Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

صبح اس کی انکھ کھلی تو سب سے پہلا خیال اس کے ذہن میں خان کا ایا تھا – اسے کال کر کے خیریت معلوم کرنے کا سوچ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھتی اپنا موبائل تھام چکی تھی مگر تب ہی اسے یاد ایا کہ اس کے پاس تو خان کا نمبر ہی نہیں ہے –
او ہو نادیہ تم بھی نا کس قدر بے وقوف لڑکی ہو تمہارے پاس تمہارے ہی گارڈ کا نمبر نہیں ہے – وہ اپنے اپ پر افسوس کرتی اپنے سر پر چپٹ لگاتی ہلکی اواز میں خود سے بڑبڑاتی پھر دھیرے سے ہنس دی تھی –
اور پھر فوراً بیڈ سے اٹھتی ننگے پاؤں ہی کمرے سے باہر نکلی تھی اس کا رخ اپنے ڈیڈ کے کمرے کی جانب تھا –
اسے جاننے والوں میں سے کوئی اگر اسے یوں دیکھتا تو حیران ضرور ہوتا کیونکہ وہ تو ان لڑکیوں میں سے تھی جسے اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نہ تھی صبح اٹھنے کے بعد اس کا سب سے پہلا کام تیار ہونا ہوتا تھا –
خود پر توجہ دینے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا کام نہ تھا وہ لڑکی جس نے کبھی کمرے میں بھی ننگے پاؤں چل کر نہیں دیکھا تھا وہی لڑکی ابھی بھاگنے کے انداز میں ننگے پاوں اپنے باپ کہ کمرے کی جانب صرف اس لیے گئی تھی تاکہ وہ خان کا نمبر لے سکے –
:::::::::::::::::: :::::::::::::::: ::::::::::::: ::::::
اقرا اج اپنے کالج گئی ہوئی تھی کیونکہ اس نے ابھی تک اپنا رزلٹ کارڈ نہیں لیا تھا کالج سے – زوریز کا ارادہ تھا اس کا یونی میڈمیشن کروانے کا اس لیے اب اسے رزلٹ کارڈ کی ضرورت تھی تو وہ رزلٹ کارڈ لینے کالج پہنچی ہوئی تھی –
ابھی وہ اپنی اردو کی میم کے پاس بیٹھی تھی ان سے باتوں میں مصروف تھی – میم اپ نے میرے ناول پڑھے ؟؟ اقرا نے تجسس سے میم سے پوچھا جس پر میم نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے تھے –
ہاں پڑھے ہیں مگر توبہ توبہ اقرا تم اپنے ناول میں کتنی بولڈ لینگویج یوز کرتی ہو – تمہیں ذرا شرم نہیں اتی مجھے تو پڑھتے ہوئے اتنی شرم ا رہی تھی – میرے چہرے پر پسینہ ا رہا تھا پڑھتے ہوئے اور ذرا جو تمہیں کوئی حیا شرم ہو –
کیوں کہ اس کی اردو کی میم سے بہت اچھی بنتی تھی اور میم کی بھی عمر زیادہ نہیں تھی اس لیے وہ اس کے ساتھ دوستانہ ماحول ہی رکھتی تھیں اور ابھی بھی اس کے ناول کے بارے میں پوچھنے پر اس کو شرم دلاتے ہوئے بول رہی تھیں –
جب کہ ان کی بات پر اقرا نے اگے سے بے شرموں کی طرح دانت نکالے تھے – اتنا بھی کوئی رومینٹک نہیں ہوتا میں بس نارمل ہی ہوتے ہیں – اقرا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا جبکہ میم نے اسے گھوری سے نوازا تھا –
باز ا جاؤ تم اقرا میں تمہیں بتا رہی ہوں اور اپنے ناولز میں یہ لینگویج ختم کرو بولڈنس ختم کرو اپنے ناول میں – اس کی میم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا – نو نو نو میم میں نہیں ختم کر سکتی کیونکہ میرے ریڈرز یہی تو پڑھتے ہیں –
اقرا نے فورا سے انکار کیا میری ماں بندہ تھوڑا بہت ہاتھ ہلکا رکھ لیتا ہے – تمہارے ناول کے کچھ سین توبہ توبہ میرے تو پڑھرتے ہوئے پسینے چھوٹ گئے – ایک سین میں تم نے جو لکھا کہ کپڑے دبارہ پہننے پڑے –
توبہ توبہ تم یہی کیا لکھ دیتی کہ دوبارہ سے تیار ہوئی – یہ ضرور لکھنا تھا کہ اس کو دوبارہ سے کپڑے پہننے پڑے ؟؟ میم نے اس کے چہرے پر ہلکے سے تھپڑ لگاتے کہا جبکہ وہ ان کی بات پر وہ کھلکھلا کر ہسی تھی –
جانتی ہوں میم کہ میں نے بہت بورڈ لینگویج یوز کی ہے مگر کیا کروں سین کے حساب سے وہی لینگویج فٹ بیٹھتی تھی اب اگر میں یہ لکھتی کہ اسے دوبارہ سے تیار ہونا پڑا تو یہ سوٹ نہ بیٹھتا سین پر ریڈرز کو پتہ ہی نہ چلتا کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان رومانس چلا ہے –
اب جب میں نے لکھا کہ اسے دوبارہ سے کپڑے پہننے پڑے تو ریڈرز کو پتہ چل گیا کہ بھئی شوہر کا موڈ رومینٹک ہو گیا تھا اور بیچاری بیوی کی کمبختی اگئی تھی – اقرا کے اتنے کھلے الفاظوں پر اس کی میم نے توبہ توبہ کرتے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا –
انتہا کی کوئی بے شرم لڑکی ہو اقرا تم – اللہ رحم کرے اس انسان پر جس کی قسمت تم سے پھوٹے گی – میم نے ہنستے ہوئے کہا جس پر اقرا ڈھیٹ بنتی بے شرموں کی طرح ہستی رہی –
بس میم اپ کو تو پتہ ہے کہ میرا رشتہ اناں ابا نے بچپن سے کزن کے ساتھ طے کر رکھا ہے اسی کے ساتھ ہی قسمت پھوٹے گی لیکن میرا موڈ ہے کسی اور کے ساتھ اپنی قسمت پھوڑنے کا میرا مطلب ہے کسی کی قسمت اپنے ساتھ پھوڑنے کا –
مجھے میری دوست کے سر خان پہ کرش ہے لیکن جانتی ہوں وہ ملنے والا تو ہے نہیں تو بس میں ان پہ کرش ہی کر سکتی ہوں – اقرا نے انکھ مارتے ہوئے انہیں کہا جس پر میم نے پاس پڑی بک اٹھا کر اس کے کندھے پر ماری تھی –
باز ا جاؤ تم اپنی حرکتوں سے میں تمہیں بتا رہی ہوں – میم نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا جس پر اس نے ناک سے مکھی اڑائی تھی – مطلب صاف تھا وہ کبھی نہیں سدھرنے والی تھی –
بعض تو میں نہیں انے والی لیکن ہاں اج رات جا کر میں اپنے ناول ریڈر کو یہ ضرور بتاؤں گی پوسٹ کر کے کہ میری میم نے اج مجھے تھپڑ مارا تھا پوچھیں گے وہ اپ سے خود ہی – اقرا نے جیسے میم کو دھمکی دی تھی ہاں ہاں جاؤ جا کر لگا دینا پوسٹ میں کوئی ڈرتی نہیں ہوں تمہارے ریڈرز سے –
بھولو مت میں تمہاری میم ہوں – میم نے بھی اس سے اڑے ہاتھوں لیا تھا جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی –
نادیہ نے اپنے ڈیڈ سے خان کا نمبر لے تو لیا تھا لیکن پچھلے 15 منٹ سے وہ بار بار نمبر ڈائل کرتی اور پھر اسے ریموو کر دیتی – اسے سمجھ نہیں ا رہا تھا وہ کال کرے یا نہ کرے –
او ہو نادیہ اتنا ڈر کیوں رہی ہو تمہارا گارڈ ہے وہ تم اس کی خیر خیریت معلوم کر سکتی ہو کیونکہ اس نے تمہاری خاطر خود پہ گولی کھائی تھی – اس نے خود کو تسلی دیتے لمبے لمبے سانس کھینچے تھے اور اخر ہمت کرتے نمبر ڈائل کرتے ہی کال ملا لی –
تین چار بیل بجنے کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھایا گیا تھا یس نادیہ میم از ایوری تھنگ اوکے ؟؟ فون پک ہوتے ہی دوسری جانب سے خان نے پوچھا جب کہ خان کے خود کو پہچان لینے پر اسے حیرت ہوئی تھی –
تمہیں کیسے پتہ کہ یہ میں ہوں اس نے فورا خان سے پوچھا دیکھیے میم میں میں اپ کا گارڈ ہوں اور اس لیے اپ کا نمبر میرے پاس ہونا ضروری ہے میں نے سر سے لیا تھا بلکہ انہوں نے مجھے خود دیا تھا خان نے ساری بات کلیئر کرتے کہا جب کہ اس کے جواب پر نادیہ نے ہمم کہا تھا اور پھر چپ ہو گئی –
اس نے کال تو کر لی تھی خان کو مگر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بات کرے اب وہ اس سے – کوئی کام تھا میم ؟؟ جب کافی دیر نادیہ دوسری جانب سے کچھ نہ بولی تو خان نے خود ہی سوال کیا –
ہہ..ہاں م..می..میرا مطلب نہیں بس میں نے تمہاری خیر خیریت معلوم کرنے کے لیے کال کی تھی – تمہارا بازو کیسا ہے ؟؟ خان کے اچانک پوچھنے پر ہربڑی میں پہلے اس نے ہاں کہا لیکن پھر جلد ہی خود کو سنبھالتی وہ بات کور کر گئی تھی جی میم بہتر ہے اگر اپ کو کوئی کام ہے کہیں جانا ہے تو کہیں میں ا جاتا ہوں –
خان کے کہنے پر وہ جو بیڈ پر بیٹھی تھی ایک دم سے کھڑی ہوئی تھی نہیں نہیں تمہیں انے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں ارام کی ضرورت ہے تم گھر رہو میں نے بس ویسے ہی تمہارا حال چال پوچھنا تھا – اچھا میں نے پوچھ لیا ہے ختم ارا حال اللہ حافظ –
وہ جلدی جلدی میں بولتی فون کٹ کر گئی تھی جبکہ خان اس کی جلد بازی پر حیران ہوا تھا – حیران تو وہ خود بھی تھی اپنے اپ پر – کیونکہ وہ لڑکی وہ تھی جو کسی کو بھی اپنے سامنے منٹوں میں لاجواب کر دیتی تھی –
اور اب اس کے ساتھ ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ کسی سے بات کرتے ہوئے اس کی زبان اس کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے –
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ خود کسی کے سامنے لاجواب ہوئی تھی – اف نادیہ تم نے پاگل ہو جانا ہے وہ اپنے موبائل کو اپنے ماتھے پر مارتے ہوئے خود سے بولی مگر پھر ایک نظر خود پر ڈالتے تیار ہونے کا سوچتے وہ واش روم میں گھس گئی تھی
وہ صبح سے ڈیرے پر ہی تھا وہاں پر اسے بہت سے کام تھے اس لیے رات کا وقت ہونے والا تھا مگر وہ ابھی تک ڈیرے پر ہی موجود تھا –
سارے کاموں سے فارغ ہوتے گھر جانے کا ارادہ کرتے وہ باہر کھڑی اپنی جیب کی جانب چل پڑا کہ تبھی اس کی اچانک نظر غروب ہوتے سورج پر گئی تھی اور اس کے کانوں میں اس نیلی انکھوں والی شہزادی کے الفاظ گونجے تھے –
اپ کو پتہ ہے خان میں جب بھی ڈھلتا سورج دیکھتی ہوں تو اپنے اللہ سے ایک ہی دعا کرتی ہو کہ جیسے یہ سورج ہر شام کو غروب ہوتا ہے ایسی کوئی بھی شام میری اور اپ کی محبت کی نہ ائے –
اس ڈھلتے سورج کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میرا دل نہ خوشگوار انداز میں دھڑکتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ابھی یہ سورج جس طرح سے گم ہو رہا ہے ویسے ہی ایک دن اپ کی محبت بھی میرے لیے گم نہ ہو جائے –
کہیں میری زندگی کی خوشیوں کی روشنی کو غموں کی رات کا اندھیرا نہ نکل جائے میں – جتنا مرضی اس ڈر کو خود سے دور کرنے کی کوشش کروں اپنے دل سے نوچنے کی کوشش کروں مگر یہ ڈر میرے اندر سے جاتا ہی نہیں –
خان پلیز آپ میرے ڈر کو کبھی سچ مت ہونے دیجیے گا – اپنی محبت کا سورج کبھی بھی میرے لیے غروب مت ہونے دیجئے گا – وہ نیلی انکھوں والی شہزادی جھیل کنارے اس کے سامنے کھڑی ڈوبتے سورج کو دیکھ کر اسے اپنا ڈر سنا رہی تھی –
وہ نہیں جانتی تھی کہ جسے وہ اپنا ڈر بتا رہی ہے اسی ستم گر نے تو اس کے ڈر کو سچ کرنا تھا – سردار چلیں گارڈز کی گاڑی تیار ہے – وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ تبھی اس کے پاس آ کر اس کا خاص آدمی بولا –
جس سے وہ ماضی کی یادوں سے واپس ایا تھا – ہاں چلو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے – وہ جلدی سے کہتا اپنے قدم اگے بڑھا چکا تھا بالکل ویسے ہی جیسے اس پری وش کو اپنی محبت کے جال میں جکڑ کر اس کو تڑپنے اور چیخنے چلانے کے لیے چھوڑ کر خود اگے بڑھ گیا تھا اور کبھی پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا وہ زندہ بھی ہے یا اس کی بے وفائی کا درد نہ سہتے ہوئے موت کو گلے لگا گئی –
تین دن کی بجائے دو دن ہی ریسٹ کرنے کے بعد تیسرے دن خان ڈیوٹی پر واپس موجود تھا- جبکہ اسے دیکھ نادیہ جو دو دن سے اداس اداس تھی ایک دم سے کھل اٹھی تھی –
وہ جی جان لگا کر اج تیار ہوئی تھی ویسے تو وہ روز ہی اچھے سے تیار ہوتی تھی لیکن اج وہ پورے دل سے تیار ہو کر اپنا بیگ اور موبائل اٹھاتے باہر نکلی تھی وہ باہر پہنچی تو خان گاڑی کے پاس ہی کھڑا تھا – کیسی لگ رہی ہوں میں ؟؟
اس نے اس کے سامنے جا کر گول گول گھومتے ہوئے کہا جبکہ خان اس کے سوال اور انداز پر حیران ہوا تھا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا جس نے پنک کلر کا ٹائٹس کے ساتھ گھٹنوں سے بھی اوپر اتی سفید فراک پہنی تھی –
جس پر چھوٹے چھوٹے پنک کلر کے پھول بنے ہوئے تھے بالوں کو اج بنا کرل ڈالے سٹریٹ ہی کھلا چھوڑا ہوا تھا حسب معمول ہونٹوں پر ڈارک شیڈ کی لپسٹک کی بجائے اج لائٹ پنک کلر کی لپسٹک سجی ہوئی تھی –
جبکہ اپنی گرے چمکتی انکھوں سے وہ اسے دیکھتی خود پر اس کے تبصرے کا انتظار کر رہی تھی – جیسی اپ روز لگتی ہیں میم – خان نے بنا اس کی تعریف کیے کہا اور واپس نظریں نیچے کر لی تھیں –
کیا مطلب جیسی روز لگتی ہوں اج میں سپیشل تیار ہوئی ہوں – کیا تمہیں تھوڑی سی بھی چینج نہیں لگ رہی ہوں میں ؟؟ نادیہ جو اس کے اچھے سے کمنٹ کا انتظار کر رہی تھی مگر اس کی بات پر اس کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا اور وہ ناراضگی بھرے لہجے میں اس سے بولی جبکہ خان اس کی بات پر کچھ نہ بولا تھا اور ویسے ہی نظریں نیچی کیے زمین کو تکتا رہا –
زمین جو کیا دیکھ رہے ہو میری طرف دیکھو – میں نے تم سے پوچھا ہے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں ؟؟ نادیہ اس کے خود کو نہ دیکھنے پر غصے میں اتی ہوئی بولی جب کہ خان نے ایک نظر اسے دیکھتے گاڑی کا بیک ڈور کھولا تھا –
میرے خیال سے میم اب ہمیں چلنا چاہیے – خان کے پھر سے خود کو اگنور کرنے پر اسے غصہ تو بہت ایا لیکن اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہو پیر پٹکتی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی تھی جبکہ خان نے دروازہ بند کرتے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی – خان کا سارا دھیان ڈرائیونگ پر تھا جب کہ نادیہ کا سارا دھیان خان پر تھا –

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial