قسط: 24
دیا کی آنکھ کھلی تو اس نے سب سے پہلے کمرے پر نظر ڈالتے اپنے ساتھ والی سائیڈ پر نظر ڈالی مگر وہاں بالاج کو نہ دیکھ اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے –
اس نے کمرے کی دیوار پر لگی گھڑی پر ٹائم دیکھا تو بارہ بج گئے تھے – افف اللہ میں اتنی دیر کیسے سوگئی ؟؟ بالاج بنا ناشتے کیے چلے گئے –
وہ سر ہاتھوں میں گراتی افسوس سے بولی – چل اٹھ جا دیا اور کام کر گھر کے – وہ اپنے بال باندھتی بیڈ سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی –
اس کے دل میں عجیب سی گدگدی ہو رہی تھی یہ سوچ کر کہ رات کو وہ بالاج کے کمرے میں اس کے ساتھ اس کے بیڈ پر سوئی تھی اور بالاج نے اس کی کتنی کئیر کی تھی –
بہرام اس میں میرا کیا قصور تھا کہ اس لڑکے نے میرے لیے شعر پڑھا ؟؟ بہرام اقرا کو گھر چھوڈنے جا رہا تھا جبکہ اس سے بات بلکل بھی نہیں کر رہا تھا – جب اقرا نے کافی دیر اس کا خود کو اگنور کرنا محسوس کیا تو بولی –
میں نے کب کہا کہ تمہارا قصور تھا – مجھے بس اس لڑکے پر غصے ہے اور تم پر زیادہ ہے کیونکہ اگر تم مجھے نہ روکتی تو میں اس کا منہ توڑ دیتا – بہرام نے غصے سے بھرے انداز میں کہا کیونکہ اسے واقع غصہ تھا اقرا پر –
وہ سچ میں اس لڑکے کو ایک دو لگادیتا بٹ اقرا نے اسے سر کے اشارے سے منع کر دیا تھا اور خود کھڑی ہوتی تحمل سے بات سنبھال گئی – اچھا نہ سوری میں تو بس تماشہ نہیں چاہتی تھی – اور اگر آپ اس لڑکے کو دو تین لگا بھی دیتے تو سب کو پتا لگ جاتا ہمارے رشتے کا –
اقرا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا جبکہ بہرام کچھ نہ بولا تھا – فارم ہاوس پہنچتے ہی حسب عادت وہ واپس جانے لگا مگر اقرا نے روک لیا – اندر آ جائیں اج تو – اج لالا گھر ہی ہیں –
اقرا نے اسے کہا جبکہ بہرام بنا انکار کیے گاڑی سے نکلا اور اس کے پیچھے ہی فارم ہاوس کے اندر بڑھ گیا – اندر آتے ہی اقرا کو زوریز صوفے پر بیٹھا دیکھائی دیا جبکہ زبرش اسے کہیں نظر نہ آئی تھی –
لالا ! اقرا نے منہ کو رونے والا بناتے زوریز کو پکارا اور بھاگ کر اس کے پاس بیٹھٹی اس کے گلے لگی اور پھر زور زور سے رونے لگی – زوریز تو حیران کے ساتھ پریشان ہوا تھا اس کے رونے پر جبکہ یہی حالت ابھی اندر آئے بہرام کی تھی –
اقرا میرے بچے کیا ہوا ؟؟ زوریز نے اس کی کمر سہلاتے اس سے پریشانی سے پوچھا – لالا یہ آپ کے دوست بلکل بھی اچھے نہیں ہیں – اقرا نے روتے ہوئے زوریز سے دور ہوتے بہرام کی جانب اشارہ کرتے کہا –
اس کے یوں خود کی جانب اشارہ کرتے شکایت لگانے پر بہرام شوکڈ ہوا تھا – اس نے زوریز کو دیکھا تو وہ اسے گھور کر دیکھ رہا تھا – بہرام یہ کیا کہہ رہی ہے اقرا ؟؟ زوریز نے اس سے سختی سے پوچھا – میں نے کیا کہا ہے تمہیں ؟؟
بہرام نے پریشانی اور نا سمجھی سے اقرا سے پوچھا – آپ مجھے اگنور کرتے ہو مجھے ڈانٹتے ہو اس لیے مجھے نہیں کرنی اب آپ سے بات – میں ناراض ہو گئی ہوں اپ سے – اقرا نے منہ پھلائے کہا –
زوریز سمجھ گیا تھا کہ بہرام کا کوئی قصور نہیں بس اقرا بلاوجہ اس سے ناراض ہو رہی ہے – بہرام تو اس چلاکو ماسی کو دیکھ کر رہ گیا تھا جس نے اسے چلاکی سے اندر بلا کر اپنے بھائی کے سامنے اپنا رونا روتے اسے پھسا دیا تھا –
ٹھیک ہے ناراض رہنا ہے تو رہو میں تمہیں ایک بار ہی منانے اوں گا جب تمہیں اپنے ساتھ لیجانے آوں گا – مہینہ ہی ہے کر لو انتظار پھر تمہیں بتاوں گا اچھے سے – بہرام نے خود کو نارمل کرتے شرارتی انداز میں کہا کیونکہ اسے پتا تھا اپنی بیوی کا کہ وہ بلا وجہ ہی ناراض ہوتی رہتی ہے – کون سا ایک ماہ ؟؟
ایک سال کہیے سر خان جی کیونکہ اب رخصتی ایک سال بعد ہو گی – اقرا نے اترا کر کہا جبکہ بہرام جس نے ابھی صوفے کے سامنے پڑے ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھاتے پانی پیا تھا اقرا کی بات پر اس کے منہ سے پانی سارا فوارے کی صورت میں نکلا تھا – کیا ؟؟ بہرام نے چیخنے کے انداز میں پوچھا –
زوریز تو مزے سے ان دونوں کی بہس دیکھ رہا تھا – کیا کا کیا مطلب ؟؟ میں نے کہا اب رخصتی ایک سال بعد ہو گی – اقرا نے پھر سے کہا جبکہ بہرام نے زوریز کو دیکھا تھا – یہ دیکھ لے زوریز تیری بہن الٹے کاموں اور باتوں کی وجہ سے ڈانٹ سنتی ہے مجھ سے – تمہارے تو اچھے بھی مہینے بعد رخصتی کریں گے –
دیکھتا ہوں میں – بہرام نے جلتے کڑتے انداز میں کہا جبکہ اقرا نے اسے زبان چڑھائی تھی – تم چلو او باہر بہرام مجھے بات ہے کچھ – اقرا کے زبان چڑھانے پر زوریز اسے گھورتا بہرام سے کہتا اس کا ہاتھ پکر باہر لے گیا جبکہ اقرا اٹھ کر زبرش کو ڈھونڈنے لگی –
دیا سب کاموں سے فارغ ہوئی تو کچھ سوچتے اپنا سامان بالاج کے کمرے میں سیٹ کرنے لگی – ابھی وہ سامان سیٹ کرتی فارغ ہوئی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا تو وہ حیران ہوئی کہ بالاج کیا اتنی جلدی آگیا ؟؟
سر پر ڈوپٹہ لیتے اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو اپنے ڈیڈ کو دیکھ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی – اوو ڈیڈ آپ کو پتا میں نے آپ کو بہت مس کیا – وہ انکے گلے لگتی بولی – انور ملک تو حیران تھے اس کو دیکھ کر – وہ ان کی بیٹی دیا تو نہیں لگ رہی تھی – ان کی دیا تو بڑی ٹپ ٹاپ رہتی تھی –
کھلے بال اور میک ہمیشہ کیا ہوتا تھا اس نے جبکہ ان کے سامنے کھڑی دیا نے میک اپ کے نام پر لیپ سٹک بھی نہیں لگائی تھی – اور بال کیچر میں قید کیے ہوئے تھے – دیا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی ؟؟
لاسٹ کب پالر گئی تھی ؟؟ انور ملک نے اندر آتے اس سے پوچھا – کچھ بھی نہیں ہوا میری حالت کو – بس اپ کو لگ رہی ہے اور میں اب پالر نہیں جاتی – دیا نے مسکرا کر کہا – میں نے اس دن کے لیے تمہاری شادی بالاج سے نہیں کی تھی – تم تو پاگل ہی ہو گئی ہو جو اس کے پیچھے اپنی زندگی تباہ کر رہی ہو –
اچھے سے پتا ہے مجھے کہ وہ تمہیں ابھی بھی بیوی نہیں مانتا اور تم اس کے لیے کیا سے کیا بن رہی ہو – انور ملک نے کہا – اہو ڈیڈ کچھ بھی نہیں ہوا – میں خوش ہوں یہاں – خیر چھوڈیں یہ بتائیں کہ کیا بناوں آپ کے لیے ؟؟
دیا کے سوال پر انور ملک بے ہوش ہونے والے ہوئے تھے – کیا مطلب بناوں ؟؟ تم کھانا بناتی ہو ؟؟ انور ملک نے بےیقینی سے پوچھا جس پر دیا نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا – بس بہت ہو گیا دیا تم چلو میرے ساتھ ابھی میں تمہیں ایسے نہیں دیکھ سکتا – انور ملک اس کے کندھے تھامتے بولے –
نہیں ڈیڈ میں خوش ہوں اپنی زندگی میں – مجھے نہیں جانا واپس – دیا نے انکار کیا – کوئی ملازم ہی رکھ لو – میں بھیجوں ؟؟ انور ملک نےپوچھا جس پر وہ ہس پڑی – نو ڈیڈ کچھ نہیں چاہیے چھوٹا ساگھر ہے ہمارا –
چٹکیوں میں ختم ہو جاتے ہیں کام – آپ بیٹھو یار اپ کو جوس پلاوں اور ٹینشن نہ لو میں خوش ہوں یہاں بس آپ فکر نہ کرو – دیا انہیں کرسی پر بیٹھاتی بولی جبکہ انور ملک خاموش تو ہوگئے بٹ مطمعین نہیں تھے –
زبرش نے کانپتے ہاتھوں سے نمبر ڈائیل کرتے موبائل کان سے لگایا تھا – اج اقرا کو یونی سے چھٹی تھی اس لیے وہ گھر ہی تھی کہ تبھی زبرش نے اس سے اس کا فون مانگتے بلاج سے بات کروانے کی گزارش کی تو بنا دوسری بات کیے اقرا نے اسے اپنا موبائل پکڑا دیا تھا –
زوریز تو گاؤں جا چکا تھا مگر پھر بھی اقراء کمرے کے دروازے کے باہر کھڑی ہوتی پہرا دینے لگی کہ کہیں زوریز نہ آجائے واپس – زبرش کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی کیونکہ اج وہ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد اپنے بھائی کی اواز سننے والی تھی –
ہیلو ! کال پک ہوتے ہی دوسری جانب سے بالاج کی اواز سپیکر سے ابھری تو زبرش نے زور سے اپنی انکھیں بند کی تھیں – الفاظ منہ سے نکلنے سے انکاری تھے جبکہ انسو گالوں سے پھسلتے تھوڑی تک اتے نیچے گر رہے تھے – اس سے بولنے کی ہمت بھی نہ ہوئی تھی – کون ہے بھائی ؟؟ اگر بات نہیں کرنی تو کال کیوں کی ؟؟
بالاج کی پھر سے سپیکر سے جھنجھلائی ہوئی اواز ائی تو زبرش نے خود پر قابو پاتے بولنا چاہا – ہیلو بالاج لالا ! زبرش نے مشکل سے روتے ہوئے اس کا نام پکارا جبکہ دوسرے جانب بالاج تو اس کی اواز سن چند پل ساکت ہو گیا تھا –
ہیلو زبرش میری جان میری گڑیا یہ تم ہی ہو ؟؟ بالاج نے بے قراری سے پوچھا جب کہ دوسری جانب زبرش نے ایسے گردن ہاں میں ہلائی جیسے بالاج اسے دیکھ رہا ہو – کیسے ہیں لالا ؟؟ زبرش نے رونے کے سبب ہوئی بھاری آواز میں پوچھا – میں بالکل ٹھیک! میری گڑیا تم کیسی ہو ؟ کس کے فون سے کال کر رہی ہو ؟
بلاج کے اندر کی بے قراری ختم ہی نہیں ہو رہی تھی – اس کا بس چلتا تو وہ فون کے اندر گھس کر زبرش کو اپنے سینے سے لگا لیتا – میں بھی بالکل ٹھیک ہوں –
وہ دراصل لالا میں نے اقرا کے موبائل سے اپ کو کال کی ہے میں اپ کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ میں یہیں اسلام اباد میں ہوں اقرا اور زوریز کے ساتھ ائی ہوں کیونکہ اقرا کی یونیورسٹی کی وجہ سے زوریز اقرا کو یہیں شہر لے ائے تو میں بھی ان کے ساتھ ہی اگئی –
وہ اقرا نے مجھے ساتھ لانے کی ضد کی اس لیے – اب میں گاؤں میں نہیں ہوں لالا اسلام اباد میں ہوں – زبرش نے مدعے کی بات پر اتے کہا – اسلام اباد میں کہاں ہو؟؟ مجھے بتاؤ میں ابھی اتا ہوں تمہارے پاس –
بالاج نے بے تابی سے پوچھتے کہا جب کہ اس کی محبت اور بے تابی دیکھ وہ مسکرائی تھی- کتنے دنوں بعد وہ اپنے لالا کی محبت محسوس کر رہی تھی – نہیں لالا میں نہیں جانتی کہ کہاں ہوں کون سا علاقہ ہے میرے دل کو یہ تسلی ہے کہ میں یہی شہر میں ہوں اور اپ کے پاس ہوں –
زبرش نے مسکراتے لہجے میں کہا جب کہ بالاج بھی تھوڑا بہت پرسکون ہوا تھا – زوریز کا اور باقی سب کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ ؟؟ تمہیں ٹارچر تو نہیں کرتے وہ سب ؟؟ بالاج نے پریشانی سے پوچھا –
نہیں مجھے کوئی ٹورچرنہیں کرتا – کہا نا اقرا مجھے اپنے ساتھ شہر لے ائی ہے – بھائی وہ بہت اچھی ہے میرا بہت خیال رکھتی ہے – زبرش نے سچے دل سے اقراء کی تعریف کرتے کہا جب کہ بالاج کے دل سے بھی اقرا کے لیے دعائیں نکلی تھیں –
لالا کوئی ثبوت ملا ؟؟ زبرش نے اس سے پوچھا تو بالاج لاجواب ہوا تھا – وہ کچھ پل بول ہی نہ پایا تھا کچھ – بولیں نہ لالا خاموش کیوں ہیں ؟؟ زبرش نے اس کیخاموشی پر پریشانی سے پھر پوچھا –
ثبوت تو مل گیا ہے بلکہ قاتل بھی مل گیا ہے لیکن میں چاہ کر بھی قاتل کو پنچایت اور زوریز کے سامنے پیش نہیں کر سکتا – بالاج نے دھیمے لہجے میں کہا تو زبرش حیران ہوئی تھی – کیا مطلب لالا ؟؟ اس نے پوچھا تو بالاج نے اسے ساری کہانی بتا دی تھی جسے سن کر زبرش کو بھی دکھ ہوا تھا –
کوئی بات نہیں لالا میں انتظار کر لوں گی اپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا اپ کی زبرش کمزور نہیں ہے – میں زبرش نور ہوں بالاج خان کی بہن میں اپنے بھائی کو اپنی وجہ سے کمزور نہیں کر سکتی – زبرش نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مضبوط لہجے میں کہا تو بالاج کو اور حوصلہ ملا تھا –
ایک بات بتاؤں اپ کو لالا ؟؟ زبرش نے ہچکچاتے ہوئے کہا تو بالاج حیران ہوا – ہاں کہو کیا بات ہے ؟؟ بالاج نے فورا سے پوچھا – وہ اپ مامو بننے والے ہو زبرش نے تھوڑا ہچکچاتے اور شرماتے ہوئے کہا تو بالاج کا دل ایک دم سے دھڑکنا بند ہوا تھا – اس نے زبردستی کی ہے نہ تمہارے ساتھ ؟؟
بالاج نے پہلا سوال ہی یہی کیا تھا جبکہ اس کے سوال پر زبرش خاموش رہی تھی – اس کا خاموش ہونا بالاج کو اس کا جواب دے گیا تھا – میں جان سے مار دوں گا اس سردار کو اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں تکلیف پہنچانے کی –
بالاج نے غصے سے کہا اس کا بس چلتا تو اسی وقت زوریز کو جان سے مار دیتا – نہیں لالا اپ ایسا کچھ نہیں کرو گے مانتی ہوں کہ انہوں نے میرے ساتھ غلط کیا لیکن کچھ دنوں سے وہ مجھے کچھ نہیں کہہ رہے انہوں نے مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی – زبرش نے اسے کول ڈاون کرتے کہا مگر بالاج کا غصہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا –
اپ کو خوشی نہیں ہوئی یہ بات سن کر ؟؟ زبرش نے پوچھا تو بالاج اس کے سوال کی جانب متوجہ ہوا – تم خوش ہو !! بالاج نے اس کے سوال کا جواب دیے بغیر اس سے سوال پوچھا – بہت زیادہ خوش ہوں –
آخر یہ میری اولاد ہے – زبرش کے لہجے میں خوشی واقعی نمایاں ہو رہی تھی جب کہ اس کے لہجے کی خوشی دیکھ وہ مسکرایا تھا – اگر تم خوش ہو تو میں بھی خوش ہوں ظاہر سی بات ہے میں کیوں نہیں ہوں گا خوش ؟
میری بہن کی خوشی ہو جس چیز میں وہ چیز مجھے کیسے بری لگ سکتی ہے اور پھر میرے لیے بہت بڑی بات ہے کہ میں مامو بننے والا ہوں – بالاج نے محبت سے کہا تو زبرش کے دل کو بھی ٹھنڈک پڑی تھی –
پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے زبرش نے فون کاٹ دیا تھا – وہ مطمعین ہو گئی تھی طالاج سے بات کر کے – اہ زبرش ابھی انتظار ہے تیری قسمت میں – وہ اہ بھرتے بولی اور کنرے سے باہر نکلتے اقرا کو موبائل پکرایا –
شکریہ اقرا ! زبرش اس کے گلے لگتی تشکر بھرے انداز میں بولی تو اقرا مسکرائی تھی –