قسط: 5
دیا میری جان تمہارا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟ تمہاری شادی کی عمر ہو گئی ہے اور میں بھی اپنا فرض نبھانا چاہتا ہوں –
تمہیں اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو – ویسے مجھے پتا ہے کہ تم میری مرضی سے تو شادی نہیں کرو گی بلکہ اپنی پسند سے کرو گی – تو بتاو پسند ہے کوئی ؟؟ دیا اس وقت انور ملک کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ تبھی انہوں نے اس کی شادی کا موضوع چھیڑتے اس سے پوچھا تھا –
ڈیڈ اگر مجھے کسی غریب لڑکے سے محبت ہو گئی تو ؟؟ اگر مجھے کوئی غریب لڑکا پسند اگیا تو کیا تب بھی اپ میری مرضی سے میری شادی اس سے کروائیں گے ؟؟ دیا کے سوال پر اس کے ڈیڈ نے اسے حیرت سے دیکھا مگر پھر مسکرا دیے –
بالکل میری جان شادی تم نے کرنی ہے تو مرضی بھی تمہاری ہی ہوگی اور ویسے بھی محبت کہاں دیکھتی ہے امیری اور غریبی – میں ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی اولاد کو زبردستی کے رشتے میں باندھنا چاہیں گے –
یہ سب کچھ تمہارا ہی تو ہے تو مجھے یہ فکر نہیں ہوگی کہ اگر تمہاری شادی کسی غریب سے ہوئی تو میری بیٹی کے لائف سٹائل میں کوئی فرق ائے گا – ہاں لیکن میرا اتنا کام ضرور ہوگا کہ جسے تم پسند کرتی ہو اس لڑکے کی ساری ہسٹری نکالوں تاکہ پتہ چل سکے وہ لڑکا سچ میں تم میں انٹرسٹڈ ہے یا تمہاری دولت میں –
دیا جو یہ سوچے بیٹھی تھی کہ دوسرے والدین کی طرح اس کے ڈیڈ بھی اس کی اس بات پر غصہ کریں گے چیخیں گے چلائیں گے لیکن انور ملک کے جواب پر اسے حیرت ہوئی تھی – کیا سچ میں اپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ؟؟
اس نے پھر سے کنفرم کرنا چاہا – کہا نا بیٹا مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا – انور ملک نے اسے اپنے سینے سے لگاتے کہا جس پر وہ مسکرائی تھی – تو بتاؤ پھر کون ہے وہ لڑکا جسے تم پسند کرتی ہو ؟؟ انور ملک کے پوچھنے پر دیا ان سے دور ہو کر بیٹھی تھی –
وقت انے پہ بتا دوں گی اپ کو ڈیڈ پر ابھی نہیں بتا سکتی – دیا کے جواب پر اس کے ڈیڈ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا – چلو جیسے تمہاری مرضی – انہوں نے مسکرا کر کہا جس پر دیا بھی مسکرا دی تھی –
دیا کا موڈ اج پھر شاپنگ کرنے کا تھا اس لیے خان کے ساتھ شاپنگ مال جا رہی تھی – گاڑی میں مکمل خاموشی تھی کہ تبھی دیا کی اواز نے اس خاموشی کو توڑا تھا – تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے خان ؟؟
دیا کے اچانک سوال پر خان نے حیران ہوتے فرنٹ مرر سے اسے دیکھا تھا – یہ کیسا سوال ہے میم ؟؟ خان کے حیرت سے کہنے پر دیا نے انکھیں گھمائی تھیں – اتنا بھی کوئی مشکل سوال نہیں ہے ایک نارمل سوال پوچھا ہے میں نے تم سے –
کہ کیا تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے ؟؟ دیا کہ پھر سے کہنے پر خان نے فقط نا میں گردن ہلائی تھی جبکہ اس کے انکار پر دیا کہ چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی – اچھی بات ہے ہونی بھی نہیں چاہیے تھی –
ویسے تمہیں کس طرح کی لڑکیاں پسند ہیں ؟؟ ایک اور سوال پوچھا گیا تھا جبکہ خان تو یہ سوچ کر رہ گیا تھا کہ اخر یہ کچھ دنوں سے اس کی میم کو ہوا کیا تھا – دیکھیے میم…. – نادیہ ! نادیہ نام ہے میرا مجھے میرے نام سے پکارو –
خان جو ابھی بول رہا تھا کہ نادیہ نے اس کی بات بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا – میں جانتا ہوں اپ اک نام مگر سوری میم میں اپ کو نام سے نہیں پکار سکتا – خان نے اپنی توجہ ڈرائیو پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا –
کیوں نہیں لے سکتے تم میرا نام ؟؟ نادیہ نے تھوڑے سخت لہجے میں پوچھا – کیونکہ اپ میری میم ہیں اور میں اپ کا گارڈ – اپ کے اور میرے رتبے میں فرق ہے میں اپ کا نام نہیں لے سکتا – خان نے جیسے بات ختم کرنا چاہی –
میں کہہ رہی ہوں نا تمہیں میرا نام لو – تو پھر کیا مسئلہ ہے میرا نام لینے سے ؟؟ نادیہ کو تو جیسے ضد چڑھ گئی تھی جبکہ خان اس کا نام پکارنے سے مکمل انکاری تھا – گاڑی روکو !
میں نے کہا گاڑی روکو ! جب خان نے اس کے کہنے پر بھی اس کا نام نا پکارا تو دیا نے غصے سے اسے گاڑی روکنے کا کہا جس پر فورا عمل کرتے خان نے سائیڈ پر کرتے گاڑی روکی تھی – اب لو میرا نام جب تک تم میرا نام نہیں لو گے یہ گاڑی نہیں چلے گی –
نادیہ تو ضد کر کے بیٹھ چکی تھی جبکہ خان اس کی کی اس ضد پر حیران ہو رہا تھا – دیکھیں میں کیسے لے سکتا ہوں اپ کا نام ؟؟ خبردار خان جو اب تمہارے منہ سے میرے لیے میم نکلا تو میں کہہ رہی ہوں نا میرا نام لو –
خان کے پھر سے میم کہنے پر نادیہ نے اسے ڈانٹا تھا جبکہ خان خاموش ہو گیا – چلو نام لو میرا نادیہ نام ہے میرا پکارو مجھے اس نام سے – نادیہ کے بار بار ضد کرنے پر ہار مانتے ہوئے خان نے اس کا نام پکارنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی کوشش صرف ہونٹ ہلنے تک ہی تھی اواز نکلنے سے انکاری تھی –
ن..ن..نا..ناد ….سوری میم میں اپ کا نام نہیں لے سکتا مجھ سے یہ نہیں ہوگا میں اپ کی عزت کرتا ہوں اس لیے میں یہ نہیں کر پاؤں گا – نادیہ جو اس کے نام لینے پر خوش ہو رہی تھی لیکن اس کا ادھا نام لیتے ہی جب خان نے پھر سے انکار کیا تو وہ خاموش ہو گئی لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھی بھی تھی –
پھر سے بولو اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ بولی جبکہ اس کے کہنے پر خان نے نظریں اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا – کیا میم ؟؟ خان نے پوچھا –
وہی جو ابھی تم نے بولا – نادیہ نے اسے ہنٹ دیا – میں نے کہا کہ میں اپ کی عزت کرتا ….- یہ نہیں اس سے پہلے جو بولا تھا – خان ابھی بول ہی رہا تھا لیکن اس کی بات بیچ میں ٹوکتے نادیہ نے منع کرتے ہوئے کہا –
سوری بولا اس سے پہلے میں نے – خان کو سمجھ نہیں ارہی تھی وہ اخر اس سے بلوانا کیا چاہتی ہے – نہیں سوری بھی نہیں سوری سے پہلے تم نے کیا بولا – تم نے میرا نام لیا تھا ادھا پھر سے پکارو کیا کہا تھا تم نے مجھے –
دیا نے بے قراری سے کہا جب کہ خان تو اس کی حرکتوں پر حیران پر حیران ہو رہا تھا – میں نے کہا تھا نادخان نے نہ سمجھی والے انداز میں کہا جب کہ اس کے ناد کہتے ہی نادیہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا –
ہائے خان تمہارے منہ سے میرا ادھورا نام بھی کس قدر خوبصورت لگ رہا ہے – نادیہ کے الفاظوں پر خان کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں – یہ کیا بول رہی تھی وہ اسے کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی –
مجھے لگتا ہے اپ کی طبیعت نہیں ٹھیک میم تو مال سے پہلے ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے – خان کے کہنے پر نادیہ کا گاڑی میں قہقہہ گونجا تھا –
ارے نہیں نہیں میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے تم بس مال لے چلو – نادیہ نے مسکراتے ہوئے کہا جب کہ خان نہ میں گردن ہلاتا گاڑی واپس سٹارٹ کر چکا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
رات کے نو کا ٹائم تھا اور خان نادیہ کے کہنے پر اسے اس وقت ریسٹورنٹ لے کر گیا تھا – ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی اندر کسی بھی زی روح کا نام و نشان بھی نہ تھا جب کہ خالی ریسٹورنٹ دیکھتے خان کو حیرت ہوئی تھی –
میم ریسٹورنٹ میں تو کوئی بھی نہیں ہے – کیا آپ نے اپنے لیے آج پورا ریسٹورینٹ بک کروایا تھا ؟؟ خالی ریسٹورنٹ کو دیکھتے خان اپنے تجسس پر قابو نہ رکھتے دیا سے پوچھ بیٹھا جس پر دیا نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا –
اؤ بیٹھو وہ ایک ٹیبل کی چئیر پر بیٹھتی اسے بھی بیٹھنے کا بول رہی تھی جبکہ خان کبھی اسے تو کبھی ٹیبل کے گرد رکھی چیئرز کو دیکھتا – نو میم اپ کھائیں اپ کو جو کھانا ہے میں سائیڈ والے ٹیبل پر بیٹھ جاتا ہوں –
خان نے انکار کرنا چاہ – میں نے کہا بیٹھو – دیا نے اسے ارڈر دیا تھا جب کہ خان اس کے آڈدر دینے پر مٹھیاں میچتا خاموشی سے بیٹھ گیا تھا – ابھی انہیں بیٹھے دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ ویٹر ایک بڑی سی ٹرے اٹھائے وہاں ایا تھا –
ٹرے ٹیبل پر رکھتے ویٹر واپس جا چکا تھا جبکہ خان حیرت سے انکھیں پھاڑے سامنے پڑی ٹرے میں رکھے کیک اور پھولوں کو دیکھ رہا تھا – حیرت کا سبب کیک اور پھول نہیں بلکہ کیک پر لکھے آئی لو یو خان کے الفاظ تھے –
خان نے حیرت بھری نظروں سے کو کیک سے ہٹاتے دیا کو دیکھا تو اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا کیونکہ دیا ہاتھ میں خوبصورت سا ڈیزانڈ بلیک کلر کا چھلا پکڑے اس کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی – ول یو بی مائن ؟؟
دیا نے اس کے سامنے چھلا کرتے کہا جبکہ دیا کہ الفاظ پر خان ایک جھٹکے سے چیئر سے کھڑا ہوا تھا – یہ سب کیا ہے میم ؟؟ خان نے حیرت اور غصے سے ملی جلی کیفیت سے پوچھا –
کیا سے کیا مراد ہے تمہاری ظاہر سی بات ہے میں تمہیں پروپوز کر رہی ہوں – پتا نہیں کیسے مگر تم میری سوچوں پر میرے خوابوں میں ہر جگہ حاوی ہو گئے ہو –
تمہیں سوچنا مجھے اچھا لگتا ہے ، تمہیں دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے ، مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے شاید نہیں شاید عشق ہو گیا ہے کیونکہ محبت میں تو پھر دو پل کا سکون مل جاتا ہے مگر عشق میں نہیں ملتا – مجھ سے شادی کرو گے خان ؟؟
دیا نے ویسے ہی پہلے جیسی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اسے کہا جب کہ خان کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا – یہ کس طرح کی بےہودہ بکواس کر رہی ہیں اپ ؟؟
میں اپ کو صرف اور صرف اپنی میم مانتا ہوں نہ میں نے اپ کو کبھی اس نظر سے دیکھا ہے اور میں دیکھوں گا بھی نہیں کیونکہ اپ جیسی لڑکیاں میری ائیڈیل بالکل بھی نہیں ہیں –
خان کے الفاظ پر دیا کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹی تھی – کیوں کیا کمی ہے مجھ میں ؟؟ کس وجہ سے تم مجھے انکار کر رہے ہو ؟؟ جانتے ہو ایک دنیا مرتی ہے مجھ پہ ، لڑکے میری ایک نظر کو ترستے ہیں اور میں دیا انور ملک تمہیں پسند کرتی ہوں تو یہ تمہاری خوش قسمتی ہوئی کیونکہ دیا ملک کو تم پسند آئے –
دیا کے کہنے پر خان نے ہنستے ہوئے نہ میں گردن ہلائی تھی جبکہ دیا کو یوں لگا جیسے وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہو -معاف کیجئے گا میم !!
مرتے ہوں گے اپ پر بہت سے لڑکے لیکن میں ان لڑکوں میں سے نہیں ہوں جو کسی کی ظاہری خوبصورتی پر مریں مگر میں بالاج خان سواتی ہوں عورت کی ظاہری خوبصورتی نہیں بلکہ اس کے باطن کی خوبصورتی پسند کرتا ہوں –
اور معاف کریے گا میم !! چاہے اپ جتنی مرضی امیر ہوں بولڈ ہوں مگر میں اپ کو کبھی بھی اس نظر سے نہیں دیکھوں گا کیونکہ اپ کی یہی بولڈنس اپ کی یہی امیری مجھے پسند نہیں –
اپ میری میم ہیں اور میں اپ کا ایک ملازم لیکن سچ کہوں تو آپ کی یہ حرکت بہت ہی گھٹیا تھی – خان کا اشارہ ابھی اس کے خود خان کو پروپوز کرنے پر تھا – کیوں تھی یہ گھٹیا حرکت ؟؟ جب لڑکا کسی لڑکی کو پرپوز کرے تب یہ اچھی حرکت ہوتی ہے مگر ایک لڑکی ایک لڑکے کو پروپوز نہیں کر سکتی –
یہ کہاں کا اصول ہے ؟؟ ایک لڑکا اپنے دل کے جذبات کا اظہار کھلے عام کر سکتا ہے مگر اگر وہی اظہار ایک لڑکی کر دے تو یہ اچھی بات نہیں – کیوں ہے ایسا بتاؤ مجھے ؟؟دیا بھی اپنی چیئر سے کھڑی ہو کر اس کے پاس اتی غصے سے بولی –
میں کچھ نہیں کہنا چاہتا میں بس میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اپ کے قابل نہیں اور نہ اپ میرے قابل ہیں – اپ کا اور میرا کوئی جوڑ نہیں یہ بات بہت جلد سمجھ جائیں تو اچھا ہوگا –
ویسے بھی میں ایک ہفتے کے لیے اپنے گاؤں جا رہا ہوں تو اس ایک ہفتے میں مجھے امید ہے اپ یہ بات اچھے سے سمجھ جائیں گی کہ اپ اپنی اس وقتی اٹریکشن کو ختم کر لیں کیونکہ میں نہیں چاہوں گا کہ مجھے اپ کی گارڈ کی نوکری سے چھٹکارا خود حاصل کرنا پڑے –
میں اپ کے والد کی بہت عزت کرتا ہوں اور ان کے مجھ پر بہت سے احسان ہے میں نہیں چاہتا کہ میں خود سے یہ نوکری چھوڈ کر خود کو احسان فراموش قرار دوں – باہر گاڑی میں میں اپ کا ویٹ کر رہا ہوں جلدی ا جائیے –
پہلے اسے سمجھانے والے انداز میں کہتے اخر باہر انے کا کہتے اس نے اس نے باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے – جبکہ پیچھے دیا نے ضبط سے اپنی مٹھیاں میچ لی تھی – اس کو کہاں منظور تھا کہ وہ اسے انکار کر کے جاتا –
وہ دیا تھی جس نے اج تک لوگوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا تھا اور اج اس کا گارڈ اس کی محبت کو ٹھکرا کر وقتی اٹریکشن کہتا انکار اس کے منہ پر مار کر جا چکا تھا – یہی بات اس سے کہاں برداشت ہو رہی تھی –
اس نے ٹیبل رکھے کیک اور پھولوں کو دیکھا تھا اور غصے سے انہیں اٹھا کر زمین پر پٹخا تھا – ٹرے زمین پر گرتے ہی ریسٹورنٹ کے ویٹرز جلدی سے باہر ائے تھے جبکہ انہیں اپنی انہی غصے سے بھری نگاہوں سے دیکھتے دیا اپنا بیگ اٹھاتی ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی تھی –
گاڑی میں بیٹھ کے اس نے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا تھا جبکہ غصے کے سبب اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے – لیکن وہ خود پر قابو کر کے بیٹھی تھی – وک خان کے سامنے خود کو کمزور نہیں دکھا سکتی تھی –
لیکن یہ طے تھا کہ وہ خان کو کسی بھی حال میں چھوڑنے والی بھی نہیں تھی – وہ اس کی محبت تھا شاہد عشق تھا پہلا اور آخری عشق – ایک انا زادی کا عشق تھا وہ – لوگ کہتے ہیں انا پرستوں کو محبت نہیں ہوتی –
سچ کہتے ہیں انا پرستوں کو محبت ہوتی بھی نہیں کیونکہ انہیں تو عشق ہوتا ہے بے حد عشق اور پھر جب وہ عشق ہوتا ہے تو وہ ہر حد کو پار کر دیتا ہے – کیونکہ وہ انا پرست کا عشق ہوتا ہے –
پہلے جو شخص خود کے علاوہ کسی کو سوچتا نہیں اور پھر جب کوئی انسان اس کی سوچوں ، اس کے دل میں ، اس کے دماغ پر ، ہر طرح سے حاوی ہو جاتا ہے تو وہ شخص خود کو بھولتے ہوئے اس شخص کو سوچنا ، اس کا ذکر ، اس کو دیکھنا ، اس سے باتیں کرنا ، اس کو ہر لمحہ یاد کرنا خود پر فرض کر لیتا ہے –
لیکن وہ اپنے عشق کو خود سے دور بھی ہونے نہیں دیتا – پھر چاہے اسے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے اور یہی حال اب دیا کا تھا – اس انا زادی کو خان سے عشق ہوا تھا تو وہ اپنی جی جان لگا کر بھی اسے حاصل کر کے چھوڑنے والی تھی یہ اس نے تہہ کر لیا تھا –