قسط: 2
بہت ہو گیا ڈیڈ میں اور اب اس سیکیوڑٹی میں نہیں رہ سکتی – پلیز جان چھوڈائیں اس گارڈ سے میری –
ہر جگہ میں اسے ساتھ نہیں لے جا سکتی – وہ غصے سے اپنے باپ سے مخاطب تھی جبکہ اس کے ڈیڈ اس کی بدتمیزی پر بھی ہس رہے تھے –
دیا میری جان تمہاری حفاظت کے لیے رکھا ہے میں نے اسے – یہاں تم سیف نہیں ہو میرے ہزاروں دشمن ہیں یہاں اسی لیے میں نے خان کو تمہارا گارڈ رکھا ہے – وہ بہت اچھا ، شریف اور مضبوط مرد ہے –
مجھے اس پر بھروسہ ہے – انور ملک کی بات پر وہ غصے سے پیر پٹختی بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئی تھی جبکہ باہر نکلتے ہی اسے لاونچ کے داخلی دروازے میں کھڑا خان نظر آیا تھا جو فون پر کسی سے ہس ہس کر بات کر رہا تھا –
اسے دیکھتے ہی دیا نے دانت پیسے تھے اور سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے کی جانب چل پڑی – اسے نا جانے کیوں سخت چڑ تھی اس خوبصورت جن سے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس خوبصورت جن کو بھی حد سے زیادہ چڑ تھی اس حسین چڑیل سے –
لالا مجھے بازار جانا ہے پلیز لے چلو – وہ اپنے بھائی کے کمرے میں آتی لاڈ سے اس کے گلے میں باہیں ڈالٹی بولی جبکہ اس کے لاڈ کرنے پر وہ ہس دیا تھا – ہستے ہوئے اس کی گرین آنکھوں میں چمک آئی تھی –
اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی وجہ ہی اس کی بہن تھی – اس دنیا میں اس کا واحد خونی رشتہ – چچا لوگ بھی تھے مگر بہن بھائی الگ ہی مقام رکھتے ہیں – کیا لینا ہے میری لاڈو نے – اس نے پیار سے اس کے بال بگارتے کہا –
بس ایسے ہی مجھے کچھ ناولز کی بکس لینی ہیں – اور مجھے انکار نہیں کرنا کیونکہ مجھے پہلے ہی ایک مسلہ پیش ہے – اقرا نے منہ بگاڑتے کہا جس پر اس کے لالا نے مسکراہٹ چھپائی تھی – اب کیا ہو گیا میری لاڈو کو ؟؟
اس نے اقرا کو اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھاٹے پوچھا – مجھے نہ کرش ہو گیا ہے – اقرا نے رازداری سے بتایا – جبکہ اس کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہسا تھا – اللہ اللہ اب کس نئے ناول کے ہیرو پر کرش ہوا ہے ہماری رائیٹر کو ؟؟
اپنے لالا کے یوں پوچھنے پر اس نے منہ پھلائے اسے دیکھا تھا – ناول کے ہیرو پر نہیں ہوا کرش بلکہ جیتے جاگتے انسان پر ہوا ہے – اقرا کی بات پر وہ رکا تھا – کون ہے ؟؟ اس نے سنجیدگی سے پوچھا – میں نے اسے دیکھا نہیں ہے –
اقرا نے کہتے دانت نکالے تھے جبکہ اس کی بات پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا تھا – دیکھا نہیں تو کرش کیسے ہوا ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – او ہو لالہ اس کی پرسنیلٹی پر کرش ہوا ہے مجھے –
میری دوست ایمان کے میٹھ کے سر پر کرش ہوا ہے میرا – پتا ہے وہ پٹھان بھی ہیں ، کھڑوس بھی ہیں ، ناول بھی پڑھتے ہیں اور تو اور شاعری بھی کرتے ہیں – آپ کی بہن سے خوب جمے گی اس کی –
اقرا کی باتوں پر وہ اپنا سر تھام کر رہ گیا تھا – ارے ارے سر مت تھامو بس مزاق تھا – اقرا نے فوراً کہا – جانتا ہوں لاڈو کہ یہ مزاق ہے مگر کبھی کبھی انسان مزاق مزاق میں بہت آگے بڑھ جاتا ہے –
تو اپنا کرش نامہ بند کرو – تم جانتی ہو نہ کہ تمہاری نسبت فیاض سے تہہ ہے – لالا کی بات نے اس کے منہ کے زاویے بگارے تھے – بس بس ٹھیک ہے مگر سچ بتاوں زہر سے بھی برا لگتا ہے مجھے فیاض –
سچی بھائی مجھے کزن میرج نہیں کرنی – وہ پہلے عجیب سے منہ بنا کر کہتی آخر میں منت بھرے لہجے میں بولی – کیا کروں گڑیا تمہاری نسبت اماں ابا نے تہہ کی تھی مگر جس دن مجھے فیاض میں کوئی برائی نظر آئی تو میں خود تمہارا رشتہ اس سے ختم کر دوں گا –
اس نے محبت سے اس کا چہرہ تھپتھپاتے کہا جس پر وہ مسکرائی تھی – میرے کرش کو یاد رکھنا پھر – اقرا کے پھر کرش پر آنے پر اس نے پیار بھری گھوری سے اسے نوازہ تھا جس پر وہ کھلکھلا کر ہسی تھی –
اچھا جاو عبایا پہن کر آو میں لے چلتا ہوں بازار تمہیں – اس نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہلکی سی چپٹ لگاتے کہا جس پر وہ فوراً کمرے سے خوشی خوشی نکلی تھی اور اس کے چہرے پر واپس سنجیدگی چھائی تھی جو اس کی زات کا حصہ تھی –
میم اگر آپ برا نا مانیں تو میں اپنی سسٹر کو یونی سے پک کر لوں ؟؟ یہں پاس ہے یونی اس کی – آج اسے جلدی آف ہونا تھا –
خان کی بات پر فون یوز کرتی دیا نے فون سے اپنی گرے نظریں ہٹاتے فرنٹ مرر سے اسے دیکھا تھا – ہمم کر لو پک مگر جلدی اسے گھر ڈراپ کرنا کیونکہ مجھے پھر ریسٹورینٹ بھی جانا ہے میری فرینڈز انتظار کر رہی ہیں –
دیا کے جواب پر وہ خاموشی سے سر ہلاتا گاڑی یونی کے رستے پر ڈال چکا تھا – یونی کے باہر پہنچتے ہی اسے اپنی بہن گیٹ کے پاس کھڑی نظر آئی –
شاید وہ اس کا انتظار کر رہی تھی – گاڑی سے نکلتے وہ اس کے قریب گیا تھا اور اس کا یونی بیگ پکرتے اسے بازو کے ہلکے میں لیتا گاڑی تک آیا تھا – دیا حیرت سے اس کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی –
دنیا جہان کی بیزاریت چہرے پر سجائے رکھنے والا انسان کیسے اس وقت اپنی بہن کے لیے چہرے پر نرمی اور مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا – وہ بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی جو مسکراتے ہوئے اپنی بہن سے کچھ کہہ رہا تھا جبکہ اس کے دلکش چہرے پر مسکراہٹ بہت جچ رہی تھی اس بات کا اقرار دیا کے دل نے کیا تھا –
اپنی سوچ پر غور کرتے وہ ہربڑا کر سیدھی ہوئی تھی تب تک خان اپنی بہن کے ساتھ گاڑی کے قریب پہنچ چکا تھا – فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولتے اس نے اپنی بہن کو بٹھایا تھا اور خود پلٹ کر ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا –
نور یہ میری میم ہیں – خان کے کہنے پر نور نے پلٹ کر دیا کو دیکھا اور بڑی سے مسکراہٹ چہرے پر سجائی تھی – اسلام علیکم میم ! کیسی ہیں آپ ؟؟ نور کے خود کو میم کہنے پر اس نے پہلے خان کو دیکھا تھا جبکہ بعد میں نور کو –
واسلام ! میں ٹھیک ہوں مگر تم مجھے میم مت بلاو کیونکہ میم میں تمہارے بھائی کی ہوں تمہاری نہیں – تم مجھے نادیہ یاں دیا کہہ سکتی ہو –
دیا کے الفاظ پر ان دونوں بہن بھائی کو حیرت ہوئی تھی خاص کر نور کو کیونکہ اس کے بھائی کے مطابق تو اس کی میم بہت بہت نخریلی ، نک چڑی اور مغروری تھی مگر نور کو تو ایسا کچھ نہیں لگا تھا –
اوکے پھر میں اپ کو دیا ہی کہہ لوں گی – نور کی بات پر وہ مسکرائی تھی مگر تبھی اس کی نظر نور کی دائیں کلائی پر گئی تھی جہاں کچھ نشان تھا جیسے کٹا ہو اور اس پر ٹانکے لگائے ہوں – یہ تمہاری کلائی پر کیا ہوا ہے ؟؟
وہ جو مسکرا رہی تھی دیا کے سوال پر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی اور چہرہ کا رنگ اڑا تھا جبکہ خان نے بھی ضبط سے سٹئرنگ پر پکر مضبوط کی تھی – ک…کچھ نہیں بس چوٹ لگی تھی –
نور نے اٹکتے ہوئے جواب دیا جبکہ دیا نے اچھے سے غور کیا تھا کہ بات کرتے اس کے چہرے پر قرب پھیلا تھا اور پورا جسم کانپنے لگ گیا تھا –
نور کی حالت دیکھ وہ کچھ نہ بولی تھی جبکہ خان کا نور کی گود میں پڑے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے کول ڈاون کرنا اس کی نظر سے چھپا نہیں تھا –
اگلے پانچ منٹ تک وہ نور کو گھر ڈراپ کر چکا تھا جبکہ دیا حیرت سے اس چھوٹی سی گلی کو دیکھ رہی تھی جس کی نکر پر گاڑی کھڑی کرتے خان نے نور کو اتارا تھا اور پھر گلی کے ایک چھوٹے سے گھر میں جب تک نور داخل نہ ہو گئی اس نے گاڑی آگے نہیں بڑھائی تھی –
نور کے جاتے ہی خان نے گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھائی تھی اب گاڑی کا رخ ریسٹورینٹ کی جانب تھا –
دیا اور اس کی فرینڈز ریسٹورینٹ میں بیٹھیں انجوائے کر رہی تھیں جبکہ خان دو ٹیبل چھوڈ کر بیٹھا تھا – یار نادیہ تیرا گارڈ کتنا ہینڈسم ہے – دیکھ کر آہیں نکلتی ہیں – افف یار اگر یہ امیر ہوتا نہ تو میں نے تو اس کو سیٹ کر لینا ہے –
اپنی دوست کی بات پر دیا نے چہرہ موڑتے اسے دیکھا جو حسبِ معمول چہرے پر سنجیدگی تاری کیے بیٹھا ارد گرد سے بیگانہ کافی پینے میں مصروف تھا مگر وہ اچھے سے جانتی تھی کہ یہ سب دیکھاوے کی لاتعلقی تھی ورنہ اس کا سارا دیہان اسی کی طرف تھا –
تو اب کر لو سیٹ پھر کیا ہوا اگر وہ غریب ہے تو – دیا نے اپنی دوست کو دیکھتے کہا – نہ یار مجھے غریب سے شادی نہیں کرنی پھر چاہے وہ جتنا مرضی ہینڈسم ہو –
شوہر امیر ہونا چاہیے پھر چاہے کالا یا بڈھا ہو – اپنی دوست کے جواب پر دیا کو اس کی سوچ پر حیرت ہوئی تھی – افسوس ہے تمہاری سوچ پر –
میں اتنا جانتی ہوں کہ محبت نہ تو امیری غریبی دیکھتی ہے نہ ہے کالا گورا – محبت میں کئیر ، عزت اور تحفظ دیکھا جاتا ہے – دیا کے کہنے پر اس کی دونوں دوستیں ہسی تھیں – ہاہا دیا اگر ایسی بات ہے تو تمہیں اس سے محبت کیوں نہیں ہے ؟؟
وہ پیارا بھی ہے ، تمہاری عزت بھی کرتا ہے ، تمہاری کئیر بھی کرتا ہے اور تمہارے تحفظ کے لیے ہر وقت تمہارے ساتھ ہوتا ہے – اس کی دوسری دوست نے خان کو دیکھتے اسے کہا جبکہ اس کی باتوں پر وہ بھی پر سوچ انداز میں خان کو دیکھنے لگی –
وہ اسے دیکھ ہی رہی تھی کہ تبھی اچانک اس کو اٹھ کر اپنی جانب بھاگتے دیکھ دیا کو حیرت ہوئی تھی – اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی خان اس کے پاس آتا اسے اپنے پیچھے چھپا چکا تھا اور تبھی گولی کی آواز آئی تھی –
گولی کی آواز سنتے ہی دیا اور اس کی دوستوں کی چیخ نکلی تھی جبکہ دیا تو ڈر کر آنکھیں بند کرتی خان کی پیچھے سے شرٹ کو مٹھیوں میں میچ گئی تھی – ابھی وہ پہلی آواز سے نہ سنبھلی کہ تبھی اپنے بلکل قریب سے پھر سے گولی کی آواز سن وہ پوری کانپ گئی تھی –
اچانک سے اس طرح گولیوں کی آوازوں پر پورے ریسٹورینٹ میں بھاگ دوڑ اور چیخ و پکار شروع ہو گئی تھی – آر یو اوکے میم ؟؟ خان نے پلٹ کر دیا کو کندھوں سے تھامتے پوچھا جبکہ خان کی آواز پر اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں –
آنکھیں کھولتے ہی اس کی نظر خان کے بازو پر گئی جہاں سے خون بہہ رہا تھا – خ..خا.ن تم…ہارے بازو س..سے خ..خو..خون نکل ر..رہ..رہا ہے – دیا نے اس کے بازو سے نکلتے خون کو خوف سے دیکھتے کہا جبکہ اس کی دوستوں کی حالت بھی اس کی طرح ہی تھی – کچھ نہیں بس معمولی چوٹ ہے خیر ہے –
آپ بتائیں آپ کو تو نہیں لگی کہیں – خان بے لاپرواہی سے کہتے بعد میں اس سے فکرمندی سے پوچھا جبکہ دیا تو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی – کیسا انسان تھا وہ ؟؟ چوٹ اسے خود لگی تھی اور فکر وہ ابھی بھی اس کی کر رہا تھا –
م..میں ٹھیک ہوں – مگر گولی کس نے چلائی تھی ؟؟ دیا نے اسے بے فکر کرتے بعد میں پوچھا جس پر خان نے ریسٹورینٹ کے ایک کورنر کی جانب دیکھا تھا جہاں پر ایک آدمی کی لاش پڑی تھی جس کے دل پر گولی لگی تھی جو یقینً خان نے ہی ماری تھی –
آپ کے بابا کے دشمنوں میں سے کوئی تھا مگر اب اس دنیا سے کوچ کر چکا ہے – آپ ٹینشن نہ لیں چلیں آپ کو گھر چھوڈ آوں – خان اپنے زخمی بازو کو دباتے بولا جبکہ دیا کو تو اس کی فکر لگی تھی –
گ..گھر بعد میں پہلے ہوسپٹل چلو اور یہ میرا آڈر ہے – دیا جو اسے پہلے نرمی سے بول رہی تھی مگر جب خان کو منع کرنے کے لیے منہ کھولتے دیکھا تو آخر میں لہجا سخت کرتے آڈر دیتی بولی جس پر وہ چپ ہوتا ہاں میں سر ہلاتا اسے چلنے کا اشارہ کر گیا –
ڈاکٹر اس کے بازو کی پٹی کر رہے تھے جبکہ دیا فکرمندی سے اسے دیکھ رہی تھی – چلیں ؟؟ پٹی مکمل ہوتے ہی وہ کھڑا ہوتا بولا – جس پر دیا بھی سر ہلاتی خاموشی سے کمرے سے باہر نکلی تھی –
گاڑی کے پاس جاتے ہی خان ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے لگا مگر دیا نے اسے روک دیا تھا – میں کر لوں گی ڈرائیو تم ساتھ والی سیٹ پر بیٹھو – تمہارا زخم کچا اور تازہ ہے – تمہیں پین ہو گی –
دیا اس سے کہتی خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی تھی جبکہ خان تو حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا کیونکہ آتے ہوئے بھی دیا نے ہی ڈرائیو کی تھی – اس کا تو یہ فکر کرنے والا انداز ہی اور تھا –
گھر پہنچتے ہی دیا خود گاڑی سے نکلی اور ڈرائیور کو بلایا تھا – ڈرائیور خان کو اس کے گھر چھوڈ کر آو – اور خان تم دو تین دن نہ آنا بلکہ ریسٹ کرنا – دیا نے پہلے ڈرائیور سے کہتے آخر میں گاڑی کے آدھ کھلے شیشے سے خان کو دیکھتے کہا –
پر میم اپ کی سیکیوڑٹی کا مسلہ ہے تو میں چھٹی نہیں کر سکتا – خان نے انکار کرنا چاہا – ڈونٹ وری میری سیکیورٹی کی ٹینشن نہ لو تم – میں ان تین دن گھر سے نکلوں گی ہی نہیں – دیا نے مسکرا کر کہا جبکہ خان کو تو وہ آج حیران پر حیران کر رہی تھی –
کہاں وہ مغرور لڑکی کہاں اس کے سامنے کھڑی فکر کرنے والی لڑکی دونوں میں بہت فرق تھا – اوکے میم – خان نے دو لفظوں میں بات ختم کی تب تک ڈرائیور سیٹ سنبھالتا گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا – اپنا خیال رکھنا –
گاڑی چلتے ہی دیا نے اسے یاد کروانا ضروری سمجھا تھا جبکہ خان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا وہ تو بس دیا کے اس روپ پر حیران تھا –