قسط: 17
وہ جیسے ہی ملک ولا پہنچی تو انور ملک گھر سے باہر ہی نکلنے والے تھے ۔ ڈیڈ ! دیا نے خوشی سے انہیں پکارا اور بھاگ کر ان کے گلے لگی تھی ۔ جبکہ انور ملک جو خود دیا سے ملنے کے لیے خان کے گھر جانے والے تھے اسے دیکھ کھل اٹھے تھے ۔ ڈیڈ کی جان! ڈیڈ کا پیارا بیٹا ! ڈیڈ کو بہت یاد آ رہی تھی تمہاری ۔
وہ اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے لاڈ سے بولے جس پر دیا نے بھی مسکراتے ہوئے آگے ہو کر ان کے گال پر لب رکھے تھے ۔ مجھے بھی آپ کی بہت یاد آرہی تھی اس لیے میں آپ سے ملنے آگئی ۔ وہ واپس ان کے سینے سے لگتی لاڈ سے بولی جس پر انور ملک نے اس کے سر پر بوسہ دیا تھا ۔ خان نہیں آیا ؟ انہیں خان کا خیال آیا تو پوچھا ۔
نہیں وہ کہہ رہے تھے ضروری کام ہے انہیں تو مجھے رات تک پک کر لیں گے ۔ دیا کے جواب پر وہ حیران ہوئے تھے ۔ کیا مطلب رات کو پک لے گا ؟ کیا تم اب ہمیشہ وہیں اس کے اس چھوٹے سے گھر میں رہو گی ؟ انہوں نے حیرت اور پریشانی سے پوچھا ۔ ظاہر سی بات ہے ڈیڈ اب وہ خان کا گھر ہے اور خان میرا شوہر تو میں وہیں رہوں گی نہ ۔
دیا نے ہال کے صوفے پر بیٹھتے کہا ۔ پر کیوں میری جان ؟ تم کیسے رہو گی وہاں ساری زندگی ؟ وہاں نہ اے سی ہے ، نہ ہی تمہارے کمرے جیسا شاندار کمرہ ہے بلکہ وہ پورا گھر ہی تمہارے ایک کمرے جتنا ہوگا ۔ تم نہیں رہ پاو گی وہاں کیونکہ وہاں کچھ بھی تمہارے لائف سٹائیل کے مطابق نہیں ہے ۔
وہاں کچھ بھی نہیں ہے ۔ ملک انور اسے سمجھاتے ہوئے بولے جس پر دیا ان کی بات پر ہسی تھی ۔ کیوں نہیں ہے وہاں کچھ بھی ؟ وہاں خان ہے ڈیڈ اور یہ ہی میرے لیے بہت بڑی دلیل اور وجہ ہے وہاں رہنے کی ۔ دیا نے جیسے بات ہی ختم کی تھی جبکہ انور ملک کو کو فکر تھی اس کی کیونکہ وہ ان کی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی تھی ۔
وہ بچپن سے ہی سہل رہی تھی کیونکہ اس نے آسائیشوں سے بھری زندگی گزاری تھی – ابھی تو وہ کہہ رہی تھی کہ وہ رہ لے گی کیونکہ ابھی موسم اچھا تھا مگر وہ جانتے تھے کہ جیسے ہی گرمیاں ائیں گیں تب دیا کو مشکل ہوگی ۔
زبرش ، اقرا اور زوریز شہر شفٹ ہوگئے تھے – اسلام آباد شہر میں ہی تو پہلے زبرش اور بالاج رہتے تھے –
جب وہ اسلام آباد پہنچے تو زبرش کا دل کھل اٹھا تھا مگر اس نے زوریز لوگوں کو اپنی خوشی محسوس نہ ہونے دی تھی کیونکہ اگر زوریز کو پتا چلتا کہ اسلام آباد میں ہی بالاج رہتا ہے تو وہ زبرش کو فوراً گاؤں واپس لے جاتا –
اور زبرش ایسا نہیں چاہتی تھی – اب اسے بس کسی بھی طرح سے بالاج سے رابطہ کرکے اسے بتانا تھا کہ وہ شہر آگئی ہے تاکہ اس کی پریشانی تھوڑی کم ہوتی –
زوریز اقرا کو یونی کے گیٹ تک چھوڈ کر گیا تھا جبکہ جاتے ہوئے اس نے اقرا کو کچھ ایسا کہا تھا جس کی وجہ سے وہ تجسس میں پڑ گئی تھی کیونکہ اسے زوریز کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی –
. خیر اپنی عادت سے مجبور اس نے اپنے تجسس کو بھاڑ میں جھونکا اور خود ایکسائیٹڈ سی یونی کے اندر داخل ہوئی – اندر جاتے ہی اس نے ایمان کو ڈھونڈنے کے لیے اپنی نظریں ایدھر ادھر گھمائی تھیں کیونکہ اس نے بتا دیا تھا ایمان کو اپنے آنے کا اور ایمان نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ گیٹ کے پاس اندر ہی اس کا انتظار کرے گی –
اس نے جب آس پاس اسے ڈھونڈنا چاہا تو اسے وہ تھوڑی دور ہی نظر ائی جو اسے دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلاتی اس کے قریب آ رہی تھی – کیسی ہو میری خوبصورت پٹھانی ؟ ایمان نے اس کے پاس آکر اسے زور سے ہگ کرتے پوچھا جبکہ اتنے دنوں بعد اپنی دوست سے مل کر وہ خود بھی بہت خوش تھی –
میں بلکل ٹھیک تم سناو کیسی ہو ؟؟ اقرا نے بھی اسی چاہت اور خوشی سے پوچھا – میں بھی فٹ فاٹ ہوں – اور اب تو اور زیادہ اچھی ہو گئی ہوں کیونکہ تجھے جو دیکھ لیا ہے – ایمان نے اس کے نقاب سمیت ہی گال کھینچتے کہا جس پر اقرا نے اسے گھورا تھا – اچھا چلو او تمہیں تمہارا ڈیپارٹمنٹ دیکھاوں –
ایمان اس کے گھورنے کو اگنور کرتی اس کا ہاتھ پکر کر اس کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف لیجانے لگی جبکہ اقرا بھی خوشی سے اس کے ساتھ جانے لگی –
آج تجھے میں سر خان دیکھاوں گی – تجھے شوق تھا نہ انہیں دیکھنے کا – ایمان نے اسے اس کے ڈیپارٹمنٹ میں لے جا کر سلپ سے اس کا رولنمبر اور کلاس وغیرہ سب دیکھ کر اسے کلاس کا بتا دیا تھا اور خود وہ اسے لیے اپنے میٹھ ڈیپارٹمنٹ کے کوری ڈور میں کھڑی اس سے بولی جس پر اقرا نے ڈرامائی اہ بھری تھی –
بس کر دے ظالم عورت اب جلے پر نمک نہ چھڑک – تجھے پتا ہے کہ اب میرا نکاح ہو گیا ہے اور میں اب تیرے سر خان کو نہیں رکھ سکتی اپنا کرش – کیونکہ میرے وہ بہت پیارے ہیں اور میری دل کو گولی کی طرح ٹھا کر کے نہیں بلکہ توپ کی طرح ڈھز کر کے لگے ہیں – جس کی وجہ سے تیرے سر میرے کرش والے چیپٹر سے آوٹ ہو گئے ہیں –
اقرا کی باتوں پر ایمان ہس ہس بری ہوئی تھی – شکر ہے میرے سر خان کی جان چھوٹی تجھ سے کیونکہ میرے سر بہت شریف ہیں اور تم بے حد بے شرم – تم نے میرے سر کو بھی خراب کر دینا تھا – ایمان کی بات پر اقرا نے آنکھیں گھمائی تھیں – بس رہتے نہیں کوئی اتنے شریف تیرے سر خان – مرد کبھی شریف نہیں ہوتا – اقرا کے تپ کر کہنے پر ایمان ہستے ہوئے اسے گھورا –
شرم کر کیا پتا تیری کلاس کا کوئی لیکچر انہیں مل جائے کیونکہ بی ایس اکنامکس میں بھی میٹھ پڑھی جاتی ہے – تو شرم کر لے استاد کو ایسے نہیں کہتے – ایمان نے اسے شرم دلاتے کہا مگر اقرا کو کب کسی کی پرواہ تھی –
ارے وہ دیکھ وہ ہیں سر خان – ایمان کی اچانک نظر جب سر خان پر پڑی تو اقرا کا کندھا ہلاتی وہ بولی جس پر اقرا نے مڑ کر پیچھے دیکھا تھا مگر جب اس کی نظر اپنے پیچھے سے گزرتے سر خان پر گئی تو وہ سکتے میں رہ گئی تھی – اس کے قدم لڑکھڑائے تھے –
اس سے پہلے وہ گرتی ایمان نے اسے سہارا دیتے سنبھالا تھا – کیا ہوا اقرا ؟؟ ایمان نے پریشانی سے پوچھا – و..وہ سس…سر خان ہے ؟؟ اقرا نے حیرت کی زیادتی سے لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا جس پر ایمان نے ہاں میں سر ہلایا تھا – وہی ہیں سر خان مگر تم کیوں ایسے پوچھ رہی ہو ؟؟ ایمان نے ناسمجھی سے پوچھا –
کیونکہ تیرے سر خان میرے مسٹر خان ہیں – اقرا کی بات کی ایمان کو سمجھ نہیں آئی تھی – کیا کہہ رہی ہے ؟؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں ا رہی – ایمان کے پھر سے نا سمجھی سے پوچھنے پر اقرا نے لمبا سانس کھینچا تھا –
میں کہہ رہی ہوں سر خان وہی ہیں جس سے میرا نکاح ہوا ہے – یعنی تمہارا سر خان میرا شوہر بہرام خان ہی ہے – اقرا کے ڈیٹیل سے بتانے پر اب تو ایمان کی بھی آنکھیں کھلی تھیں –
ہاں اس نے تو غور ہی نہ کیا تھا کہ سر خان کا نام بھی تو بہرام خان تھا – وہ کافی دیر تو حیرانگی سے اقرا کو دیکھتی رہی اور پھر قہقہ لگا کر ہسی تھی اور ہستی ہی چلی گئی تھی – ہاہا اقرا تیری بات سچ ہوگئی کیونکہ سر خان واقع تیرے مسٹر خان بن گئے – اوہ اقرا یار تو واقع سر خان کی بیوی بن گئی –
چل اب تو بول لے سر کو جو بولنا ہے کیونکہ اب تیرا حق ہے – ایمان کا ہس ہس برا ہال تھا جبکہ اس کے ہسنے پر اقرا اس پر لانت بھیجتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ ایمان ابھی بھی وہیں کھڑی ہس رہی تھی –
اقرا کو اب سمجھ آئی تھی کہ صبح جب زوریز نے اس سے کہا کہ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ سر خان ہی بہرام خان ہے –
اس نے ایک بار ہی مزاق میں کہا تھا اپنے بھائی سے کہ اگر فیاض والا چپٹر کلوز ہوا تو اس کے کرش کو یاد رکھنا اور واقع اس کے بھائی نے اس کے کرش کو یاد رکھا تھا – اپنے بھائی کی محبت محسوس کر اقرا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی –
زوریز اقرا کو یونی چھوڈ وہیں سے گاوں چلا گیا تھا آج اسے دو تین دوسرے گاوں میں بھی جانا تھا کچھ مسائیل دیکھنے – کہنے کو تو بہت بڑے رتبے والی بات تھی کہ وہ پندرہ گاوں کا سردار ہے –
دیکھنے والے اسے دیکھ آہیں بھرتے تھے مگر صرف وہی جانتا تھا کہ اس کے لیے کتنا مشکل ہوتا تھا پندرہ گاوں کو ایک ساتھ دیکھنا اور سنبھالنا – دوسر گاوں جانے سے پہلے وہ حویلی گیا تھا کیونکہ اس کی عادت تھی ہر صبح چچا سے باتیں کرنے کی – وہ اس کی بات کا جواب چاہے نہیں دے سکتے تھے پر اسے سکون ملتا تھا اپنی ٹینشن ان سے بانٹ کر –
چچا کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر وہ واپس جانے لگا تو چچی نے روک لیا – زوریز مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے – چچی کے کہنے پر وہ رکا تھا – جی بولیں چچی – اس نے ادب سے کہا – بیٹا میں کہتی اچھی تو نہیں لگتی پر ضروری ہے –
دیکھو سب تمہارے سامنے ہے – چچا تمہارے قومہ میں ہیں ، فیاض ہمیں چھوڈ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلا گیا اور میں بہت بیمار رہتی ہوں – تو میں کہنا چاہتی تھی کہ تم شادی کے بارے میں سوچو – کیونکہ میں اپنی زندگی میں ہی فرح کی شادی کرنا چاہتی ہوں –
چچی نے دنیا بھر کی اداسی اور مظلومیت لہجے میں سموئے کہا جبکہ اپنے کمرے کے دروازے کے پیچھے چھپی فرح بھی خوشی اور تجسس سے زوریز کے جواب کی منتظر تھی – آپ فکر نہ کریں چچی – انشاللہ چچا بھی ٹھیک ہوں گے اور آپ کو بھی کچھ نہیں ہو گا –
رہی بات فرح اور میری شادی کی تو ظاہر سی بات ہے وہ میری منگ ہے اور اس کی شادی مجھ سے ہی ہوگی – لیکن ابھی مجھے سال بھر کا وقت دیں – زوریز کے جواب پر دونوں ماں بیٹی کھل اٹھی تھیں –
ہاں بیٹا کوئی نہیں جہاں اتنے سال انتظار کیا وہاں ایک اور سہی – چچی نے چاپلوسی بھرے لہجے میں کہا جبکہ زوریز محظ مسکراتا انہیں خدا حافظ بول وہاں سے چلا گیا تھا –