Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 26

ماضی
وہ بالکنی میں کھڑی ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے رہی تھی کہ تبھی اسے وہ حویلی کے داخلی دروازے سے اندر اتا دکھائی دیا – اسے دیکھتے ہی کائنات کے چہرے پر رونق ا گئی تھی اور انکھیں چمک اٹھی تھیں – وہی تو تھا جو اس کے دل پر پوری طرح سے قابض ہوا بیٹھا تھا – نہ صرف دل پر بلکہ خوابوں خیالوں پر بھی اس کی ہی حکومت تھی –
اس کی سوچوں کا محور بھی فقط وہی ایک شخص تھا مگر افسوس یہ تھا کہ اس کی محبت یک طرفہ تھی – وہ اس کے چچا کے پاس کچھ کام کے سلسلے میں اتا جاتا رہتا تھا اور اسی بہانے کائنات کو اس کا دیدار نصیب ہو جاتا تھا –
ویسے تو وہ اسے دور دور سے ہی دیکھتی تھی – ایک دو بار تو وہ جان بوجھ کر اس کے پاس سے گزری تاکہ اسے قریب سے دیکھ سکے مگر وہ تو ایسے بنا نظر اٹھائے گزر جاتا جیسے کہ اس نے دیکھا ہی نہ ہو اسے –
لوگ تو لوگ ہیں لوگوں کی طرح دیکھتے ہیں !!
ایک ہم ہیں اسے بچوں کی طرح دیکھتے ہیں !!
ہم کو دنیا نے لکڑہارا سمجھ رکھا ہے !!
ہم تو پیڑوں کو بھی پرندوں کی طرح دیکھتے ہیں !!
میں جو دیکھوں تو جھپکتی نہیں پلکیں میری !!
اور حضرت مجھے اندھوں کی طرح دیکھتے ہیں !!
تم تو پھر غیر ہو تم سے تو شکایت کیسی ؟
میرے اپنے مجھے غیروں کی طرح دیکھتے ہیں !!
تیرا دیدار قضا ہوتا نہیں ہے ہم سے !!
ہم تجھے دیکھنے والوں کی طرح دیکھتے ہیں !!
اسے اج بھی یاد تھا جب ایک سال پہلے پہلی مرتبہ وہ اس سے ملی تھی اور تب سے اس کو دل میں بسا بیٹھی تھی – وہ جب جب اسے دیکھتی اسے اپنی پہلی ملاقات ضرور یاد اتی تھی اور پھر یہ بات بھی ذہن میں اتی کہ جیسے اسے پہلی ملاقات یاد ہے کیا ویسے ہی اس شخص کو بھی یاد ہوگی ؟؟
اسے زوہیب خان ( زوریز کے چچا ) کے پاس کچھ کام تھا تو اس لیے وہ ان سے ملنے کے لیے حویلی ایا تھا – دراصل گاؤں میں کچھ گنے چنے ہی پڑھے لکھے لڑکے تھے جن میں سے اس کا بھی شمار ہوتا تھا اس لیے کبھی کبھی زوہیب خان اسے حساب کتاب کے لیے بلا لیتے تھے اور بدلے میں اس کا معاوضہ بھی دیا کرتے تھے –
اج بھی وہ ان کے بلانے پر حویلی ایا تھا کہ تبھی اس کی نظر پول سائیڈ پر اپنی بارہ سالہ بہن اقرا کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی کائنات پر گئی – وہ انہیں دیکھ کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ تبھی اس کی نظر کائنات کے قدموں پر پڑی تھی – اگر وہ دو سٹیپ اور پیچھے لیتی تو یقینً پول میں گر جاتی –
ایک سیکنڈ کی دیر کیے بغیر وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچا تب تک کائنات نے قدم پیچھے کی جانب کر لیےتھے مگر اس سے پہلے وہ پول میں گرتی بالاج نے اس کا ہاتھ پکر اسے اپنی جانب کھینچا تھا –
بالاج کے کھینچنے پر وہ کٹی ڈال کی طرح اس کے سینے سے آکر ٹکرائی تھی جس کے سبب بالاج اپنا بیلنس نہ رکھ پایا اور پیچھے زمین پر گرا تھا –
اب سیچوئیشن ایسی تھی کہ بالاج نیچے اور کائنات اس کے اوپر تھی جبکہ اقرا جو ابھی بچی تھی انہیں اس طرح گرتے دیکھ تالیاں بجاتی ہس رہی تھی – کائنات کو تو سمجھ ہی نہ ائی تھی کہ اخر اچانک یہ ہوا کیا؟
جبکہ بالاج کائنات کو خود سے پرے ہٹاتے اٹھ کر کھڑا ہوا – کائنات بھی انکھوں سے پٹی ہٹاتی کھڑی ہوئی لیکن جب اس کی نظر بالاج پر پڑی تو وہ انکھیں جھپکنا بھول گئی تھی – ہری انکھیں نیلی انکھوں سے ٹکرائی تھی نیلی انکھیں تو فورا احترام سے جھک گئی تھی جبکہ ہری انکھوں نے پلک بھی نہ جھپکائی تھی –
معاف کریے گا میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا دراصل اپ پول میں گرنے والی تھیں اس لیے میں نے اپ کو بچانے کے لیے اپ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا لیکن اچانک میرا بیلنس بگڑا اور اسی وجہ سے ہم گر گئے –
بالاج نے بلاوجہ شرمندہ ہوتے اسے ساری بات بتائی کہ کہیں وہ کچھ غلط نہ سمجھے – جب کہ کائنات اس کے محض ہلتے ہونٹوں کو دیکھ رہی تھی اسے نہیں پتہ تھا کہ بالاج کیا کہہ رہا ہے کیونکہ اس کی سماعت کام ہی نہیں کر رہی تھی – وہ تو محظ اسے دیکھنے پر فوکس کیے ہوئے تھی –
ہم نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا !!
مگر پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا !!
بلاج نے اس کے کچھ بولنے کا انتظار کیا لیکن جب وہ کچھ نہ بولی تو وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا – اس کے جاتے ہی کائنات ہوش میں ائی تھی اور اس نے فورا مردان خانے کی طرف جاتے بالاج کو دیکھا – اقرا یہ کون تھا ؟؟
کائنات نے اقرا سے پوچھا کیونکہ اقرا دی گریٹ کے پاس پوری حویلی کی خبریں موجود ہوتی تھی چاہے پھر وہ مالکوں کی ہوں یا پھر نوکروں کی – یہ ؟؟ یہ چچا کے پاس اتے ہیں کچھ حساب کتاب کا کام کرنے – اقرا نے اسے معلومات دی تو کائنات کے چہرے پر مسکراہٹ ائی – کب کب اتا ہے ؟؟ کائنات نے ایک اور سوال پوچھا –
جب بھی چچا نے زمینوں کا حساب کتاب کرنا ہوتا ہے تب اتا ہے – یعنی تقریبا ہر مہینے وہ اتا ہے ایک یا دو مرتبہ – اقرا نے اس کی معلومات میں اور اضافہ کیا – اچھا اور نام کیا ہے اس کا ؟؟ کائنات نے ایک اور سوال پوچھا تو اقرا نے اسے اپنی چھوٹی ہری انکھوں سے گھور کر دیکھا تھا – اچھا بس لاسٹ کوسچن –
کائنات نے اس کے گھور کے دیکھنے پر کہا تو اقرا نے فورا اسے بالاج کا نام بتایا تھا جبکہ کائنات نے بالاج کا نام اہستہ اواز میں اپنے ہونٹوں سے ادا کیا تو دل میں عجیب سی ہلچل مچی تھی – وہ نہیں یقین کرتی تھی پہلی نظر کی محبت پر لیکن ابھی جو اس کے ساتھ ہوا اسے خود پتہ نہیں چلا تھا لیکن جو بھی تھا اسے یہ احساس دل فریب لگ رہا تھا –
اماں میں اپ کو بتا رہا ہوں میرا اقرا کی بجائے کائنات سے رشتہ طہ کریں – کیا اپ لوگوں کو کائنات نظر نہیں ائی تھی جو اپ نے اقرا سے میرا رشتہ جوڑ دیا – فیاض اس وقت اپنی ماں کے کمرے میں موجود ان سے. بہس میں مصروف تھا –
میں کیا کروں تمہارے باپ نے طہ کیا ہے رشتہ جا کر ان سے بات کر لو – اپنی ماں کے جواب پر فیاض تنزیہ ہنسا تھا – اچھا پہلے تو جیسے اپ ان کی ساری باتیں مانتی ہیں – فیاض نے طنزیہ کہا تو انہوں نے اسے گھور کر دیکھا تھا – دیکھو فیاض میں خود اس رشتے سے خوش نہیں سچ بتاؤں تو مجھے وہ تینوں بہن بھائی ہی زہر سے بھی زیادہ برے لگتے ہیں –
ابھی یہ کچھ مہینوں تک زوریز اپنی پڑھائی مکمل کر کے واپس ا جائے گا اور تمہارے ابا اس کے سر پر سردار کی پگڑی پہنا دیں گے – مجھے سمجھ نہیں اتی اخر ان کے اندر اتنی ایمانداری کیوں ہے جب بھائی کے مرنے کے بعد انہیں سردار کی نشست مل ہی گئی تھی تو ضروری تو نہیں کہ بھائی کے بیٹے کو اس نشست پر بٹھا دیں –
اپنا بھی تو ان کا بیٹا ہے نا وہ تمہیں بھی تو بٹھا سکتے ہیں لیکن نہیں ان کے اندر کا اچھا انسان انہیں یہ سب کرنے ہی نہیں دیتا – نہ جانے اپنی ایمانداری اور سچائی کا انہوں نے کیا کرنا ہے –
چچی اپنے اندر کا زہر اگلتی بولی تھیں – زوریز اور اقرا کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن کائنات مجھے زہر نہیں لگتی اسی لیے تو میں اپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اقراء کی بجائے اس سے شادی کرنی ہے پھر چاہے مجھے اقرا کا قتل کرنا ہی کیوں نہ پڑے میں کر دوں گا مگر کائنات کو پا کر رہوں گا –
فیاض جنونی انداز میں بولا تو ایک دم چچی کی انکھیں چمکی تھیں – واہ کیا بات کہی ہے تم نے بیٹا – بالکل ایسے ہی کرو زوریز کے انے سے پہلے پہلے کسی طرح سے اقرا کا قصہ ختم ہی کر دو – اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوگا کہ تمہارا رشتہ پھر کائنات سے جڑ جائے گا اور زوریز تو پہلے ہی فرح کی منگ ہے –
تمہاری کائنات سے شادی کے بعد اور زوریز کی فرح سے شادی کے بعد ہم زوریز کو اتنا مجبور کر دیں گے کہ وہ سردار کی گدی تمہیں دے دے – لیکن خیال رکھنا کہ فرح کو اس متعلق علم نہ ہو کیونکہ وہ بے وقوف لڑکی زوریز کو دل میں بسائے بیٹھی ہے اور ظاہر سی بات ہے وہ اس کا برا بالکل بھی برداشت نہیں کرے گی –
چچی نے فیاض کو اپنے پلان سے اگاہ کرتے کہا جب کہ ان کا پلان سن فیاض کی بھی انکھیں چمکی تھیں – مجھے منظور ہے یہ پلان – فیاض نے ان کے پلان پر حامی بھرتے کہا جب کہ چچی اپنی شیطانی سوچ پر خوش ہو رہی تھیں –
کائنات کی عادت تھی ڈائری لکھنے کی اس لیے اس نے بالاج کے متعلق بھی اپنی ڈائری میں اپنے سارے جذبات لکھے تھے – دوپہر کا وقت تھا اور وہ ڈائری لکھ رہی تھی کہ تبھی فیاض بنا دروازہ نوک کیے اس کے کمرے میں ایا تھا ؛ فیاض کے یوں اچانک اپنے کمرے میں انے پر اس نے گھبرا کر اپنی ڈائری بند کر کے ڈرا میں رکھی تھی – یہ کیا طریقہ ہے فیاض کسی کے کمرے میں انے کا ؟؟
تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے دروازہ نوک کر کے ایا کرو – کائنات نے غصے سے کہا تو فیاض اگے سے ہنس پڑا – میری جان بعد میں بھی تو میں نے یوں ہی دھرلے سے تمہارے کمرے میں انا جانا ہے نہ تو ابھی سے کیوں نہیں – فیاض اس کے پاس جاتا اسے غلیظ نظروں سے تکتے غلاظت سے ہی بولا تھا جب کہ اس کے یوں خود کو گھٹیا الفاظ سے پکارنے پر کائنات نے اپنی مٹھیاں میچیں تھیں –
تم اپنی حد سے دن بدن بڑھ رہے ہو فیاض – انے دو زوریز کو تمہاری ساری حقیقت بتاؤں گی اسے – کائنات زوریز کو بھائی نہیں کہتی تھی کیونکہ وہ اس سے صرف دو سال ہی بڑا تھا اس لیے ان دونوں کی کافی اچھی باؤنڈنگ تھی اور کائنات اسے اقرا کی طرح لالہ نہیں کہتی تھی –
ابھی بھی اس نے زوریز کا نام لیتے فیاض کو دھمکی دی لیکن فیاض پر اس کی دھمکی کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ تو اگے سے قہقہہ لگا کر ہسنے لگا – ڈرتا نہیں ہوں میں تمہارے بھائی سے –
خیر ابھی جاؤ نیچے تمہیں امی بلا رہی ہیں – فیاض نے اس کی دھمکی کو ہواؤں میں اڑاتے اسے اپنی ماں کا پیغام دیا تو کائنات اسے گھورتے ہوئے کمرے سے چلی گئی- جب کہ اس کے جاتے ہی فیاض کی نظر ڈرار پر گئی جہاں کائنات نے گھبراتے ہوئے کچھ چھپایا تھا – اس نے اگے بڑھ کر ڈرار کھولا اور اندر پڑی ڈائری نکالی –
پھر وہیں رکھی کرسی پر بیٹھتے اس نے ڈائری پڑھنا شروع کی لیکن جیسے جیسے وہ ڈائری پڑھتا گیا اس کی انکھیں لال ہوتی گئیں – اس نے غصے سے ڈائری واپس ٹیبل پر پٹخی تھی –
اچھا نہیں کیا تم نے کائنات تمہاری ہمت کیسے ہوئی کسی اور کو دل میں بسانے کی – تم اس چیز کی قیمت چکاؤ گی – وہ خیال میں ہی کائنات سے مخاطب ہوتا بولا اور پھر غصے سے اس کے کمرے سے نکل گیا –
رات کائنات اپنے کمرے میں لیٹی بالاج کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ تبھی فیاض نشے کی حالت میں اس کے کمرے میں داخل ہوا – ایک تو رات اور دوسرا فیاض کا نشے کی حالت میں اپنے کمرے میں انا کائنات کو خوفزدہ کر گیا تھا – وہ جلدی سے بیڈ سے نیچے اتری اور اپنے گرد اچھے سے اپنا دوپٹہ پھیلا گئی –
دیکھو فیاض یہ کیا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں انے کا – دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے -وہ خود کو مضبوط ظاہر کرتی بولی لیکن وہی جانتی تھی کہ اس کا دل کیسے خوفزدہ تھا – نہیں جاؤں گا کیا کر لو گی اور یوں دور کیوں کھڑی ہو ادھر اؤ –
فیاض لڑکھڑاتا ہوا اس کے پاس جاتا ہوا بولا جبکہ اس کے یوں اپنے قریب انے پر کائنات نے زور سے چیخ ماری تھی – اس سے پہلے وہ پھر سے چلاتی فیاض اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ چکا تھا – کائنات کی انکھوں سے لگاتار انسو بہہ رہے تھے جبکہ وہ اپنے ہاتھوں سے فیاض کے چہرے اور بازوں پر حملہ کرتی خود کو ازاد کرنے کی کوشش کرنے لگی –
فیاض اس کے منہ پر یوں ہی ہاتھ رکھے اسے گھسیٹتے ہوئے بیڈ کی طرف لے جانے لگا لیکن تبھی کائنات نے پاس ٹیبل پر پڑے واس کو اٹھا کر فیاض کے سر پر مارا تھا – اچانک سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے فیاض کی نے کائنات کو چھوڈتے اپنا سر تھاما تھا – جب کہ اس کے یوں خود کو چھوڑنے پر کائنات فورا سے کمرے سے باہر بھاگی تھی –
اسے سمجھ نہ ایا وہ کہاں جائے اس نے زور زور سے مدد کے لیے پکارنا چاہا مگر کوئی گھر ہوتا تو وہ اتا چچی اقرا اور فرح کسی رشتے دار کے ہاں شادی پر گئی ہوئی تھیں – جبکہ چچا ابھی تک گھر ائے ہی نہیں تھے – اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو فیاض اپنے سر پر ہاتھ رکھے اس کے پیچھے ہی ا رہا تھا –
نیچے جانے کے لیے جو سیڑھیاں تھیں وہ اس کے کمرے کی دائیں جانب تھی جبکہ اس وقت وہ بائیں جانب کھڑی تھی – اس کے اور سیڑھیوں کے درمیان فیاض کھڑا تھا اور کائنات کو سمجھ نہ ائی وہ کہاں جائے تبھی وہ چھت پر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بھاگی تھی –
چھت پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر بے بسی سے دیکھا کیونکہ اب اگے کوئی بھی رستہ نہیں تھا فرار کا – جب کہ فیاض بھی چھت پر پہنچ چکا تھا- کائنات نے روتے ہوئے فیاض کو دیکھا اور نہ میں سر ہلانے لگی لیکن فیاض اپنے قدم بڑھاتا اس کے قریب انے لگا – فیاض کو نہ رکتا دیکھ کائنات نے لمبا سانس کھینچا اور چھت کے پردے کے طور پر بنائی گئی چار فٹ اونچی دیوار پر جا کر چڑھ گئی –
اس کے یوں دیوار پر جا کر چڑھنے پر فیاض ایک دم رکا تھا – نہیں کائنات ! فیاض نے اسے روکا جبکہ کائنات نے تکلیف سے انکھیں بند کی تھیں – ائی آیم سوری اللہ جی اینڈ زوریز – وہ دل ہی دل میں بولتی چھت سے چھلانگ لگا چکی تھی –
وہ لڑکی جس نے ابھی خواب بننے شروع کیے تھے وہ اپنے ادھورے خوابوں اور اپنی یک طرفہ ادھوری محبت کے ساتھ صرف اپنی عزت کی خاطر موت کو گلے لگا گئی تھی – اس کے نیچے کودتے ہی فیاض کی چیخ کے ساتھ ایک اور انسان کی چیخ ہوا میں گونجی تھج اور وہ تھے زوہیب خان –
وہ ابھی ڈیرے سے واپس ائے تھے کہ تبھی انہیں کائنات کے چیخنے کی اواز سنائی دی جو مدد کے لیے پکار رہی تھی – پریشانی میں وہ جلدی سے اوپر کی طرف بھاگے تو انہیں کائنات بھاگتی ہوئی چھت کی جانب جاتی نظر ائی جبکہ فیاض لڑکھڑاتا ہوا اس پیچھے ہی جا رہا تھا –
ان سے جتنا تیز ہو سکا وہ بھاگتے ہوئے اوپر چھت پر پہنچے لیکن جب وہ چھت کی اخری سیڑھی پر پہنچے تب تک کائنات چھت سے چھلانگ لگا چکی تھی – انہوں نے چیختے ہوئے کائنات کو پکارا تھا جبکہ ان کی اواز کے ساتھ ان ٹانگیں بھی کانپ رہی تھیں –
ان کی چیخ پر فیاض نے پلٹ کر دیکھا تو اپنے باپ پر نظر پڑتے اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے سبب پسینہ انے لگا تھا – کچھ وہ کائنات کہ خود کشی کرنے پر گھبرا گیا تھا اور اب اپنے باپ کو دیکھ اس کی جان نکل گئی تھی – میں نے کچھ نہیں کیا وہ خود کودی ہے میں نے کچھ نہیں کیا –
وہ گھبراتے ہوئے بولا اس کا سارا نشہ منٹوں میں چھو منتر ہوا تھا – زوہیب خان غصے سے اس کے پاس پہنچتے اسے رکھ کر دو تین تھپڑ لگا چکے تھے – گھٹیا ماں کی گھٹیا اولاد تمہاری وجہ سے میرے بھائی کی بیٹی نے خودکشی کر لی – کیا جواب دوں گا اپنے بھائی کو آخرت میں کہ اس کی بیٹی کی حفاظت بھی نہ کر سکا –
اپنے ہی گھر کی عزت پر نظر رکھتے تمہیں شرم نہ ائی ؟؟ میں صبح سے اقرا کو لے کر پریشان تھا کیونکہ میں تمہاری اور تمہاری ماں کی باتیں سن چکا تھا لیکن تم نے کائنات کو ہی مار دیا – غم اور غصے کے سبب زوہیب خان کا لہجہ کانپ رہا تھا جبکہ یہ سن کہ اس کا باپ اس کی اور اس کی ماں کی ساری پلاننگ سن چکا ہے فیاض کے اور طوطے اڑے تھے –
یہ مت سمجھنا کہ تم میرے بیٹے ہو تو تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا – میں خود تمہارا نام زوریز کو بتاؤں گا اور پھر وہ تمہیں خود بد سے بدتر سزا دے گا – زوہیب خان غصے سے کہتے جلدی سے چھت سے نیچے اترنے لگے تاکہ وہ نیچے کائنات کو جا کر دیکھ سکیں کہ شاید اس کے جسم میں چند سانسیں باقی ہوں اور اسے بچایا جا سکے لیکن ابھی وہ دوسری سیڑھی پر ہی پہنچے تھے کہ تبھی پیچھے سے فیاض نے انہیں دھکا دیا تھا جس کے سبب وہ بری طرح سے سیڑھیوں سے نیچے گرے تھے –
فیاض سیڑھیاں اترتا ان کے پاس ایا اور پاؤں کے بل ان کے پاس بیٹھا تھا – چچ افسوس کہ اپ کو یہ موقع میں دینے والا نہیں – اپ نے کون سا باپ ہونے کا کام کیا ہے میں اپ کا بیٹا ہوں لیکن ہمیشہ اپ نے زوریز کو اگے رکھا – اگر اپ کو مجھ سے محبت نہیں تو مجھے بھی اپ سے کسی قسم کی محبت نہیں – وہ انہیں کہتا وہی انہیں تڑپتا دیکھتا رہا جب تک کہ وہ بے ہوش نہ ہو گئے –
کوئی ایک گھنٹے بعد وہ خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایمبولنس کو بلاتے زہیب خان اور کائنات کی باڈی کو ہاسپٹل لے گیا جبکہ اس دوران وہ اپنی ماں اور زوریز کو بھی کال کر کے انفارم کر چکا تھا – اپنی ماں کو اس نے ساری حقیقت بتا دی تھی – کائنات تو نہ بچ سکی لیکن زوہیب خان کوما میں چلے گئے تھے –
زوریز کی حالت بہت بری تھی اسے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ اخر ہوا کیا تھا کائنات کے ساتھ جب کہ فیاض نے اپنی طرف سے ایک من گھڑت کہانی سناتے خود کو اس واقعے سے پوری طرح سے نکال بالاج خان جس کا دور دور تک اس واقعے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا اس کو بری طرح سے وہ پھنسا چکا تھا –
اس کے مطابق بالاج خان نے کائنات کو محبت کے جال میں پھنسا کر دھوکہ دیا تھا جبکہ یہ دکھ کائنات برداشت تک کر سکی اور اس نے خودکشی کر لی- کائنات کو خود کشی کرتا دیکھ زوہیب خان اسے بچانے کے لیے سیڑھیاں تیزی سے اتر رہے تھے کہ تبھی ان کا پاؤں پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گر گئے جس کے سبب ان کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے –
زوریز ساری کہانی سن کر اگ کا گولا بن گیا تھا اس کا بس چلتا تو وہ بالاج خان کو زندہ جلا دیتا لیکن وہ اسے بھی تڑپانا چاہتا تھا جیسے وہ خود تڑپ رہا تھا –
کائنات کی میت کے پاس بیٹھتے وہ اس سے بس ایک ہی شکایت کر رہا تھا کہ مجھے کیوں نہیں بتایا اگر مجھے بتایا ہوتا تو پھر چاہے مجھے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑتا میں بالاج خان کو تمہارے قدموں میں لا کر رکھ دیتا –
افسوس کہ جس سے وہ یہ بات کہہ رہا تھا وہ کہاں اس کی بات سن رہی تھی وہ تو بہت دور جا چکی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لیکن اس کی موت اور فیاض کی کہانی جس پر سچ کی مہر کائنات کی دائری نے لگائی تھی زوریز کو بالاج سے نفرت کرنے پر مجبور کر گئی تھی –
ڈائری پر اس نے صرف بالاج کے لیے اپنے جذبات لکھے تھے اس سے یہ غلطی ہوئی تھی کہ اس نے ڈائری میں یہ نہیں لکھا تھا کہ بالاج اس کے جذبات سے انجان ہے اور ایک یہی غلطی فیاض کے لیے اچھی جبکہ بالاج اور زبرش کے لیے بری ثابت ہوئی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial