قسط: 23
اچھا اقرا مجھے تمہیں بتانا تھا کہ بہرام کہہ رہا تھا اج واپسی پر تم اس کے ساتھ شاپنگ پر چلی جانا کیونکہ رخصتی میں ایک ماہ ہی رہ گیا ہے تو تم دونوں کو اپنی شادی کی شاپنگ کر لینی چاہیے – صبح اقرا کے یونی جانے سے پہلے زوریز اور اقرا ناشتہ کر رہے تھے کہ تبھی زوریز نے اقرا سے کہا –
مجھے اپ سے بات کرنی تھی لالا – اقرا نے اس کی بات کا بنا کوئی ہاں نہ میں جواب دیے کہا – جی میری جان بولو – زوریز نے محبت سے کہا جبکہ کچن میں کھڑی زبرش کے کانوں میں جیسے ہی اس کے الفاظ پڑے تو اس کی آنکھوں سے خود بخود آنسوں بہنے لگے اور دل سے ہوک اٹھی تھی –
اسے شدت سے بالاج کی یاد آئی تھی – اس کا بھائی بھی تو اسے ایسے ہی محبت سے پکارتا تھا – اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی ہچکی روکی تھی کیونکہ اس کا دل واقع بالاج کے لیے اداس تھا –
اسے بہت یاد آ رہی تھی بالاج کی – لالا وہ مجھے ابھی رخصتی نہیں کرنی – میں چاہتی ہوں میری رخصتی ایک مہینے کے بعد کی کینسل کر کے ایک سال بعد رکھ دی جائے – اقرا نے ہچکچاتے کہا جبکہ زوریز حیران ہوا تھا اس کی بات پر –
کیوں بچہ ؟؟ زوریز نے نا سمجھی سے پوچھا – لالا آپ کو تو پتا ہے زبرش امید سے ہے اور میں اس حالت میں اس کےساتھ رہنا چاہتی ہوں – اگر میری رخصتی ہوگئی تو آپ اور زبرش واپس گاوں چلے جاو گے کیونکہ یہاں رہنے کا جواز ختم ہو جائے گا اور پھر چچی اور فرح کو بہت اچھے سے جانتی ہوں میں –
وہ دونوں ہی زبرش اور بے بی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گی – اس لیے میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی – اقرا نے تحمل سے اپنے رخصتی سے انکار کی وجہ بتائی تھی – تم فکر نہ کرو میں ہوں نہ کچھ نہیں ہونے دوں گا اپنے بچے کو –
زوریز نے اقرا کو یقین دلاتے کہا – زبرش کچن میں کھڑی ان کی ساری باتیں سن رہی تھی – صرف بے بی ؟؟ زبرش کا خیال نہیں رکھیں گے ؟؟ اقرا نے پوچھا جس پر زوریز لاجواب ہوا تھا –
چلو تمہیں ڈراپ کردوں کیونکہ دیر ہو رہی ہے تمہیں – تمہیں چھوڈ کر ایک دو کام نپٹانے ہیں مجھے شہر والے گھر کے کیونکہ اسی ہفتے فارم ہاوس سے ہم گھر شفٹ ہوجائیں گے – زوریز نے اس کی بات کو اگنور کرتے کہا جبکہ اقرا خاموشی سے چئیر سے اٹھ کر اپنا
بیگ اٹھاٹی کچن کی جانب بڑھ گئی کیونکہ اسے عادت تھی کہ وہ یونی جاتے ہوئے اور آتے ہی زبرش سے ضرور ملتی تھی –
بالاج کی آنکھ دیر سے صبح کھلی تھی – اس نے خود پر کسی کا بوجھ محسوس کیا تو اپنے سائیڈ پر دیکھا جہاں دیا اس کو کسی بھالو کی طرح ہگ کیے مزے سے سو رہی تھی اس کا چہرہ بالاج کے چہرے کے بےحد قریب تھا – سوتے ہوئے وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ بالاج نے بےساختہ آگے چہرہ کرتے اس کے گال پر ہونٹ رکھے تھے –
لیکن پھر اسے جب اپنی بےخیالی کا خیال ایا تو فوراً پیچھے ہوا تھا – اسے حیرت ہوئی خود پر کہ آخر وہ کیسے کر سکتا تھا یہ ؟؟ دیا کو آرام سے خود سے دور کرتے وہ بیڈ سے اترا تھا – اس کا ارادہ نہیں تھا دیا کو اٹھانے کا – تیار ہوکر اس نے اپنا موبائل اور لیپ ٹاپ اٹھایا اور پھر سوئی ہوئی دیا کو ایک نظر دیکھتا کام کے لیے نکل گیا –
آج بہرام سے ضد کرتے سٹیوڈنٹ نے لیکچر فری لیا تھا اس سے کیونکہ وہ اج بہرام کے ساتھ مل کر انجوائے کرنا چاہتے تھے – بہرام کا ماننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اقرا کی جانب جب اس نے دیکھا تو اقرا نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں ہاں کا اشارہ کیا تو وہ مان گیا تھا –
اب کلاس کا کوئی نہ کوئی سٹیوڈنٹ کچھ نہ کچھ اپنی مرضی سے کر کے دیکھا یا سنا رہا تھا – اقرا نے تو پہلے ہی منع کر دیا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کرے گی اس لیے وہ صرف انجوائے کر رہی تھی – سر میں ایک شعر سناوں گا –
یہ میری کرش کے لیے ہے اور وہ اسی کلاس میں ہیں – ہوپ سو وہ سمجھ جائیں – کلاس کا ایک لڑکا کھڑا ہوتا بولا – اوکے سنائیں – بہرام نے کہا جبکہ باقی کلاس نے ہوٹنگ اور کلاپنگ کرتے اس لڑکے کو چئر اپ کیا تھا –
کیسے کروں میں حسنِ یار کی تعریف !!
وہ تو جواب بھی لاجواب رکھتے ہیں !!
چاند بھی شرما جائے ان کو دیکھ کر !!
ابھی وہ چہرے پر حجاب رکھتے ہیں !!
اس لڑکے کے شعر پڑھتے ہی ساری کلاس اقرا کو دیکھنے لگی کیونکہ کلاس کی وہ ہی واحد لڑکی تھی جو حجاب اور نقاب کرتی تھی – کچھ رہی سہی کسر اس لڑکے نے باقاعدہ اسے دیکھ کر ختم کر دی تھی –
اقرا تو حیران اور پریشان تھی اس سیچوئیشن میں کیونکہ بہرام کا غصے سے مٹھیاں بند کرتے خود پر کنٹرول کرنا وہ اچھے سے دیکھ رہی تھی جبکہ کلاس کی عجیب نظریں اور باتیں اس کو الگ پریشان کر رہی تھیں –
اووو تو شیروز تم اقرا کو پرپوز کر رہے ہو ؟؟ کلاس کی اسی لڑکی نے پوچھا جو اس دن بہرام کے بارے میں باتیں کر رہی تھی – اس لڑکی کے پوچھنے پر شیروز نے ہاں میں سر ہلاتے اقرا کو مسکرا کر دیکھا جس پر کلاس نے ہوٹنگ کی تھی – دیکھیں بھائی مجھے نہ تو اپ میں انٹرسٹ ہے نہ اپ کے پرپوزل میں –
میں یہاں پڑھنے اتی ہوں یوں رشتے بنانے یا لڑکوں کو لبھانے کے لیے نہیں – میں نہیں جانتی کہ کیسے آپ میری طرف اٹریکٹ ہوئے مگر معاف کریے گا مجھے یہاں عزت سے پڑھنا ہے تو آپ بھی یہ خناس اپنے دماغ سے نکال دیں – اس سے پہلے بہرام غصے سے کچھ بولتا اقرا فوراً کھڑی ہوتی دو ٹوک انداز میں بولی –
مگر میں…… ! بس سٹاپ اٹ ! میں نے کلاس کو اس سب کاموں کے لیے فری لیکچر نہیں دیا تھا – ساری کلاس چپ کرکے بیٹھے اور اپنا لیکچر نکالیں – بہرام کے شیروز کی بات بیچ میں ہی کاٹتے غصے سے کہنے پر سب سیدھے ہوکر بیٹھے تھے اور اپنے فولڈر اور نوٹس نکال چکے تھے – اقرا کو تو فکر ہو رہی تھی کہ اب واپسی پر اس کی ضرور کلاس لگنی تھی –
بالاج کو اس ادمی کا میسج ملا تو وہ فوراً اس جگہ پہنچا جہاں اسنے بلایا تھا اسے – مگر جب وہ اس جگہ پہنچا تو اسے حیرت ہوئی کیونکہ وہ کوئی ہاسپٹل تھا – کیسے ہیں بالاج خان ؟؟ وہ یہاں وہاں دیکھتا اس شخص کو ڈھونڈ دہا تھا جس نے اسے بلایا تھا کہ تبھی اسی کی عمر کا ایک لڑکا اس کے پاس آتا بولا –
اس کی آواز سے بالاج پہچان گیا تھا کہ وہ وہی شخص تھا جس نے اسے کال کی تھی – آپ وہی ہیں ؟؟ بالاج نے پوچھا جس پر اس لڑکے نے سر ہلایا – ہمم میں ہی ہوں وہ جس نے آپ کو بلایا – آئیے میرے ساتھ – وہ آدمی کہتا اسے اپنے پیچھے آنا کا کہتے خود ہاسپٹل کے اندد چلاگیا جبکہ بالاج بھی حیرانگی سے اس کے پیچھے ہی تھا –
وہ آدمی اسے ایک روم میں لے گیا تھا جہاں ایک لڑکی مشینوں کے درمیان جکری آنکھیں موندے لیٹی تھی – یہاں کیوں لائے ہو مجھے ؟؟ تم کوئی ثبوت اور انفورمیشن دینے والے تھے قاتل کے بارے میں ؟؟ بالاج نے اس سے نا سمجھی سے پوچھا – ہاں بلکل اسی لیے تو یہاں لایا تمہیں – میرا نام عدنان ہے اور یہ لڑکی جو مشینوں میں جکڑی کومہ میں ہے یہ میری بہن ہے فروہ – جانتے ہو بالاج یہ اس حالت میں کیوں ہے ؟؟
عدنان نے اپنا تعارف کرواتے پوچھا جس پر بالاج نے نہ میں سر ہلایا – میری بہن اس حالت میں اس لیے ہے کیونکہ اس کا ……. ریپ ہوا ہے – اور جانتے ہو کرنے والے کون تھے ؟؟ عدنان نے تکلیف سے اسے بتایا جبکہ بالاج کا خود دل کانپ گیا تھا اس کی بات سن جبکہ اس کے پھر سے سوال پوچھنے پر اس نے پھر نہ میں سر ہلایا –
. فیاض خان آفریدی اور اس کا دوست – عدنان نے نفرت سے ان کا نام لیا جبکہ اس کے منہ سے نکلتے نام سن بالاج نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا تھا – ہاں بلکل وہی تھا کمینہ انسان اور اس کا دوست -میری انکھوں کے سامنے انہوں نے میری بہن کو اغواہ کیا – میں بے بس سا کچھ نہ کر پایا کیونکہ انہوں نے میری ٹانگ پر گولی ماری تھی –
بہت دھونڈا میں نے اپنی بہن کو مگر وہ نہ ملی اور دو تین دن بعد مجھے وہ ادھ مری حالت میں سنسان جگہ پر ملی – تمہیں اسی لیے یہاں بلایا ہے میں نے کیونکہ میں بنانا چاہتا تھا قاتل کون ہے اور تمہیں قاتل سے ملانا چاہتا تھا اور وہ قاتل کوئی اور نہیں میں ہی ہوں –
اپنی بہن کی حالت دیکھ وعدہ کیا تھا خود سے اور اس سے کہ بدلہ لوں گا – پھر میں میں نے فیاض پر نظر رکھی اور وہاں گاوں میں موقع ملتے ہی مار دیا – عدنان نے ایسے کہا جیسے اسے بلکل افسوس نہ ہو اپنے کیے کا –
میں کبھی تمہیں نہ بتاتا مگر جب مجھے پتا چلا کہ میری وجہ سے الزام تمہارے سر آ رہا ہے اور تمہاری بہن ونی میں چلی گئی ہے تو میں نے خود کو گناہ گار مانا کیونکہ میری وجہ سے بے گناہوں کو سزا مل رہی تھی – میں تیار ہوں سردار اور پنچائیت کے سامنے اپنا جرم قبول کرنے کے لیے مگر مجھ پر صرف دو احسان کرنا – ایک یہ کہ میری بہن کا خیال رکھنا –
اس کا علاج کروانا اور اسے زندگی کی طرف لانے کی کوشش کرنا ایک بھائی کی طرح اور دوسری یہ کہ فیاض کے دوسرے دوست کو پولیس کے حوالے کرنا ثبوت کے ساتھ – ابھی وہ ملک سے باہر ہے شاید سال تک آئے تو تب اس سے بھی بدلہ لینا –
عدنان نے اس سے عرض کی تھی جبکہ بالاج بس خاموش نظروں سے اس نازک لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو خود پر اتنا بڑا ظلم برداشت کیے اب دنیا سے منہ موڑے لیٹی تھی – نہیں تم نہیں جاو گے ! میں ایسا نہیں چاہتا کیونکہ تم بلکل سہی تھے –
فیاض کا قتل ہی بنتا تھا – اور اپنی بہن کا تم خود خیال رکھنا کیونکہ جو اپنا سگا بھائی خیال رکھے گا ، اسے زندگی کی طرف لائے گا وہ میں نہیں کر سکوں گا – ہم دونوں مل کر فیاض کے دوست کا انتظار کریں گے پاکستان آنے کا تاکہ پھر ہم پنچائیت کے سامنے فیاض کا جرم رکھیں اور ثبوت اس کا دوست ہوگا –
..بالاج نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا – تمہاری بہن ؟؟ عدنان نے پریشانی سے کہا – ڈونٹ وری وہ بہت بہادر ہے اور وہ کر لے گی انتظار – ویسے بھی یہ بھی میری بہن ہے اور اسے ابھی تمہاری ضرورت ہے – بالاج اسے کہتا کمرے سے نکل گیا کیونکہ اسے اس لڑکی کے لیے دکھ ہو رہا ہے – اب تو اسے اپنی دو دو بہنوں کے لیے لڑنا تھا –
لینے کو تو وہ عدنان کو ساتھ لے جاتا مگر پنچائیت فروہ کو بھی بیچ میں گھسیٹتی اور یہی بات اسے منظور نہیں تھی کہ اس کی بہن یوں رسوا ہوتی – اسے پتا تھا چاہے چار سال گزر جاتے زبرش نے انتظار کرنا تھا اس کا کیونکہ اسے یقین تھا اس پر اس لیے وہ یہ کڑوا اور تکلیف دینے والا گھونٹ بھر گیا تھا –
ابھی صرف ایک سال کی بات تھی اور پھر جیسے ہی فیاض کا دوست پاکستان آتا وہ دبوچ لیتے اسے – مشکل تھا یہ انتظار مگر ہر مشکل کے بعد آسانی ہے –