قسط: 28
زبرش کمرے کی صفائی کر رہی تھی جبکہ زوریز بیڈ پر بیٹھا اسے صفائی کرتا دیکھ رہا تھا – ڈریسنگ ٹیبل پر چیزیں سیٹ کر کے رکھتے ہوئے غلطی سے اس کا ہاتھ لگنے سے زوریز کا ایک پرفیوم نیچے گرتا ٹوٹ گیا تھا – پرفیوم کی بوتل ٹوٹتے ہی زبرش گھبرا کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی جبکہ زوریز بیڈ سے اٹھ کر غصے سے اس کے پاس ایا تھا –
جاہل عورت تمہیں نظر نہیں اتا ؟؟ ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں تمہارے ؟؟ میرا اتنا مہنگا پرفیوم توڑ دیا تم نے – وہ غصے سے اس کی بازو کہنی سے دبوچتا اسے جھنجوڑتے ہوئے بولا جبکہ زبرش اس کے یوں غصہ کرنے پر خوفزدہ ہوئی تھی –
سسس..سوری غلطی سے م..میرا ہاتھ لگ گیا تھا – م..میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑا – اس نے خود کو رونے سے بمشکل روکتے ہوئے کہا لیکن پھر بھی اس کا لہجہ ہلکا سا کامپ رہا تھا اور کچھ پرفیوم ٹوٹنے سے کمرے میں پھیلی اس کی خوشبو کی وجہ سے زبرش کا دل بھی عجیب ہو رہا تھا – تم دونوں بھائی بہن تو پیدا ہیمیرا نقصان کرنے ہوئے ہو – اب منہ کیا دیکھ رہی ہو میرا صاف کرو اسے –
وہ جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑتا اس سے بولا جب کہ زبرش نے اس کے چھوڑتے ہی اپنے بازو کو مسئلہ تھا کیونکہ زوریز کی گرفت کافی سخت تھی جس کی وجہ سے اب اس کی بازو میں درد ہو رہا تھا – میرا دل متلی کرتا ہے پرفیوم کی خوشبو سے – مجھ سے نہیں ہوگا –
زوریزسے لاچارگی سے کہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی انکھ سے انسو نکل پڑا تھا – لیکن زوریز کو کب اس کی کوئی تکلیف نظر اتی تھی – میری بلا سے جو مرضی ہو- اگلے پانچ منٹ تک مجھے یہ کمرہ صاف چاہیے – سنا تم نے ؟؟
اور تم خود ہی کرو گی کیونکہ توڑا بھی تو تم نے ہی ہے – وہ لاپرواہی سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ پیچھے زبرش اس کے جاتے ہی فورا منہ پر ہاتھ رکھتی واش روم کی طرف بھاگی تھی –
اگلے پانچ منٹ میں اس نے مرتے دھرتے ٹوٹے ہوئے پرفیوم کے کانچ اٹھا کر ڈسٹبین میں پھینکا اور وہاں سے جگہ صاف کی تھی لیکن اس دوران اس نے ناک پر ڈوپٹہ فولڈ کر کے رکھا تھا مگر پھر بھی وہ بار بار واش روم میں جا کر وومٹنگ بھی کر رہی تھی –
میری دل دھڑکن کیا کر رہی ہے ؟؟ اقرا بیڈ پر بیٹھی اپنی اسسائنمنٹ بنا رہی تھی کہ تبھی بہرام جو ابھی ایا تھا بیڈ پر بیٹھ کر اس کی گود میں پڑا لیپ سائیڈ پر رکھتے اپنا سر اس کی گود میں رکھتا پوچھنے لگا جب کہ اس کے یوں لیپ ٹاپ سائیڈ پر کر کے گود میں سر رکھنے پر اقرا نے اسے گھور کر دیکھا تھا –
کیا ہے بہرام اپ کو نظر نہیں ارہا میں اسسائمنٹ بنا رہی ہوں – اقرا نے چِڑتے ہوئے کہا کیونکہ اسے سخت چڑ تھی اسائنمنٹ بنانے سے اور ابھی بھی وہ بڑی مشکل سے اپنا موڈ بنا کر بیٹھی تھی اسائمنٹ کمپلیٹ کرنے کے لیے کہ بہرام نے ا کر اس کا موڈ پھر خراب کر دیا تھا – اسائنمنٹ زیادہ ضروری ہے شوہر سے ؟؟
بہرام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگاتے پوچھا – جی بالکل ضروری ہے کیونکہ اسسائمنٹ دی بھی تو شوہر نے ہے – اقرا نے تنزیہ کہا تو بہرام کھلکھلا کر ہنسا تھا کیونکہ اقرا نے اسے بہت منع کیا تھا کہ وہ اسائنمنٹ نہ دے لیکن وہ بہرام ہی کیا جو کسی کی سن لے – اچھا نا ابھی تو تم اسائنمنٹ کو بھول جاؤ اور مجھے ٹائم دو –
بدلے میں میں تمہارے لیے اتنا کر سکتا ہوں کہ آسائمنٹ سبمٹ کروانے کی ڈیٹ دو دن اگے بڑھا دیتا ہوں – بہرام نے اس پر احسان کرتے کہا جب کہ اقرا نے اسے گھورا تھا – بہرام میں اپ کو بتا رہی ہوں اگر ابھی اپ نے میری گود سے سر نہ اٹھایا تو میں اپنی اسائمنٹ اپ سے ہی کمپلیٹ کرواؤں گی –
اقرا نے اسے دھمکی دی تھی جبکہ اس کے دھمکی دینے پر بہرام نے داد بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا – میری دلِ دھڑکن اپنی یہ کمزور سی دھمکیاں مجھے مت دو کیونکہ میں بالکل بھی تمہاری دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے اٹھ کر چلا بھی گیا تو بھی تم نے اپنی اسائمنٹ مجھ سے ہی بنوانی ہے تو اس سے اچھا نہیں کہ میں پہلے معاوضہ وصول کر لوں تم سے –
بہرام کی بات پر اقرا نے اپنی نظریں کمرے میں ادھر ادھر گھماتے اس کی بات سے انجان بننا چاہا کیونکہ بہرام بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اس نے واقعی ہی یہی سوچ رکھا تھا کہ تھوڑی سی اسائمنٹ بنا لیتی ہے اور اس کے بعد وہ بہرام کو اپنی معصومیت سے بلیک میل کر اس سے اسائنمنٹ کمپلیٹ کروائے گی –
اب ادھر ادھر مت دیکھو میں اچھے سے جانتا ہوں کہ تم نے یہی سوچ رکھا تھا – بہرام نے اس کی تھوڑی کو اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑتے اس کا منہ اپنی طرف نیچے کو جھکاتے کہا تو اقرا نے اگے سے بنا شرمندہ ہوئے اپنے 32 دانتوں کی نمائش کی تھی – ہاں تو اپ شوہر ہو اپ کا حق بنتا ہےمیری مدد کرنےکا –
دیکھتے نہیں اپ میں کتنی بزی ہوتی ہوں سارا دن مجھ سے نہیں بنتی ہے اسائمنٹ – اقرا کی بات پر بہرام نے اسے ایسے دیکھا کہ جیسے کہنا چاہتا ہو اچھا واقع ؟؟ واقعی یار تم بہت مصروف ہوتی ہو سارا دن –
صبح یونی جاتی ہو ڈیڑھ بجے واپس ا کر کھانا کھاتی ہو اور سو جاتی ہو پھر اٹھتی ہو زوریز کی طرف چلی جاتی ہو رات کو وہاں سے اتی ہو اور پھر سو جاتی ہو – میں خود تمہاری بزی روٹین پر بہت حیران ہوں کہ تمہیں تو بالکل بھی سانس لینے کا وقت نہیں ملتا –
بہرام نے تنزیہ انداز میں اس کو اس کی ہر روز کی روٹین بتائی تو اقرا کھسیانی ہنسی ہسی تھی – شکر کریں میں نے ابھی شادی کے بعد ناول لکھنے چھوڈ دیے ہیں ورنہ وہ الگ بزی پن ہوتا اور باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن رات کو اپ کہاں سونے دیتے ہو مجھے جھوٹے انسان ؟؟ رات سونے نہیںدیتے اسی لیے دن میں سوتی ہوں –
اقرا جلدی سے اس کی غلطی نکالتی کیا بول گئی اسے یہ بعد میں سمجھ ایا تھا لیکن اب تو بات منہ سے نکل گئی تھی اس لیے اس نے شرم سے لال ہوا اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا تھا – لیکن اب بہرام اسے کہاں بخشنے والا تھا –
صحیح کہا تم نے میری جان میں واقعی رات کو تمہیں سونے نہیں دیتا اور تمہیں بتاتا جاؤں کہ رات ہو چکی ہے – تو پھر کیا خیال ہے پھر سے تمہاری نیند کا دشمن بن جاؤ ؟؟ بہرام نے اس کی گود سے سر اٹھاتے اسے دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا تو ایک اقرا فورا بھاگنے کے لیے پر تولنے لگی لیکن بہرام کہاں اسے بھاگنے دینے والا تھا –
اس سے پہلے وہ بیڈ سے اتر کر بھاگتی بہرام اسے بیڈ پر ایک جھٹکے سے لٹاتا خود اس پر حاوی ہوا تھا – سوری دلِ دھڑکن لیکن تمہارے بھاگنے کی کوشش ناکام ہوتی ہے – وہ اس سے کہتا اس کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا جب کہ اقرا نے اپنی زبان پر ہزار لعنت بھیجی تھی جو ہر بار اسے پھنسا دیتی تھی –
اج اتوار تھا اور بالاج کو افس سے چھٹی تھی اس لیے وہ اج گھر پر ہی تھا لیکن بیچارے کو چھٹی ہو کر بھی چھٹی نہیں تھی – کیونکہ دیا نے محلے کی ایک لڑکی کو بلا کر اپنے ہاتھوں پر بھر بھر کر مہندی لگوا لی تھی اور سارے کام اس نے بالاج کے سر پر چھوڑ دیے تھے اور اب بیچارہ بالاج گھر کے سارے کام کرتے ہوئے اتے جاتے اسے گھور رہا تھا –
ظلم تو اس کے ساتھ اور زیادہ یہ ہوا تھا کہ اج کپڑے بھی دھونے والے تھے – بالاج کو یوں کام کرتا اور خود پر تپا ہوا دیکھ دیا کی ہنسی ہی بند نہیں ہو رہی تھی – جبکہ وہ اسے اور تپانے کے لیے بار بار کام میں نقص بھی نکال رہی تھی جس پر بالاج محض اسے گھور کر ہی رہ جاتا – برتن بھی دھونے والے ہیں ابھی –
دیا نے اسے برتن دھونے کا کہا تو بالاج جو جھاڑو دے کر نکلا تھا کمرے سے اس نے جھاڑو زمین پر پٹخی تھی – میں نہ پاگل تھا جو تم سے پیار کر بیٹھا – پہلے سہی تھی تم مجھ سے ڈرتی تو تھی اور بات بھی مانتی تھی – بالاج غصے سے اسے کہتا کچن میں گھس گیا جبکہ دیا کا اس کے تپنے پر ہس ہس برا حال ہوا تھا –
وہ برتن دھو رہا تھا کہ تبھی کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا – بالاج دیکھیے گا ذرا باہر کون ہے میرے ہاتھوں پر مہندی لگی ہے – دیا نے جان بوجھ کر اسے اواز دیتے دروازہ کھولنے کا کہا تھا اور ساتھ میں اپنی مہندی کا ذکر بھی چھیڑا تھا – برتن سنک میں پٹکخنے کے انداز میں رکھتے وہ باہر نکلا اور دیا کو کھورتے ہوئے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ساتھ والی انٹی کھڑی تھیں –
ضرور وہ دیا سے ملنے ائی تھیں کیونکہ دیا کی آس پڑوس سے کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی اس لیے اس کے گھر کوئی نہ کوئی محلے کی انٹی ائی ہی ہوتی تھی – کیسے حالچال ہیں بالاج بیٹا ؟ انٹی نے اندر ا کر بالاج کے سر پر پیار کرتے پوچھا جب کہ ان کے حال پوچھنے پر اس نے دیا کی طرف دیکھا تھا –
انٹی جس کی بیوی دیا جیسی ہو اپ کو اس انسان کا حال کیسا لگے گا ؟؟ بالاج نے جان بوجھ کر دیا کو تنگ کرنے کے لیے انٹی سے کہا تو انٹی ہنس پڑی تھیں جبکہ دیا نے بالاج کو گھورا تھا – اب ایسی بھی بات نہیں ہے بہت پیاری بیٹی ہے دیا – میں تو کہتی ہوں تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں دیا جیسی بیوی ملی –
انٹی دیا کہ صدقے واری جاتی بولیں تو بالاج انکھیں پھاڑے کبھی انٹی کو دیکھتا تو کبھی دیا کو جو اب اتراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی – جانے دیں انٹی اللہ کو بھی منہ دکھانا ہے کیوں اتنے جھوٹ بول رہی ہیں – بالاج نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو انٹی ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہلکے سے چٹ لگا گئی تھیں –
ہٹو شرارتی کہیں کے – وہ ہنستے ہوئے کہتیں اگے بڑھ گئیں جبکہ بالاج نے دروازہ بند کیا تھا اور واپس کچن میں اپنا کام کرنے چلا گیا – برتن دوبارہ دھونے شروع کرنے سے پہلے اس نے گلاس میں جوس ڈال کر انٹی کو دیا تھا جس پر انٹی اسے دعاؤں سے نوازنے لگی تھیں –
کچن کا سارا کام نپٹا کر وہ باہر نکلا تو انٹی اور دیا ابھی بھی باتوں میں مصروف تھیں جبکہ اب بالاج کپڑے دھونے کے لیے صحن میں بیٹھ گیا تھا – کپڑے واشنگ مشین میں ہی دھوئے تھے لیکن انہیں نکھارنے کے لیے صاف پانی کے ٹپ بھر کر اس نے صحن میں رکھے ہوئے تھے اور اب مشین سے نکالے ہوئے کپڑے وہ ان ٹپ میں ڈال کر انہیں نکھار رہا تھا – ارے بالاج بیٹا تم کپڑے کیوں دھو رہے ہو ؟؟
انٹی نے اسے کپڑے دھوتے دیکھ حیرت سے پوچھا تو بالاج چہرے پر مسکینیت لاتا انہیں دیکھنے لگا – بس انٹی اسی لیے تو کہہ رہا تھا کہ میرا حال برا ہے اپ کی یہ ظالم بہو مجھ سے گھر کے کام کرواتی ہے اور خود دیکھیں کیسے مہرانی بن کر بیٹھی ہوئی ہے –
بالاج انتہا درجے کی مظلومیت چہرے اور لہجے میں لاتا بولا تو انٹی نے پہلے تو حیران ہوتے دیا کو دیکھا لیکن پھر ہنس پڑیں – ہاں تو اچھا کر رہی ہے نا وہ – روز وہی تو کرتی ہے کام اگر اج تم کر لو گے تو کیا ہو جائے گا ؟ ویسے بھی میری بیٹی نے ہاتھوں پر مہندی لگائی ہوئی ہے اس لیے وہ کام نہیں کر سکتی –
انٹی اگے ہو کر دیا کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے بالاج سے بولیں تو بالاج نے ٹھنڈی اہ بھری تھی – بس اپ کو تو اپنی بہو ہی اچھی لگتی ہے میں تو ہوں ہی برا – بالاج نے کہا تو انٹی ہنس پڑی تھیں – زیادہ باتیں مت کرو اور صحیح سے کام کرو کپڑے دھو کر صحن کو بھی دھو دینا –
آنٹی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا تو بالاج نے ان کے اگے ہاتھ جوڑے تھے – بس انٹی میں پہلے ہی بڑی مشکل سے اپنے کام ختم کر رہا ہوں اپ ایک اور کام کا اضافہ مت کریں – بالاج کے یوں تپے ہوئے انداز میں کہنے پر دیا اور انٹی کا بلند اواز قہقہ گونجا تھا – دیا کو بالاج کی حالت بہت مزہ دے رہی تھی –
صبح بالاج نے خود ہی تو اسے کہا تھا محلے کی کسی لڑکی کو بلوا کر مہندی لگوانے کا کیونکہ وہ چاہتا تھا دیا ہمیشہ سجی سنوری رہے لیکن بیچارا خود ہی یہ بات کہہ کر پھنس گیا تھا کیونکہ دیا نے پھر سارے کام اس سے کروانے کی شرط رکھ دی تھی اور بیچارے کو شرط پوری بھی کرنی پڑی تھی کیونکہ دیا کو تیار ہونے کا بھی تو اسی نے کہا تھا –
زوریز گاؤں گیا ہوا تھا اور اس وقت وہ حویلی میں اپنے کمرے میں موجود تھا کہ تب ہی فرح دروازہ کھٹکھٹاتی اس کے کمرے میں ائی تھی – ہاں فرح بولو خیریت تھی ؟؟ زوریز نے فرح سے پوچھا –
جی خیریت تھی وہ دراصل میں نے اپ سے پوچھنا تھا کہ کیا ہم بابا کو شہر کے کسی اچھے ہاسپٹل میں لے کر خود نہ جائیں کیونکہ اتنے سال ہو گئے ہیں لیکن یہاں گھر پر بابا کو کسی قسم کا فرق نہیں پڑا – سچ کہوں تو مجھے تو بابا کے ڈاکٹر پر ہی غصہ اتا ہے کہ اخر وہ کیسا ڈاکٹر ہے اتنے سال ہو گئے ہیں اسے بابا کا علاج کرتے لیکن ایک پرسنٹ بھی بابا کی طبیعت میں سدھار نہیں ایا –
فرح کی بات سن زوریز سوچ میں پڑ گیا کیونکہ اسے فرح کی بات بالکل ٹھیک لگ رہی تھی – ہاں تم صحیح کہہ رہی ہو مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ اب انہیں شہر کے ہی کسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروانہ پڑے گا – زوریز کے حامی بھرنے پر فرح خوش ہو گئی تھی کیونکہ اسے بہت فکر تھی اپنے بابا کی اسی لیے اج وہ خود زوریز کے پاس ائی تھی – اقرا کیسی ہے ؟؟
تین مہینے ہو گئے ہیں شہر گئے ہوئے اسے لیکن اس نے کوئی رابطہ ہی نہیں رکھا – کیا اس کا دل نہیں کرتا حویلی واپس انے کو ؟؟ چھٹیاں تو ہوتی ہوں گی نا اسے اپنی یونیورسٹی سے ؟؟
فرح نے اقرا کے بارے میں پوچھا تو زوریز کچھ پل کے لیے خاموش ہو گیا – نہیں دراصل ان کا سٹڈی کورس بہت زیادہ ہے اس لیے انہیں چھٹیاں نہیں ہوتی – دل تو اس کا بھی کرتا ہے انے کو لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ پہلے سٹڈی کو ٹائم دے دے کیونکہ پھر جانا تو ہے ہی واپس حویلی – زوریز نے مسکراتے ہوئے جھوٹ بولا –
اچھا چلیں پڑھائی بھی تو زیادہ ضروری ہے نا – فرح نے مسکرا کر کہا تو زوریز بھی مسکرایا تھا – اور زبرش کیسی ہے ؟؟ فرح نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا تو زوریز کافی حیران ہوا تھا اس کے زبرش کے بارے میں پوچھنے پر – تم زبرش کے بارے میں پوچھ رہی ہو ؟؟ زوریز نے کنفرم کرنا چاہا –
جی زبرش کے بارے میں ہی پوچھ رہی ہوں – فرحکے کنفرم کرنے پر زوریز کافی حیرت سے اسے دیکھنے لگا – جہاں تک میں جانتا ہوں تم تو نفرت کرتی ہو نہ زبرش سے ؟؟ زوریز نے کہا تو فرح نے فورا نہ میں سر ہلایا تھا – نہیں میں اس سے نفرت کرتی تھی لیکن مجھے اب احساس ہوا کہ میری نفرت بلا وجہ تھی –
بس امی کی باتوں میں ا کر میں اس سے نفرت کرتی تھی لیکن پھر مجھے خیال ایا اس کے جانے کے بعد کہ جو بھی ہو اس سب میں زبرش کا تو کوئی قصور نہیں تھا – چاہے قتل اس کے بھائی نے کیا ہے لیکن اس سب میں زبرش کا کیا قصور تھا – سچ کہوں تو مجھے پھر خود پر بہت افسوس ہوا کہ میں نے اس کے ساتھ برا رویہ رکھا –
فرح نے شرمندہ ہوتے کہا جب کہ اس کی بات پر زوریز بالکل خاموش ہو گیا کیوں کہ اس کا ضمیر اس پر تنزیہ انداز میں ہنس رہا تھا کہ دیکھو اس لڑکی کو بھی اندازہ ہے کہ زبرش کا کوئی قصور نہیں اگر اس کا بھائی قصور وار ہے تو – مگر تم جو سردار بنے پھرتے ہو یہ یہ بات نہ سمجھ پائے –
اچھا میں چلتا ہوں مجھے ساتھ والے گاؤں جانا ہے زوریز کھڑا ہوتا بولا – مگر مجھے ایک اور ضروری بات کرنی ہے – فرح اسے روکتے بولی – نہیں ابھی نہیں پھر کبھی ابھی مجھے کام ہے – زوریز نے کہا تو فرح ہاں میں سر ہلاتی اسے خدا حافظ کہتی کمرے سے نکل گئی جب کہ اپنی سوچوں میں مگن زوریز بھی اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلا تھا –