Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 27

سادگی سے ہی اقرا کی رخصتی کر دی گئی تھی – بہرام کا کوئی بہن بھائی تھا نہیں اور نہ ہی اس کے ماں باپ حیات تھے اس لیے وہ خود اکیلا ہی آیا تھا اپنی بارات لے کر ہاں اس کے ساتھ اس کا دوست علی ضرور آیا تھا – علی اس کے بچپن کا دوست تھا – اقرا نے رخصتی پر ایک آنسوں بھی نہیں بہایا تھا –
اس کے مطابق اس کا میک اپ خراب ہو جاتا اگر وہ روتی – ہاں وہ تھوڑی اداس ضرور تھی زوریز اور زبرش سے دور جانے پر – زبرش کو اس نے گلے لگاتے تسلی ضرور دی تھی کہ وہ اتی رہے گی اس لیے خود کو اکیلا سمجھنے کی ضرورت نہیں اسے –
ایک ماہ ہو گیا تھا اس کی رخصتی کو اور اس ایک ماہ میں بہرام بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا مگر وہ بلکل بھی سلجھی ہوئی بیوی ثابت نہیں ہوئی تھی –
وہ چھوٹے بچوں کی طرح اسے تنگ کرتی مگر بہرام ماتھے پر ایک بل بھی نہیں لاتا تھا – ہفتے میں چار دن وہ زبرش سے ملنے جاتی تھی – چونکہ زوریز اور زبرش فارم ہاوس سے اب گھر شفٹ ہو گئے تھے شہر والے ہی –
اور وہ گھر بہرام کے گھر کے بہت قریب تھا اس لیے اقرا زیادہ وہیں پائی جاتی تھی اور بہرام بیچارے کو اپنی ہی بیوی اپنی دشمن لگتی اس معاملے میں – اسے کہاں اس کی دوری برداشت نہیں تھی اور وہ گھر ہی کم ٹکتی تھی –
زبرش کی طبعیت بہت خراب تھی – اسے صبح سے الٹیاں آ رہی تھیں اسی وجہ سے اس کا جسم نڈھال ہوا پڑا تھا – سر درد کے ساتھ چکر بھی اسے بے تحاشہ آ رہے تھے – وہ گھر پر اکیلی ہی تھی کیونکہ زوریز تو معمول کی طرح صبح گاوں جا چکا تھا – اگر وہ ہوتا بھی تو کون سا اس نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھا –
اس لیے اپنی تکلیف برداشت کرتی اور درد کو آنسوں کے زریعے بہاتے بہاتے وہ کب سو گئی اسے پتا ہی نہ چلا – زبرش کو لگا تھا زوریز ٹھیک ہو رہا ہے مگر نہیں وہ تو صرف اقرا کے سامنے اس کے ساتھ اچھا برتاو کرتا اور پھر اس کے جاتے ہی وہ پرانا زوریز بن جاتا تھا – اقرا کی رخصتی سے پہلے کا ایک مہینہ بھی زوریز نے پتا نہیں کیسے اس کے ساتھ نرمی سے گزارا تھا –
شاید وہ تب بھی اقرا کی رخصتی کے انتظار میں تھا کہ جیسے ہی اقرا کی رخصتی ہو اور وہ واپس سے اپنے روپ میں آ جائے – اس کا بس چلتا تو ایک سیکنڈ کی دیر کیے بغیر وہ زبرش کو واپس گاوں لے جاتا مگر یہاں بھی صرف اقرا سے کیے وعدے پر رکا تھا –
زبرش کو ہزار تکیلف ہوتی وہ زوریز کو نہیں بتاتی تھی کیونکہ جب اسے پرواہ ہی نہیں تھی اس کی تو وہ کیوں بتاتی اسے کچھ – شہر والے نوکر جن کو زوریز نے ہٹا دیا تھا یہاں آنے سے پہلے تاکہ سب کام زبرش کو ہی کرنے پڑیں اقرا نے انہیں بھی زوریز سے ضد کرتے واپس بلا لیا تھا تاکہ زبرش کو اس حالت میں کام نہ کرنا پڑے –
اقرا بیچاری تو پوری کوشش کرتی تھی زبرش کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی مگر اس کے بھائی کی اتنی ہی کوشش ہوتی زبرش کے لیے مشکالات بڑھانے کی – اب بھی وہ اقرا کے سامنے تو اپنے کام ملازموں سے کرواتا مگر اس کے جاتے ہی زبرش سے کرواتا تھا –
جو بھی ہوجاتا وہ کھانا اسی سے بنواتا جب کہ وہ جانتا تھا کہ زبرش کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی مسالے کی سمل سے اور نہ ہی اس سے زیادہ دیر کھڑا ہوا جاتا تھا مگر وہ تو بے رحم اور ظالم تھا نہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا –
اقرا اج فری لیکچر میں کلاس میں ہی بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ اج ایمان یونیورسٹی نہیں ائی تھی – اس لیے وہ بھی اپنے کلاس روم سے باہر نہیں نکلی تھی – وہ فون یوز کرنے میں بزی تھی کہ تبھی اس کی کلاس کی لڑکی ہما اس کے پاس ا کر بیٹھی تھی یہ وہی لڑکی تھی جو بہرام پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتی تھی اور اقرا کو بے حد زہر لگتی تھی –
کیسی ہو اقرا ؟؟ ہما نے میٹھے بنتے پوچھا جب کہ اس کے پوچھنے پر اقرا نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا – ٹھیک اللہ کا شکر ہے – تم سناؤ کیسی ہو؟؟ اقرا نے موبائل بند کرتے اپنے بیگ میں رکھا اور اس کی جانب متوجہ ہوتی بولی – اچھا میں نے پوچھنا تھا کہ دو مہینے ہو گئے ہیں تم نے سوچا نہیں شیروز کے پرپوزل کے بارے میں ؟؟
ہما کے سوال پر اقرا نے اسے نہ سمجھی بھری نگاہوں سے دیکھا تھا – کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟ اقرا نے پوچھا جب کہ ہما ہنسی تھی – اتنی انجان مت بنو سوچا تو ہوگا تم نے اب ظاہر سے بات ہے وہ اتنا امیر ہے خوبصورت بھی ہے تو ایسے لڑکے کے بارے میں کون نہیں سوچے گا –
میرے خیال سے تو تم اسے ہاں کر ہی دو اور بن جاو اس کی گرل فرنڈ دیکھا نہیں کیسے روز تمہیں وہ دیکھتا ہے لیکن شاید اس میں ہمت نہیں ہوتی تمہارے پاس ا کر کچھ کہنے کی- ہما کی بات پر اقرا نے انکھیں چھوٹی کی اسے دیکھا تھا – تم رشتے والی آنٹی ہو ؟؟ اقرا نے پوچھا تو ہما نے حیران ہوتے نہ میں سر ہلایا تھا –
نہیں ہونا ہے تو پھر کیوں رشتے والی آنٹیوں والے کام کر رہی ہو ؟؟ رہی بات شیروز کا پروپوزل ایکسیپٹ کرنے کی تو میں تمہیں بتاتی جاؤں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اس کے پروپوزل میں نہ ہی میں اسے ہاں کہنے والی ہوں –
اور تمہاری معلومات میں اضافہ کرتی جاؤں کہ میرا کردار اتنا گرا پڑا نہیں کہ میں کسی کی گرل فرنڈ بنوں – میں نے ایک ہی بات سیکھی ہے کہ اپنا کردار اتنا سستا مت بناؤ کہ ہر کوئی تم تک پہنچ سکے بلکہ اپنے کردار کو اتنا مضبوط اور اعلی بناؤ کہ کسی کو تم تک پہنچنے کے لیے اپنے اللہ سے اجازت طلب کرنی پڑے –
اور جو تم یہ کام کر رہی ہو نا رشتے والی انٹیوں کے یہ جا کر کہیں اور کرو میرے پاس تمہیں کچھ نہیں ملنے والا – چاہو تو جا کر شہروز سے بھی کہہ دو کہ اپنے لیے کوئی اور ڈھونڈے اقرا گل اس میں بالکل بھی انٹرسٹڈ نہیں ہے –
اقرا کا لہجہ کافی سخت تھا جب کہ ہما اپنی بیزتی پر وہاں سے فوراً نو دو گیارا ہوئی تھی – وہ تو ائی تھی بڑی خود کو کوئی تیس مار خاں سمجھ کر لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اقرا سے بات کرنے ائی ہے اور اقرا کو اچھے سے اتا تھا اس جیسے لوگوں کو جواب دینا جو بلا کسی وجہ کے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے تھے –
انور ملک کی بات بالکل ٹھیک ثابت ہوئی تھی جیسے ہی گرمی نے زور پکڑا تھا دیا کو یہاں رہنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ کہاں وہ ہر وقت اے سی میں رہنے کی عادی اور کہاں اب اس سے ہر وقت گرمی جھیلنی پڑتی تھی –
لیکن وہ پھر بھی اپنی زبان پر اف کا لفظ بھی نہ لائی تھی نہ ہی اس نے بالاج کو ظاہر ہونے دیا تھا کہ اسے گرمی میں رہنا مشکل ہو رہا ہے – بالاج کا رویہ اس کے ساتھ بہت زیادہ بہتر ہو گیا تھا پہلے کی نسبت – شاید وہ اپنے اس رشتے کو قبول کر رہا تھا – پہلے جو وہ خاموش رہتا تھا اب اس سے بات کر لیا کرتا تھا –
اسے اب اسے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا دیا کہ اپنے کمرے میں رہنے پر – اسنے تو دیا سے کہا تھا کہ وہ مہینے میں ایک بار اسے پالر لے جایا کرے گا مگر دیا نے انکار کر دیا تھا – اس نے اپنے بینک بیلنس میں پڑی اماونٹ کو یوز کرتے گھر ہی سارا سکن اور ہئیر کئیر کے پروڈکٹ منگوا لیے تھے –
بالاج کافی غصہ ہوا تھا مگر اس نے یہ کہہ کر اسے چپ کروا دیا کہ اس نے اپنے ڈیڈ کی دی گئی پاکٹ منی سے لیا ہے سب کچھ اور وہ باپ بیٹی کے معملے میں نہ بولے – ایک اور بدلاؤ جو بالاج میں ایا تھا وہ یہ تھا کہ اب وہ خود بھی دیا کا ہاتھ بٹاتا تھا کاموں میں اور دیا اس کے اتنے ہی بدل جانے پر کافی خوش تھی –
اس متعلق اس نے انور ملک کو بھی خوشی سے بتایا تھا جب کہ وہ بھی کافی خوش ہوئے تھے بالاج کے یوں دیا کے ساتھ بہتر سلوک پر – دیا کے دوست عدیل کا بھی اب دیا سے موبائل پر رابطہ تھا اسے جب پتہ چلا کہ دیا کہ شادی ہو گئی ہے تو وہ کافی حیران ہوا تھا – خاص طور پر یہ بات جان کر کہ دیا نے اپنی پسند سے بلکہ زور زبردستی ضد کر کے اپنے ہی گارڈ سے شادی کی ہے –
وہ کافی ناراض بھی ہوا تھا دیا سے کہ اخر اس نے اپنی شادی کے بارے میں اسے کیوں نہیں انفارم کیا اور وہ اس کی شادی کے چاول کھانے سے رہ گیا – جبکہ اس کا شکوہ سن کر دیا کافی دیر ہستی رہی تھی پھر اس نے اس کی غلط فہمی دور کی کہ بھئی ہم نے تو چاول بنائے ہی نہیں تھے کیونکہ میری شادی نارمل طریقے سے ہوئی ہی نہیں –
اس کی اور عدیل کی کافی اچھی بانڈنگ تھی – وہاں لندن میں بھی عدیل نے اس کا کافی ساتھ دیا تھا وہ دوست کم اور بھائی کی طرح زیادہ اس کا خیال رکھتا تھا – اس لیے شادی کے بعد بھی جب دیا نے اپنے سارے دوستوں سے رابطہ توڑ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ عدیل سے بات کر لیتی تھی –
رات یہ سوچ کر کہ دیا سو گئی ہوگی اس لیے بالاج نے برامدے میں بیٹھ کر ہی اپنے افس کا سارا کام مکمل کیا اور پھر لیپ ٹاپ بند کرتا جب وہ کمرے میں ایا تو خالی کمرہ دیکھ حیران ہوا لیکن پھر اس نے سوچا کہ دیا واش روم میں ہو گئی اس لیے وہ لیپ ٹاپ اس کی جگہ پر رکھتا سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پینے لگا –
وہ پانی پی رہا تھا کہ تبھی دیا واش روم کا دروازہ کھول باہر نکلی تھی اور پانی پیتے ہوئے بالاج کی نظر دیا پر پڑی – لیکن اسے دیکھتے ہی اسے بری طرح سے اچھو لگا تھا – بالاج کے یوں بری طرح سے کھانسنے پر دیا بھاگ کر اس کے پاس پہنچی تاکہ اس کی کمر سہلا سکے لیکن اس سے پہلے وہ اس کے پاس پہنچتی بالاج نے اسے ہاتھ کی اشارے سے ہی روک دیا تھا –
اپنا چہرہ اسمان کی جانب کرتے بالاج نے خود کو نارمل کیا تھا – یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے ؟؟ جیسے ہی وہ نارمل ہوا اس نے غصے سے دیا سے پوچھا جبکہ دیا نے اس کی یوں اس سے پوچھنے پر اپنے کپڑوں کی جانب دیکھا تھا – او ہو سوری اس نے تو کپڑے پہنے ہی نہیں تھے اس نے تو نائٹی پہنی ہوئی تھی اس لیے اس نے اپنی نائٹی کی طرف دیکھا تھا جو سلیو لیس ہونے کے ساتھ ساتھ لیگ لیس بھی یعنی گھٹنوں تک تھی –
گلا بھی پیچھے سے کافی ڈیپ تھا اور آگے سے بھی ڈیپ تھا – کیا ہوا ہےنائٹی ہی تو پہن رکھی ہے – میں کیا کروں گرمی بہت ہے اور مجھ سے سویا نہیں جا رہا اس گرمی میں – باہر صحن میں بھی ہوا نہیں ہے کہ وہیں سو جاوں اسی لیے میں نے اپنی نائٹی نکال کر پہن لی – میں پہلے ڈیڈ کے گھر یہی پہن کر سوتی تھی –
دیا نے ایزی ہوتے کہا جبکہ بالاج اسے گھور کر بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا اس کی نائٹی کی وجہ سے – جاو جا کر چینج کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا – بالاج نے سختی سے کہا مگر دیا تو تھی ہی ڈھیٹ – نہیں میں نہیں بدلوں گی مجھے شلوار قمیض میں گرمی لگتی ہے – اور ویسے بھی رات ہے اور کون سا میں باہر پہن کر کھڑی ہوں یہیں کمرے میں ہی تو ہوں – دیا نے انکار کرتے کہا –
تو تم نہیں کرو گی چینج ؟؟ اب کہ بالاج نے کھڑے ہوتے پوچھا جس پر دیا نے ہاں میں سر ہلاتے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہنے کا بتایا تھا – ٹھیک ہے تو پھر مجھ سے شکایت مت کرنا قصور تمہارا اپنا ہے – بالاج اسے کہتے ایک دم اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا – اس کے یوں خود کو کھینچنے پر اس سے پہلے دیا کچھ سمجھ پاتی وہ اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا چکا تھا –
بالاج کے عمل سے دیا کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں جبکہ وہ پوری شدت سے اس کے ہونٹوں کو چوم رہا تھا – – دیا نے کانپتے ہاتھوں کو اس کے سینے پر رکھتے اسے پیچھے دھکیلا تھا مگر بالاج کے فولادی جسم کو کہاں اس کے کمزور سے ہاتھ پیچھے ہٹا سکتے تھے – بالاج کے پیچھے ہوتے ہی اس نے لمبے لمبے سانس لیتے اپنی سانسوں کو درست کیا تھا جبکہ بالاج اسے دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا –
کتنے بدتمیز ہیں آپ ! دیا نے شرم سے لال ہوتے اس سے کہا جبکہ بالاج اسے اپنی باہوں میں بھرتے پیچھے کمر کے بل ہے دیا سمیت بیڈ پر گرا تھا – تم خود ہی دعوت دینے والا لباس پہن کر ائی تھی تو کب تک میں قابو رکھتا ؟؟
ویسے بھی میں نے پہلے ہی کہا تھا مجھ سے شکایت مت کرنا پھر – بالاج نے سر اوپر کرتے دیا کے دونوں گالوں پر لب رکھتے کہا تو دیا نے شرم سے اس کے اوپر سے اٹھنا چاہا مگر بالاج کا اسے چھوڈنے کا کوئی موڈ نہیں تھا – چھوڈیں نہ مجھے میں نے چینج کرنی ہے نائٹی –
دیا نے اس کا حسار توڑنے کی کوشش کرتے کہا – بلکل بھی نہیں میں اب بلکل بھی نہیں چھوڈنے والا تمہیں – تیار ہو جاو آج کی رات میری قربت جھیلنے کے لیے – بالاج نے کہتے کروٹ لی جس کے سبب دیا نیچے اور بالاج اب اوپر تھا – ن..نہیں ب..بالاج ! دیا نے آنکھیں زور سے بند کرتے کہا – نہیں کیوں نہیں ؟؟ بالاج نے پوچھا – کیونکہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے – دیا نے آنکھیں کھول اسے دیکھتے کہا –
اور یہ تم سے کس نے کہا ؟؟ بالاج نے پھر سے پوچھا – آپ نے ہیکہا تھا – دیا اداسی سے بولی – افف وہ تو تب کہا تھا جب میں واقع تمہیں پسند نہیں کرتا تھا – لیکن تمہاری محبت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں بھی تم سے محبت کروں – کیا تمہیں ان گزرے دنوں میں میرے بدلے رویے سے ایسا نہیں لگا ؟؟ بالاج نے اس سے پوچھتے تھوڑا سر جھکا کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے –
لگتا تو تھا پر آپ سے بھی تو اظہار سننا تھا – دیا نے شرارتی انداز میں کہا تو بالاج نے اس کی ہوشیاری پر اسے مصنوئی گھوری سے نوازا جس پر وہ کھلکھلا کر ہسی تھی – اچھا تو مجھ سے ہوشیاری – تم اب بچو مجھ سے – بالاج اسے کہتے اس کی گردن پر جھکتا وہاں ہلکے سے دانت گاڑھ گیا تھا – نہیں کریں خان –
دیا نے ہستے ہوئےاسے روکا کیونکہ گردن پر بالاج کی بئرڈ چُبھنے سے اس کو گُدگُدی ہو رہی تھی – نہیں میری جان اب تو خان نہیں رکے گا – بالاج نے گردن سے منہ اٹھاتے اسے کہا اور پھر سے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا جبکہ دیا نے بھی خود کو اس کے حوالے کرتے اپنا جسم ڈھیلا چھوڈتے اس کی شرٹ کو سختی سے اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا تھا –
صبح بالاج کی انکھ کھلی تو دیا اس کےسینے پر سر رکھے سو رہی تھی – سوتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر شرماٹ بھری مسکان تھی – محبت سے اسے دیکھتے بالاج نے اسکا سر آرام سے اپنے سینے سے اٹھاتے تکیے پر رکھا اور پھر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے – رات وہ بہت سوچ کر دیا کے قریب گیا تھا –
پہلے اس کی سوچ تھی کہ وہ زبرش کو جب تک گھر نہیں لے آئے گا تب تک اپنی زندگی میں آگے نہیں بڑھے گا مگر پھر اس نے سوچا کہ اخر اس سب میں دیا کا کیا قصور ؟؟ وہ بیوی تھی اس کی اس کے حق سے وہ کیوں اسے دور رکھتا وہ کیوں اس سے اس کی خوشیوں کو دور کرتا – اور رات سے وہ مطمعین تھا اپنے فیصلے پر – دیا کو بنا اٹھائے وہ نہا کر کچن میں چلا گیا تاکہ دیا کے لیے ناشتہ بنا سکے –
بالاج کے کمرے سے جاتے ہی دیا کی بھی تقریباً دو منٹ بعد آنکھ کھل گئی تھی – پہلے تو اس نے نظر گھماتے بالاج کو کمرے میں ڈھونڈنا چاہا مگر جب وہ نہ نظر ایا تو وہ جلدی سے شکر کرتی کھڑی ہوئی اور واش روم میں گھس گئی –
شکر تھا وہ کمرے میں نہیں تھا کیونکہ رات کے بعد وہ اس کا سامنا کرنے کی حالت میں بلکل نہیں تھی –
##################################
وہ کچن میں گئی تو بالاج کو ناشتہ بناتے دیکھ حیران ہوئی – اوہو خان اپ کیوں بنا رہے ہیں ناشتہ ؟؟ ہٹیں سائیڈ پر میں بناتی ہوں – دیا اس کے پاس جاتی بولی – نہیں میری جان تم بیٹھو میں بناتا ہوں –
تمہیں پتا ہے پہلے بھی میں کبھی کبھی زبرش کے …! بالاج اسے مسکراتے ہوئے بتانے لگا تھا کہ وہ زبدش کے لیےبھی ناشتہ بناتا تھا مگر پھر زبرش کے زکر پر اداس ہو گیا – جبکہ اس کے اداس ہونے پر دیا اس کے پاس جاتی اس کو ہگ کرگئی – اداس نہ ہوں انشاللہ جلد ہی وہ ہمارے ساتھ ہوگی –
دیا نے اسے تسلی دیتے کہا جبکہ بالاج بھی نارمل ہوتا اس کے سر پر بوسہ دے گیا – ہمم انشاللہ ! خیر چلو مجھے ناشتہ بنانے دو – بالاج کے کہتے ہی وہ دور ہوئی تھی اس سے – نہیں آپ بیٹھو میں بناتی ہوں ناشتہ – دیا نے اسے منع کرتے کہا – اچھا چلو ہم دونوں مل کر بناتے ہیں – بالاج نے کہا تو دیا نے حیران ہوتے اسے دیکھا –
وہ کیسے ؟؟ دیا نے پوچھا – ایسے ! بالاج نے اسے پکر کر سلف کے پاس چولہے کی طرف اس کا منہ کرتے ہوئے اسے کھڑا کرتے کہا اور خود اس کو پیچھے سے ہگ کرتے اس کے پیٹ پر ہاتھ باندھتے اپنی تھوڈی اس کے کندھے پر رکھی تھی – دیا اس کے یوں کھڑا ہونے پر مسکرائی تھی – اس کے صبر کا پھل اسے مل گیا تھا اور وہ بے حد خوش تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial