Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 25

اج بالاج کا موڈ کافی خوشگوار تھا کیونکہ اس کی زبرش سے جو بات ہو گئی تھی – بہت زیادہ نہیں مگر وہ کافی حد تک پرسکون ہو گیا تھا زبرش کو لے کر- اس نے فیاض کے دوست عابد کے متعلق کچھ انفارمیشن نکلوائیں تو اسے پتہ چلا کہ وہ فیاض کے قتل کی رات کو ہی فرار ہو گیا تھا پاکستان سے جبکہ اس کا ویزہ ایک سال کا تھا –
اسی لیے شاید عدنان اسے ایک سال انتظار کا کہہ رہا تھا شاید اس نے بھی اس کے متعلق انفارمیشن نکلوا رکھی تھیں- اس کا دل تو کر رہا تھا وہ جائے زوریز کے پاس اور اس کے سامنے اس کے کزن کی حقیقت کھولے مگر وہ جانتا تھا زوریز اس کی بات کا رتی برابر بھی یقین نہیں کرے گا –
وہ افس سے واپس گھر ہی جا رہا تھا کہ تبھی اسے انور ملک کی کال انے لگی – اسے حیرت ہوئی ان کی کال دیکھ کر کیونکہ جب سے اس نے ان کے پاس کام کرنے سے انکار کیا تھا تب سے لے کر اب تک ان کی کال نہیں ائی تھی –
اپنی حیرانگی کو ایک سائیڈ پر رکھتے اس نے کال پک کرتے سلام میں پہل کی تھی – اس کے لہجے میں ادب تھا کیونکہ جو بھی تھا وہ اس کے مسیحا تھے وہ ان کی بہت عزت کرتا تھا –
جی سر خیریت تھی ؟؟ بالاج نے ادب سے پوچھا جب کہ اس کے سر کہنے پر انور ملک دوسری جانب مسکرائے تھے – برخودار اب تو مجھے سر کہنا بند کر دو اب تو ہم رشتے میں تمہارے سسر لگتے ہیں – انور ملک نے تھوڑے شرارتی انداز میں کہا مگر بالاج کے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ بھی نہ ائی تھی-
خیر میں نے تمہیں اس لیے کال کی تھی کہ اج گھر جانے سے پہلے مجھ سے مل کر جانا – میں گھر پر ہی ہوں تم ا جاؤ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے –
انور ملک کے خود کو بلانے کی وجہ تو وہ نہیں جانتا تھا لیکن وہ ان کو انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس لیے انہیں اوکے کہتے اس نے فون بند کرتے بائیک کا رخ انور ملک کے پیلس کی طرف کیا تھا –
اؤ بالاج بیٹھو یار ! میرے پاس کام کیا چھوڑا تم تو ادھر آنا ہی بھول گئے – بالاج جیسے ہی ملک پیلس پہنچا تو انور ملک اس سے گلے ملتے شکایت کر گئے جب کہ وہ ان کی شکایت پر ہنس پڑا تھا –
بس سر کام کی مصروفیات اتنی ہوتی ہیں وقت ہی نہیں ملتا – بالاج نے اپنے نہ انے کا جواز بتایا – جانتا ہوں کہ تمہیں بہت مصروفیات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان مصروفیات میں اپنے سے جڑے رشتوں کو بھول جاؤ گے ان پر دھیان نہیں دو گے –
انور ملک کی بات پر بالاج حیران ہوا تھا کیونکہ اسے بالکل سمجھ نہیں ائی تھی کہ اخر انور ملک نے یہ بات کہی کیوں ہے – میں سمجھا نہیں سر آپ کا مطلب کیا ہے ؟ بالاج نے نہ سمجھی سے پوچھا –
دیکھو سب سے پہلے تو مجھے سر کہنا بند کرو اور دوسری بات یہ کہ میں دیا کے متعلق بات کر رہا ہوں مانتا ہوں کہ میں نے تمہارا انکار جانتے ہوئے بھی تمہیں مجبور کرتے دیا کہ ساتھ تمہارا نکاح کروایا مگر میں خود مجبور تھا کہ اپنی بیٹی کے ہاتھوں کیونکہ وہ تم سے محبت کرتی ہے –
تم خود اس کی محبت کا اندازہ لگا لو کہ وہ جو اپنی اسائش بھری زندگی کے کے بغیر ایک لمحہ نہیں رہ سکتی تھی وہ تمہاری محبت میں ڈیڑھ ماہ سے بنا اف کیے تمہارے اس چھوٹے سے گھر میں رہ رہی ہے – وہ دیا جو خود کو ہر وقت ٹپ ٹاپ رکھتی تھی اج اسے اپنی ہوش ہی نہیں مگر نہ جانے کیوں تمہیں یہ سب کچھ نظر نہیں اتا –
میں اج گیا تھا دیا سے ملنے اور یقین جانو بالاج مجھے بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر کہ میری لاڈوں میں پلی بیٹی جس نے کبھی اپنے بیڈ شیٹ کی ایک سلوٹ بھی ٹھیک نہیں کی تھی اج وہ تمہارے گھر کے سارے کام کرتی ہے – کھانا بناتی ہے ، صفائیاں کرتی ہے صرف اس لیے کہ شاید تم اس سے راضی ہو جاؤ – اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ کر سکتی ہے تو کیا بدلے میں تم اسے تھوڑی سی توجہ نہیں دے سکتے ؟؟
انور ملک اسے سمجھاتے ہوئے بولے جب کہ ان کی باتوں پر بالاج تھوڑا تھوڑا شرمندہ ہوا تھا – تم خود سوچو تم اس کے گارڈ رہ چکے ہو زیادہ بہتر جانتے ہو کہ پہلے دیا ہفتے میں تین دن مال کا اور پالر کا چکر لگاتی تھی اور اپنے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کرتی –
لیکن اب وہی دیا اس ڈیڑھ ماہ میں ایک بار بھی تمہارے پاس ا کر شاپنگ کا بولی ؟؟ کیا اس نے شاپنگ پر جانے کا نام لیا ؟؟ انور ملک نے اس سے پوچھا تو بالاج کا سر خود بخود نا میں ہلا تھا کیونکہ واقعی ہی دیا نے کبھی بھی اس سے ا کر کسی قسم کی ضد نہیں کی تھی –
اس کا دھیان نہیں گیا یا شاید اس نے خود ہی اگنور کیا لیکن ہاں واقعی دیا نے خود پر غور کرنا تو چھوڑ ہی دیا تھا – اسے اب صرف اس کی فکر ہوتی تھی کہ بالاج کے کپڑے دھلے ہوئے ہیں استری کیے ہوئے ہیں اس کے شوز پالش ہیں اس کا کھانا تیار ہے – اس کی بے رخی سہنے کے باوجود بھی کبھی وہ زبان پر اف کا لفظ بھی نہ لائی تھی –
ائ ایم سوری سر ! میں شرمندہ ہوں لیکن میں کوشش کروں گا کہ اب دوبارہ اپ کو کسی قسم کی شکایت نہ ملے – بالاج نے شرمندہ ہوتے کہا تو انور ملک نے اس کے کندھے پر تھپکی دی تھی – میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا یا تمہیں ارڈر دینا نہیں تھا بلکہ میں صرف تمہیں سمجھانا چاہتا تھا – انور ملک نے اسے گلے لگاتے کہا تو بالاج مسکرایا –
نہیں سر میں جانتا ہوں اپ مجھے سمجھا رہے تھےاور میری پوری کوشش ہو گی کہ اب اپ کو کسی قسم کی شکایت نہ ملے – بالاج نے انہیں یقین دلایا تو انور ملک خوش ہو گئے تھے –
وہ گھر پہنچا تو اسے گھر سے ساتھ والی انٹی نکلتی نظر ائیں ان کے ہاتھوں میں پلیٹ دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ ضرور وہ کچھ نہ کچھ دینے ائی تھیں – انہیں سلام کرتے وہ اندر اتے دروازہ بند کر چکا تھا – کچن سے کھٹ پٹ کی اواز سنتے وہ سمجھ گیا کہ دیا کچن میں ہی ہے اس لیے وہ سیدھا کچن میں گیا تو دیا برتن دھوتی نظر ائی –
اس کے کانوں میں انور ملک کے الفاظ گونج رہے تھے جبکہ نظریں اس کی دیا کے ہاتھوں پر تھیں – کتنے مختلف تھے نا یہ ہاتھ ان ہاتھوں سے جو اج سے دو تین ماہ پہلے ہوتے تھے – کبھی اس نے دیا کہ ہاتھوں سے نیل پینٹ اور رنگز اتری نہیں دیکھی تھیں اورآج ہاتھ بلکل خالی تھے –
اس کے ہاتھ اتنے پیارے ہوتے تھے کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا جبکہ پتلی اور لمبی لمبی انگلیوں پر لمبے ناخن انہیں اور خوبصورت بنا دیتے تھے – لیکن اب اس کے ہاتھوں پر نہ تو کوئی رنگ تھی نہ ہی نیل پیٹ ہاں ناخن ابھی بھی بڑے تھے لیکن برتن دھو کر کپڑے دھو کر کام کر کر کے ان میں وہ چمک اور خوبصورتی نہیں رہی تھی –
دیا نے ابھی تک اس کے انے کا نوٹس نہیں لیا تھا جبکہ بالاج بھی خاموشی سے کھڑا اس کا معائنہ کر رہا تھا – ہاتھوں سے اس کی نظر اس کے بالوں پر گئی تو اسے اور افسوس ہوا کیونکہ اس کے بال بھی کافی رف ہو گئے تھے – اس نے ایک لمبا سانس کھینچتے گلا کھنگارا تو دیا چونکتی فورا پلٹی تھی –
اپ کب ائے ؟؟ وہ جلدی سے نل کھول کر اپنے ہاتھ دھوتی پاس پڑے رومال سے انہیں صاف کرتے اس سے پوچھنے لگی جب کہ ساتھ ہی اس نے فرج سے پانی نکالتے اسے گلاس میں بھرا تھا – ابھی ایا ہوں – بالاج نے مختصر جواب دیتے اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے پانی پیا تھا – اپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں –
دیا نے اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کے کہا جبکہ بالاج نے نہ میں سر ہلایا تھا – نہیں اس کی ضرورت نہیں تم بس کپڑے چینج کر اؤ ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں اور کھانا بھی باہر ہی کھائیں گے – بالاج نے نرم لہجے میں کہا جبکہ اس کی بات پر دیا شوکڈ ہو گئی تھی – شاپنگ اور ڈنر میرے ساتھ وہ بھی باہر ؟؟
دیا نے حیرت سے پوچھا جب کہ اس کے یوں حیرت سے پوچھنے پر بالاج نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا تھا – میں ابھی تیار ہو کر اتی ہوں – دیا خوشی سے کہتی بھاگ کر اس کے کمرے میں گھس گئی تھی جبکہ بالاج نے اس بات کا نوٹس ہی نہیں لیا تھا کہ وہ اس کے کمرے میں گئی ہے –
اقرا اس وقت زوریز کے کمرے میں موجود تھی کیونکہ زوریز نے اس سے کوئی امپورٹنٹ بات کرنی تھی – جی لالا اپ نے بات کرنی تھی ؟؟ اقرا نے اس سے پوچھا تو زوریز نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جس پر فورا وہ بیڈ پر بیٹھی –
کل میں نے بات کی تھی بہرام سے لیکن وہ نہیں راضی ایک سال بعد رخصتی کرنے کے لیے – میں نے اس کے سامنے وجہ بھی رکھی تھی لیکن وہ نہیں مانا بلکہ اس نے ایک سُجیشن دیا ہے مجھے جو مجھے کافی حد تک بہتر لگا – اور میرے خیال سے بھی رخصتی کر دینی چاہیے کیونکہ میں چاہتا ہوں میں اپنے فرض کو جلد از جلد نبھاؤں اور مجھے یقین ہے بہرام تمہارے لیے بہت اچھا ہسبینڈ ثابت ہوگا اور تمہیں بہت خوش رکھے گا –
زوریز نے بات کا اغاز کرتے کہا جب کہ اقرا خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی – کیا سُجیشن دیا ہے ؟؟ اقرا نے اس سے پوچھا – یہی کہ تمہاری اور اس کی رخصتی زیادہ دھوم دھام سے نہ کی جائے نارملی کر دی جائے اور یہیں شہر میں ہی کر دی جائے گاؤں میں جا کر نہیں اور اس میں تعلق گاؤں میں کسی کو بھی پتہ نہ چلے –
انہیں یہی لگے کہ تم یہاں ابھی پڑھ رہی ہو اور تمہاری رخصتی نہیں ہوئی جب تک زبرش کی ڈلیوری نہیں ہو جاتی تب تک – میرے خیال سے تو زبرش وہاں گاؤں میں بھی رہ لیتی لیکن تمہاری ضد ہے کہ نہیں وہ وہاں سیف نہیں ہوگی – باقی اب آگے بھی تمہاری مرضی ہے –
زوریز نے اسے پلان بتاتے کہا جب کہ اقرا کچھ پل خاموش ہو گئی تھی – ٹھیک ہے یہ پلان اچھا ہے لیکن اپنے دوست کو سمجھا دیجئے گا کہ خبردار جو اس نے مجھے یہاں انے سے روکا میرا جب دل کرے گا میں زبرش کے پاس ا جایا کروں گی – اقرا نے ہاں کرتے ساتھ میں زوریز کو اپنی شرط بھی بتائی تھی جس پر زوریز مسکرا پڑا –
میں سمجھا دوں گا اور اس سے یہ بھی کہہ دوں گا کہ خبردار جو اس نے میری بہن کی کسی بات سے انکار کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا – زوریز نے شرارت بھرے انداز میں کہا تو اقرا ہنس پڑی اور پھر اس کے سینے سے لگتی انکھیں بند کر گئی – لالا مجھے بہت یاد ائے گی اپنی رخصتی پر مورے کی بابا کی اور کائنات اپی کی –
وہ کیوں چلے گئے اتنی جلدی ؟ اقرار نے دکھی ہوتے کہا تو زوریز کے دل کو بھی کھچاؤ پڑا تھا – نہیں میری جان اداس نہیں ہوتے میں ہوں نا اپ کے پاس اور میں نے اپ سے کتنی بار کہا ہے کہ اپ نے اداس نہیں ہونا انہیں یاد کرکے – اس سے انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے –
زوریز نے اس کے ماتھے پر لب رکھتے اسے اپنے سینے میں چھپاتے کہا جب کہ اقرا نے اس کے کہنے پر فورا انکھوں سے ٹپکتے انسو صاف کیے تھے – نہیں میں تو نہیں ہو رہی اداس بلکہ میں تو خوش ہوں اخر میری شادی ہو رہی ہے –
ابھی مجھے شاپنگ کرنی ہے بہت ساری تیاری کرنی ہے او ہو لالا اپ نے مجھے باتوں میں لگا لیا – اقرا ایک دم سے کھڑی ہوتی پٹر پٹر بولتی کمرے سے بھاگ گئی جبکہ زوریز حیران رہ گیا تھا اس کے یوں اچانک بدلنے پر –
لیکن پھر اقرا کی باتیں سوچ ہنس پڑا – اس کی بہن واقعی ہی جھلی تھی کیسے اس سے ارام سے کہہ گئی تھی کہ اس کی شادی ہونے والی ہے اور وہ بہت خوش ہے – زوریز اقرا کی بات سوچتا ہنس پڑا اور پھر خود بھی کمرے سے نکل زبرش کو ڈھونڈنے لگا –
زرش اپنے کمرے میں لیٹی اج اپنی اور بالاج کی ہوئی گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ تبھی زوریز دروازہ کھول کمرے میں ایا – اس کے یوں اچانک انے پر زبرش فورا اٹھ کر بیٹھی اور اپنے گرد دوپٹہ اچھے سے پھیلانے لگی – اٹھو اج سے تم میرے کمرے میں رہو گی –
زوریز نے اس کے پاس جا کر اس کا بازو پکڑتے کہا جب کہ زبرش حیران تھی اس کے الفاظوں پر – نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں – زبرش نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے کہا – تم یہاں ٹھیک ہو لیکن مجھے میرے بیبی کی فکر ہے –
دیکھو میری بہن بہت ایکسائٹڈ ہے اس بچے کو لے کر اس کی خاطر وہ اپنی رخصتی سے بھی انکار کر رہی ہے ، وہ گاؤں جانے سے انکار کر رہی ہے کیونکہ اسے فکر ہے کہ چچی اس بچے کو نقصان پہنچائے گی جبکہ یہ بات تو میں ہی جانتا ہوں کہ تم خود بھی یہ بچہ نہیں چاہتی تو ایسے میں میں یہ بالکل بھی رسک نہیں لے سکتا کہ تمہیں یوں اکیلا اس کمرے میں رہنے دوں –
تم میرے کمرے میں میرے ساتھ رہو گی تاکہ مجھے یہ تسلی ہو کہ بچہ سیف ہے – زوریز کی باتوں پر زبرش حیران ہوتی اسے دیکھنے لگی لیکن پھر دل ہی دل میں وہ مسکرائی تھی کیونکہ یہ تو وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اس نے یہ سب جھوٹ بولا تھا تاکہ زوریز اس سے ضد میں ا کر یہ بچہ ختم کرنے کا نہ کہے –
پر اسے یہ بات بری لگی کہوہ صرف اقرا کے لیے اس بچے کی فکر کرریا تھا اور خود ویسے اسے بچے کی فکر نہیں تھی – نہیں میں وعدہ کرتی ہوں میں کچھ نہیں کروں گی اس بچے کو لیکن میں یہاں سے نہیں جاؤں گی-
زبرش نے اسے یقین دلانے کی کوشش کرتے کہا جب کہ زوریز نہ مانا – مان تو زبرش بھی نہیں رہی تھی جب زوریز نے اسے کسی طرح سے بھی مانتے نہ دیکھا تو ایک جھٹکے سے اسے اپنے کندھے پر اٹھاتا اپنے کمرے کی جانب لے کر چل پڑا – زبرش اپنے ہاتھ پاؤں ہلاتے اسے خود کو نیچے اتارنے کا کہنے لگی مگر زوریز کان بند کیے اسے لے کر اپنے کمرے میں اگیا اور پھر ارام سے بیڈ پر لٹا دیا –
خاموشی سے یہاں لیٹو اور سو جاؤ اگر زیادہ ضد کی یا تمہاری اواز نکلی تو یاد رکھنا تمہیں ساری رات نہیں سونے دوں گا – زوریز نے اسے دھمکی دیتے کہا جب کہ اس کی دھمکی سنتے زبرش جو پہلے مچل رہی تھی ایک دم سے کروٹ لیتی انکھیں بند کر گئی –
اس کے یوں ایک دم سے بچوں کی طرح انکھیں بند کر کے سونے کا ناٹک کرنے پر زوریز کو وہ بے حد پیاری لگی تھی جس کا اظہار کرتے اس نے نیچے ہو کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے – جبکہ اسے کچھ دیر دیکھنے کے بعد وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا –
زبرش جو انکھیں بند کر کے لیٹ گئی تھی لیکن پھر اپنے ماتھے پر زوریز کے لبوں کا لمس محسوس کیا تو اس کے دلکی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئی تھی لیکن اس نے پھر بھی انکھیں نہیں کھولیں تھیں –
بالاج نے دیا کو اچھی خاصی شاپنگ کروائی تھی – کپڑے جوتے نیل پینٹ رنگز ، میک اپ وغیرہ جو کچھ دیا کا دل چاہا اس نے اسے لے کر دیا تھا – وہ سب کچھ ایکسپینسو نہیں تھا جیسا کہ دیا پہنتی تھی لیکن پھر بھی بالاج نے اپنے بجٹ کے مطابق اسے کافی اچھی چیزیں لے کر دی تھیں جبکہ دیا بھی بنا ماتھے پر بل لائے خوشی خوشی وہ سب چیزیں خرید رہی تھی –
شاپنگ کے بعد وہ اسے پالر لے کر گیا جبکہ دیا حیران رہ گئی تھی اس کے یوں پارلر لے کر انے پر – اج تو اسے بالاج حیران ہی کری جا رہا تھا – دیا نے پارلر سے سکن اور بالوں کی ساری ڈینٹنگ بینڈنگ کروائی اور پھر وہ لوگ ڈنر کرنے کے لیے ایک ریسٹورنٹ میں گئے تھے – اپ کو پتہ ہے بالاج اج کا دن سب سے بیسٹ ہے سوری اج کی شام اور رات سب سے بیسٹ ہے –
ویٹر کو ارڈر کرنے کے بعدوہ کھانے کا انتظار کرنے لگے کہ تبھی دیا نے ایکسائٹڈ ہوتے اپنی خوشی کا اظہار کیا جبکہ بالاج اس کی خوشی پر مسکرا پڑا – اسے بھی خوشی ہوئی تھی یوں اج دیا کے لیے کچھ کر کے – دیا کے سارے دن کی روداد سنتے سنتے ان کا کھانا اگیا تھا پھر انہوں نے خاموشی سے اپنا ڈنر ختم کیا اور واپس گھر کے لیے روانہ ہوئے – اج تو دیا بہت ہی زیادہ خوش تھی اور اس کی خوشی اس کے چہرے پر بھی نمایاں ہو رہی تھی –
اف بہت مزہ آیا مگر تھگ بھی گئے ہیں – گھر ا کر دیا نے سارا سامان برامدے میں رکھتے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا جب کہ بالاج محض سر ہلاتا اپنے کمرے میں گھس گیا – اس کے جاتے ہی دیا بھی جلدی سے بیگ اٹھاتی اس کے پیچھے ہی کمرے میں گئی تھی – اس کے یوں بیگ اٹھا کر کمرے میں انے پر بالاج نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا –
یہ میرا کمرہ ہے – بالاج نے جیسے اسے بتایا جبکہ دیا نے اگے سے اپنے دانت دکھائے تھے – اپ کا کمرہ تھا لیکن کل رات سے یہ ہمارا کمرہ ہو گیا ہے – دیا نے بھی اس پر واضح کرنا چاہا – تم پاگل تو نہیں ہو گئی ؟؟
کل کی رات تو تم یہاں سو گئی تھی اس لیے میں نے تمہیں تمہارے کمرے میں نہیں بھیجا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہمیشہ کے لیے میرے کمرے میں رہنے لگو – بالاج نے تھوڑے سخت انداز میں کہا جبکہ دیا نے بنا اس کی بات کی پرواہ کیے اپنے شاپنگ بیگ اٹھا کر الماری کی ایک سائیڈ کا دروازہ کھول کر اندر بیگ رکھنے شروع کیے تو بالاج اور حیران ہوا کیونکہ اس کی نظر الماری میں لٹکے دیا کہ کپڑوں پر پڑ گئی تھی –
تم نے میرے کمرے میں شفٹنگ کب کی ؟؟ بالاج نے حیرانگی سے پوچھا – اج ہی کی ہے دوپہر کو – دیا نے مسکرا کر جواب دیا – دیا اٹھاؤ اپنا سارا سامان اور جاؤ اپنے کمرے میں – تم بالکل بھی یہاں نہیں رہو گی – بالاج اس کے پاس جا کر سختی سے بولا جبکہ دیا نے لڑاکا عورتوں کی طرح اپنی کمر پر ہاتھ رکھا تھا –
جی نہیں بالکل بھی نہیں میں نہیں جا رہی میں یہی سوؤں گی – دیا نے بھی اٹل انداز میں کہتے الماری کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئی جبکہ بالاج اسے دیکھ کر رہ گیا تھا – دیا میں نے کہا اپنے کمرے میں جاؤ – بالاج نے پھر سے کہا مگر دیا کانوں پر ہاتھ رکھتی اس کی بات کو اگنور کرنے لگی –
کافی دیر اسے گھورتے رہنے کے بعد بالاج غصے سے مٹھیاں میچتا کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا جبکہ دروازہ اس نے بہت زور سے بند کیا تھا جس سے دیا کو اس کے غصے کا اندازہ ہو گیا تھا –
اسی لیے نرمی سے بات نہیں کرتا اس سے ذرا سی نرمی دکھاؤ تو زیادہ ہی سر چڑھ جاتی ہے – واش روم کا دروازہ بند کرتے بالاج ہلکی اواز میں غصے سے خود سے ہی بڑبڑایا جبکہ باہر دیا پرسکون ہوتی نیند کی وادیوں میں اتر بھی گئی تھی –
اسے پتہ تھا بالاج غصہ کرے گا اس لیے وہ خود کو پہلے سے تیار کیے ہوئے تھی اس کے غصے کے لیے – اسے پتہ تھا کہ اگر وہ ضدی انداز میں اپنی بات پر اڑی رہتی تو بالاج نے بے بس ہو کر اپنی بات سے پیچھے ہٹ ہی جانا تھا اور واقعی ہی ایسا ہوا تھا وہ اپنی ضد پوری کر گئی تھی اس لیے وہ پرسکون ہوتی نید کی وادیوں کی سیر کو نکل گئی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial