Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

صبح کے تین لیکچر بہت مزے کے گزرے تھے کیونکہ پروفیسرز نے محض انٹرو ہی لیا تھا اور کچھ اپنا انٹرو دیا تھا – چوتھے لیکچر کی بیل پر سب سٹیوڈنٹ کو نئے آنے والے یا والی پروفیسر کا انتظار تھا –
اقرا کی اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی سے کافی اچھی سلال دعا ہو گئی تھی – ابھی بھی وہ اس سے باتوں میں مصروف ضرور تھی پر دیہان دروازے پر تھا کیونکہ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ میٹھ کا پروفیسر بہرام ہی ہوگا – اور واقع ہی اسے بیل ہونے کے دو منٹ بعد ہی کلاس کے دروازے سے بہرام اندر آتا دیکھائی دیا تھا –
اسے دیکھتے ہی اقرا کی نقاب میں چھپے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی – جبکہ کلاس کی باقی لڑکیاں اور لڑکے آنکھیں پھاڑے اپنے سر کو دیکھ رہے تھے – کیونکہ پہلے جو دو سر لیکچر لینے آئے تھے وہ تو موٹے اور ایجڈ تھے اور انہیں یقین تھا کہ اب بھی کوئی موٹا اور ایجڈ سر ہوگا مگر یہاں تو سب اپنے سر کی پرسنیلٹی دیکھ دنگ رہ گئے تھے –
بلیو تھری پیس پہنے براون بالوں کو ترتیب سے سیٹ کیے وہ ان کے سامنے کھڑا تھا – سفید پٹھانی رنگت تیکھی ناک بئیرڈ اور مونچھوں کے درمیان عنابی ہونٹ اور انکھوں کی تو کیا ہی بات تھی – اس کی آنکھیں کالی رنگت کی تھی مگر ان کی شیپ اس قدر پیاری تھی کی دیکھنے والا آنکھوں کے دیکھ ماشاللہ کہے بغیر نہ رہے –
جب وہ ہستا یا مسکراتا تو اس کی دائیں آنکھ کے نیچے چھوٹا سا گڑھا بنتا تھا بلکل ویسے جیسے ہسنے پر گال پر ڈمپل پڑتا ہے – اور اس سے اس کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا تھا مگر وہ بہت کم ہستا تھا اور مسکراتا بھی کم تھا جس کی وجہ سے وہ گڑھا اپنی نمائش کو ترستا رہتا تھا –
میرے خیال سے استاد کے آنے پر انہیں کھڑے ہو کر سلام کیا جاتا ہے – سب کو اپنی جگہ جمے بیٹھے اور خود کو دیکھنے پر اس نے تنزیہ کہا جس پر اقرا سمیت سب فوراً کھڑے ہوتے اسے سلام کر گئے تھے – واعلیکم اسلام ! اب بیٹھ جاو سب – اس نے سب کے سلام کا جواب دیتے کہا جبکہ اس نے اس پورے وقت میں اقرا کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا –
اقرا کو حیرت تھی کہ وہ اسے کیوں نہیں دیکھ رہا – شاید انہوں نے دیکھا نہ ہو مجھے – اقرا نے خود سے کہتے تسلی رکھی تھی – تو کلاس جیسے کہ سب کا فرسٹ ڈے ہے تو بتائیں کہ کیا پہلے آپ لوگ انٹرو دیں گے یاں میں ؟ بہرام کے پوچھنے پر ساری کلاس نے پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اس کی جانب دیکھا –
سر آپ دیں پہلے کیونکہ آپ استاد ہیں – کلاس کے ایک لڑکے نے کھڑے ہوتے کہا – اوکے تو میں ہی دیتا ہوں – میرا نام بہرام خان ہے ، مجھے یہاں پڑھاتے تین سال ہو گئے ہیں –
عمر میری انتیس سال ہے اور ان گزرے تین سالوں میں میری کلاس کا رزلٹ بہت اچھا رہا ہے – امید کرتا ہوں آپ سب بھی اچھا رزلٹ دیں گے اور میرا ریکارڈ خراب نہیں کریں گے – بہرام نے اپنا تعارف کرواتے سب کو ساتھ پڑھائی کے لیے بھی الڑٹ کیا تھا –
سر کیا آپ شادی شدہ ہیں یا کوئی آپ کی منگنی ہوئی ہو ؟؟ کلاس کی ایک منہ پھٹ لڑکی نے پوچھا جس پر اقرا کے کان کھڑے ہوئے تھے بہرام کا جواب سننے کو –
مس میں ویسے تو پرسنل سوالوں کے جواب نہیں دیتا مگر آپ کا فرسٹ ڈے ہے تو آپ کو دے دیتا ہوں جواب – میں شادی شدہ نہیں ہوں اور نہ ہی کسی قسم کی منگنی وغیرہ میں قید ہوں – آئ آئیم سنگل –
اقرا جس نے بہرام کے جواب کے لیے گردن اکڑائی تھی کہ ابھی وہ کہے گا کہ میرا نکاح ہوا ہے اور پھر اس کی جانب اشارہ کرکے بتائے گا کہ یہ میری منکوحہ ہے مگر بہرام کی بات پر اس نے حیرت سے اسے دیکھا تھا –
وہ جھوٹ کیوں بول رہا تھا ؟؟ اسے سمجھ نہ آئی مگر غصہ ضرور آیا تھا – اب تو اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اسے نہ پہچاننے کی ایکٹنگ کر رہا تھا – مگر وہ بھی اقرا تھی اسے اچھے سے حساب برابر کرنے آتے تھے – کلاس کا انٹرو سٹارٹ ہوا تو ساری کلاس اپنے نام بتا کر بیٹھنے لگی –
اقرا اپنی باری آتے کھڑی ہوئی تھی – ہری آنکھیں پورے اعتماد سے بہرام کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں – میرا نام اقرا گل ہے – اقرا نے اپنا نام بتا کر بیٹھنا چاہا تو بہرام نے روکا تھا – پورا نام ہے یہ آپ کا ؟؟ بہرام کے پوچھنے پر اقرا کے ہونٹ تنزیہ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے مگر چہرے پر موجود نقاب سے کوئی دیکھ نہ پایا تھا –
جی سر پورا نام یہی ہے – اور کسیا ہونا تھا پورا نام ؟؟ اقرا نے جان بوجھ کر پوچھا – مطلب کہ سب لڑکیوں نے انٹرو دیا تو ان کے نام کے ساتھ سر نیم لگا – تو آپ کے نام کے ساتھ نہیں ہے کیا ؟؟ لڑکیوں کے نام کے ساتھ عموماً باپ یا شوہر کا نام لگتا ہے تو اسی لیے پوچھا –
بہرام نے کندھے اچکاتے کہا جس پر اقرا نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا – جی سر لگتا ہے بٹ میرے نام کے ساتھ نہیں لگتا – بابا کا ویسے ہی نہیں لگا ساتھ اور شوہر میرا ابھی کوئی ہے نہیں تو جیسے ہی کسی کے نکاح میں جاوں گی تو لگ جائے گا سر نیم بھی ساتھ میرے نام کے – اقرا اسے جواب دیتی بیٹھ گئی تھی جبکہ بہرام کا مٹھیاں میچناں کسی اور نے تو نہیں دیکھا مگر اقرا نے دیکھا تھا اور اسے سکون ملا تھا بدلہ لے کر –
بہرام کا لیکچر ختم ہوا تو نیکسٹ ان کا لیکچر فری تھا اقرا کو تو بہت ہی زیادہ غصہ تھا بہرام پر – اخر اس کی ہمت کیسے ہوئی اسے اگنور کرنے کی ؟ پہلے تو اس کا دل کیا کہ وہ گھر جا کر زوریز کو بتائے مگر پھر اس نے سوچا کہ نہیں وہ نہیں بتائے گی زوریز کو – بلکہ اچھے سے بہرام کی ناک میں خود دم کرے گی –
اسے پتہ تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس کے اور اپنے رشتے سےانجان بن رہا ہے – وجہ وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے یہ بات بہت ہی زیادہ بری لگی تھی بہرام کی کیونکہ اسے کسی نے اج تک اگنور نہیں کیا تھا اور وہ شوہر ہو کر اسے اگنور کر رہا تھا – اگر وہ خوبصورت تھا تو اقرا کون سا کم تھی – اگر وہ اسے اگنور کر سکتا تھا تو اقرا نے بھی سوچ لیا تھا وہ بھی جیسے کو تیسے والا جواب دے گی –
کیسا گزرا اج کا تمہارا دن ؟؟ میتھ کے پروفیسر تو تمہارے سرخان ہی ہیں نا ؟؟ ہائے انٹر خود کروایا ہوگا انہوں نے تمہارا کلاس کو اپنی بیوی کے طور پر – بتاؤ نا سرخان نے کس طرح سے تمہارا انٹرو دیا ؟؟
ایمان اور وہ کینٹین میں بیٹھی تھیں کہ تبھی ایمان نے اس سے تجسس سے پوچھا اس کے لہجے میں بے حد بے قراری تھی – نام مت لومیرے سامنے اس سرخان کا – اس وقت مجھے زہر سے بھی زیادہ برا لگ رہا ہے تمہارا سر خان –
اقرا تو جیسے پھٹ ہی پڑی تھی اور کھاٹ کھانے والے اندازے میں بولی جبکہ ایمان تو اس کے لہجے اور جلے کٹے انداز پر حیران ہوئی تھی – کیا ہوا یار ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو ؟؟ ویسے بھی اب وہ میرے سرخان نہیں ہیں تمہارے ہیں – بلکہ تمہارے سر نہیں مسٹر ڈیئر ہسبینڈ بہرام خان ہیں –
تم مجھے یہ بتاؤ ہوا کیا ہے اخر ؟؟ ایمان کے پوچھنے پر اس نے اسے ساری بات بتا دی جس پر ایمان کو بھی حیرت ہوئی تھی – اخر کیوں سر خان نے نہیں پہچانا تمہیں؟؟ ایمان نے پوچھا – مجھے کیا پتہ مگر یہ طے ہے اب نہیں بچتے بہرام مجھ سے – اقرا نے ایک ہاتھ کی مٹھی بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے ہوئے پرسوچ انداز میں کہا –
اچھا چلو چھوڑو اس بات کو موڈ اچھا کرو اور کوئی اور بات کرو – ہاں مجھے یاد ایا کل تم نے کہا تھا تمہیں مجھے ضروری بات بتانی تھی کوئی – تو بتاؤ کیا کہنا تھا تمہیں ؟؟ ایمان کے پوچھنے پر اسے بھی یاد ایا تو سیدھی ہو کر بیٹھی – یار تمہیں یاد ہے نا میں نے بتایا تھا تمہیں زوریز بھائی اور زبرش کے بارے میں ؟
اقرا نے اسے یاد دلایا تو ایمان نے ہاں میں سر ہلاتے اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا – یار تمہیں پتہ ہے زبرش بہت اچھی ہے مگر لالا اور چچی لوگوں کا رویہ بہت برا ہے اس کے ساتھ – ابھی تو میں اسے ضد کر کے بھائی سے اپنے ساتھ شہر لے ائی ہوں تاکہ وہ چچی سے محفوظ رہے مگر لالہ کا رویہ بہت ہرٹ کرتا ہے مجھے جب وہ اس کے ساتھ بری طرح پیش اتے ہیں –
تم مجھے کوئی ائیڈیا دو جس سے لالہ اس کے ساتھ صحیح ہو جائیں – کیونکہ میں چاہتی ہوں وہ میرے لالا کی ونی نہیں بلکہ بیوی بن کر رہے – ہمیشہ میری بھابھی رہے اور دنیا جہان کی خوشیاں ہوں اس کے پاس- کیونکہ وہ بہت اچھی ہے میں چاہتی ہوں اس کے اور لالہ کے رشتے کو ٹھیک کرنے کے لیے تم کوئی ترکیب بتاؤ –
اقرا کی بات سنتے ہی وہ ایمان سوچنے لگی تاکہ کوئی ترکیب لڑا سکے پھر ایک دم سے اس نے خوشی سے چٹکی بجائی تھی – ادھر کر کان تجھے بتاؤں کہ کیا کرو – ایمان کے کہنے پر وہ اس کے قریب ہوئی تو ایمان نے اسے پلان بتایا – پلان سنتے ہوئے اقرا کی انکھوں میں چمک تھی کیونکہ اسے پلان پسند ایا تھا –
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر سامان کہاں سے ائے گا ؟؟ اقرا نے پریشانی سے پوچھا – تم فکر نہ کرو یونی سے جانے ہوئے میں مال سے لے کر تمہارے گھر دے جاؤں گی یا بھیج دوں گی ڈرائیور کے ہاتھ- تم بس مجھے اپنا ڈریس دے دینا –
ایمان نے اسے بے فکر کرتے کہا جس پر اقرا نے بھی سکون سے کرسی کی بیگ سے ٹیک لگائی تھی – اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کیونکہ واقع اسے ایمان کا پلان کافی بلکہ بہت زیادہ پسند ایا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بالاج اسے لینے جلدی ہی پہنچ گیا تھا – دیا اسے دیکھ حیران ہوئی تھی لیکن اسے خوشی بھی تھی کہ چلو بالاج لینے تو ایا اسے – کیونکہ اسے صبح سے یہی فکر ستائے جا رہی تھی کہیں بالاج اسے لینے ہی نہ ائے –
پہلے بھی تو وہ زبردستی خود ہی اس کے گھر گئی تھی – یہ شکر تھا کہ اس نے اپنی کچئ ضروری چیزوں پیکنگ کر لی تھی پہلے سے – کچھ دیر پہلے ہی اس کا ایک دوست ایا تھا اور ابھی وہ اپنے دوست کے ساتھ ہی بیٹھی باتوں میں مصروف تھی لیکن بلاج کو آتا دیکھ وہ فورا اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی –
دراصل اج اچانک ہی اس کا یہ دوست اس سے ملنے ایا تھا – وہ اس کے ساتھ لندن میں یونی میں پڑھتا تھا – لیکن دیا اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد پاکستان اگئی تھی – عدیل اس کا دوست اب واپس ایا تھا پاکستان اور واپس اتے ہی وہ اس سے ملنے ایا تھا – دیا نے اسے ابھی تک اپنی شادی کا نہیں بتایا تھا –
ابھی بھی وہ دیا سے باتوں میں مصروف تھا لیکن جب خان کے انے پر دیا کہ چہرے پر مسکراہٹ بکھری تو اسے حیرت ہوئی تھی لیکن اس نے اپنی حیرت کو لفظوں کی شکلنہیں دی تھی – تم میرا مطلب اپ اتنی جلدی اگئے ؟
وہ صوفے سے اٹھ کر اس کے پاس جا کر کھڑی ہوتی بولی جب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی – ہاں کام ختم ہو گیا تھا میرا جلدی تو اس لیے جلدی اگیا – لے لیا تم نے جو سامانلینا تھا ؟؟ چلو پھر گھر چلیں – بلاج نے سنجیدگی سے کہا مگر سوالیہ نظریں عدیل پر جمی تھیں –
پتہ نہیں کیوں اسے برا لگ رہا تھا دیا کا اس لڑکے سے ہس ہس کر بات کرنا – آتے ہوئے اہ دیکھ چکا تھا اسے اس سے بات کرتا لیکن جہاں اس کا دھیان دیا کہ دوپٹے کی طرف گیا تو اس کا غصہ اور بڑھا تھا کیونکہ دیا نے سر پر دوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا –
خان یہ میرا دوست ہے عدیل ہم ایک ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے – دیا نے مسکرا کر عدیل کا تعارف کروایا مگر جب خان کو خود کوغصے سے گھورتا پایا تو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اخر کیا بات تھی جو وہ اسے گھور رہا تھا – دوپٹہ لو سر پر خان نے اہستہ اواز میں دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا جبکہ اس کے غصے سے کہنے پر دیا نے فورا دوپٹہ سر پر کیا تھا –
سامان کہاں ہے جو تمنے لینا تھا ؟؟ لو تاکہ چلیں گھر – بلاج نے بنا عدیل کو ہائے ہیلو کہے دیا سے کہا جس پر دیا نے وہیں پڑے بلیک کلر درمیانے سائز کے بیگ کی طرف اشارہ کیا – اس کے ساتھ ہی لیپ ٹاپ بیگ بھی پڑا تھا –
خان نے جا کر دونوں بیگز کو ایک ہاتھ میں اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے دیا کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے باہر کی طرف بڑھ گیا جبکہ دیا اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی تھی – عدیل تب سے خاموش حیران ہو کر انہیں دیکھ رہا تھا –
اسے سمجھ نہ ائی تھی کہ اخر وہ کون تھا اور دیا پر ایسے کیوں حکم چلا رہا تھا – پہلے تو جب وہ اج دیا سے ملا تو اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ جو دیا لندن میں تھی وہ یہ تو نہیں تھی –
وہ دیا تو بہت بولڈ سی اور اپنی من مانی کرنے والی تھی جبکہ یہ دیا تو شلوار قمیض میں بہت مختلف لگ رہی تھی – اور ابھی جو یہ لڑکا ایا تھا اسے اس لڑکے کی بھی سمجھ نہ ائی تھی اچانک سے ایا تھا اور دیا کو اپنے ساتھ لے گیا تھا جب کہ عدیل کو تب سے یہ سوال ستا رہا تھا کہ اخر وہ کون تھا –
ایمان خود تو سامان دینے نہیں ا سکی تھی لیکن اس نے ڈرائیور کے ہاتھ سامان بھیج دیا تھا – اقرا نے جب شاپنگ بیک کھولے تو ان میں بلیک کلر کی ایک بولڈ سی ساڑھی کا ڈبہ دیکھ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی – واہ بھئی اقرا تیرے گھر تو آج تمہارے ناول والا سین حقیقت میں ہونے والا ہے –
وہ خود سے بڑبڑائی اور ساڑھی کا ڈبہ اٹھاتی زبرش کو ڈھونڈنے نکل پڑی جو اسے باہر لانچ میں ہی مل گئی تھی – ادھر اؤ زبرش تمہارے لیے کچھ ہے – اقرا نے اسے اواز دیتے ہوئے کہا جب کہ اس کی اواز دینے پر زبرش اس کے پاس ائی تھی – ہاں کیا ہوا اقرا ؟؟ اس نے پوچھا- یہ دیکھو میں تمہارے لیے کچھ لائی ہوں –
ساڑھی کا ڈبہ اس کے سامنے کرتی اقرا بولی جبکہ اس ڈبے کو زبرش نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا – اس میں کیا ہے ؟؟ زبرش نے نا سمجھی سے پوچھا – یار میں تمہارے لیے یہ لائی ہوں مجھے بہت اچھی لگی تھی میں نے دیکھی تو ان لائن ارڈر کر لی – میری بھی ہے میں بھی پہنتی ہوں پھر تصویریں بنائیں گے –
زیادہ دیر نہیں پہنی بس تھوڑا سا فوٹو شوٹ کریں گے – لو تم یہ پہنو اور تب تک میں اپنی پہن کر آتی ہوں – وہ ہربڑی میں کہتی اس کے ہاتھ میں ڈبہ پکڑا گئی تھی جبکہ زبرش کو سمجھ نہ ایا تھا کہ وہ کہے کیا – میں نہیں پہنتی یار ساڑھی اور دیکھو ڈبے پر بنی ساری سے لگ رہا ہے یہ بہت زیادہ بولڈ ہے –
زبرش نے انکار کرتے ڈبہ واپس پکڑانا چاہا مگر اقرا نے واپس سے اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا – میں نے کہا نا پہنو کوئی بھی نہیں ہے گھر میں تمہارے اور میرے علاوہ – میری بھی ہے اس طرح کی بالکل سیم ہے میں بھی پہنوں گی دونوں بہن کر فوٹو شوٹ کریں گی –
تمہیں پتہ ہے مجھے بہت پسند ہے ساڑھی ویسے بھی کون سا کوئی ہے – لالا بھی رات کو دیر تک ہی ائیں گے ابھی تو محض ساڑھے آٹھ ہوئے ہیںجبکہ لالا کا مجھے میسج ایا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ 11 ، 12 بجے تک ائیں گے – اقرا نے اس سے جھوٹ کہا تھا حالانکہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی زور سے فون کر کے پتہ کر چکی تھی اور زوریز کے مطابق وہ اگلے 15 ، 20 منٹ تک گھر پہنچنے والا تھا –
دیکھو مجھے اچھا نہیں لگ رہا اقرا یہ بالکل بھی – زبرش نے پھر سے انکار کرنا چاہا – میں کہہ رہی ہوں نا پہنو اچھا تمہیں میری قسم ہے یہ پہنو –
اقرا نے جب بات بنتی نا دیکھی تو اپنی قسم دے ڈالی تھی جب کہ اس کے قسم دینے پر زبرش مجبور ہوئی تھی – اچھا اچھا ٹھیک ہے میں پہن لیتی ہوں زبرش اسے کہتی اپنے کمرے میں جانے لگی جو اسے یہاں فارم ہاؤس میں دیا گیا تھا لیکن تبھی اقرا نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا –
ارے نہیں تمہارے کمرے میں چھوٹا والا شیشہ ہے تو تم ایسا کرو لالا کے کمرے میں جا کے چینج کر لو – میں اپنے کمرے میں کر لیتی ہوں کیونکہ لالا کے اور میرے کمرے میں دو بڑے شیشے دیوار پر نصف ہیں تو اس کی مدد سے اچھے سے تم ساری باندھ لو گی –
اقرا نے اسے کہا جب کہ زبرش اس کی باتوں میں اتی زوریز کے کمرے کی طرف چل پڑی تھی – اچھا سنو ڈبے میں ریڈ لپ سٹک بھی ہے وہ بھی لگا لینا – اقرا نے اسے پیچھے سے آواز دیتے کہا جس پر زبرش نے پہلے تو اسے گھورا اور پھر واپس سیڑھیاں چڑھنے لگی –
زوریز گھر ایا تو پورے گھر میں خاموشی تھی – حسب عادت وہ سب سے پہلے اقراء کے کمرے کی طرف گیا تھا – دروازہ کھٹکھٹایا تو اقراء نے اندر سے دروازہ کھولا تھا – اپ اگئے بھائی ؟ اقرا نے انکھوں میں چمک لیے پوچھا جس پر زوریز نے مسکرا کر اگے ہوتے اس کے سر پر بوسہ دیا تھا –
جی میری جان میں اگیا – کوئی مسلہ تو نہیں ہوا یونی سے واپسی پر؟؟ ڈرائیورٹائم سے پہنچ گیا تھا ؟؟ اور کھانا کھا لیا تم نے ؟؟ زوریز نے اس سے ایک ساتھ کئی سوال پوچھے جس پر اقرا نے فورا سب کے جواب دیے تھے – جی مجھے کوئی مسلہ نہیں ہوا یونی واپسی سے ، کھانا بھی کھا لیا ہے میں –
آپ نے کھا لیا؟؟ اقرا نے اپنا بتاتے اس سے پوچھا جس پر زریز نے ہاں کہا تھا یعنی وہ بھی کھانا کھا چکا تھا – اچھا جائیں اپ اپنے کمرے میں ارام کریں مجھے بہت نیند ا رہی ہے میں بھی سونے لگی ہوں اور ہاں اپ سے بعد میں نپٹوں گی میں جو آپ کا سرپرائز تھا نا اس نے مجھے واقع سرپرائز کردیا تھا –
وہ اسے پکڑ کر اس کا رخ سیڑھیوں کی جانب کرتے بولی جبکہ زوریز اس کے انداز اور باتپر ہنس پڑا تھا – اچھا بابا میں جا رہا ہوں وہ پیار سے کہتا اپنے کمرے کی جانب چل پڑا تھا جبکہ پیچھے اقرا کی انکھیں شرارتی چمک لیے ہوئے تھیں –
وہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی اسے زبرش نظر ائی جو اس کی جانب پیٹ کیے اپنی ساڑی میں الجھی ہوئی تھی جبکہ اس کو دیکھ زوریز کے قدم جہاں تھے وہیں جم گئے تھے – کالے رنگ کی ساڑھی جس کی بیک مکمل طور پر غائب تھی محض ڈوریوں کی مدد سے بلاؤز کو فکس کیا گیا تھا جبکہ سفید رنگت پر کالی ساڑی بہت جچ رہی تھی –
اس کی برہنہ قمر کے سائیڈ پر ساڑی کا پلو جھول رہا تھا جسے کندھے پر ڈال ہوا تھا – دونوں کندھوں کے بالکل درمیان میں کمر پر سیاہ رنگ کا ہی تل تھا جس نے زوریز کی نظریں خود پر جما لی تھی – شکر ہے اقرا تم اگئی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی دیکھو میں نے باندھ لی ہے ساڑھی جیسے تیسے کر کے -توبہ یہ کتنی بولڈ ہے مجھے تو خود ہی شرم آ رہی ہے –
تمہاری قسم نے مجبور کیا مجھے اب جلدی بنالو پک – آآآ …- زبرش جو دروازہ کھولنے کی اواز پر سمجھی تھی اقرا ائی ہے اپنی ہی دھن میں بولتی جب پلٹی تو پیچھے زوریز کو دیکھ اس کی ایک دم سے چیخ نکلی تھی جبکہ اس کا پلٹنا تو جیسے زوریز پر اور قیامت ڈھا گیا تھا کیونکہ اس کے بلاوز کا گلا بہت گہرا تھا جس کی وجہ سے اس کا سینہ پوری طرح سے کور نہیں ہو رہا تھا جب کہ کمر کی طرح پیٹ اور بازو بھی برہنہ حالت میں تھا –
زوریز کو دیکھ زبرش کو سمجھ نہ ایا وہ کیا کرے پھر جب اچانک سے اپنی حالت کا خیال ایا تو اس نے ساڑھی کا پلو پکڑتے اپنے سامنے کرتے خود کو چھپایا تھا اور کمر اپنی دیوار کے ساتھ لگائی تھی – ددد…دیکھیں ا..اب..ھی اپ کمرے سے باہر چلے جائیں مم..میں نے چ. چ..ینج کرنا ہے –
اور ی..یہ اقرا کہاں ہے؟؟ اس نے انکھیں بند کرتے کہا جیسے زوریز تو اس کی بات فورا مانتا کمرے سے چلا جائے گا – زریز نے اس کی بات تو کیا ہی مان لینی تھی بلکہ اس نے اپنے قدم اور اس کی جانب بڑھائے تھے اور بالکل اس کے قریب جاتا دیوار کے دونوں جانب ہاتھ رکھتا اس کا رستہ بند کر چکا تھا –
وہ تو بالکل مدہوش ہی ہو گیا تھا – اس کی نظریں زبرش کے ہونٹوں پر جمی تھیں جن پر اس نے سرخ لیپ سٹک لگائی ہوئی تھی – آج پہلی بار زوریز نے اس کے پنکھڑی ہونٹوں پر لیپ سٹک دیکھی تھی – اس کا دلکر رہا تھا وہ کھا ہی جائے اس کے ہونٹ – انکھیں کھولو ! زوریز نے خمار الود لہجے میں کہا جبکہ اس کی اواز اتنی قریب سے سن کر زبرش پوری کانپ گئی تھی –
اس نے ڈرتے ڈرتے انکھیں کھولیں تو زوریز خمار الود انکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ زبرش کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی – کیا یہ مجھے اپنی طرف مائل کرنے کا طریقہ تھا ؟؟ زوریز نے اس کے ماتھے سے تھوڑی تک اپنی انگلی کی مدد سے لکیر کھینچتے اسی لہجے میں پوچھا جس پر زبرش نے فورا نا میں سر ہلایا تھا –
نہیں یہ مجھے اقراء نے کہا تھا پہننے کے لیے کیونکہ ہم دونوں اج ساڑی پہننے والی تھی لیکن وہ پتہ نہیں کہاں گئی – میں نے جان بوجھ کر نہیں پہنی اور…… ! اس سے پہلے کہ زبرش کچھ اور بولتی زوریز اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں قید کرتے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا تھا –
انداز بے حد شدت بھرا تھا جبکہ اس کے یوں کرنے پر پہلے تو زبرش حیران ہوئی مگر پھر اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اس کے سینے پر مکے مارتے اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن زوریز نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے دیوار سے پن اپ کیا تھا مگر اس کے ہونٹوں سے الگ نہیں کیے تھے اپنے ہونٹ –
اج تو زوریز الگ ہی موڈ میں تھا اخر ہوتا بھی کیوں نہ زبرش لگ ہی اس قدر پیاری رہی تھی کہ وہ اپنی سوجھ بوجھ سب کچھ کھو بیٹھا تھا – کافی دیر بعد وہ اس کے ہونٹوں سے سیراب ہوتا الگ ہوا تھا .گر طلب ابھی بھی باقی تھی – ہونٹوں کے بعد وہ اس کے چہرے کی ایک ایک نقوش کو چومنے لگا اور پھر اس کی نظریں زبرش کی گردن پر رک گئی تھیں –
زبرش کی گردن پر دائیں جانب ایک تل تھا جو زوریز کو بہت پسند تھا لیکن کبھی بھی اس نے زبرش کو یہ بات نہیں بتائی تھی – تل پر نظر پڑتے اس نے اپنے ہونٹ اس تل پر نرمی سے رکھے تھے اور پھر اس کی گردن پر اپنی شدتیں نچھاور کرنے لگا جب کہ ہاتھ اس کے ابھی بھی زبرش کے ہاتھوں کو قید کیے ہوئے تھے –
گردن کو بخشتے وہ تھوڑا پیچھے ہوا اور زبرش کے ہاتھ چھوڑ دیے تھے لیکن پھر اپنا ایک بازو اس کی قمر کے گرد کرتے اس نے زبرش کو اپنی طرف کھینچتے اپنے سینے سے لگایا تھا اور پیچھے سے اس کے بلاؤز کی ڈوری کھول چکا تھا – اس کی ڈوری کھولتے ہی زبرش نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں میں اس کی شرٹ کو جکڑا تھا –
نن..نہی..ں سس..سردار پپ…پلیز !! زبرش نے کانپتی ہوئی اواز میں کہا مگر زوریز کہاں کچھ سن رہا تھا – اس نے ایک جھٹکے سے اسے گود میں اٹھایا اور بیڈ کی طرف لے کر چل پڑا – بیڈ پر سے لٹاتے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ کو اپنے جسم سے الگ کرتے صوفے پر پھینکا اور پھر وہ خود بھی اس پر جھک چکا تھا جبکہ اس کے خود پر جھکتے ہی زبرش نے اپنی انکھیں زور سے بند کر لی تھیں –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial