسے یہاں کی لڑکیاں رہتی ہیں –
سنا تم نے ؟؟ اور خبردار جو اج کے بعد تمہارے جسم پر میں نے اس طرح کے کپڑے دیکھے تو اگ لگا دوں گا تمہارے جسم کو – اندر جا کر بیٹھو کمرے میں باہر مت نکلنا – میں بازار سے تمہارے لیے دو تین جوڑے لے کر اتا ہوں – بالاج اسے غصے سے کہتا ساتھ وارن کرتا گھر سے واپس باہر نکل گیا تھا –
دیا تو اس کی پر بات پر حیران تھی کہ اب وہ شلوار قمیض پہنے گی اس نے تو کبھی بھی نہیں پہنے تھے اس طرح کے کپڑے وہ کس طرح سے کیری کرے گی ان کپڑوں کو اسے الگ سے ٹینشن لگ گئی تھی لیکن وہ بالاج کی بات کو انکار بھی نہیں کر سکتی تھی – وہ اپنے کمرے میں جانے لگی کہ تبھی اس کی نظر وہیں زمین پر پڑے سامان کے شاپروں پر پڑی جنہیں بالاج اٹھانا بھول گیا تھا –
اس لیے کمرے میں جانے سے پہلے سامان کو اٹھا کر اس نے کچن کی ٹیبل پر رکھا اور واپس جا کر کمرے میں بیٹھ گئی تھی کیونکہ بالاج کا ارڈر تھا کہ جب تک وہ نہیں اتا وہ کمرے سے باہر نہیں نکلے گی اور وہ تو اس کی ہر بات ماننا خود پر فرض سمجھتی تھی –
بالاج دیا کے لیے دو تین جوڑے لے ایا تھا کپڑوں کے جن میں سے ایک گلابی رنگ کا شلوار قمیض دیا نے پہن لیا تھا لیکن دوپٹہ نہ لیا – وہ جب شلوار قمیض پہن کر باہر نکلی تو بالاج برامدے میں پڑی کرسی پر بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا – ڈیٹیکٹو سے مل کر اسے کچھ حوصلہ ہوا تھا کیونکہ اسے ڈیٹیکٹو کافی اچھا لگا تھا اور اسے یقین تھا وہ جلد ہی کھوج لگا لے گا کہ اخر اصل قاتل کون ہے –
ڈیٹیکٹو کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے وہ اس کا کانٹیکٹ نمبر بھی لے ایا تھا ابھی وہ بیٹھا موبائل پر اپنے گاؤں کے کچھ دوستوں سے بھی اسی متعلق بات کر رہا تھا کہ وہ نظر رکھیں گاؤں پر یعنی کسی بھی قسم کی کوئی ایسی بات جو فیاض اور زوریز سے متعلق ہو اسے باخبر کرتے رہیں – قدموں کی اہٹ پر اس نے سر اٹھایا تو دیا کو شلوار قمیض میں دیکھ کر چند پل وہ کچھ بوخ نہ پایا –
اسے دیکھنے میں ہی کھو گیا تھا وہ بہت ہی زیادہ پیاری لگ رہی تھی شلوار قمیض میں اس نے پہلی مرتبہ اس طرح کا مشرقی لباس پہنا تھا جو اس پر بہت زیادہ اٹھ رہا تھا – خاص طور پر اس کی سفید رنگت پر گلابی رنگ چچ رہا تھا کیونکہ اس کی سفید رنگت میں بھی ہلکا ہلکا گلاب پن تھا اس لیے اس پر گلابی رنگ اور زیادہ اٹھ رہا تھا لیکن اس کا دوپٹہ اس کے پاس نہ دیکھ اس کی تیوری چڑھی تھی –
دوپٹہ کہاں ہے تمہارا ؟؟ بالاج نے اسے دیکھتے پوچھا -وہ مجھ سے سنبھالا نہیں جا رہا میں نے اسے اندر رکھ دیا – اب تو میرے کپڑے ٹھیک ہیں لیکن دوپٹہ نہیں مجھ سے سنبھالا جا رہا جلدی سے بولی کہ کہیں وہ پھر سے اسے دوپٹہ لینے کو نہ کہہ دے جب کہ بالاج تو اپنی کرنے والوں میں سے تھا –
مس ملک وہ دوپٹہ اندر رکھنے کے لیے نہیں سر پر لینے کے لیے ہوتا ہے – جاؤ اور جا کر لو سنبھل نہیں رہا تو کیا اندر رکھ دو گی ؟؟ دو تین بار لو خود بخود ہی لینا ا جائے گا لیکن دوپٹہ تمہارے وجود سے الگ نہیں ہونا چاہیے – بالاج نے اسے انگلی دکھاتے کہا جبکہ دیا جو صبح سے اس کا مس ملک مس ملک سن رہی تھی اب چڑ گئی تھی -کیا مس ملک مس ملک خگا رکھی ہے ؟؟
میرا نام نادیہ ہے نادیہ نہیں کہہ سکتے تو دیا کہہ لو مگر مجھے میرے نام سے پکارو – دیا نے چڑھتے ہوئے کہا جب کہ بالاج نے اسے ایسے دیکھا تھا جیسے کہنا چاہتا ہو کچھ اور حکم ؟؟ اس کے یوں دیکھنے پر دیا پیر پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی وہ جانتا تھا کہ دیا کو کس قدر خواہش ہے اس کے منہ سے اپنا نام سننے کی اور اسی لیے وہ اس کا نام نہیں پکارتا تھا – پہلے تو وہ اسے میم کہتا تھا لیکن جب سے وہ اس کے نکاح میں ائی تھی تب بھی وہ اسے اس کے نام سے نہیں پکا رہا تھا بلکہ مس ملک کہہ کر پکار رہا تھا – نہ جانے کس چیز کا بدلہ لے رہا تھا اس سے –
سنو زبرش ! زبرش سٹور روم کی صفائی میں مگن تھی کہ تبھی اقرا سٹور روم میں اتی رازانہ انداز میں اسے پکارتی ہوئی بولی جبکہ اچانک اس کے یوں ا کر پکارنے پر زبرش ایک دم ڈر کے اچھلی تھی – یا اللہ اقرا تم نے تو مجھے ڈرا دیا – اس نے دل پر ہاتھ رکھتے لمبے لمبے سانس لیتے کہا جب کہ اقرا نے اس کے یوں ڈرنے پر دانت دکھائے تھے – اچھا میری بات سنو –
اقرا نے اس کے پاس جا کر اس کا ہاتھ پکڑتے کہا جب کہ اس کے یوں بے قراری سے کہنے پر زبرش حیران ہوئی تھی – کیا ہوا کیا بات کرنی ہے ؟؟ زبرش نے پوچھا جب کہ اس کی یوں پوچھنے پر اقرا نے شرمانا شروع کر دیا تھا – جس کی زبرش کو بالکل بھی سمجھ نہیں ائی تھی اللہ اللہ اقرا کیا ہو گیا ہے شرما کیوں رہی ہو ؟؟ زبرش نے حیرت سے پوچھا – وہ تم نے میرے ان کو دیکھا ہے ؟؟
اقرا نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے کہا جب کہ اس کی فلوپ ایکٹنگ پر زبرش نے انکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تھا – اقرا اپنی یہ دو نمبر قسم کی ایکٹنگ بند کرو مجھے پتہ ہے تمہیں بالکل بھی شرم نہیں ا رہی – اور دوسری بات میں نے تمہارے ان کو کیوں دیکھنا ہے ؟؟ زبرش نے اسے کہتے ہاتھ میں پکڑا جھاڑ پوج والا کپڑا سائیڈ میں رکھا تھا – اوہو دیکھا ہوگا نا تم نے ایسے نظر پڑ ہی جاتی ہے –
تو بتاؤ نا تم کیسا لگا تمہیں وہ ؟؟ پیارا تھا ؟؟ اقرا نے تجسس سے پوچھا جب کہ جب زبرش نے نام میں سر ہلایا تھا – نہیں میں نے نہیں دیکھا گزرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا اور میری بلا سے وہ پیارا ہو نہ ہو مجھے کیا – تم نے نہیں دیکھا کیا ؟؟ زبرش نے پہلے انکار کرتے بعد میں اس سے پوچھا جس پر اقرا نے واپس سے شرمانا شروع کیا تھا –
ہاں میں نے دیکھا ہے لیکن میں تم سے پوچھنا چاہ رہی تھی کیونکہ مجھے تو وہ بہت پیارے لگے – میں دیکھنا چاہتی تھی کہ یہ صرف میری نظروں کا کمال تھا کہ وہ پیارے لگے یا وہ واقعی پیارے ہیں اس لیے تم سے پوچھ رہی تھی ؟؟
اقرا کی بے ڈھنگی بات پر زبرش نے تاسف سے سر ہلایا تھا – تمہارے بھائی نے انتخاب کیا ہے تو اچھا ہی کیا ہوگا تمہارے لیے وہ برا انتخاب تو کرنے سے رہے کیونکہ ان کی ساری محبتیں سارا خلوص تمہارے لیے ہی تو ہے باقی ساری دنیا تو ان کے لیے جوتی کی نوک پر ہے – زبرش کے لہجے میں گہرا دکھ تھا جبکہ اس کے لہجے میں دکھ دیکھ اقرا نے اگے ہو کر اسے گلے لگایا تھا –
تم فکر نہ کرو زبرش دیکھنا انشاءاللہ ایک دن بھائی تمہارے ساتھ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے جب انہیں تمہاری قدر ہوگی – اقرا نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا جس پر زبرش مسکرائی تھی – نہیں مجھے اس دن کی امید نہیں ہے نہ ہی مجھے ایسا کوئی دن اپنی زندگی میں چاہیے اور نہ میں نے کبھی امید لگائی ہے کہ وہ میرے ساتھ اچھے ہوں – کیونکہ مجھے ان کے اچھے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا –
لیکن مجھے تم یہ بات بتاؤ کہ تم باقی سب کی طرح مجھ سے نفرت کیوں نہیں کرتی ؟؟ مجھ پر حکم کیوں نہیں چلاتی مجھ پر طعنوں کی برسات کیوں نہیں کرتی ؟! بالاج بھائی کو برا بھلا کیوں نہیں کہتی ؟؟
فیاض تمہارا منگیتر تھا جبکہ سب لوگوں کے مطابق اسے میرے بھائی نے مارا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ میرے بھائی نے اس سے نہیں مارا کیونکہ میں اور میرا بھائی وہاں سے ایک ساتھ ہی گئے تھے اور فیاض تب زندہ تھا – زبرش نے اس سے پوچھتے ساتھ میں ایکسپلین کرنا چاہا جس پر اقرا پیچھے ہوئی تھی –
دیکھو زبرش مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کون ہو تمہارے بھائی نے کوئی جرم کیا ہے یا نہیں – ہاں مجھے دکھ ہے کہ فیاض میرا کزن تھا اور اس کی موت پر مجھے دکھ ہوا – وہ میرا منگیتر تھا اس بات کو کبھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا بس زوریز بھائی مجھے یاد دلاتے رہتے تھے کہ میں اس کی منگ ہوں حالانکہ مجھے کسی طرح کی اس کے ساتھ دلی اٹریکشن نہیں تھی اس لیے مجھے اس کی موت پر کوئی دکھ نہیں ہوا – ایک کزن کے ناطے ضرور ہوا لیکن میں اتنا جانتی ہوں جس کی موت انی تھی اس کی ا گئی ہم مرے ہوئے انسان کی خاطر زندہ لوگوں کو تکلیف نہیں دے سکتے اور جس نے جو جرم کیا ہے اس کا ازالہ اس کا بدلہ میرا اللہ خود ہی لے لے گا –
کیونکہ وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے اور بہتر حقیقت جاننے والا ہے – اقرا کی بات پر زبرش مسکرائی تھی کیوں کہ اس نے بہت خوبصورت جواب دیا تھا – ہاں واقعی اللہ سے بہتر کوئی بھی فیصلہ کرنے والا نہیں اس کی عدالت سب سے بہترین عدالت ہے کیونکہ وہاں کسی کا جھوٹ کسی کی سفارش نہیں چلتی وہاں سچائی چلتی ہے وہاں انصاف ہوتا ہے –
خیر میں تم سے پوچھنے ائی تھی جو اس بات کا جواب تو تم نے مجھے دیا نہیں – کیونکہ تم نے تو دیکھا نہیں میرے ان کو تو چلو پھر میں چلتی ہوں تم کرو اپنے کمرے کی صفائی اور بہتر حالت میں کرو تاکہ رہنے کے قابل ہو ویسے تمہارا یہاں رہنا بنتا نہیں کیونکہ تمہارا لالا کے کمرے میں رہنا بنتا ہے وہ تمہارے شوہر ہیں اور تم ان کی بیوی ہو ان کے نکاح میں ہو اور ایک بیوی اپنے شوہر کے کمرے میں ہی اچھی لگتی ہے – لیکن دعا ہے یہ بات بھائی کو جلدی ہی سمجھ ا جائے –
اقرار وہاں سے جانے لگی تو زبرش سے بولی جب کہ اس کی بات پر زبرش نے نہ میں سر ہلایا تھا – نہیں اقرا میں تمہارے بھائی کے نکاح میں ضرور ہوں لیکن ان کی بیوی کے طور پر نہیں ان کی ونی کے طور پر اور ایک ونی کا رتبہ یہی ہے اسے بیوی کا مقام نہیں دیا جاتا – شوہر کے کمرے میں بیوی رہتی ہے ایک ونی نہیں -زبرش کے جواب پر ایک اقرا کچھ نہ بولی تھی اور خاموشی سے وہاں سے چلی گئی جبکہ زبرش واپس سے سٹور روم کی صفائی کرنے لگی تاکہ اسے قابل قبول حالت میں واپس لا سکے –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial