قسط: 3
ڈرائیور اسے گھر چھوڈ کر خود واپس جا چکا تھا – کون ہے ؟؟ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو نور نے اندر سے آواز دیتے پوچھا – میں ہوں نور دروازہ کھولو –
خان کی آواز پر نور نے فوراً دروازہ کھولا تھا مگر اس کے بازو پر لپٹی پٹی جس پر خون بھی لگا تھا دیکھ اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی تھیں – بھائی ی..یہ کیا ہوا ا…آپ کو ؟؟ اس نے پریشانی سے اس کے قریب ہوتے پوچھا –
کچھ نہیں ہوا جان بس ہلکے سے گولی چھو کر گزری ہے – خان اسے دوسرے بازو کے ہلکے میں لیتا گھر میں داخل ہوتا بولا – ہلکے سے کہاں ؟؟ دیکھیں تو کتنا زیادہ زخم ہے – وہ ہلکے سے اس کا بازو چھوتی بولی –
نہیں کچھ ہوا میری جان ابھی اتنی جلدی نہیں میں مرنے والا – تمہاری شادی کرکے تمہیں کسی مضبوط ہاتھوں میں دے کر مروں گا –
خان کے کہنے پر وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی – پلیز بھائی مجھے پھر سے کسی تکلیف بھری زندگی کی جھلک نہیں دیکھنی – میں آپ کے پاس ہی رہوں گی ہمیشہ – نور نے اس کے سینے پر سر رکھتے لاڈ سے کہا –
نور جان ضروری تو نہیں ہر بار غلط انسان ملے ؟؟ خان نے اسے سمجھانا چاہا – نہیں کرنی مجھے اب شادی پلیز بھائی – کیا اب میں آپ پر بوجھ بن گئی ہوں ؟؟ جو اس طرح سے کہہ رہے ہیں –
نور نے اس کے سینے سے سر اٹھاتے ناراضگی سے کہا جس خان نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے – نہیں چندہ تم تو میرے گھر کی رونق ہو – بہنیں کب بوجھ ہوتی ہیں ؟؟
تم تو جان ہو میری میں تو بس ویسے ہی کہہ رہا تھا مگر اب نہیں کہتا – تم بس خوش رہو – خان نے اس کے گرد اپنا بازو ہائیل کرتے کہا جس پر وہ مسکرائی تھی – اچھا آپ اندر کمرے میں تو چلو –
میں نے بھی اپ کو باتوں میں لگا لیا اور آپ کی حالت کی پرواہ بھی نہ کی – چلیں اندر میں آپ کے لیے کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں – وہ اس کو اندر لیجاتی بولی جس پر خان نے مسکرا کر اوکے کہا تھا –
بڑے سے کمرے جس کو بے حد مہنگی چیزوں اور خوبصورتی سے سجایا گیا تھا میں وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنے کندھوں پر چادر سیٹ کر رہا تھا ساتھ ساتھ وہ شیشے میں اپنا خوبصورت عکس بھی ایک نظر دیکھتا –
اس کی زات سنجیدگی کے ساتھ غرور سے بھری تھی – اسے غرور جچتا بھی بہت تھا – آخر وہ پندرہ گاوں کا سردار تھا – سردار زوریز خان آفریدی ایک سنگ دل انسان – اسے اگر محبت کسی سے تھی تو صرف اپنی بہنوں سے تھی –
اور ان کی محبت میں وہ کچھ بھی کر سکتا تھا – اسی محبت میں تو اس نے سنگ دلی کی حد کرتے ایک نازک اور معصوم لڑکی کو توڑ کر رکھ دیا تھا – اور اس بات کا اسے کوئی پچھتاوا بھی نہیں تھا –
اس کی جان غزیز بہن مری تھی اس لڑکی کے بھائی کی وجہ سے – وہ کیسے بخشتا پھر اسے – اس کے بھائی کا بدلہ اس نے اس سے لیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر بہن کو درد دیا تو تکلیف بھائی کو ہو گی –
اس نے بدلہ تو لے لیا تھا مگر دل پرسکون ابھی بھی نہیں تھا – ہوتا بھی کیسے ؟؟ ایک معصوم اور مظلوم کی خاموش آہیں اس کا سکون چھین چکی تھیں – مگر وہ اس بات کو مانتا کب تھا –
وہ چادر سیٹ کرتا پلٹا تو اقرا اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی – لالا آپ کہاں جا رہے ہو ؟؟ اقرا نے زوریز کو تیار دیکھ پوچھا – ساتھ والے گاوں جا رہا ہوں کوئی فیصلہ کرنا ہے – زوریز نے مسکراتے ہوئے کہا –
ایک تو آپ کے یہ گاوں اور فیصلے مجھے لے کر بیٹھ گئے ہیں – آپ ایسا کرو اپنے پندرہ گاوں میں سے پانچ گاوں کی سردار مجھے بنا دو – اقرا نے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھتے کہا جس پر وہ ہسا تھا –
اچھا جی ایسا کرنے سے کیا ہو گا ؟؟ زوریز نے حیرت سے پوچھا – اس سے یہ ہو گا کہ آپ کے کندھوں سے پانچ گاوں کا بوجھ کم ہو گا – اور میری بھی واہ واہ ہوگی کہ اقرا گل سرادار زوریز خان افریدی کی بہن بھی پانچ گاوں کی سردار ہے –
اقرا کے گردن اکڑ کر کہنے پر زوریز کو وہ بے حد پیاری لگی تھی – اور وہ بے ساختہ آگے ہوتا اس کے ماتھے پر بوسہ دے گیا تھا – پانچ کیا میری جان تم سارے گاوں لے لو – تم پر تو بھائی کی جان بھی قربان یہ سرداری اور گاوں کیا چیز ہے –
زوریز نے اسے اپنے سینے سے لگاتے کہا جس پر وہ خوش ہوتی اس کے گرد کس کر بازو ہائیل کر گئی تھی – اپ نے کہہ دیا تو مطلب مجھے مل گئی سرداری – اور ویسے بھی مجھے سرداری چاہیے بھی نہیں کیونکہ میں تو ملکہ ہوں وہ بھی اپنے بھائی کے دل اور زندگی کی –
سارے گاوں ویسے ہی میرے قبضے میں سمجھو کیونکہ میں ان سب گاوں والوں کے سردار زوریز خان کی شہزادی جو ہوں – اقرا نے لاڈ سے کہا جبکہ زوریز اس کے الفاظ پر قربان ہوتا اس کے سر پر بوسہ دے گیا –
اچھا اب آپ جاو اور میرا پیکج کر دینا مجھے ایمان سے بہت ضروری بات کرنی ہے – وہ زوریز سے دور ہوتی بولی جس پر زوریز نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا تھا – کیا ضروری بات کرنی ہے ایمان سے ؟؟
زوریز کے ہوچھنے ہر اس نے دانت نکالے تھے – کچھ خاص نہیں بس اپنے کرش کی خیر خیریت معلوم کرنی ہے – اقرا کے جواب پر زوریز نے اسے گھورا تھا – بعض آ جاو اقرا تم میں نے پہلے بھی کہا ہے تم سے کہ اگر چچا چچی یاں فیاض لوگوں نے سن لی نہ تمہاری فالتو باتیں تو بلا وجہ تماشہ لگ جائے گا –
زوریز نے اسے پیار سے سمجھایا جس پر اس نے ناک سے مکھی اڑائی تھی – ایک نام لینا بھول گئے آپ – چچی کی بیٹی اور اپ کی منگیتر جو مجھے اپنے بھائی فیاض کی طرح زہر لگتی ہے –
دا ون اینڈ اونلی فرح خان افریدی جسے ویسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر لڑائی ڈلوانے کا بہت شوق ہے – اور رہی بات کہ سن لے گا کوئی تو مجھے فرق نہیں پڑتا نہ ہی ڈر ہے مجھے ان کا –
کیونکہ میں جانتی ہوں اگر کسی نے میرے کردار پر بات کی تو میرا بھائی اس انسان کو چیڑ کر رکھ دے گا مگر اپنی بہن کے کردار پر بات برداشت نہیں کرے گا – اقرا کے اتنے مان بھرے لہجے میں کہنے پر زوریز کا سینا اور چوڑا ہوا تھا –
میں قربان اپنی لاڈو کے – اچھا چلو میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا رات تک اجاوں گا میں – زوریز اس کے سر پر پیار کرتا بولا جس پر مسکراتے ہوئے اسے حویلی کے دروازے تک چھوڈنے گئی تھی –
لالا میرا پیکج کروا دینا یاد سے مجھے میرے کرش کی خیر خبر لینی ہے – زوریز اپنی گاڑی کے پاس پہنچا تو گارڈ بھی فوراً اپنی جیپ میں بیٹھے تھے جبکہ اس سے پہلے کہ زوریز اپنی گاڑی میں بیٹھتا اقرا نے بلند اواز میں اسے کہا جس پر اس نے اقرا کو پیار بھری گھوری سے نوازا تھا مگر آگے سے اقرا نے دانت نکالے تھے اور اس کے یوں بے شرموں کی طرح دانت نکالنے پر زوریز بھی ہس دیا تھا –
بھائی آپ تو کہتے تھے کہ آپ کی میم بہت روڈ اور مغروری ہیں – مگر مجھے تو اج ان میں ایسا کچھ بھی نہیں لگا – بلکہ مجھے تو وہ بہت نائس لگیں – خان کے کھانا کھانے کے بعد وہ اس کے پاس بیٹھتی بولی –
پتا نہیں نور میں خود حیران تھا آج ان کا روپ دیکھ کر – وہ بلکل بھی پرانی والی نادیہ میم نہیں لگ رہی تھیں – خان نے پرسوچ انداز میں کہا – ویسے بھائی وہ کتنی پیاری ہیں نہ ؟؟ نور نے پرجوش انداز میں کہا جبکہ خان تو اسے دیکھ کر رہ گیا تھا –
ہو گی مگر میرے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی میری نور ہے – خان نے اس کی کالی آنکھوں میں دیکھتے کہا جس پر وہ کھل کر مسکرائی تھی – ہاں جی وہ تو مجھے پتا ہے مگر آپ یہ بتاو کہ آپ کو کبھی ان پر کرش نہیں ہوا ؟؟
آخر وہ اتنی پیاری ہیں – نور نے تجسس سے پوچھا – نہیں مجھے بلکل بھی وہ اچھی نہیں لگتی – سچ بتاوں تو مجھے اسے دیکھنا بھی پسند نہیں – وہ بہت بولڈ ہے – اس کی ڈریسنگ اس کا انداز ہر ایک چیز لہٰذا مجھے وہ بلکل بھی اچھی نہیں لگتی –
خان کے جواب پر نور نے برے برے منہ بنائے تھے – بڑے ہی کوئی سڑے ہوئے بے زوق انسان ہو آپ – میری تو حسرت ہی رہ جائے گی آپ کو دلہا بنانے کی ، آپ کی بیوی سے لڑنے کی اور آپ کے بچوں کی کپتی پھپھو بننے کی –
نور اس کے پاس سے اٹھتی منہ پھلاتے بولی جبکہ اس کی باتوں پر خان کا ہس ہس کر برا ہال ہوا تھا – پہلے جو میں نے شادی کرنی تھی اب تو بلکل بھی نہیں کروں گا – کیونکہ تمہارے ارادے تو بڑے خطرناک ہیں –
خان نے اسے چھیرتے کہا جبکہ نور جو تب سے ہسی چھپائے اسے گھور رہی تھی ایک دم مسکرا دی تھی – یہ تو ہے میرے ارادے واقع بہت خطرناک ہیں بچ کر رہنا اپ اور اپنی بیوی کو بھی پچا کر رکھنا مجھ سے – بلکہ بیوی کون سی ؟؟
ہم دونوں ہی شادی نہیں کرنے والے تو جب آپ کی شادی نہیں ہو گی تو بیوی کہاں سے آئے گی – نور کی بات پر خان نے اسے آنکھیں پھاڑے دیکھا تھا – مطلب نہ تم شادی کرو گی نہ میری ہونے دو گی ؟؟ خان نے ڈرامائی انداز میں حیرت سے پوچھا جس پر نور نے گردن اکڑتے ہاں میں گردن ہلائی تھی اور خان اسے دیکھ ہس کر رہ گیا تھا –
ایمان کی بچی کہاں تھی تم ؟؟ کب سے کال کر رہی تھی میں مگر تم کال پک ہی نہیں کر رہی تھی – اقرا کب سے ایمان کو کال کر رہی تھی جبکہ ایمان کال پک نہیں کر رہی تھی – اس لیے جیسے ہی اس نے کال پک کی اقرا فوراً غصے سے اس پر چڑھائی کرتے بولی –
کیا کروں یار اس سر خان نے پریزنٹیشن دی ہوئی ہے – اسی کی تیاری کر رہی تھی – اگر نہ کرتی تو صبح کلاس میں انسلٹ ہو جانی تھی – ایمان کے جواب پر اقرا نے لمبا سانس کھینچا تھا – افف ایک تو تمہارا یہ سر خان لے کر بیٹھ گیا ہے – میرے ہاتھ لگے نہ ایک بار میں اس کو سیدھا کر دوں –
اقرا نے دانت پیستے کہا جبکہ اس کے کہنے پر ایمان ہسی تھی – تم لے لو سر خان کو قسم سے لے جا ہماری جان چھوٹے اس سے – ایمان نے جلدی سے کہا – تم دیتی ہی نہیں ہو – اقرا نے فوراً لہجہ نرم کرتے کہا جبکہ ایمان جان چکی تھی اس کے اندر کی شیطان جاگ چکی ہے –
میں نے تھوڑی روکا ہے یاں میں نے دینا ہے تم کو – تو آ اور لے جا سر کو – ایمان نے کہا – تم ایسا کرو اس کے گھر کا اتا پتہ دو میں خود ہی اسے اغواہ کر لوں گی اس کے گھر سے – اقرا نے غنڈہ گری والے لہجے میں کہا –
توبہ توبہ شرم کر یہ کام تو لڑکے کرتے ہیں اور تم کہہ رہی ہو میں کروں گی اغواہ – ایمان نے اسے شدم دلانی چاہی – ہاں تو پھر کیا ہوا ؟؟ میں یہ نظام ہی بدل دوں گی – اقرا نے فوراً کہا –
اچھا بہن تو کسی دن اکر سر سے پوچھ لینا پتا اور کر لینا اغواہ – ابھی یہ بتا کہ کیسی ہے تو ؟؟ اور گھر سب کیسے ہیں ؟؟ ایمان نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا جس پر وہ ہستی اس کے سوالوں کے جواب دیتی اس سے باتوں میں مگن ہو گئی –
نادیہ اپنے کمرے میں بیٹھی کب سے خان کے بار میں سوچ رہی تھی جبکہ کانوں میں اپنی دوست کے الفاظ گونج رہے تھے –
” دیا اگر ایسی بات ہے تو تمہیں اس سے محبت کیوں نہیں ہے ؟؟ وہ پیارا بھی ہے ، تمہاری عزت بھی کرتا ہے ، تمہاری کئیر بھی کرتا ہے اور تمہارے تحفظ کے لیے ہر وقت تمہارے ساتھ بھی ہوتا ہے “
بار بار یہ ہی الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے اور زہن میں خان کا اج اس کی جان بچانا اور پھر اپنی چوٹ کی پرواہ کیے بغیر اس کی فکر کرنے کا منظر گھوم رہا تھا –
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اسے کسی کے بارے میں خاص کر خان کے بارے میں سوچنا اچھا لگ رہا تھا – جبکہ دل میں عجیب سی ہلچل تھی –
اسے اج دوپہر کا منظر یاد ایا جب خان نور سے مسکراتے ہوئے بات کر رہا تھا – اس کے دل نے خواہش کی تھی کہ کاش خان اس سے بھی مسکرا کر بات کرے اور وہ بس اس کی مسکراہٹ کو دیکھتی رہے –
اپنے بدلتے جزبات اور سوچوں اور دل کی خواہش پر پہلے وہ حیران ہوئی مگر پھر شرماہٹ بھری مسکراہٹ چہرے پر سجائے اپنے تکیے میں منہ چھپا گئی تھی – ابھی تو ہلکی سی چنگاری لگی تھی محبت کی –
تباہی تو تب انی تھی جب اس چنگاری نے پوری آگ کی شکل اختیار کرنی تھی اور وہ دن بھی دور نہیں تھا – خان کے بار میں سوچتے سوچتے کب اس کی انکھ لگی اسے پتا ہی نہ چلا – مگر سونے سے قبل اس نے صبح اٹھ کر خان کو کال کر کے اس کا حال چال پوچھنے کا پکا ارادہ بنا لیا تھا –