قسط: 6
وہ گھر آیا تو اس کا موڈ بہت خراب تھا – اسے رہ رہ کر دیا پر غصہ آ رہا تھا – نور جو اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی اور اسے بات بھی کرنی تھی خان سے تو اسے دیکھ کر فوراً اس کے پاس گئی تھی – کیا ہوا بھائی موڈ کیوں آف ہے ؟؟
نور نے اس کا خراب موڈ دیکھتے پوچھا – کچھ نہیں بس ویسے ہی – تم بتاو پیکنگ کر لی ؟؟ بالاج کے سوال پر نور نے سر نیچے کرتے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلنا شروع کر دیا تھا – بھائی مجھے نہیں جانا گاوں –
آپ اکیلے چلے جاو نہ – نور کی بات پر بالاج نے کچھ دیر اسے خاموشی سے دیکھا تھا – کیوں نہیں جانا ؟؟ کیا وجہ بتانا پسند کرو گی ؟؟ بالاج نے سنجیدگی بھرے لہجے میں سینے پر ہاتھ باندھے پوچھا –
آپ کو پتا ہے وجہ پھر بھی پوچھ رہے ہیں – اس نے خان کی طرف آنسوں سے بھری آنکھوں سے دیکھتے شکوہ کناں لہجے میں کہا –
پتا ہے مجھے مگر مجھے یہ افسوس ہے نورِ زبرش کہ ان دو سالوں میں میں بالاج خان ہی پاگل تھا جو سمجھا کہ تم بھول گئی ہو سب کچھ ، آگے بڑھ گئی ہو اب تم اس سب کو پیچھے چھوڑ کر –
پر اب اس خوش فہمی سے میں بڑے ہی اچھے انداز میں باہر نکلا ہوں – ٹھیک ہے جو دل میں آئے کرو – نہیں جانا مت جاو میں تمہیں فورس نہیں کروں گا – تمہاری زندگی ہے تم اپنی مرضی سے جیو – میری کون سا کوئی اہمیت ہے تمہاری زندگی میں –
بالاج غصے سے کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا – ایک تو اس کا پہلے سے دماغ خراب تھا دیا کی وجہ سے اور اب زبرش کی آنکھوں میں ماضی کی یاد کے سبب آئے آنسوں نے اس کا اور دماغ خراب کر دیا تھا –
کتنی مشکل سے وہ زبرش کو واپس زندگی کی طرف لایا تھا – اسے لگا تھا ان دو سالوں میں وہ سب بھول کر اپنا دل مضبوط کر چکی تھی – مگر وہ غلط تھا وہ تو وہیں اسی رستے پر بے وفائی کا دکھ لیے کھڑی تھی اسی لیے وہ غصے میں بنا سوچے سمجھے اتنا سب کچھ بول آیا تھا اسے –
جبکہ پیچھے زبرش اس کے ناراض ہونے پر بےبسی سے نیچے بیٹھتی ہچکیوں سے رونے لگ گئی تھی – وہ کیا کرتی ؟؟ اس کے بس میں خود نہیں تھا کچھ بھی – ہاں وہ اب نہیں کرتی تھی محبت اس بے وفا سے مگر اس کا دیا گیا دھوکا بھولتا بھی نہیں تھا اسے –
چار سال پہلے وہ اس سے ملا تھا اور دو سال پہلے وہ اسے محبت کی زنجیروں میں اچھے سے جکڑ کر خود بے وفائی کر گیا تھا – دو سال پہلے جب بھی وہ اپنی اور زوریز کی پہلی ملاقات یاد کرتی تو آنکھوں میں چمک اور چہرے پر شرماہٹ بھری خوشی ہوتی تھی مگر پھر آخری ملاقات نے سب بدل دیا –
ان پچھلے دو سالوں میں جب بھی اسے پہلی ملاقات یاد آئی آنکھوں میں چمک کی بجائے آنسوں چہرے پر شرماہٹ اور خوشی کی بجائے قرب ہوتا تھا – دل سے ہوک اٹھتی تھی اس کی بے وفائی اور اپنی کم عقلی پر جو وہ اس ظالم سے محبت کر بیٹھی تھی –
اپنے غموں سے چور جسم کو اٹھاتی وہ اپنے کمرے میں جا کر بند ہوگئی تھی – اور کمرے میں پڑے سنگل بیڈ پر لیٹتے ہی وہ اپنے ماضی میں گھو گئی تھی –
میں گیت ہوں اُداسی کا !!
میری رگ رگ میں غم بستا ہے !!!
میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں !!
میرے سامنے جب کوئی ہستا ہے !!
میری کھو جاؤں اپنے ماضی میں !!
جب میں بھی چنچل لڑکی تھی !!
میں کُھل کے زندگی جیتی تھی !!
اور کِھل کِھل کر میں ہستی تھی !!
کوئی مجھ کو کھلی کتاب کہتا !!
تو کسی کے لیے الجھلی پہیلی تھی !!
میں من موجی سی لڑکی تھی !!
میں خود کی خود سہیلی تھی !!
اپنی خوشیوں بھری دنیا کو جلا بیٹھی !!
میں خود کو محبت کا روگ لگا بیٹھی !!
باقی سب کی طرح میرا بھی وہی انجام ہوا !!
محبت کے بدلے دھوکہ میرا انعام ہوا !!
چین سکون گم ہوئے بے چینیوں نے پہرا ڈال لیا !!
خوشیاں مجھ سے روٹھ گئیں غموں نے گھیرا ڈال لیا !!
میں بن گئی گیت اداسی کا میرا چنچل پن کھو گیا !!
وہ کب پھر کھل کر ہستا ہے جو مریضِ عشق ہو گیا !!
از قلم
مانیہ خان ( از خود )
ماضی ( چار سال پہلے )
اس کا نیا نیا تین ماہ پہلے ہی فرسٹ آئیر میں اڈمیشن ہوا تھا – کالج جانے کے کیے شہر جانا پڑتا تھا جس کے لیے وہ لوکل بس پر سفر کرتی تھی – بس گاوں کے باہر سے اٹھاتی تھی اس لیے صبح ٹائم تو بالاج اسے بس پر خود بیٹھا آتا تھا مگر واپسی پر وہ چل کر آ جاتی تھی –
گاوں کے اندر آبادی تک آنے والا رستہ بلکل سنسان ہوتا تھا اور تقریباً آدھے کلو میٹر سے زیادہ کا رستہ تھا وہ – اسے ڈر تو بہت لگتا مگر پھر بھی خود کو مضبوط رکھتی اپنا سفر تہہ کر لیتی تھی –
وہ دن بھی معمول کے مطابق ہی تھا اور وہ بس سے اترتی گاوں کی کچی سڑک پر پیدل چلتی اپنا سفر تہہ کر رہی تھی کہ اچانک دو اوارہ لڑکوں نے اپنی بائیک اس کے قریب روکتے اس کا راستہ روکا تھا – ارے او حسینہ کہاں جا رہی ہو ؟؟ آو ہم چھوڈ دیتے ہیں تمہیں اکیلی کہاں جاو گی –
زبرش ان لڑکوں کے اچانک آنے پر پریشان ہو گئی تھی اور ڈر کے مارے اس کا پورا وجود کانپنے لگ گیا تھا –
ایسا پہلی بار ہوا تھا ان تین ماہ میں کہ کسی نے اس کا رستہ روکا ہو – سر پر اچھے سے لی ہوئی چادر کو پھر سے سے سہی کرتے وہ انہیں اگنور کرتی وہاں سے جانے لگی تھی مگر تبھی ان دونوں میں سے ایک لڑکا بائیک سے اترتا اس کا ہاتھ پکڑنے لگا تھا مگر کسی کے مضبوط ہاتھوں نے پیچ میں ہی اس کا ہاتھ روک لیا تھا –
کون ہو تم لوگ ؟؟ ہمارے گاوں کے تو نہیں لگتے – تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گاوں کی لڑکی خاص کر اس لڑکی کو تنگ کرنے کی – زبرش جو اچانک اس لڑکے کے قریب ہو کر اپنا بازو پکڑنے کا سوچتے ڈر کر آنکھیں زور سے میچ گئی تھی –
پر تھوڑی دیر تک جب اپنی کلائی پر کوئی گرفت محسوس نہ ہوئی اور کسی مرد کی آواز سنائی دی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں – تبھی اس کی نظر سامنے کھڑے اپنے گاوں کے سردار زوریز خان افریدی پر گئی تھی –
وہ لڑکے زوریز کو دیکھتے ڈر گئے تھے اور فوراً معافیاں مانگتے وہاں سے بھاگ گئے تھے – شکریہ سردار آپ کا کہ آپ نے میری مدد کی – زبرش نے اپنی نازک اور ڈوبصورت اواز میں کہا جس پر زوریز کے چہرے ہر مسکراہٹ آئی تھی – کیسے نہ کرتا مدد ؟؟
وہ آپ کو تنگ کر رہے تھے – اور جو آپ پر بری نظر رکھے گا اسے سردار زوریز کے غصے کو سہنا پڑے گا – زوریز کے الفاظ پر زبرش کو حیرت ہوئی تھی – مجھے ہی کیوں ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – کیونکہ آپ تو زوریز کے دل میں بستی ہیں – میں روز آپ کو دیکھتا ہوں آتے جاتے مگر کبھی سامنے نہیں آیا –
مگر آج ان لڑکوں کی وجہ سے آگیا – اور میرے خیال سے اب ہی موقع ہے آپ کو بتانے کا کہ میں آپ کو پسند کرتا ہوں اور اپ سے شادی کا خوایش مند ہوں – زوریز کے الفاظوں پر زبرش کے ہاتھوں میں تھاما اپنا کالج بیگ زمین پر گرا تھا –
آپ یہ کیا بول رہے ہیں سردار ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – کچھ غلط تو نہیں بولا اپنی پسند ہی بتائی ہے – اور میں جانتا ہوں اچانک سے یوں آپ کو میرا اپنے دل کا حال بتانا آپ کو شاک کر گیا ہے – اسی لیے آپ سوچ سمجھ کر جواب دینا مجھے –
میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا اور ڈریے گا مت میں روز اسی رستے پر آپ کا انتظار کرتا ہوں تو کوئی بھی دوبارہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا – زوریز اسے کہتا وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ زبرش تو کافی دیر وہاں کھڑی اس کی باتوں کو سوچتی رہی تھی –
پھر اچانک ہوش میں اتے اس نے اپنے قدم واپس آگے بڑھائے تھے – مگر سوچوں میں ابھی بھی سردار کی باتیں گونج رہی تھیں – اس کے معصوم اور کچے دماغ پر زوریز کے الفاظ اپنا جادو دیکھا گئے تھے –
یہ عمر ہوتی ہی ایسی ہے جلد ہی لڑکیاں لڑکوں کی باتوں میں آ جاتی ہیں – اس کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا – اس کے لیے تو یہ ہی بڑی بات تھی کہ زوریز نے اسے ان اوارہ لڑکوں سے بچایا مگر وہ اتنا نہیں جانتی تھی کہ ان لڑکوں کو زوریز نے ہی بھیجا تھا – ان سب باتوں سے انجان وہ معصوم تو زوریز کے الفاظوں میں ہی گم تھی –
یہ کچی عمر کے پیار بھی بڑے پکے نشان دیتے ہیں !
آج پر کم دیہان دیتے ہیں بہکے بہکے بیان دیتے ہیں !
وہ زوریز کی باتوں میں آتی اپنے دل میں اس کے نام کی پیار کی کونپل کو کھلا چکی تھی – روز واپسی پر وہ زوریز سے جھیل کنارے ملتی تھی مگر کبھی بھی وہ حد سے آگے نہ بڑھی تھی – یہ ملاقات صرف ملنے تک اور چند باتیں کرنے تک ہوتی تھی –
زوریز کے کہنے پر ہی وہ اسے خان کہتی تھی اور زوریز اسے دلِ جانم کہتا تھا – دو سال بعد جا کر اس نے بالاج کو بتایا تھا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے – بالاج نے لڑکے سے ملنے کا کہا تو زبرش نے دو دن بعد دوپہر کے وقت جب اس کے آنے کا وقت ہو تب بالاج کو جھیل کنارے ہی بلایا تھا جہاں وہ زوریز سے ملتی تھی –
کیونکہ دو دن بعد ہی اس نے جانا تھا کالج اپنی رول نمبر سلپ لینے بارہویں جماعت کی – اس لیے اس نے دو دن بعد کا کہا مگر اس دن جب وہ وہاں جھیل کنارے گئی تو زوریز اس کا خان نہیں تھا وہ تو سردار زوریز تھا -جسے لوگ سنگ دل کہتے تھے – ہاں وہ اس دن اپنے پتھر دل ہونے کا ثبوت دے گیا تھا –
آ…آپ م..مز..ا..ق کر ر..رہے ہ..ہیں نہ ؟؟ اس حسن کی دیوی نے آنکھوں میں امید لیے پوچھا جبکہ نیلی آنکھوں سے نکلتے آنسوں اس کی سفید روئی سی گالوں پر بہتے چھوٹی سی ٹھوڑی کے زریعے نیچے قطرہ قطرہ گر رہے تھے –
رونے کے سبب اس کی چھوٹی سی نوز پن پہنی ناک لال ہو چکی تھی – دودھ کی سفیدی کی سی رنگت رکھتے چہرے پر اس وقت خوف سجا تھا –
وہ خوبصورتی کی مورت روتے ہوئے سامنے کھڑے سنگ دل کو ایک آس سے دیکھ رہی تھی کہ شاید ابھی وہ کہہ دے کہ ہاں دلِ جانم میں تو مزاق کر رہا ہوں مگر ستم یہی تو تھا کہ وہ ایسا کچھ بول نہیں رہا تھا –
بلکہ وہ تو عجیب سی مسکراہٹ اپنے خوبصورت نقوش والے چہرے پر سجائے اس دیکھ رہا تھا – تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں مزاق کر رہا ہوں ؟؟ تمہارے بھائی کی وجہ سے میری زندگی نے موت کو گلے لگایا اور تمہارے بھائی کی زندگی تم ہو –
تو بس تمہارے بھائی کو تکلیف دینے کے لیے تمہیں مہرا بنایا – ورنہ کہاں میں سردار زوریز خان آفریدی اور کہاں تم غریب سی لڑکی –
اپنا نام لیتے اس کے انداز میں غرور ہی غرور تھا – جبکہ اس کے کہے گئے الفاظ سامنے کھڑی نازک لڑکی کی سانسیں ختم کر رہے تھے –
مم.میرے بھائی ا..یسے نہیں ہیں – آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی – پلیزز ایسے نہ کریں – ہم ج..جا…نتے ہیں کہ آپ کو بھی ہم سے محبت ہ…ہے –
وہ روتے ہوئے اسے سمجھاتے ہوئے بولی جبکہ سامنے کھڑے سنگ دل سردار کے دل کو اس کے آنسوں بھی نہیں پگلا رہے تھے –
میں نے پگھلا دیا پتھروں کو !!
اک تیرا دل پگھلتا نہیں ہے !!
گڑیا ! اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا بالاج وہاں اسے آواز دیتا پہنچا تھا جبکہ بھائی کی آواز سن وہ روتے ہوئے اس کی جانب بھاگتے اس کے گلے لگی تھی –
لالہ جان د..دیکھیں نہ خان کہہ رہے ہیں کہ انہیں م…مجھ س..سے محبت نہ..یں ہے – وہ بالاج کے سینے میں منہ چھپاتی اسے اپنا غم بتانے لگی جبکہ وہ تو حیرت میں سامنے کھڑے اپنے گاوں کے سردار کو دیکھ رہا تھا جو آنکھوں میں نفرت اور ہونٹوں پر تنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا –
آو بالاج خان آو – امید نہیں تھی کہ تمہیں علم ہو گا اپنی بہن کے میرے ساتھ چلتے افئیر کا – خیر میں کیسے بھول گیا کہ گھٹیا بھائی کی گھٹیا بہن ہی ہوگی – بڑی ہی کوئی بے شرم بہن ہے تمہاری –
زوریز کے الفاظ پر بالاج زبرش کو سائیڈ پر کرتا غصے سے اس کی جانب بڑھا تھا اور اس کی قمیض کے گریبان کو اپنی مٹھیوں میں جکر چکا تھا – بکواس بند کرو تم – خبردار جو میری بہن کے بارے میں کوئی گھٹیا لفظ نکالا تو –
میں بھول جاوں گا کہ تم ہمارے گاوں کے سردار ہو – بالاج نے غصے سے لال ہوتے اپنی نیلی آنکھوں سے اسے گھورتے کہا جبکہ اس کے گریبان تک پہچنے پر زوریز کو بھی غصہ ایا تھا – دونوں کا غصہ دیکھ زبرش کی جان ہلکان ہوئی تھی –
وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ٹکر کے تھے – خوبصورتی میں بھی اور جسامت میں بھی – غصے سے لال چہرا لیے زوریز نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھوں کو گریبان سے دور کیا تھا –
چلے جاو اپنی بہن کو لے کر یہاں سے اس سے پہلے کہ میں اپنا ضبط کھو دوں اور تمہاری جان لے لوں اپنے ہاتھوں سے – اور اب تم دیکھنا تڑپنا اپنی بہن کا – اسے کہو بند کر دے میری دلہن بننے کا خواب دیکھنا –
زوریز نے نفرت سے پہلے اسے کہا جبکہ آخر زبرش کو دیکھتا بولا – ارے تم کیا بولتے ہو میں خود ہی اپنی بہن کی شادی تم جیسے شخص سے نہ کروں – اگر مجھے پہلے پتا ہوتا کہ جیسے گڑیا پسند کرتی ہے وہ تم ہو تو میں اپنی بہن کو بہت پہلے روک دیتا –
اور تمہاری خام خیالی ہے کہ میری بہن تمہارے غم میں اپنی زندگی برباد کر دے گی – نہیں سردار زوریز خان – میں اپنی بہن کو تم جیسے شخص کی وجہ سے دکھ میں نہیں رہنے دوں گا –
چلو گڑیا – وہ زوریز کو اچھے سے جواب دیتا اپنی بہن کا ہاتھ پکرتا اسے وہاں سے لے گیا تھا جبکہ زوریز اس کی بات پر مٹھیاں میچ کر رہ گیا تھا –
گھر پہنچنے تک زبرش روتی رہی تھی جبکہ بالاج نے اسے کچھ بھی نہ کہا تھا – بس کر دو گڑیا کیوں رو رو کر خود کو اور مجھے ازیت دے رہی ہو ؟؟ چپ کر جاو – کیا تمہارے رونے سے اس سردار کو کوئی فرق پڑے گا ؟؟
گھر پہنچ کر بھی جب وہ چپ نہ ہوئی تو بالاج نے اسے گلے لگاتے کہا – آئم ایم سوری بھائی ! مجھے نہیں پتا تھا وہ ایسے نکلیں گے – پلیز مجھے معاف کر دیں میں نے غلط شحص کو چنا –
وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بول رہی تھی جبکہ بالاج اس کے رونے پر اپنی آنکھیں زور سے بند کرتا خود پر ضبط کر رہا تھا – اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جا کر زوریز کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا مگر بے بس تھا وہ – اچھا بس چپ ہو جاو – یہ بتاو مجھے کہ کیا میں نے تمہیں کچھ کہا ؟؟
نہیں نہ تو پھر کیوں ایسے پریشان ہو رہی ہو – جاو جا کر آرام کرو – وہ اسے پیار سے سمجھاتا بولا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی اور بالاج غصے اور پریشانی سے ملی جلی کیفیت سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اپنے کمرے میں چلا گیا –
پانچ منٹ بعد جب وہ کمرے سے نکلا تو کچن سے اسے درد بھری ہچکی سنائی دی – وہ فوراً کچن کی جانب گیا تو اندر زبرش پر نظر پڑتے اس کا رنگ اڈا تھا – کیونکہ زبرش بری طرح سے اپنی کلائی کی نبض کاٹ چکی تھی –
زبرش ! گڑیا یہ کیا کر دیا تم نے ؟؟ وہ چیختے ہوئے بولتا اس کے قریب جا کر اسے تھام چکا تھا – م..مج..ھے مع..ا..ف کر د..یں لا..لالا – مگ…ر میں ی..یہ درد ب..ر دا..شت نہیں ک..کر پ..پا ر..رہی تھی –
پ..لیزز م..مجھے م..ع..ا..ف کر د..یں – وہ درد کے مارے بامشکل بولتی بے ہوش ہو چکی تھی جبکہ بالاج کو لگ رہا تھا اس کی ساری دنیا ختم ہو رہی ہے – نہیں گڑیا میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا – تمہارا لالا بچا لے گا تمہیں –
مورے اور بابا کے جانے کے بعد تم ہی تو میری دنیا ہو – تمہارا لالا کچھ نہیں ہونے دے گا تمہیں – وہ اسے گود میں اٹھاتا پاگلوں کی طرح کہتے باہر بھاگا تھا تاکہ اسے ہاسپٹل لے جا سکے جو گاوں میں ہی بنا تھا –
تین گھنٹوں کی انتھک کوششوں کے بعد بڑی مشکلوں سے ڈاکٹر اسے بچانے میں کامیاب ہوئے تھے – اسے ابھی ہوش آیا تھا اور بالاج اس کے پاس بیٹھا شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا – اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ رویا بھی ہے –
تم کتنی ظالم ہو گڑیا – تمہیں اپنے بھائی کا زرا خیال نہ ایا ؟؟ اس چند دن کی محبت کے پیچھے تم اپنے بھائی کی سالوں کی محبت کو بھول گئی – بالاج کے شکوہ کرنے پر وہ روتے ہوئے نہ میں سر ہلانے لگی – نہیں لالا ایسی بات نہیں ہے میں اور کیا کرتی مجھ سے وہ درد برداشت نہیں ہو رہا تھا جو میرے دل میں اٹھ رہا تھا –
وہ روتے ہوئے بولی – خبردار زبرش جو تم نے آج کے بعد کچھ ایسا کرنا تو دور سوچا بھی تو – یہ کچھ گھنٹے مجھ پر قیامت کی طرح تھے – تمہارے علاوہ میرا کون ہے ؟؟ اگر تمہیں آج کچھ ہو جاتا تو تمہارا لالا بھی مر جاتا –
مگر یہ بھی تہہ تھا کہ اگر تمہیں کچھ ہوتا تو میں بالاج خان خان حویلی سے بھی ایک جنازہ ضرور نکلواتا اور وہ جنازہ ہوتا زوریز خان کا – بخشوں گا تو ابھی بھی نہیں مجں اسے کیونکہ اس کی وجہ سے میری بہن تکلیف میں ہے –
بالاج نے ایسے کہا جیسے اس کے دانتوں کے نیچے زوریز ہو جبکہ زبرش اس کے جنونی انداز کو دیکھ گھبرا گئی تھی – نہیں لالا آپ کوئی بدلہ نہیں لو گے – اور میں بھی وعدہ کرتی ہوں کہ کبھی بھی دوبارہ خود کو نقصان نہیں پہنچاوں گی –
بس آپ سے ایک التجا تھی – زبرش نے اس کا ہاتھ تھامتے کہا جس پر خان نے لمبا سانس کھینچا تھا – تم حکم کرو لالا کی جان – خان نے پیار سے کہا – ہم یہ گاوں چھوڈ دیں گے – یہاں سے دور کسی شہر چلے جائیں گے –
پلیز لالا انکار مت کریے گا – اگر میں یہاں رہی تو میرا دم گھٹے گا – وہ روتے ہوئے التجائی انداز میں بولی جبکہ بالاج اپنی بہن کو دیکھ کر رہ گیا تھا جو ایسی تو نہیں تھی – وہ تو بہت شرارتی اور ہس مکھ تھی حکم چلانے والی-
اچھا میری جان جیسے تم کہو گی ویسا ہی ہو گا – خان نے اس کے ماتھے پر لب رکھتے کیا جس پر وہ سکون سے آنکھیں بند کر گئی تھی – پیرز اس نے بڑی مشکل سے دیے تھے بالاج کے کہنے پر اور پھر وہ گاوں چھوڈ گئے تھے –
شہر جا کر وہ زوریز کو بھول تو نہیں پائی تھی مگر اب جب بھی اسے یاد کرتی تو محبت کی بجائے نفرت سے یاد کرتی تھی – وہ خوش تھی شہر میں مگر اچانک سے بالاج کا گاوں جانے کا پلان سن اس کو واپس ماضی کی تکلیف دہ یادیں ستانے آ گئی تھیں –
یادِ ماضی عزاب ہے یا رب !!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا !!
وہ جانا نہیں چاہتی تھی مگر اپنے بھائی کے لیے وہ اتنا تو کر سکتی تھی – ویسے بھی ایک ہفتے کہ ہی تو بات تھی پھر واپس آ ہی جانا تھا اس نے – مگر کون جانتا تھا کہ واپس آنا بھی تھا اس نے یاں نہیں ؟؟