Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 20

وہ رات کو گھر ایا تو اسے کچن سے کھٹ پٹ کی اوازیں سنائی دیں تھیں – اوازیں سنتے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی یعنی واقعی دیا نے اس کی بات مان لی تھی اور کچن میں اس کے لیے کھانا بنانے پہنچی ہوئی تھی –
چلو بھئی بالاج خان تیار ہو جاؤ اج رات کے لیے کیونکہ اج کی رات تمہارا پیٹ ضرور خراب ہوگا – وہ اہستہ اواز میں خود سے بڑبڑایا – اسے پتہ تھا دیا کو کھانا بنانا نہیں اتا اور وہ یہ بھی جانتا تھا وہ کہ اج وہ کچھ عجیب سا ہی بنائے گی اسے کچھ بھی کہا جائے گا لیکن کھانا نہیں کہا جا سکے گا –
وہ چاہتا تو نہ کھاتا لیکن وہ خود اسے کہہ کر گیا تھا اور اب اس نے محنت کی تھی تو چاہے جو بھی بنایا ہو اس نے بالاج کو وہ کھانا ہی تھا پھر چاہے ساری رات پیٹ کے درد کی وجہ سے اپنی نیند ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑتی –
اس نے برامدے میں پہنچ کر اس نے اپنا موبائل اور لیپ ٹاپ بیگ وہاں پر پڑے ٹیبل پر رکھا اور بلند اواز سلام کیا تھا جبکہ اس کی اواز سن کچن میں کھڑی دیا نے جلدی سے اپنے ہاتھ رومال سے صاف کرتے قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے – اپ کب آئے ؟؟ پتہ ہی نہیں لگا کیسا گزرا اج کا دن ؟؟
وہ کچن سے باہر اتی بنا بالاج کو سنبھلنے کا موقع دیے کس کر اس کے گلے لگتے ہوئے پوچھنے لگی جب کہ بالاج تو حیرت میں ہی پڑ گیا تھا اس کے یوں قریب آنے پر – اسے سمجھ نہ ایا وہ کیا کرے لیکن پھر اس نے ہلکے سے اس کی کمر پر ہاتھ رکھتے اگلے ہی لمحے اسے دور کیا تھا – ہاں ٹھیک گزرا –
خیر تم یہ بتاؤ تمہارا دن کیسا گزرا اور کیا بنایا تم نے کھانے میں ؟؟ بالاج نے پوچھا جب کہ اس کے پوچھنے پر دیا کہ ہونٹوں کی مسکراہٹ پھیلی تھی – میں نے اج الو گوشت بنائے ہیں دیکھنا اپ کو بہت پسند ائیں گے – دیا نے انکھیں مٹکاتے کہا جب کہ بالاج اس کا کانفیڈنس دیکھ حیران ہوا تھا –
یہ تو کھانے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیسے بنے ہیں – خیر میں چینج کر کے اتا ہوں تو تم اتنی دیر کھانا لگاؤ – بالاج اس سے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا جبکہ پیچھے سے دیا نے اسے پکارا تھا – جلدی چینج کر کے آئیں کھانا میں نے ٹیبل پر پہلے ہی لگا دیا ہے اپ بس ا جائیں –
دیا مسکرا کر اسے کہتی کچن میں واپس چلی گئی تھی جبکہ بالاج حیران تھا اس کا اتنا کانفیڈنس دیکھ اسے یہ تو پتہ تھا کہ وہ کھانا بالکل بھی اچھا نہیں بناتی پھر یہ اتنا کانفیڈنس ایا کہاں سے تھا اس کے پاس –
اب تو کھا کر دیکھنا ہی پڑے گا کہ کیا واقعی اس نے اچھا کھانا بنایا ہے یا بس یوں ہی شوخی ہو رہی ہے – خود سے بڑبڑاتے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوتے دروازہ بند کر گیا –
اچھا نہ زبرش یار کیا ہو گیا ہے معاف کر دو کب سے معافی مانگ رہی ہوں تم سے – اقرا جب سے یونیورسٹی سے ائی تھی زبرش سے مافیاں مانگ مانگ کر تھک گئی تھی لیکن وہ اسے معاف نہیں کر رہی تھی – ابھی بھی وہ اس کے پاس کچن میں اتی ہوئی اس کے سامنے ہاتھ جورتی بولی لیکن زبرش نے کسی قسم کا بھی رسپانس نہیں دیا تھا –
کب تک ناراض رہو گی کہو تو تمہارے لیے اٹھک بیٹھک کر لیتی ہوں پر یار معاف کر دو – اقرا نے پھر سے اس سے کہا جب کہ اب کی بار زبرش نے اس کی جانب دیکھا تھا – کس بات کی معافی مانگ رہی ہو تم اقرا ؟؟ میں نے تم سے کہا ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں ؟؟ میرا بس بات کرنے کا دل نہیں کر رہا اس لیے بات نہیں کررہی –
اس نے سنجیدگی سے کہتے واپس برتن دھونے شروع کر دیے تھے جبکہ اقرا نے اگے ہوتے اس کے ہاتھوں سے برتن پکڑ کر رکھتے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا – ناراض نہیں ہو تو مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ؟؟ جھوٹ مت بولو مجھے پتہ ہے تم مجھ سے ناراض ہو معاف کر دو یار میں بس یہ چاہتی ہوں کہ بھائی اور تم بالکل ٹھیک رہو ایک نارمل کپل کی طرح بس اسی لیے میں نے ایمان سے پوچھا تو اس نے مجھے یہ ائیڈیا دیا –
ایم سوری یار ! اقرا نے شرمندہ ہوتے کہا – تمہیں سوری مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اقرا کون سا تمہارے بھائی نے میرے ساتھ کل پہلی مرتبہ رات گزاری ہے یہ تو میں پہلے دن سے سہہ رہی ہوں – بس مجھے دکھ ہوا اس بات کا کہ تم نے مجھ سے غلط بیانی کی – زبرش کی بات پر اقراء حیران ہوئی تھی –
اسے تو اس سب کے بارے میں علم بھی نہیں تھا – ائی ایم سو سوری میں سچ میں نہیں جانتی تھی کہ ایسا کچھ ہے ورنہ باخدا میں کبھی بھی ایسا نہ کرتی – میں کیوں چاہوں گی کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو پلیز مجھے معاف کر دو اج کے بعد ایسا بالکل نہیں کروں گی –
اقرا نے اب تو باقاعدہ اپنے کان پکڑتے اس سے کہا جب کہ زبرش نے اگے ہوتے اسے گلے لگایا تھا – اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ اپنے کمرے میں – زبرش نے اس کے کمر پر تھپکی دیتے کہا اور پھر جب کچھ پیچھے ہوئی تو اقرا کی اچانک نظر اس کے ہاتھ پر پڑی جہاں پر چھالے پڑے ہوئے تھے – یہاں کیا ہوا ہے زبرش ؟؟
اقرا نے پریشانی سے پوچھا – کچھ نہیں معمولی زخم ہے غلطی سے جل گیا تھا – زبرش نے یوں کہا جیسے جلا نہیں ہو بلکہ ہلکا سا زخم ہو – تم پاگل تو نہیں ہوگی یہ کہاں سے تمہیں معمولی زخم لگ رہا ہے ؟؟ جلا ہے تمہارا ہاتھ اور دیکھو کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں مگر تم پھر بھی کام کر رہی ہو –
چھوڑو یہ سب کام ہاتھ جلا ہوا ہے تمہارا اور تم اسی ہاتھ سے برتن دھو رہی ہو پاگل ہو گئی ہو تم چلو میرے ساتھ اؤ میرے کمرے میں میں تمہارے بینڈج کروں – اقرا نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا اور پھر اپنے ساتھ لے جانے لگی – زبرش نے لاکھ انکار کیا مگر اقرا نے اس کے انکار کو کوئی بھی توجہ نہ دی اور اسے زبردستی اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئی تاکہ اس کے ہاتھ پر پٹی کر سکے –
خان ٹیبل پر بیٹھا تو اس کے سامنے پڑی دوسری چیئر پر دیا بھی ا کر بیٹھی تھی – اب خان خاموش نظروں سے اپنے سامنے پڑے ہارٹ پارٹ اور سالن کے ڈونگے کو دیکھ رہا تھا – پھر ہمت کرتے اس نے سالن کہ ڈونگے کا ڈ ھکن اٹھایا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے سالن کو دیکھا –
وہ دیکھنے میں بالکل بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ خراب ہوگا ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی ایکسپرٹ بندے نے بنایا ہو – اس نے واپس سالن ڈھک کر رکھ دیا اور ہارٹ پارٹ کا ڈھکن اٹھایا تو اندر روٹیاں بھی بالکل گول تھیں – ایک ادھ روٹی کہیں سے جلی ہوئی تھی لیکن وہ بہت اچھی تھیں –
دیکھنے والا نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی نے پہلی بار بنائی ہیں -اس نے پہلے دیا کو دیکھا اور پھر اپنے سامنے پڑے سالن اور روٹیوں کو – اسے نہیں یقین تھا کہ یہ سب دیا نے بنایا ہے لیکن جب اس نے ایک نظر کچن پر ڈالی تو اسے یقین ہو گیا کہ واقعی یہ دیا نے بنایا ہے کیونکہ پورا کچن بکھرا پڑا تھا جگہ جگہ سوکھا اور کچا اٹا پیاز کے چھلکے وغیرہ پڑے تھے –
اس نے تھوڑا سا سالن اپنے لیے چھنی میں نکالا اور ایک روٹی لی پہلا نوالہ جیسے ہی منہ میں لیا تو اس نے ٹیسٹ اچھے سے محسوس کرنے کے لیے انکھیں بند کی تھی سالن بہت زیادہ مزے کا بھی نہیں تھا اور نہ برا تھا درمیانہ تھا یعنی کوشش اچھی تھی – بہت مزے کا ہے – بالاج نے اس کی تعریف کی کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ جب کوئی انسان کام کرے تو اس کی تعریف ضرور کرنی چاہیے تاکہ نیکسٹ ٹائم وہ اپنا وہی کام دگنی خوشی سے کرے اور اس سے بھی اچھا بنائے –
جب کہ اس کے تعریف کرنے پر دیا بہت زیادہ خوش ہوئی تھی – اپ کو پتہ ہے مجھے سمجھ نہیں ا رہی تھی کیسے بناؤں کھانا وہ تو اچانک ہی ساتھ والی انٹی اگئی پہلے تو انہوں نے مجھے حیرت سے پوچھا کہ میں کون ہوں جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اپ کی وائف ہوں تو بہت خوش ہوئیں –
پتہ ہے جاتے ہوئے مجھے 500 روپے بھی دے کر گئی ہیں – میں نے بہت منع کیا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ شگن ہوتا ہے اس لیے میں نے چپ کر کے رکھ لیے – پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کرنے لگی ہو تو میں نے بتایا کھانا بنانا ہے مگر مجھے بنانا نہیں اتا تو انہوں نے میری بہت مدد کی –
وہ یہاں میرے پاس ٹیبل پر بیٹھ گئیں اور مجھے بتانے لگی کہ کیسے کیا کیا کرنا ہے – اپ کو پتہ ہے انہوں نے ہی میری مدد کی کھانا بنانے میں – دیا خوشی سے اسے اج سارا دن کی روٹین بتانے لگی جبکہ بالاج نے نوالہ وہیں روک کے اس کی طرف دیکھا تھا – یعنی کھانا تم نے نہیں بنایا ساتھ والی انٹی نے بنایا ہے ؟؟
بالاج نے انکھیں چھوٹی کیے اسے گھورتے کہا جب کہ دیا فورا نا میں سر ہلانے لگی – نہیں نہیں کھانا میں نے بنایا ہے وہ بس یہاں میرے پاس بیٹھی تھیں اور مجھے بتا رہی تھیں کہ اگے اگے کیا کرنا ہے – یوٹیوب سے مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی تو انہوں نے بتایا – اور پتا کیا انہوں نے ہی کہا تھا کہ گول منہ والے برتن سے روٹیاں بنانا –
میں نے ایسے ہی بنائی ہیں جس سے میری روٹی گول بنی – دیا نے اس کی غلط فیملی دور کرتے ہوئے کہا جس پر بالاج نے سر ہلایا تھا – اچھا ٹھیک ہے تم بھی کھاؤ کھانا – بالاج نے اسے کھانے کا اشارہ کرتے واپس اپنا دھیان اپنے کھانے کی طرف کیا تھا جبکہ دیا بھی دوسری چھنی میں اپنے لیے سارا نکالنے لگی –
یار بہرام سر کتنے پیارے ہیں نا میرا تو سچی ان پہ دل اگیا ہے – پر وہ کسی کو بھی لفٹ نہیں دیتے لیکن تم دیکھ لینا میں بھی انہیں پھنسا کر رہا ہوں گی اخر میں ہوں ہی اتنی خوبصورت اور ذہین بھی – اقرا کلاس میں بیٹھی اپنی رات والی ناول کے ایپیسوڈ کے کمنٹس پڑھ رہی تھی کہ تبھی اسے پیچھے سے کچھ لڑکیوں کی اواز ائی تو اس نے مڑ کر انہیں دیکھا –
وہ تینوں ہی ان کی کلاس کی کافی بولڈ سٹوڈنٹ تھیں جن کی ڈریسنگ بھی بہت بولٹ تھی اور زبان بھی جب کہ ان کے باتوں پر اقرا کو غصہ ایا تھا لیکن ضبط کر گئی کیونکہ اگر وہ غصہ کرتی تو کس بنیاد پر کرتی اگر وہ انہیں کہتی کہ وہ اس کی بیوی ہے تو وہ ہنس پڑتیں کیونکہ بہرام کے مطابق اس کی شادی نہیں ہوئی تھی اور اس نے بھی تو اپنے انٹرو میں یہی کہا تھا کہ وہ ابھی تک سنگل ہے اس لیے ان کو اگنور کرتی وہ واپس اپنے کام پر لگ گئی تھی کیونکہ اسے پرواہ نہیں تھی ایسی لڑکیوں کی & ہاں اگر وہ اپنی حد سے زیادہ بڑھنے کی کوشش کرتیں تو اقرا کو اچھے سے اتا تھا انہیں ان کی حد میں واپس لانا –
اور پھر چاہے وہ بہرام کو زیادہ نہیں جانتی تھی لیکن ان دو تین دنوں میں اس نے تو اسے جان ہی لیا تھا کہ وہ کسی بھی لڑکی کے ساتھ زیادہ فری ہو کر بات نہیں کرتا – اس کے نزدیک تمام لڑکیاں ایک برابر تھیں وہ تو سب کے سامنے اسے بھی سیم ٹریٹ کرتا تھا تو پھر کیسے وہ اس پر شک کر سکتی تھی –
اقرا اج بہرام کے لیے شامی کباب بنا کر لائی تھی کیونکہ زوریز سے پتہ چلا تھا اسےکہ بہرام کو شامی کباب بہت پسند ہیں- اس لیے وہ اس کے لیے سپیشل بنا کر لائی تھی لیکن اس نے ان کباب میں مرچیں بہت زیادہ تیز رکھی تھیں کیونکہ زوریز نے یہ بھی بتایا تھا کہ بہرام زیادہ مرچ نہیں کھاتا وہ بہت لائٹ مرچیں کھاتا تھا – اس لیے وہ اپنے پہلے دن کی بات کا بدلہ لینے کے لیے اس میں مرچیں ڈال کر لائی تھی –
ابھی اپنے فری لیکچر میں اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور بہرام کے افس کی طرف چل پڑی – دروازہ کھٹکھٹانے پر جب اندر سے بہرام کی اجازت ملی تو وہ کمرے میں اس کے افس میں داخل ہوئی – بہرام اسے اپنے افس میں دیکھ کر حیران ہوا تھا – اس نے اپنی دائیں ائیبرو اچکاتے اس سے یہاں انے کی وجہ پوچھی تھی –
وہ میں اپ کے لیے شامی کباب لائی تھی – بھائی نے بتایا اپ کو بہت پسند ہے تو اس لیے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لائی ہوں – اقرا نے اپنا بیگ کھولتے ہوئے اندر سے ٹفن باکس نکالتے ہوئے کہا جب کہ بہرام چئیر سے اٹھ کر اس کے پاس ایا تھا – اچھا جی خیر تھی میرے لیے اتنی محنت کی ؟؟
بہرام نے ٹیبل سے ٹیک لگاتے ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے پوچھا – بس ویسے ہی میرا دل کیا اپ کے لیے کچھ کرنے کو تو میں نے بھائی سے پوچھا اپ کو کھانے میں کیا پسند ہے تو انہوں نے کہا اپ کو شامی کباب پسند ہے اس لیے میں خود اپنے ہاتھوں سے بنا لائی – اقرا نے مسکرا کر کہا جب کہ بالاج نے اگے سے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے نقاب کی پن نکال لی تھی جس سے اقرا کا نقاب کھل چکا تھا – اقرا کا نقاب کھلتے ہی بہرام اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا –
یہ نہیں تھا کہ اس نے اسے دیکھا نہیں تھا نکاح کے بعد اس نے دیکھی تھی ہلکی سی جھلک اس کی جب وہ کمرے میں جا رہی تھی لیکن زیادہ غور سے نہیں دیکھ سکا تھا وہ چپن میں دیکھا تھا اسے ایک دو بار لیکن جب وہ تھوڑی بڑی ہوئی تو پردہ کرنا شروع ہو گئی لیکن اب اس کو غور سے دیکھتے بہرام کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی جبکہ بہرام کے یوں اپنا نقاب اتارنے پر اقرا کی دھرکن بھی نارمل سپیڈ سے ہٹتی دھڑکی تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں کانپے تھے –
اسکے ہاتھ سے ٹفن گرتے گرتے بچا تھا اس کے – یہ لے کھائیں نا ! اقرا نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے اس کے سامنے ٹفن باکس کرتے کہا جس پر بہرام نے ایک شامی کباب اٹھاتے اس کی ایک بائٹ لی تھی لیکن جیسے ہی اس نے بائٹ لی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ اقرا کی باتوں میں گیا – شامی کباب میں اتنی مرچیں تھی کہ اس کا چہرہ پورا لال ہو گیا تھا اس نے باقی کا شامی کباب فورا واپس رکھتے ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر پینا چاہا مگر اقرا نے جلدی سے گلاس خود اٹھا کر سارا پانی پی لیا تھا –
بہرام انکھیں کھولیں اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا اس نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا – اُپس سوری یہ تو میں پی گئی – اقرا نے شرارتی انداز میں انکھیں ٹپ ٹپاتے کہا جب کہ بہرام نے بھی بنا کچھ کہے اس کا ہاتھ پکڑ اسے اپنی جانب کھینچا اور خود اس کے ہونٹوں پر جھک گیا –
اس کے یوں خود کے قریب انے پر اقرا کی پوری انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں – پوری شدت سے اس کے ہونٹوں کو چومتے بہرام نے جیسے مرچوں کی جلن اس کے اندر اتارنی چاہی- کچھ دیر بعد وہ اس سے پیچھے ہوا تو اقرا نے کھانستے ہوئے اپنا سانس درست کیا تھا –
جبکہ بہرام نے اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا اپنے ہونٹ پر پھیرا تھا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا جبکہ اب اقرا مرچی سے تڑپ رہی تھی – یا اللہ مرچی ! پانی ! کتنی مرچی ہے ! اقرا اپنے منہ کے پاس ہاتھ ہلاتی ادھر ادھر پانی ڈھونڈنے تے ہوئے بول رہی تھی جبکہ اب بہرام اسے دیکھ کر مزے لے رہا تھا –
بہت مزے کے شامی کباب ہیں لاؤ باقی بھی ختم کروں ویسے بھی اب مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے اس انداز سے زیادہ بہتر طریقے سے مرچی دور ہو رہی ہے کافی میٹھی ہو تم – بہرام نے شرارتی انداز میں کہتے اگے ہو کر ٹیفن پکڑنا چاہا مگر اقرا نے جلدی سے ٹیفن پکڑ کر اپنے پیچھے چھپایا تھا –
نہیں اور نہیں دوں گی اپ کو بہت مرچی ہے اس میں اپ نہیں کھاؤ گے – وہ بہت جلدی سے اسے کہتی بنا اس کی طرف دوبارہ دیکھے شرم سے ہوا لال چہرے کو نقاب سے جلدی سے کور کرتی اپنا بیگ اٹھا کر اس کے افس سے نکل گئی تھی جبکہ پیچھے وہ بہرام کا قہقہ گونجا تھا –
وہ کبھی بھی نہیں اتنا مسکراتا تھا مہینے میں ایک بار کبھی کوئی خوش قسمت دن ہو تو وہ مسکرا دیتا لیکن جب سے اقرا اس کی زندگی میں ائی تھی اب تو وہ قہقہے لگا کر ہستہ تھا اور اس کی انکھ کے نیچے والا گڑھا جو پہلے اپنی نمائش کو ترستا تھا اب تو روز اداؤں کے ساتھ اپنی جھلک دکھاتا تھا –
دوسری طرف اس کے افس سے باہر نکلتے ہی اقرا نے لمبے لمبے سانس لیتے نقاب سمیت اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے جیسے خود کو نارمل کرنا چاہا پھر جلدی سے اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کسی نے اسے دیکھا تو نہیں اس حالت میں لیکن جب اسے کوئی بھی اپنی جانب متوجہ نہ دکھا تو اسے سکون کا سانس ایا تھا اور وہ بھاگنے والے انداز میں اپنے روم کی جانب بڑھی تھی –
اسے بہرام سے ایسے کسی عمل کی امید نہیں تھی – اس نے توبہ کر لی تھی کہ اب دوبارہ کبھی بھی بہرام کو تنگ کرنے کی نیت سے اس کے افس میں اکیلی نہیں جائے گی – اج اس نے یہ غلطی کر لی تھی اور اس کی بہت اچھے طریقے سے سزا بھی بھگت لی تھی –
اس کے دل کی دھڑکن ابھی تک تیز تھی اسے سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ وہ کیا کرے – اپنے ناولز میں تو وہ بڑے دھڑلے سے رومینس لکھ لیتی تھی لیکن اب جب ریل لائف میں اس کے ساتھ رومینٹک سین ہوا تھا تو خود کے ہوش ٹھکانے لگ گئے تھے اور زبان سے توبہ توبہ کا لفظ نکل ہی نہیں رہا تھا –
وہ جو سب سے کہتی پھرتی تھی مجھے رومینٹک شوہر چاہیے بہرام کے ایک کس پر اس کے 14 طبق روشن ہو گئے تھے –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial