Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 29

خیر ہے اج تم بڑی خوش نظر ارہی ہو ؟؟ اور یہ لسٹ کس چیز کی بنا رہی ہو ؟؟ بالاج افس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا اور کافی دیر سے دیا کو دیکھ رہا تھا جو بیڈ پر بیٹھتی کچھ سوچتے ہوئے رجسٹر پر لکھ رہی تھی جبکہ چہرے پر بہت خوشی تھی اسی لیے اس نے حیران ہوتے نادیہ سے پوچھا –
اس کے پوچھنے پر دیا نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا – دراصل مجھے نہ کل عدیل کی کال ائی تھی اور وہ کہہ رہا تھا وہ اج میرے گھر ائے گا تو میں بہت زیادہ ایکسائٹڈ ہوں کہ وہ پہلی بار میرے گھر ا رہا ہے تو میں اس کو کیا کیا بنا کر کھلاؤں بس اسی چیز کی لسٹ بنا رہی ہوں –
یو نو وہ بالکل بھی یقین نہیں کر رہا کہ مجھے کھانا بنانا اگیا ہے اسی لیے وہ گھر ا رہا ہے میرے ہاتھ کا کھانا کھانے – دیا خوشی سے اسے بتا رہی تھی جب کہ بالاج کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا اس کی بات سن کر – کیوں ا رہا ہے وہ ؟؟
اور تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟؟ بالاج نے غصے سے پوچھا تو دیا نے حیران ہوتے اسے دیکھا – کیا مطلب کیوں ا رہا ہے دوست ہے وہ میرا اور اپ کو بتایا تو دیا ہے ابھی – دیا نے پریشانی سے کہا جب کہ وہ اسے گھور کر دیکھ رہا تھا – دیا تمہیں پتہ ہے نا مجھے بالکل بھی پسند نہیں لڑکیوں کا لڑکوں سے دوستی کرنا –
بالاج نے کہا تو دیا سر پر ہاتھ مارتی اٹھ کر اس کے پاس ائی تھی – او ہو بلاج اپ بھی نہ وہ دوست کم اور بھائی زیادہ ہے وہ بالکل میرے بھائیوں جیسا ہے – وہ بولی تو بالاج نے پھر سے اسے گھورا تھا – بھائی جیسا ہے بھائی ہے نہیں – بالاج نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا – کیا ہو گیا اپ کو بالاج ؟؟ اپ کو مجھ پر شک ہو رہا ہے ؟؟
دیا نے انکھیں چھوٹی کیے پوچھا تو بالاج نے لمبا سانس لیتے اس کی کمر کے گرد دونوں بازو حائل کرتے اسے اپنے اور قریب کیا – نہیں میری جان مجھے تم پر بالکل بھی شک نہیں ہے میں بس یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے وہ لڑکا اچھا نہیں لگا – بالاج نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا تو دیا ہنس پڑی – اپ ایک ہی ملاقات میں کیسے کسی کو جج کر سکتے ہیں ؟؟
اس سے بات بھی نہیں کی تھی اپ نے تو پھر کیسے کہہ سکتے ہیں یہ ؟؟ اور میں کہہ رہی ہوں نا وہ بہت اچھا ہے – کیا اپ کو مجھ پر بھی اعتبار نہیں ؟؟ دیا نے اسے یقین دلاتے کہا تو بالاج نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا – ٹھیک ہے کب تک آنا ہے اس نے ؟؟ بالاج نے برے برے منہ بناتے پوچھا –
رات کو ائے گا جب اپ ا چکے ہوں گے اور پلیز موڈ ٹھیک کیجئے نا اپنا وہ میرا اکلوتا اچھا دوست ہے – دیا نے اس کی گردن میں اپنے دونوں بازو ڈالتے لاڈ سے کہا تو بالاج ہس پڑا – اچھا ٹھیک ہے میری جان چلو اب جلدی سے مجھے گڈ بائے کس دو تاکہ میرا دن اچھا گزرے – بالاج نے اپنے گال اگے کرتے کہا تو دیا نے شرماتے ہوئے اس کے سینے پر ہلکے سے مکہ مارا –
اب دو بھی جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے بالاج نے اس کے شرمانے پر کہا – اس سے پہلے کہ وہ اگے ہو کر اس کے گال پر لب رکھتی بالاج کا فون بجنے لگا – اوہو اب کس کو مصیبت پڑی ہے ؟؟
اتنے غلط ٹائم پر کال کی ہے – بالاج نے برا منہ بناتے دیا کی کمر کے گرد سے اپنے ہاتھ ہٹائے اور پینٹ کی پاکٹ سے اپنا موبائل نکالا تھا – موبائل سکرین پر عدنان کا نام دیکھ وہ کافی حیران ہوا کہ اتنی صبح ان کو کیا کام پڑ گیا تھا – ہاں ہیلو عدنان خیریت تھی اتنی صبح کال کی ؟؟
بالاج نے فون اٹھاتے عدنان سے پوچھا – نہیں بالاج خیریت بالکل نہیں ہے میں دو تین دن سے نوٹ کر رہا ہوں کچھ لوگ میرا پیچھا کرتے ہیں اور ایک دو ادمی ہر وقت ہاسپٹل کے باہر بھی موجود ہوتے ہیں – مجھے ایسا لگتا ہے کہ عابد کو فروا کے زندہ ہونے کے بارے میں پتہ چل گیا ہے اور اس وقت مجھے میری بہن کی زندگی خطرے میں لگ رہی ہے –
مجھے بہت زیادہ فکر ہو رہی ہے اور اسی لیے میں نے تمہیں کال کی کیونکہ مجھے تم سے مدد چاہیے – دوسری جانب سے عدنان کی بات سن بالاج کو بھی فکر ہونے لگ گئی تھی – اچھا تم فکر نہ کرو میں ابھی اتا ہوں تم بتاؤ اس وقت تم کہاں ہو ؟؟ بالاج نے اس سے پوچھا جس پر عدنان نے اسے جگہ کا نام بتاتے فون بند کر دیا – کیا ہوا بالاج ؟؟ اپ اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہیں ؟؟ کس کی کال تھی ؟؟
دیا نے اس کے چہرے پر پریشانی دیکھتے پوچھا – عدنان کی کال تھی اور مجھے اسی وقت اس سے ملنے جانا ہوگا – تم اپنا خیال رکھنا – اللہ حافظ ! بالاج پریشانی سے اسے بتاتے اسے اپنا خیال رکھنے کا کہتے اس کے ماتھے پر لب رکھتا جلدی سے گھر سے نکلا تھا جبکہ پیچھے دیا بھی پریشان ہو گئی تھی کہ اخر کیا بات تھی کہ وہ اتنا پریشان تھا –
ہما تم تو کہتی تھی تم بہت جلد سر خان کو پٹا لو گی لیکن سر خان تو تمہاری طرف دیکھتے ہی نہیں – ہما کی ایک دوست نے تنزیہ انداز میں اس سے کہا جس پر ہما نے اسے گھور کر دیکھا تھا – اقرا جس کے ٹیبل تک ان کی اواز جا رہی تھی اور وہ بھی ان کی گفتگو کی جانب ہی اپنے کان لگائے ہوئے تھی –
وہ اس لیے کیوں کہ میں نے ابھی تک زیادہ کوشش ہی نہیں کی انہیں اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کی – ورنہ کون ہے جو مجھے اگنور کرے – ہما نے مغرور پن سے کہا جب کہ اس کے یوں کہنے پر اقرا نے ایسے اپنے دانت اپس میں رگڑے جیسے وہ ہما کو ان کے درمیان پیس رہی ہو –
اچھا چلو پھر نیکسٹ لیکچر سرخان کا ہی ہے دیکھتے ہیں تم کتنا سر خان کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہو – اس کی دوست نے کہا تو ہما نے فورا سے چیلنج قبول کیا تھا – تو کوشش تو کر بیٹا میرے شوہر کو اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کی پھر اقرا گل بھی تجھے بتائے گی کہ وہ چیز کیا ہے –
دیکھتی ہوں کہ کون سے ہٹکندے اپنائے گی تو لیکن میں بھی اقرا گل ہوں تیرا کوئی ایک وار بھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی – اقرا دل ہی دل میں ہما سے مخاطب ہوتی بولی اور خود کو اس نے تیار بھی کر لیا تھا کہ کیسے اس نے اپنے شوہر کو ہما نام کی بلا سے کیسے بچانا ہے –
بہرام نے ساری کلاس کو اج ٹیسٹ دیا ہوا تھا اسی لیے وہ کلاس کی نگرانی کرتا ادھر ادھر ٹہل رہا تھا – اقرا جس کا لیکچر شروع ہوتے ہی دھیان ہما کی طرف ہی تھا کہ پتہ نہیں وہ کب کیا کرے ابھی بھی وہ ٹیسٹ کرتے ہوئے بھی ٹیڑھی انکھ سے ہما کی طرف ہی دیکھ رہی تھی کہ تبھی ہما نے اپنی دوست کو اشارہ کیا تھا جیسے کہنا چاہتی ہو ابھی دیکھنا – پھر وہ چہرے پر تکلیف کے تاثرات لاتی سر ہاتھوں میں گرا گئی –
اقرا اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ وہ اگے کیا کرنے والی ہے – سر دیکھیں ہما رو رہی ہے – ہما کی دوست نے ہما کے اشارے پر جلدی سے بہرام سے کہا تو بہرام ہما کی جانب متوجہ ہوا – کیا بات ہے مس ہما اہ کیوں رو رہی ہیں ؟ بہرام ہما کے ٹیبل کے پاس جاتا پوچھنے لگا – اس سے پہلے کہ ہما کوئی جواب دیتی اقرا کی ہلکی سی چیخ کلاس میں گونجی تھی جبکہ اس کی چیخ پر بہرام نے فورا پلٹ کر اسے دیکھا تھا جو اپنے بینچ کے پاس نیچے اپنا پاؤں پکڑے بیٹھی تھی –
بہرام ہما کو بھول جلدی سے اس کے پاس پہنچا جب کہ بہرام کے یوں اقرا کے پاس جانے پر ہما بل کھا کر رہ گئی تھی- کیا ہوا مس اقرا ؟؟ بہرام نے ویسے تو نارملی پوچھا لیکن اقرا اس کے لہجے میں چھپی پریشانی جان گئی تھی – سر میرے پاؤں میں موچ اگئی ہے –
اقرا نے رونے والے لہجے میں کہا جب کہ بہرام فورا پریشانی سے نیچے اس کے ساتھ بیٹھا تھا – دکھائیں مجھے اپنا پاؤں میں دیکھتا ہوں – بہرام نے اسے پاؤں آگے کرنے کو کہا – نہیں سر اپ کیسے میرے پاؤں کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ؟؟ اقرا نے نہ میں میں سر ہلاتے کہا – اٹس اوکے کوئی بات نہیں آپ دکھائیں ذرا مجھے اپنا پاؤں –
بہرام نے کہتے ساتھ اس کا پاؤں پکڑ کر خود ہی دیکھا تھا لیکن پاؤں کا اچھے سے معائنہ کرتے اسے پتہ چل گیا تھا کہ اقرا کو کسی قسم کی موچ نہیں ائی – اس نے نظریں اٹھا کر اقرا کو گھورا تھا جس پر اقرا نے معصومانہ انداز میں اپنی انکھیں ٹپ ٹپائی تھیں –
بہرام کو سمجھ اگئی تھی کہ اقرا کو یوں اس کا ہما کے پاس جانا پسند نہیں ایا اس لیے وہ جان بوجھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے جھوٹ بول رہی تھی – موچ تو کافی زیادہ ائی ہے – اپ ایسا کریں میرے ساتھ ائیں میں اپ کو ہاسپٹل لے جاتا ہوں – کیونکہ اج یونیورسٹی کی ڈسپنسری بند ہے – بہرام نے اس کے جھوٹ کا ساتھ دیتے کہا جس پر اقرا نے فورا گردن ہلائی تھی –
اوکے لے چلیں مجھے واقعی میں ہی بہت زیادہ درد ہو رہا ہے پاؤں میں – اقرا اپنے لہجے میں اور زیادہ دکھی پن لاتی بولی جبکہ بہرام کو اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا – مس کرن آپ مس اقرا کی مدد کرتے ہوئے انہیں میری گاڑی تک لے جائیں گی ؟؟ بالاج نے اپنی کلاس کی ایک لڑکی کو مخاطب کرتے کہا جس پر وہ فورا اپنا ٹیسٹ چھوڑتی اقرا کے پاس ائی تھی –
کرن نام کی لڑکی کا سہارا لیتے اور ایک ہاتھ سے اپنا کالج بیگ اٹھا کر اقرا کلاس روم سے باہر نکل گئی جبکہ پیچھے بہرام نے اقرا کا ٹیسٹ اٹھایا جو کمپلیٹ ہو چکا تھا اور پھر اسے کلاس کے سی ار کے حوالے کیا تھا کیونکہ جی ار تو مس اقرا ہی تھیں اور وہ موچ کا بہانہ کرتی کلاس سے نو دو 11 ہو چکی تھی –
میں جا رہا ہوں اپ سب سے ٹیسٹ کلیکٹ کر لیجئے گا میں کل اپ سے لے لوں گا – بہرام اسے کہتا خود بھی کلاس روم سے باہر نکل گیا جب کہ ساری کلاس حیران تھی بہرام کی اقرا کے لیے کیئر دیکھ کر – سب سے زیادہ جل بھن تو ہما رہی تھی کیونکہ بہرام نے اسے بالکل اگنور کیا تھا جبکہ پہلے اس نے بہرام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے سر درد کا بہانہ کیا تھا –
لیکن بہرام نے تو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی تھی – مجھے لگتا ہے بہرام سر اور اقرا کا کوئی چکر چل رہا ہے – ہما کی ایک دوست نے اونچی اواز میں کہا جس پر ساری کلاس نے ہاں میں سر ہلایا تھا – ہاں بالکل دیکھا نہیں تم نے سر کتنی کیئر کرتے ہیں اس کی – ایک اور لڑکی بولی –
ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے میں نے تو ایک دو بار اقرا کو سر بہرام کی گاڑی میں بیٹھتے بھی دیکھا ہے اور سر کی گاڑی یونیورسٹی سے تھوڑا دور کھڑی ہوتی ہے -کلاس کی دوسری لڑکی نے کہا تو ساری کلاس نے حیران ہوتے اسے دیکھا – جیسے پوچھنا چاہتے ہوں کیا واقعی ؟؟
ان کے یوں دیکھنے پر اس لڑکی نے ہاں میں گردن ہلاتے انہیں یقین دلایا تھا – مجھے تو پہلے ہی وہ اچھی نہیں لگتی تھی بڑی کوئی حاجن بی بی بن کر اتی ہے لیکن دیکھو کیسے سر کو ہی اپنے جال میں پھنسا کر بیٹھی ہے اور شیروز کے پروپوزل کی مرتبہ کیسے نیک پروین بن رہی تھی –
ہما نے اپنے اندر کی جلن نکالتے کہا جبکہ شیروز جو کب سے ان سب کی باتیں سن رہا تھا اس سے اور برداشت نہ ہوا تو غصے سے کھڑا ہوا – بند کرو سب لوگ اپنی یہ بکواس گفتگو اور اپنا ٹیسٹ کمپلیٹ کرو – وہ سر خان کی اور اقرا کی لائف ہے اور وہ جو مرضی کریں ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں –
شیروز کے غصے سے بولنے پر ساری کلاس ایک دم چپ ہو گئی تھی لیکن ہما کی ہڈی کو کہاں سکون تھا – کیوں ہم کچھ غلط تو نہیں بول رہے اور تمہیں کیوں برا لگ رہا ہے بلکہ تمہیں بھی اسے برا بھلا کہنا چاہیے اخر اس نے تمہیں ریجیکٹ کیا ہے –
ہما نے جان بوجھ کر شیروز کو ٹیس کرتے ہوئے کہا – میں تمہارے جیسا نہیںہوں جو دوسروں کی زندگی میں دخل دوں – اور اس نے جو مجھے ریجیکٹ کیا تو یہ اس کا حق ہے وہ جسے چاہے اپنائے اور جسے چاہے ریجیکٹ کرے تم اور میں کوئی نہیں ہوتے اس پر اپنا فیصلہ تھوپنے والے –
اور اگر اب کلاس میں کسی نے کسی قسم کی فضول گوئی کی تو میں کل سر خان کو بتا دوں گا – شروز نے پہلے ہما کو سناتے بعد میں پوری کلاس کو دھمکی دی تھی جس پر ساری کلاس خاموشی سے اپنا ٹیسٹ کمپلیٹ کرنے لگی لیکن ہما کے اندر کی اگ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی اس سے ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ سر خان نے اسے اگنور کرتے اقرا کی فکر کی –
کیا میں وجہ پوچھ سکتا ہوں اس جھوٹ کو بولنے کی ؟؟ بہرام نے گاڑی ڈرائیو کرتے اقرا سے پوچھا- یہ جھوٹ بالکل نہیں تھا یہ تو میں اپنے شوہر کو ایک ڈائن کے جال سے بچانے کے لیے ڈرامہ کر رہی تھی – اقرا بہرام کی بات پر بولی تو بہرام نہ حیران ہوتے اسے دیکھا – کون دائن ؟؟
بہرام کو واقعی نہیں پتا تھا وہ کسے ڈائن کہہ رہی ہے – ہما کو اور کسے ؟؟ وہ اپ پر ڈورے ڈالنا چاہتی ہے اور میں ایک مشرقی بیوی کیسے یہ برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے شوہر پر کوئی گندی نظر رکھے – اقرا نے ہوا میں ہاتھ ہلاتے جوش سے کہا تو بحرام ہنس پڑا – اللہ اللہ اقرا گل تم کیا چیز ہو ؟؟
بہرام کے ہس کر پوچھنے پر اقرا نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھے تھے – میں اپ کی دلِ دھڑکن ہوں نا – وہ شرمانے کی اداکاری کرتے بولی تو بہرام ایک بار پھر کھل کر ہنسا تھا – بہرام اپ کی انکھ کے نیچے والا گڑھا مجھے بہت پیارا لگتا ہے میرا دل کرتا ہے میں اسے کھا جاؤں – اقرا تھوڑا ترچھی ہو کر بیٹھتی اس کی انکھ کے پاس مسکرانے کی وجہ سے نمودار ہوتے گڑے کو چھوتی بولی –
تو کھا لو میں نے کب منع کیا ہے ؟؟ تمہارا ہی تو ہے جب میں پورے کا پورا تمہارا ہوں تو یہ بھی تو تمہارا ہی ہے – اور اپنی چیز کو تم جو مرضی کرو میں تمہیں روکوں گا بالکل نہیں – بہرام اس کا وہی ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگاتا محبت سے بولا تو اقرا شرما کر رخ موڑ گئی – جبکہ اس کو یوں شرماتا دیکھ بہرام اس پر جی جان سے قربان ہوا تھا –
دیا کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی تو وہ ہانڈی کے نیچے کی انچ ہلکی کرتے دروازہ کھولنے کے لیے گئی – اس نے دروازہ کھولا تو بالاج کو اتنی جلدی واپس دیکھ حیران ہوئی – اپ اتنی جلدی اگئے ؟؟
دیا نے حیران ہوتے پوچھا کہ تبھی اس کی نظر پیچھے کھڑی ایمںبولنس پر پڑی تھی – یا اللہ خیر ایمبولنس کیوں ائی ہے ؟؟ دیا نے پریشان ہوتے پوچھا – راستہ دو ذرا میں تمہیں بعد میں تفصیل سے بتاؤں گا – ابھی تم جاؤ اندر کمرے میں بیٹھو – بےلاج نے اسے کہا تو دیا فورا اس کی بات مانتی اپنے کمرے میں چلی گئی –
تھوڑی دیر بعد بالاج کمرے میں ایا تو دیا فورا اٹھ کر اس کے پاس گئی – کیا ہوا ہے بالاج ؟ بتائیں نا مجھے – دیا نے پریشان ہوتے پوچھا – ادھر اؤ میرے ساتھ – بالاج اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے جاتا اسے سامنے والے دوسرے کمرے میں لے گیا – کمرے میں جاتے ہی دیا کی نظر بیڈ پر مشینوں میں جکڑی آنکھیں بند کیے لیٹی ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی – یہ کون ہے ؟؟
دیا نہ اسے دیکھ حیران ہوتے پوچھا – یہ عدنان کی بہن ہے فروا بتایا تھا نا تمہیں – بالاج نے اسے بتایا تو دیا اور حیران ہوئی – مگر یہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟؟ وہ بھی یوں کوما کی حالت میں اسے تو ہاسپٹل میں ہونا چاہیے نا – دیا نے حیرانگی سے پوچھا –
ہاسپٹل میں ہی تھی لیکن وہاں پر بالکل بھی یہ سیف نہیں تھی اسی لیے عدنان نے مجھ سے مدد مانگی اور پھر ڈاکٹرز کی پرمیشن سے ہم اسے یہاں لے ائے – بالاج نے اسے فروا کے یہاں ہونے کی وجہ بتائی – اللہ خیر کرے اچھا کیا اپ نے جو اپ اسے یہاں لے ائے – دیا نے ایک نظر فروا کو دیکھتے کہا –
وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ابھی بھی ایک پریشانی ہے – بالاج نے کہا تو دیا نے اسے دیکھا -وہ کیا ؟؟ ہمیں اب اس کے لیے کسی ریگولر ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے جو روز یہاں ا کر اس کا چیک اپ کرے – اس ہاسپٹل کے ہم کسی بھی ڈاکٹر پر اعتبار کر کے اسے یہاں نہیں بلا سکتے – اسی لیے یہ پریشانی ہے –
بالاج نے اسے اپنی پریشانی بتائی جب کہ اس کی پریشانی پر دیا ہنس پڑی – اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے بھلا ؟؟ اپ کو میں نہیں نظر ارہی ؟؟ دیا نے کہا تو بالاج نے حیران ہوتے اسے دیکھا – کیا مطلب ؟؟ بالاج نے پوچھا مطلب یہ کہ میں نے لندن سے ڈاکٹری کی ہی ڈگری لی ہےاور ہاں یہ الگ بات ہے کہ میں نے ہاؤس جاب نہیں کی لیکن اس کا بھی میرے پاس حل ہے اور وہ یہ کہ عدیل سے رابطہ کرتے ہیں –
میں نے تو سٹڈی کر کے اپنی ڈگری بس نام کے لیے ہی اپنے پاس رکھی لیکن عدیل ہاؤس جوب کے بعد اب اپنا ہاسپٹل بنا رہا ہے تو ہم عدیل سے رابطہ کرتے ہیں – روز آ کر وہ فروا کا چیک اپ کر لیا کرے گا اور باقی دن میں اس کی کیئر کر لیا کروں گی – دیا کی بات نے بالاج کے کندھوں سے جیسے بہت بڑا بوجھ اترا تھا –
شکریہ دیا بہت بہت شکریہ تمہارا تم نے بہت بڑی ٹینشن دور کر دی میری اور عدنان کی – بالاج نے اس کو گلے لگاتے کہا تو دیا ہنس پڑی – اچھا ویسے عدنان بھائی کہاں ہیں وہ نہیں ائے اپ کے ساتھ ؟؟ دیا نے اس سے عدنان کا پوچھا –
ہاں وہ میرے ساتھ نہیں ایا ہاسپٹل بھی نہیں تھا وہ میرے ساتھ کیونکہ وہ اگر میرے ساتھ ہوتا تو وہ لوگ جو اس پر نظر رکھے ہوئے تھے انہیں اس ٹھکانے کا بھی پتہ چل جاتا اس لیے میں خود اکیلا ہی فروا کو یہاں لے کر ایا ہوں – بالاج نے اسے عدنان کے یہاں نہ ہونے کی وجہ بتائی جس پر دیا نے سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial