Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 19

صبح اقرا زوریز اور زبرش کے اٹھنے سے پہلے ہی ڈرائیور کے ساتھ یونی چلی گئی تھی جبکہ زبرش جس کی رات زوریز کے کمرے میں ہی انکھ لگ گئی تھی جب صبح اس کی انکھ کھلی تو نظر ساتھ لیٹے زوریز کو پڑی جو شرٹ لیس اس کی جانب کروٹ لیے اپنا ایک بازو اس کے اوپر رکھے سو رہا تھا –
کچھ دیر خاموش نظروں سے زوریز کو دیکھتے وہ بیڈ سے اٹھنے ہی لگی تھی کہ تبھی زوریز نے اس کا ہاتھ پکڑ اسے واپس سے لٹا لیا تھا – کہاں جا رہی ہو ؟؟ اس نے نیند سے بھری ہوئی اواز سے پوچھا جب کہ انکھیں بھی اس نے با مشکل کھولی ہوئی تھیں – صبح ہو گئی ہے سردار اور رات گزر گئی ہے میرا اب اپ کے کمرے میں کوئی کام نہیں اسی لیے اپنے کمرے میں جا رہی ہوں –
زبرش نے سادہ لہجے میں کہتے پھر سے اٹھنا چاہا مگر زوریر نے پھر سے اس کے اٹھنے کی کوشش کو ناکام بنایا تھا – لیٹی روہو – زوریز نے اسے اپنی جانب کھینچتے اپنے سینے کے ساتھ اس کی کمر لگاتے انکھیں بند کرتے کہا جبکہ زبرش نے اس کے بازوں کے حسار سے نکلنے کی کوشش کی تھی –
نہیں مجھے جانا ہے بہت ہو گیا ویسے بھی اپ کی ضرورت پوری کر چکی ہوں رات کو اور دوسری بات میں اپ کی کوئی پسند کی بیوی نہیں جسے اپنے پاس ہمیشہ دیکھنا چاہتے ہوں –
رات کو سونے سے پہلے بھی اور صبح اٹھنے کے بعد بھی – زبر ش نے تنزیہ لہجے میں کہا جب کہ اس کے بولتے ہی زوریز نے اسے ایک دم بیڈ پر سیدھا لٹاتے خود اس پر کالی گھٹا کی طرح اپنے وجود کا سایہ کیا تھا –
صحیح کہا تم نے تم نہیں ہو میری من پسند بیوی لیکن جانتی ہو زبرش اگر تم بالاج خان کی بہن نہ ہوتی تو تم زوریز خان کے دل کی ملکہ ہوتی- اس میں کوئی شک نہیں کہ زوریز خان تمہیں اپنی سلطنت کی ملکہ بنا کر رکھتا دنیا جہان کی خوشیاں دیتا تمہیں –
سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے صرف تمہیں دیکھتا تمہاری ذرا سی چوٹ پر تڑپ اٹھتا لیکن اگر تم بالاج خان کی بہن نہ ہوتی – یہی تمہاری قسمت کا گرہن ہے کہ تم بالاج کی بہن ہو اسی لیے زوریز خان کی محبت اور اس کی نرمی سے دور ہو –
زوریز نے ایک ہاتھ سے اس کے چہرے پر ائی بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے کچھ نرمی اور کچھ سخت انداز میں کہا جب کہ اس کی بات پر زبرش نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے پورا زور لگا کر اسے سائیڈ پر دھکیلا تھا اور اٹھ کر بیڈ سے کھڑی ہوئی تھی –
بہت ہو گیا سردار کس نے کہا اپ سے کہ میرا بالاج خان کی بہن ہونا میری قسمت کا گرہن ہے ؟؟ غلطی فہمی ہے اپ کی یہ – میری قسمت کی یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ میرا بھائی ہے – اور کس نے کہا اپ سے کہ مجھے اپ کی نظر کرم چاہیے اپ کی محبت چاہیے ؟؟
نہیں چاہیے مجھے اپ سے کچھ بھی اگر میں بالاج کی بہن ہوں تو کوئی حق نہیں پہنچتا اپ کو کہ اپ اسے میری بدقسمتی کہیں – بالکل ویسے جیسے اقرا کو اپ پر غرور ہے اپ کی بہن ہونے پر فخر ہے ویسے ہی مجھے میرے لالا پر غرور ہے اس کی بہن ہونے پر فخر ہے –
مجھے کسی اور کی محبت ، کسی اور کی نظر کرم اور کسی اور کی نرمی نہیں چاہیے – زبرش غصے سے اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہتی کمرے سے چلی گئی تھی جبکہ پیچھے زوریز نے غصے سے مٹھیاں میچتے دانت ایسے پیسے تھے جیسے اس کے دانتوں کے درمیان بالاج خان ہو –
بہرام کا لیکچر سٹارٹ ہوا تو وہ کلاس میں کچھ نوٹس لیے داخل ہوا تھا – اس کے کلاس میں اتے ہیں ساری کلاس نے کھڑے ہوتے اسے سلام کیا جس کا جواب اس نے سر کے اشارے سے دیتے انہیں بیٹھنے کا بھی اشارہ کیا تھا –
سو کلاس یہ اپ لوگوں کے کچھ نوٹس ہیں اسے اپ لوگ کاپی کروا لیں اپنے لیے کیونکہ ہمارا سلیبس یہی ہے میں اپ کو نوٹس کے ذریعے ہی پڑھاؤں گا – بہرام نے ان کے سامنے نوٹس لہراتے کہا جس پر پوری کلاس نے اوکے سر کہا تھا – نوٹس کے متعلق کچھ انفارمیشن دیتے بہرام نے اپنا لیکچر سٹارٹ کیا تھا جبکہ پوری کلاس مکمل اس کی جانب متوجہ ہوتی اس کا سارا لیکچر سن رہی تھی –
اس وقت اقرا بھی ہر قسم کی بات بھلائے غور سے اس کا لیکچر سن رہی تھی کیونکہ جب بات پڑھائی کی اتی تھی تو اس کے دماغ سے ہر بات نکل جاتی تھی – لیکچر ختم ہوا تو کلاس سے جانے سے پہلے بہرام نے رک کر اس کی جانب دیکھا تھا جبکہ اس کے خود کو دیکھنے پر ایک دم سے اقراء کے ہاتھ پاؤں کانپے تھے –
مس اقرا آپ میرے افس میں ائیے کچھ ضروری بات کرنی ہے – وہ اسے کہتا کلاس سے باہر چلا گیا تھا جب کہ پیچھے اقرا کو ٹینشن ہو گئی تھی کہ اس نے کیا بات کرنی تھی اس سے – کچھ ایسی ہی حالت کلاس کی دوسری لڑکیوں کی تھی جن لڑکیوں کو اپنے میتھ کے سر بہرام پر کرش ہوا ہوا تھا اس لیے انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ سر بہران نے اخر اقرا کو کیوں بلایا ہے –
وہ بہرام کے افس کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹائے یا نہ کھٹکھٹائے لیکن پھر ہمت کرتے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے بہرام کی کم ان کی اواز سن اہستہ دروازہ کھولتی وہ اندر گئی تھی –
یس سر اپ نے بلایا تھا – اقرا نے ایک نارمل سٹوڈنٹ کی طرح بیہو کیا تھا – جی دراصل مجھے اپ کو بتانا تھا کہ آپ کے بھائی زوریز کی کال آئی تھی کہ وہ آپ کو لینے نہیں آسکیں گے تو یونی کے اف ہوتے واپسی پر اپ میرے ساتھ جائیں گی میں اپ کو گھر ڈراپ کروں گا –
بہرام نے بھی ایک ٹیچر کی ہی اس کا جواب دیا تھا لیکن اس کی بات پر اقرار جو نظریں نیچی کیے کھڑی تھی اس نے اپنی نظریں اٹھائے اسے دیکھا تھا – کیا مطلب اپ مجھے ڈراپ کریں گے سوری سر میرے بھائی ہیں اس کام کے لیے اگر وہ نہیں ا سکتے تو ڈرائیور بھیج دیں گے وہ لیکن میں یوں کسی غیر کے ساتھ گاڑیوں میں سفر نہیں کر سکتی اقرا نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا جب کہ اس کی بات سن بہرام ایک دم سے چیئر سے کھڑا ہوتا اس کے پاس ایا تھا اور اس کی بازو دبوچ چکا تھا –
زیادہ معصوم اور بے خبر بننے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات تم بھی اچھے سے جانتی ہو اور میں بھی کہ نا تو میں تمہارے لیے غیر ہوں اور نہ ہی تم میرے لی – بہرام نے اس کو غصے سے گھورتے کہا جس کا اقرا پر ذرا برابر بھی اثر نہ ہوا تھا – اچھا کیا بات واقع ایسا ہے کہ اپ اور میں ایک دوسرے کے لیے غیر نہیں ہیں ؟؟
مجھے تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ کل کلاس میں کسی نے بری طرح سے مجھے اگنور کیا تھا – مانا کہ ہم پہلے نہیں ملے لیکن جو بھی ہے ہمارے درمیان ایک مضبوط رشتہ تھا میں اپ کی یہ بات بھول بھی جاوں اگنور بھی کروں لیکن اپ نے کل کلاس کے سامنے ہمارے رشتہ بتانا تو دور سرے سے اس بات سے انکار ہی کر دیا کہ اپ زندگی میں تو کوئی لڑکی ہے ہی نہیں – اپ تو شادی شدہ ہیں ہی نہیں –
اقرا نے بھی اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر اسے اچھے سے اس کی غلطی یاد کروانی چاہی جو اس نے کل کی تھی – دیکھو اقرا میں نہیں چاہتا کہ یہاں پر کسی قسم کا بھی ایشو بنے کیونکہ تم اچھے سے جانتی ہو یہاں پر ٹیچر ذرا سا کسی سٹوڈنٹ کے ساتھ نرم رویہ رکھیں تو ہر کسی کو اس بات سے ایشو ہوتا ہے سو باتیں ہوتی ہیں –
اگر میں کلاس میں یہ بات بتا دیتا کہ تم میری بیوی ہو تو اس بات کے بہت سے مسائل ہونے تھے کیونکہ میں اچھے سے جانتا ہوں تم پڑھائی میں بہت اچھی ہو اور جب جب میں تمہارے کسی ٹیسٹ کے میں اچھے نمبر دیتا تو سٹوڈنٹس نے یہ نہیں سوچنا تھا کہ تم نے محنت کی ہے بلکہ سب نے یہ سوچنا تھا کہ سر نے اپنی بیوی کو جان بوجھ کر زیادہ نمبر دیے ہیں –
بہرام نے پہلے جو اس کی بازو سختی سے پکڑ رکھی تھی اس پر اپنی سختی کم کرتے نرمی سے وہی ہاتھ اس کے کندھے پر رکھتے سمجھانا چاہا جب کہ اس کی بات اقرا کو بھی ٹھیک لگی تھی لیکن وہ اتنی جلدی اسے معاف کرنے والی نہیں تھی اس لیے نکھرہ دکھاتے دو قدم پیچھے ہوئی تھی –
ٹھیک ہے چھٹی ٹائم میں اپ کو گیٹ کے پاس ہی ملوں گی – مگر میں نے آپکو معاف نہیں کیا – وہ روکھے انداز میں کہتی اس کے افس سے نکل گئی تھی جبکہ بہرام اس کا روٹھا روٹھا انداز دیکھ پہلے تو حیران ہوا لیکن پھر ہس پڑا جس سے اس کی آنکھ کے نیچے والے گھڑے نے اپنی جھلک دیکھائی تھی –
اسے کیوٹ لگی تھی اپنی بیوی بلکہ اسے تو وہ بچپن سے ہی کیوٹ لگتی تھی اب تو شاید کیوٹ کے ساتھ ساتھ پیاری بھی لگنے لگی تھی شاید محبت ہو رہی تھی اسے اپنی بیوی سے – محبت والی بات سوچ وہ خود پر ہی ہنس پڑا تھا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زوریز کی یہ شرارتی بہن اس کی بیوی بنے گی –
کل واپسی پر بالاج نے دیا سے کسی قسم کی بھی بات نہیں کی تھی – گھر آکر بھی ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی تھی اور دونوں ہی اپنے اپنے کمروں میں جاتے ارام کرنے لیٹ گئے اور کب انہیں نیند ائی ان دونوں کو ہی پتہ نہ چلا –
صبح اٹھ کر حسب معمول بالاج پاس والے پارک میں جوگنگ کر کر ایا اور فرج سے جوس نکال کر پیا – اسے پتہ تھا ابھی دیا نہیں اٹھنے والی کیونکہ اسے دیر سے اٹھنے کی عادت تھی اس لیے اپنے لیے ناشتہ بنا کر کرتے سارے برتن دھو کر وہ تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا –
کل وہ جاب کے لیے ایک جگہ اپلائی کرنے گیا تھا کیونکہ اب اس کا ارادہ نہیں تھا انور ملک کے پاس اور کام کرنے کا – پہلے کی بات اور تھی لیکن اب جو بھی تھا وہ اس کے سسر تھے اور وہ ان کے پاس اب کسی صورت بھی کام کرنے کے لیے راضی نہیں تھا –
اس لیے کل پھر سے ہمت کرتے اس نے اپنی ڈگریاں واپس نکالی اور ایک افس میں اپلائی کرنے کے لیے گیا اور شاید اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے اس کمپنی میں جاب مل گئی بہت اچھے سیلری پیکج پر –
ابھی بھی وہ تیار ہو کر وہیں جانے والا تھا جیسے ہی تیار ہو کر وہ باہر نکلا تو دیا کو برامدے میں پڑی کرسی پر بیٹھے دیکھ حیران ہوا تھا – اسے واقعی حیرت ہوئی تھی کہ وہ اتنی جلدی کیسے اٹھ گئی لیکن اس نے کسی بھی قسم کی اس سے بات نہ کی اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے لیکن تبھی دیا نے اسے پکارا تھا – اپ کہاں جا رہے ہیں ؟ دیا نے انکھیں مسلتے جمائی روکتے کہا –
اس کی یوں پوچھنے پر بالاج نے مڑ کر اسے دیکھا تھا – کام پر جا رہا ہوں پہلا دن ہے اج میری جاب کا اس لیے لیٹ نہیں ہو سکتا – بالاج نے اسے بتایا جب کہ اس کے بتانے پر دیا کو حیرت ہوئی – کیا اب اپ ڈیڈ کے پاس کام نہیں کریں گے ؟؟ دیا نے اس کے پاس اتے پوچھا –
ہاں بالکل اب میں تمہارے ڈیڈ کے پاس کام نہیں کروں گا کیونکہ اب میرا ان کے پاس کام کرنا اچھا نہیں لگتا اس لیے دوسری جگہ اپلائی کیا تھا میں نے جاب کے لیے اور میں سلیکٹ ہو گیا ہوں تو اج میرا پہلا دن ہے – بالاج نے بنا کوئی غصہ کیے سنجیدگی سے اس کے سوالوں کا جواب دیا جس پر دیا نے بھی سر ہلایا تھا-
اچھا ٹھیک ہے جیسے اپ کی مرضی – اس نے مسکرا کر کہا – کچن میں سب کچھ پڑا ہے تو اپنے لیے جو بنانا ہوا بنا کر کھا لینا – بالاج اسے کہتے پھر سے جانے لگا مگر دیا نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ اسے روکا تھا – کیا مطلب خود بنا کر کھا لینا اپ جانتے ہیں نا مجھے کچھ بھی بنانا نہیں اتا میں کیسے بنا کر کھاؤں گی –
دیا نے حیرت اور پریشانی سے کہا جبکہ بالاج نے اس کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑایا تھا – میری بلا سے جیسے مرضی بناؤ میں نے ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا تمہارے لیے روز روز ناشتہ بنانے کا اب جب تمہیں یہاں رہنے کا شوق چڑھا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ خود سے گھر کے کام کرو –
اج تو میں نے خود بنا کر کھا لیا ناشتہ لیکن کل سے تم ہی بناؤ گی اور یہ لو کچھ پیسے اپنے پاس رکھو ضرورت پڑ سکتی ہے تمہیں – بالاج نے اس پر حیرت اور پریشانی کے پہاڑ توڑتے اپنا وائلٹ نکال کر اس میں سے دو تین ہزار کے نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے تھے –
میں کیسے بناؤں گی بالاج اپ جانتے ہیں مجھے نہیں بنانا اتا اور یہ پیسوں کی ضرورت نہیں ہے مجھے کیونکہ میرے پاس ہیں پیسے – دیا نے پہلے پریشانی سے کہتے بعد اسے واپس پیسے پکڑانے چاہے مگر بالاج نے اس کے ہاتھ کی مٹھی واپس بند کر دی تھی نہیں وہ پیسے تم اس گھر میں خرچ نہیں کرو گی اس گھر میں میرے پیسے خرچ ہوں گے اور رہی بات کیسے ناشتہ بناو گی تو تمہارے پاس موبائل ہے نا اس میں یوٹیوب بھی ہوگا تو اس میں سرچ کرو اور بناؤ کھانا –
رات میرے آنے سے پہلے بھی کھانا تیار ہونا چاہیے – میں گھر آکر ہی کھانا کھاؤں گا – بالاج کے کہنے پر دیا نے سر کھجایا تھا میرے پاس پیکج نہیں ہے – دیا نے اپنی ایک اور پریشانی بیان کی یا شاید یہ ایک اور بہانہ تھا – میں کروا دوں گا تمہارا پیکج جاتے ہوئے لیکن رات کو جب میں گھر اؤں تو کھانا تیار ہونا چاہیے جیسا بھی ہوگا میں کھا لوں گا لیکن تم بناؤ گی –
بالاج اسے کہتے گھر سے باہر نکل گیا تھا جبکہ پیچھے دیا پریشانی میں کھڑی رہ گئی تھی کہ وہ کیا کرے ابھی تو وہ اپنے لیے کچھ نہ کچھ کر کے کھا لیتی جیسے بریڈ پر جیم لگا کر مگر اسے پریشانی ہو رہی تھی وہ رات کو کیا کرے گی –
اسے تو گیس ان کرنا بھی نہیں اتا تھا لیکن جو بھی تھا اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا – اس نے کہیں سنا تھا کہ شوہر کے دل کا راستہ معدے سے ہو کر جاتا ہے تو اس کام کے لیے اسے اب جی جان لگانی تھی تاکہ وہ بالاج کے لیے مزے مزے کے کھانے بنا سکے اور اس کے دل تک پہنچ سکے –
زوریز تیار ہو کر کمرے سے نکلا تو اسے زبرش کچن میں ناشتہ بناتی نظر ائی اس کے قدم خود بخود کچن کی طرف بڑھے تھے – ناشتہ بناتی زبرش کا ہاتھ غلطی سے توے پر لگ گیا تھا اور اس کی چیخ نکلی تھی کیونکہ اس کا ہاتھ بری طرح سے جل گیا تھا –
زوریز جو ابھی کچن کے دروازے کے پاس پہنچا تھا زبرش کی چیخ سن فورا بھاگ کر اس کے پاس گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا – اس کا ہاتھ بری طرح سے لال ہو رہا تھا جبکہ اس کا لال ہاتھ دیکھ جلدی سے زوریز اس پر پھونک مارنے لگا –
آہ لالا میرا ہاتھ ! زبرش نے حسب عادت تکلیف میں آنکھیں بند کرتے بالاج کو پکارا تھا جبکہ زوریز جو اس کے ہاتھ پر پریشانی سے پھونکیں مار رہا تھا اس کے منہ سے لالا کا لفظ سن اس نے اس کے ہاتھ پر گرفت سخت گئی تھی جس کے سبب زبرش کو اور تکلیف ہوئی تھی- اہ کیا کر رہے ہیں اپ چھوڑیں میرا ہاتھ مجھے درد ہو رہا ہے –
زبرش نے اس کی گرفت اپنا ہاتھ نکالنا چاہا مگر زوریز کسی صورت اس کا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہ تھا – اج کے بعد میرے سامنے اپنے بھائی کا نام مت لینا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا –
زوریز ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑتا شہادت کی انگلی سے اسے وارن کرتا کچن سے تو کیا فارم ہاوس سے ہی نکل گیا تھا جبکہ پیچھے زبرش دوسرے ہاتھ پر اپنا جلا ہوا ہاتھ رکھتی روتے ہوئے اس پر پھونکیں مارتی زمین پر بیٹھ گئی تھی اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ بری طرح سسکیوں سے رونے لگی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial