Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 16

زبرش سونے کے لیے زمین پر بنائے اپنے بستر پر لیٹنے ہی لگی تھی کہ تبھی زوریز سٹور روم میں ایا تھا ؛ سٹور روم کی بدلی حالت دیکھ اس نے داد بھرے انداز میں ائی برو اٹھائی تھی – واہ اچھا کیا تم نے جو کمرہ صاف کر لیا – میرے خیال سے تم یہ سمجھ گئی ہو کہ اب تمہارا مستقل ٹھکانہ یہی ہے –
زوریز نے چھپتے ہوئے لہجے میں کہا جب کہ اس کی بات کا ذبرش نے جواب دینا ضروری سمجھا تو بولی – مستقل ٹھکانہ نہیں ہے یہ میرا وقتی ٹھکانہ ہے لیکن اگر وقتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اسے گندا رکھوں گی –
کتا بھی بیٹھنے سے پہلے جگہ صاف کرتا ہے میں تو پھر انسان ہوں – زبرش کے جواب پر زوریز کو غصہ ایا تھا – وہ لڑکی کیوں نہیں ڈرتی تھی اس سے ؟؟ اس نے بے وفائی کرتے اسے تڑپانا چاہا تو وہ اس کی بے وفائی سہہ گئی ، اس نے اسے الفاظوں سے جب جب زخمی کرنا چاہا تو تب تب اس نے اسے جواب دیا –
ابھی بھی اس کے جواب پر اسے غصہ ایا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر وہ مسکرایا تھا – زیادہ ہواؤں میں مت اڑو مستقل ٹھکانہ ہی ہے یہ تمہارا کیونکہ جس بھائی کی آس پر تم یہاں ائی ہو نا کہ وہ تمہیں بچا لے گا – تو تمہیں بتاتا چلوں کہ وہ تو شہر چلا گیا ہے تمہیں یہیں مرنے کے لیے چھوڑ کر –
اگر اسے تمہاری فکر ہوتی تو وہ یہی گاؤں میں رہتا تمہیں بچانے کے لیے ثبوت اکٹھے کرتا – لیکن اگر وہ بے گناہ ہوتا تو لیکن وہ بے گناہ نہیں ہے نا اس لیے تو بھاگ گیا کیونکہ اس کی جان تو چھوٹ گئی زوریز نے تیلی لگانے والے انداز میں کہا – اسے تھا کہ اب تو پکا زبرش کچھ نہ کچھ بولے گی تڑپے گی اسے دکھ ہوگا لیکن اس کی بات پر زبرش مسکرائی تھی –
اچھا طریقہ تھا مجھے میرے بھائی سے بدگمان کرنے کا لیکن اپ کو بتاتی چلوں زوریز خان افریدی کہ میں اپ کی بات کو سن کر اپنے بھائی کے لیے دل میں نفرت پیدا نہیں کرنے والی کیونکہ میں جانتی ہوں میرے بھائی کو میری مجھ سے زیادہ فکر ہے – اگر وہ یہاں سے گیا بھی ہے تو ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی وہ مجھے یوں چھوڑ کر جانے والوں میں سے ہے نہیں –
ضرور اس نے کوئی ترکیب ہی سوچی ہو گی جس کے سبب اسے شہر جانا پڑا اپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے میرے بھائی کا زیادہ علم ہے – میں اپ کی باتوں میں ا کر بدگمان ہونے والی نہیں اگر اپ مجھے یہ بھی کہہ دیتے نہ کہ زوریز خان کو بالاج خان نے زبرش خان کو بیچ دیا ہے تو بھی میں اپ کی بات کا یقین نہ کرتی –
ارے اپ کیا میرا اپنا بھائی میرے منہ پہ ا کر یہ الفاظ بھی کہے تو میں تب بھی اس کی بات کا یقین نہ کروں کیونکہ میں جانتی ہوں میرا بھائی کس قدر محبت کرتا ہے مجھ سے – اس نے مجھے بچپن سے پالا ہے اولاد کی طرح اور اپنی اولاد کو کوئی بھی تکلیف میں نہیں دیکھتا –
اچھا ہوا وہ چلے گئے ورنہ اگر یہاں گاؤں میں رہتے تو اپ نت نئے طریقے سے انہیں پریشان کرتے – اب کم سے کم وہ گاؤں سے دور ہوں گے تو سکون سے ثبوت ڈھونڈ سکیں گے – تو کیا ہوا اگر وہ گاؤں میں نہیں دور رہ کر بھی وہ یہ کام کر سکتے ہیں – زبرش نے پھر سے اسے اچھے سے جواب دیا تھا جبکہ اب کی بار تو زوریز کا غصے سے بہت ہی زیادہ برا حال ہوا تھا –
زیادہ زبان چلتی ہے نا تمہاری کوئی نہیں جب تمہارا بھائی نہیں پلٹے گا نا اپنی زندگی میں خوش و خرم مگن ہو کر رہ جائے گا اور تمہیں پلٹ کر بھی نہیں پوچھے گا تب دیکھوں گا میں کہ تمہاری زبان جاتی کہاں ہے – لیکن ابھی کے لیے مجھے اچھے سے اتا ہے تمہاری زبان کو لگام لگانا –
غصے سے اس کا منہ دبوجھتے زوریز ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولا اور پھر اخری بات کہتے ہیں اس نے اس کا منہ چھوڑ بازو پکڑا اور اپنے ساتھ لے جانے لگا جبکہ اس کے یوں خود کو کھینچنے پر زبرش کی واقع ہی زبان دنگ ہوئی تھی – مجھے مجھے نہیں جانا چھ..چھوڈو مجھے سردار میں کہہ رہی ہوں مجھے نہیں جانا –
زبرش بے بسی سے بولی جب کہ زوریز نے اس کی بات پہلے کب مانی تھی جو مانتا اسے اپنی بات نہ مانتا دیکھ زبرش نے اپنا وجود ڈھیلا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ جتنا چیخے گی چلائے گی اس کے سامنے منتیں کرے گی وہ اتنا ہی اسے تڑپائے گا اسے ٹارچر کرے گا –
چیخنے چلانے سے بھی تو اس نے اس کی ہر ظلم کو برداشت کرنا تھا تو پھر وہی ظلم وہخاموشی سے سہہ کر اسے بھی تکلیف دیتی – کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا ہر ظلم پر خاموش رہنا اور ہر بات کا بنا ڈرے جواب دینا ہی زوریز کو غصہ دلاتا ہے –
اقرا کی یونی شہر میں تھی اور کل سے اس کی کلاسزز تھیں – اس لیے زوریز کا شہر میں موجود فارم ہاوس جا کر رہنے کا ارادہ تھا – اس کا ارادہ تھا کہ اقرا کو یونی چھوڈ کر خود وہ واپس گاوں آکر گاوں کے کام نپٹا لیتا –
چچی ، فرح اور چچا کے پاس بھی کوئی نہیں ہونا تھا اس کے جانے کے بعد اس لیے اس کا روز آنا بہتر تھا – ویسے تو وہ روز اقرا کو یہیں سے چھوڈ آتا اور لے آتا مگر اس کی بہن تھک جاتی روز روز کے لمبے سفر سے – اس لیے اس نے شہر جانے کا ارادہ کیا تھا – اقرا تو بہت خوش تھی یہاں سے جانے کے لیے –
اس نے زوریز کو زبرش کو ساتھ لے جانے کے لیے بھی منا لیا تھا – اسے پتا تھا کہ اگر زبرش یہاں رہتی تو زبرش کی لاش ہی ملتی اس کی واپسی پر – اس لیے اس نے زوریز کو مشکل سے ہی سہی مگر منا لیا تھا زبرش کو ساتھ لے جانے کے لیے –
زبرش چچی اور فرح کو چائے دے رہی تھی کہ تبھی اس کے سر سے ڈوپٹہ سرکا تھا – اس کے سر سے ڈوپٹہ ہٹتا تو فرح کی اچانک نظر اس کی گردن پر پڑی تھی – تمہاری گردن پر کیا ہوا ہے ؟؟
فرح نے اس کی گردن پر نظر اتے لال نشانوں کو دیکھتے سخت لہجے میں پوچھا جبکہ اس کے سوال پر چچی کو چائے دیتی زبرش کے ہاتھ کپکپائے تھے – و…وہ ا..الرجی ہوئی ہے – اس نے گھبراتے ہوئے جھوٹ بولا جبکہ جھوٹ کہتے اس کی آنکھوں کے پردوں پر رات کا سارا منظر گھوما تھا جب زوریز نے اس کی گردن اور جسم پر اپنی شدتوں کے نشان چھوڈے تھے –
اس کی بات پر چچی نے فوراً کھڑے ہوتے اس کی گردن کا معائنہ کیا تھا – زبرش جو جلدی سے ڈوپٹہ واپس سر پر کرتے گردن کو کور کرنے لگی تھی چچی کے یوں گردن کا معائنہ کرنے پر رک گئی تھی – یہ …یہ الرجی نہیں ہے – چچی نے اس کی گردن کے نشان دیکھتے فوراً پہچان لیے تھے اس لیے غصے سے بولیں جبکہ ان کے پہچاننے پر جہاں زبرش کو خوف آیا تھا وہیں فرح کا پورا جسم آگ کی سی جلن سے بھرا تھا –
پہچان تو وہ بھی گئی تھی کیونکہ اتنی بچی تو وہ بھی نہیں تھی مگر وہ یہ سوچ چپ تھی کہ زوریز ایک ونی کو کہاں منہ لگائے گا – اس لیے اگنور کرگئی مگر امی کی بات پر اس کو یقین ہو گیا تھا – تمہاری ہمت کیسے ہوئی زوریز کے قریب جانے کی اسے اپنی طرف راغب کرنے کی ؟؟ فرح نے غصے سے اس کے پاس جاتے اس کی گردن دبوچتے کہا جبکہ اس کی بات پر زبرش حیران تھی –
اس نے کب کیا تھا زوریز کا اپنی طرف مائیل یا پھر کب وہ خود اپنی مرضی سے زوریز کے قریب گئی تھی – میں نے ایسا کب …. چٹاخ ! تیری اتنی ہمت کہ تو زوریز کو اپنی ادائوں سے لبھانے کی کوشش کرے – اس سے پہلے وہ کچھ بولتی چچی نے فرح کو سائیڈ کرتے اس کے تھپڑ مارتے کہا جس کے سبب اس کا منہ دوسری طرف ہوا تھا اور اسے کسی کے جوتے نظر آئے –
اس نے یوں ہی نظریں اٹھائے دیکھا تو زوریز کو دیکھ اس نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا جبکہ اس کے اچانک آنے سے چچی اور فرح بھی گزبڑائی تھیں – کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ زوریز کی بھاری سنجیدہ آواز پر چچی اور فرح کانپ گئی تھیں – وہ زوریز یہ لڑکی تم پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور جان بوجھ کر تمہارے قریب ہونا چاہتی ہے –
ہم تو بس یہ پوچھ رہے تھے کہ وہ رات کو تمہارے پاس کیا کرنے گئی – فرح نے فوراً بات سنبھالنے کی کوشش کرتے کہا – جبکہ اس کی بات پر پہلے تو خود پر بندھ باندھے کھڑی زبرش کو زوریز نے دیکھا اور پھر فرح کو – رات وہ میرے نہیں میں اس کے قریب گیا تھا بلکہ رات ہی نئی ایک دو بار اور میں اس کے ساتھ رات گزار چکا ہوں –
کوئی مسلہ کسی کو ؟؟ زوریز کی بات پر فرح اور چچی دونوں کی آنکھیں کھلی تھیں – آپ کیسے کر سکتے ہو یہ میرا ساتھ ؟؟ فرح نے دکھ سے پوچھا – میری مرضی میں جو مرضی کروں اور دوسری بات آج کے بعد کوئی بھی میرے علاوہ زبرش کو ٹورچر نہیں کرے گا – ویسے بھی وہ اج میرے اور اقرا کے ساتھ شہر ہی جا رہی ہے –
اور اگر تمہیں کوئی مسلہ ہے تو بتا دو رشتہ توڑنے میں دیر نہیں لگتی – زوریز کی باتوں پر چچی اور فرح دونوں کو بہت غصہ تھا مگر اس کی آخری بات ان کے لیے دھمکی ثابت ہوئی تو چپ رہی تھیں اور زبرش تو خود حیران ہو کر زوریز کو دیکھ رہی تھی – مجھے دیکھنا بند کرو اور اقرا کے ساتھ پیکنگ کروا –
اس کے خود کو دیکھنے پر زوریز نے سختی سے کہا جس پر وہ وہاں سے چلی گئی تھی – اس کے جاتے ہی زوریز بھی چلا گیا اور پیچھے چچی اور فرح غصہ پی کر رہ گئی تھیں –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
خان مجھے ڈیڈ کی طرف لے چلو میں کچھ ضروری سامان لانا ہے وہاں سے – خان گھر سے باہر نکل رہا تھا کہ تبھی دیا نے اسے پکارتے ہوئے کہا – کل کے بعد ان کی آج بات ہو رہی تھی – کیا لینا ہے ؟؟
مجھے لسٹ دے دو بنا کر میں لے اوں گا مگر تم اپنے ڈیڈ کے گھر کی کوئی چیز نہیں یوز کرو گی – بہت شوق سے شادی کری ہے مجھ سے تو اب یہیں کے لائف سٹائیل گزارو زندگی – مہنگی چیزوں کو بھول کر سستی چیزوں کو یوز کرنا سیکھو – بالاج نے بنا اس کی پوری بات سنے اپنی ہی سنا دی تھیں –
نہیں وہ کچھ پرسنل چیزیں لانی ہیں اور پھر میرا موبائل ، لیپ ٹاپ وہیں پڑا ہے – ساتھ مجھے ڈیڈ سے بھی ملنا ہے – دیا کی بات پر وہ شاید نہ مانتا ابھی بھی مگر جب اس نے اداسی سے باپ سے ملنے کو کہا تو وہ مان گیا تھا – اوکے ڈوپٹہ سہی سے لو اور آ جاو – بالاج جان چھڈانے والے انداز میں بولتا باہر نکل گیا تو وہ بھی خوش ہوتی باہر نکلی تھی –
باہر نکل اس نے جب بالاج کو بائیک پر بیٹھے دیکھا تو وہ پریشان ہوئی تھی – اسے بائیک پر بیٹھنا بلکل بھی نہیں آتا تھا – تم مجھے بائیک پر لے کر جاو گے ؟؟ دیا نے پریشانی سے پوچھا –
یہ کیا تم نے تم تم لگا رکھی ہے مس ملک ؟؟ آپ کہا کرو مجھے اب کیونکہ اب میں تمہارا نوکر نہیں بلکہ شوہر ہوں اور بائیک پر نہیں جائیں گے تو کیا تمہارے لیے جہاز لاوں ؟؟ میں غریب سا بندہ ہوں میرے پاس تمہارے باپ کی طرح گاڑیوں کے شو روم نہیں ہیں – چلنا تو بیٹھو ورنہ رہو گھر –
بالاج غصے سے اس کا سانس سکھاتے بولتا بائیک سٹارٹ کر چکا تھا جبکہ اس کو بائیک سٹارٹ کرتے دیکھ دیا جلدی سے بائیک پر مشکل سے بیٹھی – اس کے بیٹھتے ہی بالاج نے بائیک سٹارٹ کرتے آگے بڑھائی تو دیا نے ڈر کر اس کے گرد بازو ہائیل کرتے اپنا سر اس کے کندھے پر ٹکایا تھا جبکہ زبان پر ایک ہی بات کا آنکھیں بند کیے ورد تھا – ( میں گئی ، گئی میں ، اللہ میں نہ گروں ، نہ میں ) –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial