Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 22

نہیں چاہیے مجھے یہ بچہ – اسی وقت ختم کروا کر انا تھا اسے- میں ایک ونی سے اولاد بالکل نہیں چاہتا – زوریز نے غصے سے اس کے دونوں کندھے اپنے ہاتھوں کی گرفت میںدبوچتے اسے جھنجوڑتے ہوئے کہا جب کہ زبرش جس کے دل میں تھوڑی سی امید تھی کہ شاید زوریز یہ سن کر خوش ہو وہ امید بہت بری طرح سے ٹوٹی تھی اور دل خون کے انسو رویا تھا –
بلکل میں بھی یہی کہنے والی تھی کہ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے – زبرش نے اپنے اندر کی تکلیف کو چہرے پر نہیں آنے دیا تھا اور بلکل سیریس ہو کر اس نے کہا تھا جبکہ زوریز اس کی بات پر کافی حیران ہوا تھا –
کیا مطلب ؟؟ زوریز نے اس کے کندھے چھوڈتے پیچھے ہو کر نا سمجھی سے پوچھا – مطلب صاف ہے کہ مجھے یہ بچہ چاہیے ہی نہیں – میں اس بچے کو دنیا میں لانا ہی نہیں چاہتی –
میرا بھائی مجھ سے یہ وعدہ کر کے گیا ہے کہ وہ مجھے یہاں سے لے جائے گا – اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارے ساتھ زوریز خان کے خون کو بھی لے کر جاوں گا – مجھے میرے بھائی کا انتظار ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ لے ائے گا میری ازادی کا پروانہ ثبوت کی صورت میں –
ایسے میں میں کبھی بھی اس بچے کو پیدا کر کے اپنے پاوں میں بیڑیاں نہیں ڈال سکتی – تو مجھے بھی اس بچے کو ختم کرنا ہے – آپ کو اس لیے بتا رہی تھی کیونکہ ہوسپٹل میں فارم پر سائن آپ کے ہی چاہیے ہیں –
زبرش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں کہا جبکہ اندر ہی اندر اس کے دل کو کچھ ہو رہا تھا اپنی اولاد کے بارے میں ایسے بولتے – زوریز کا تو دماغ اب اصل میں گھوما تھا اس کے الفاظوں پر – کیا بکواس کی تم نے ؟؟
تم میرا بچہ ختم کرو گی ؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایسا بولنا تو دور سوچنے کی بھی – زوریز نے اس کے منہ کا جبڑا دبوچتے کہا – اسے یہ بات غصہ دلا گئی تھی کہ زبرش بالاج کی وجہ سے بچہ ختم کرنے کی بات کر رہی ہے –
اس لیے وہ اب ضد میں آتا اپنے ہی بیان سے مڑا تھا – کیا مطلب ہے آپ کی بات کا ؟؟ آپ بھی تو یہی چاہتے ہیں ؟؟ زبرش نے اس کے ہاتھوں سے اپنا جبڑا چھوڈاتے ناسمجھی اور حیرانی والے تاثرات چہرے پر لاتے کہا –
چاہتا تھا یا نہیں چاہتا تھا اس سے تمہارا کوئی مسلہ نہیں ہے – اگر میں نے پہلے بچہ ختم کرنے کی بات کی تھی تو ابھی میں ہی کہہ رہا ہوں کہ یہ بچہ تم پیدا کرو گی – زوریز نے اس کو جیسے وارن کیا تھا –
مگر آپ کو تو اس بچے سے کوئی لگاو نہیں ہے – زبرش پھر سے بولی کیونکہ وہ جلدی اس کی بات مان کر خود پر شک نہیں لا سکتی تھی اس کا – مجھے اس سے لگاو ابھی بھی نہیں ہوا مگر میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا –
اگر تم اسے پاوں کی بیڑیاں کہو تو وہی سہی مگر اب یہ بیڑیاں تمہارے پاوں میں ڈلیں گیں – اگر تم نے میرے بچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے بھائی کا بھی آخری دن ہوگا اس دنیا میں –
زوریز نے اسے دھمکی دیتے کہا جبکہ زبرش اس کی دھمکی پر ڈرنے والے تاثرات لاتی فوراً سر ہاں میں ہلانے لگی –
مجھے لنچ کروائیں اج کیونکہ میں نے آج لنچ نہیں کیا اور بھوک بہت لگی ہے مجھے – اقرا کو بہرام یونی سے گھر چھوڈنے جا رہا تھا جبکہ بھوک سے تنگ آتے اقرا نے نقاب چہرے سے ہٹاتے اس سے ڈیمانڈ کی –
وہ یونہی گاڑی میں بیٹھ کر نقاب اتار دیتی تھی کیونکہ بہرام کی گاڑی کے شیشے بلیک تھے تو باہر سے اندر کچھ نظر نہیں آتا تھا – بہرام اسے روز یونی سے گھر تو چھوڈنے جاتا مگر کبھی وہ دونوں ایک ساتھ نہیں نکلے تھے یونی سے –
بہرام پہلے جاتا اور گاڑی یونی سے تھوڑا دور کھڑی کر لیتا جبکہ پانچ منٹ بعد اقرا بھی وہاں آجاتی اور پھر وہ دونوں گھر کے لیے روانہ ہوتے – وہ کسی قسم کا سکینڈل نہیں چاہتے تھے اس لیے ایسا. کرتے – بتانے کو تو بتا سکتے تھے وہ اپنا رشتہ مگر ابھی خود ہی چھپا رہے تھے – کیا کھانا ہے تم نے ؟؟
بہرام نے اقرا کی جانب منہ کرتے پوچھا اور گاڑی کو ریسٹورنٹ کے راستے پر موڑا تھا – سپائسی کڑاھی گوشت ! اقرا نے جلدی سے پرجوش انداز میں کہا جبکہ بہرام نے اسے گھورا تھا – نہیں کچھ اور بتاو کیونکہ میں سپائس نہیں کھاتا –
بہرام نے منع کرتے کہا جبکہ اقرا نے اسے افسوس بھری نگاہوں سے دیکھا تھا – پتا کتنا مزے کی ہوتی ہیں سپائیسی ڈشزز – آپ تو بہت بڑے کم عقل ہو جو نہیں کھاتے – میری نظر میں تو وہ بندہ گناہ گار ہے جو سپائس نہیں کھاتا –
اقرا نے اس پر افسوس کرتے کہا – ہاں بلکل اور اسی گناہ کی سزا کے طور پر مجھے تمہاری شکل میں تیکھی مرچی جیسی بیوی ملی ہے – بہرام کے کہنے پر اقرا نے اسے غصے سے گھورا تھا – اس دن تو کہہ رہے تھے کہ میٹھی ہوں میں اور اج کہہ رہے ہیں کہ تیکھی مرچی ہوں –
اقرا نے غصے سے ناک پھلاتے کہا جبکہ پوری بات بولنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ بول کیا چکی ہے تو شرمندہ ہوتی زبان دانتوں میں دبا گئی – اچھا ایسا کچھ کہا تھا میں نے ؟؟ مجھے تو یاد بھی نہیں ہے پر کوئی نہیں ابھی دوبارہ سے چیک کرتے ہیں کہ تم میٹھی ہو یاں تیکھی –
بہرام نے گاڑی روک کر کہا اور پھر اقرا کے گلے کے گرد ہاتھ رکھ اسکے چہرے کو ایک جھٹکے سے اپنی طرف کرتے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ گیا – اقرا اسے دور کرنے کے چکر میں آدھی ہوئی تھی مگر وہ اچھے سے خود کو سیراب کرتے پیچھے ہٹا تھا – ہاں یار تم تو واقع میٹھی ہو اور مجھے میٹھا بہت پسند ہے –
تم بس اب بچ کر رہنا کیونکہ میں تو منہ میٹھا کرنے کے لیے تمہارے قریب آتا ہی رہوں گا جب تک رخصتی نہیں ہوتی کیونکہ رخصتی کے بعد تو میں تمہیں کھا ہی جاوں گا – بہرام نے واپس گاڑی سٹارٹ کرتے شرارتی انداز میں کہا جبکہ اقرا بیچاری تو نظریں اٹھانے سے بھی گئی تھی –
بہت بے شرم ہیں آپ – میں نہیں جاوں گی کل سے اپ کے ساتھ گھر واپس – اقرا نے کچھ شرم اور کچھ غصے بھرے انداز میں کہا جبکہ اس کے یوں کہنے پر بہرام کا قہقہ گونجا تھا گاڑی میں –
خان صبح بنا ناشتہ کیے ہی چلا گیا تھا – دیا نے ہلانکہ ناشتہ بنا کر رکھا تھا مگر وہ تیار ہوکر بنا اس سے بات کیے اور ناشتہ کیے گھر سے چلا گیا تھا اور اسی چیز سے دیا ہرٹ ہوئی تھی –
وہ جو پہلے اٹھنے میں دوپہر کا وقت لے اتی تھی مگر اب صبح اپنی نید صرف اس کے لیے قربان کرتی کچن میں کھس جاتی تھی – مگر وہ پتھر دل اس کا ہر بار توڑ دیتا تھا –
وہ صبح سےرو رہی تھی یہی سوچ سوچ کر کہ وہ صرف اس لڑکی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوگیا – اب تو رو رو کر اس کا سر بھی درد سے پھٹنے لگا تھا –
بالاج صبح سب سے پہلے ڈیٹیکٹو کے پاس گیا تھا تاکہ اس کی کلاس لے سکے کہ آخر ابھی تک کوئی ثبوت کیوں نہیں ملا مگر جب وہ اس سے ملنے پہنچا تو ڈیٹیکٹو نے خود ہی ہاتھ کھڑے کر دیے تھے –
اس کے مطابق اس نے آج تک ایسا کیس نہیں دیکھا تھا جس میں ایک سوراغ بھی نہ ملے – بالاج بھی اسےاچھی خاصی سناتا وہاں سے نکلا تھا کہ اگر اس سے نہیں ہورہا تھا کیس ہل تو بتا دیتا تاکہ وہ کسی دوسری طرح سے خود ہی کچھ کر لیتا – آفس میں بھی اس کا کام میں دل نہیں لگ رہا تھا – وہ پریشان بیٹھا زبرش کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ تبھی اسے کسی ان نون نمبر سے کال آنے لگی –
اس نے پہلےتو نمبر دیکھتے پہچاننا چاہا مگر جب نہ سمجھ آئی تو پک کی تھی کال – ہیلو کیاآپ بالاج خان بات کررہے ہیں ؟؟ فون کی دوسری جانب سے آواز آئی – جی میں ہی ہوں مگر آپ کون؟؟ بالاج نے حیرت سے پوچھا – میں آپ کو ایسے تو نہیں بتا سکتا – میں آپ سے مل کر کچھ بتانا چاہتا ہوں –
دوسری طرف سے آدمی بولا – کس بارے میں ؟؟ بالاج نے پوچھا – آپ اپنی بےگناہی کا ثبوت ڈھونڈ رہے ہو نہ تو بس میرے پاس اسی متعلق کچھ انفارمیشن ہیں – دوسری طرف سے اس آدمی کی بات سن بالاج ایک دم سیدھا ہوا تھا –
کیسی انفارمیشن ؟؟ بالاج نے بےقراری سے پوچھا – کیا آپ مل سکتے ہیں مجھ سے ؟؟ ایسے کال پر نہیں بتا سکتا – اس آدمی نے کہا جبکہ بالاج فوراً مان گیا تھا – کب اور کہاں ملنا ہے ؟؟ بالاج کا بس چلتا تو ابھی اڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتا –
ابھی میں شہر میں نہیں کل اوں گا تو اپ کو میں کل ملوں گا – وقت اور جگہ کے بارے میں میسج کر دوں گا – اگلے انسان نے کہا جبکہ بالاج نے اوکے کہتے کال کاٹ دی – اس کے لیے مشکل ہونا تھا مگر جہاں اتنا انتظار کیاوہاں ایک دن اور سہی –
چچی ڈاکٹر آیا تھا کل شام کو چچا کا چیک اپ کرنے ؟؟ سوری میں کاموں میں اتنا الجھا کہ خود آکر دیکھ ہی نہیں سکا -پہلے والا ڈاکٹر کا کام تو مجھے سہی نہیں لگا تو یہ نیا ڈاکٹر بھیجا تھا میں نے –
زوریز نے چچی سے پوچھا جبکہ اس کے یوں اچانک پوچھنے پر چچی کے چہرے کا رنگ اڑا تھا – انہیں نہیں پتا تھا کہ زوریز ڈاکٹر چینج کر رہا ہے – کل تو آیا ہی نہیں تھا کوئی ڈاکٹر – مگر انہوں نے شکر کیا تھا – نہیں بیٹا نہیں ایا کوئی ڈاکٹر – چچی نے حیران ہونے کا ناٹک کرتے کہا –
اچھا مگر میں نے کہا تھا اسے آنے کو – شاید اسے ٹائم نہ ملا ہو – زوریز نے سوچتے ہوئے کہا – زوریز رہنے دو نئے ڈاکٹروں کو پرانا ڈاکٹر زیادہ بہتر ہے – کم سے کم ٹائم پر آتا تو ہے – چچی نے چالاکی سے کہا جبکہ زوریز محض سر ہلایا تھا –
خان نے گھر اکر دروازہ کھٹکٹایا تو تھوڑی دیر بعد دیا نے دروازہ کھولا مگر دیا کی رونے کے سبب ہوئی لال اور سوجی آنکھیں دیکھ خان کو حیرت اور پریشانی ہوئی تھی – کھانا لگاوں ٹیبل پر ؟؟
دیا نے اسے پانی پلاتے پوچھا – ہمم لگا لو – خان پانی پی کر کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا – وہ کپڑے چینج کر کے نکلا تو دیا کھانا ٹیبل پر لگا چکی تھی – دونوں نے ایک ساتھ ہی کھانا کھایا تھا –
بالاج دیکھ رہا تھا اسے نہ وہ اس سے بات کر رہی تھی نہ ہی لڑ رہی تھی – بلکہ چپ تھی – کھانا بھی بہت کم کھایا تھا – ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کی طبعت خراب تھی مگر اس نے بھی نہیں پوچھا تھا اس سے اس کی طبعت کا –
وہ کمرے میں لیٹا اپنا لیپ ٹاپ یوز کر رہا تھا کہ تبھی دیا اس کے کمرے میں بنا دروازہ ناک کیےآئی تھی – بالاج کو غصہ تو آیا پر اس کی روئی روئی آنکھیں دیکھ خاموش رہا – سر درد کی گولی ہے ؟؟
دیا نے رونے کے سبب ہوئی بھاری آوازمیں پوچھا جبکہ اس کے پوچھنے پر بالاج نے جب ڈرار چیک کیا تو وہاں کوئی پین کلر نہیں تھی – نہیں ختم ہوئی پڑی ہیں – بالاج نے نہ میں سر ہلاتے کہا جبکہ دیا خاموشی سے جانے لگی مگر بالاج نے اسے آواز دیتے روکا تھا – رکو ! زیادہ پین ہورہی ہے سر میں ؟؟
بالاج نے نرم لہجے میں پوچھا جس پر دیا نے روتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائی – ادھر آو میں دبا دوں – بالاج نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کرتے کہا – اسے دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ دیا کے سر میں بےتحاشہ درد ہے –
نہیں اٹس اوکے ! دیا کہتے جانے لگی مگر بالاج کے الفاظ سے منجمد ہوئی تھی – نادیہ میں نے کہا ادھر او سر دباوں میں تمہارا – بالاج تھوڑا سخت ہوتا بولا جبکہ دیا تو اس کے منہ سے اپنا نام سن ساکت ہوئی تھی – آپ نے ابھی میرا نام لیا ؟؟ دیا نے حیرت اور خوشی سے پوچھا –
ہاں وہ تو کل بھی لیا تھا جب نمرہ کا انٹرو کروایا تھا – بالاج نے کندھے اچکاتے کہا – ہائے دفع ہو وہ کمینی اسکی وجہ سے آپ کے منہ سے اپنا نام بھی نہ سن سکی – میری لائف کا بیسٹ مومنٹ تھا وہ اور وہ مس ہوگیا – دیا منہ میں بڑبڑائی – کیا کہ رہی ہو اونچا بولو – بالاج نے اسے بڑبڑاتے دیکھ کہا –
نہیں کچھ نہیں اپ میرا واقع سر دباو گے ؟؟ دیا نے پوچھا جس نے بالاج نے ہاں میں سر ہلایا – اس کی ہاں سنتے مطلب دیکھتے ہی دیا فوراً بیڈ پر چڑھتی اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی –
اس کے یوں گود میں سر رکھنے پر بالاج حیران ہوا تھا – یہ کا بدتمیزی ہے اٹھو اور تکیے پر سر رکھو – بالاج نے سختی سے کہتے اس کا سر اٹھانا چاہا مگر دیا نہ ہلی – نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے پلیزز ز نہ –
دیا نے منت کی تو وہ چپ ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ اس کا سر دبانے لگا – بالاج کے سردبانے سے اسے بہت سکون ملا تھا اور وہ اس کی گود میں ہی سو گئی – اس کے سوتے ہی بالاج نے ہاتھ روک دیے تھے –
کچھ دیراس کے سوتے ہوئے چہرے کو دیکھتے رہنے بعد بالاج نے آرام سے اس کا سر گود سے اٹھایا اور تکیے پر رکھتے اسے سیدھا لٹایا تھا – کمرے کی لائٹ آف کرتے وہ خود بھی بیڈ پر آکر لیٹ کر آنکھیں بند کر گیا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial