قسط: 7
صبح وہ کمرے سے نکل کر کچن میں گئی تو بالاج وہاں کھڑا ناشتہ بنا رہا تھا – آپ کیوں بنا رہے ہیں ناشتہ ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – جبکہ اس کے چہرے اور ناک پر لگے اٹے کو دیکھ زبرش کو ہسی بھی آ رہی تھی –
اچھا ہوا تم اٹھ گئی آو بیٹھو میں تمہارے لیے سپیشل ناشتہ بنا رہا ہوں – بالاج نے اسے دیکھتے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ ہاتھ اس کے توے پر ڈالے پڑاٹھے کو پلٹنے میں مصروف تھے –
بالاج کے الفاظوں پر زبرش کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – اسے پتا تھا کہ بالاج صبح صبح اس کے لیے ناشتہ کیوں بنا رہا تھا –
رات کا جو اس نے اس پر غصہ کیا تھا اور جو اسے ڈانٹا تھا یہ سب اس کے بدلے بالاج کا سوری تھا – اوہو کیا کرتے ہیں آپ بھائی میں بنا لیتی ناشتہ –
اس نے اس کے پاس جا کر سلف کے ساتھ ٹیک لگاتے کہا – تم تو روز بناتی ہو میری جان مگر مجھے کبھی کبھی موقع ملتا ہے تمہارے لیے یہ سب کرنے کا تو مجھے کرنے دو –
بالاج نے اس کی ناک پر اپنے ہاتھوں پر لگا آٹا لگاتے پیار سے کہا جس پر وہ ہستی اس کو زور سے ہگ کر گئی تھی – آپ کو پتا ہے ؟؟
کہ آپ دنیا کے سب سے بیسٹ بھائی ہو – وہ لاڈ سے بولی – ہاں مجھے پتا ہے میں بیسٹ ہوں پر تم کو جو زرا میری قدر ہو –
بالاج کے روٹھے پن کے انداز سے کہنے پر زبرش نے اس کے سینے پر سر رکھے ہوئے ہی اپنے نازک ہاتھوں کے مکے اس کے سینے پر مارے تھے جس پر بالاج کا قہقہ کچن میں گونجا تھا –
اچھا چلو تم بیٹھو یہاں کرسی پر میرا بس ایک پڑاٹھا رہ گیا بنانے والا – آملیٹ تیار ہے دہی میں میٹھا بھی مکس کر دیا ہے اور اچار بھی نکال لیا ہے –
بالاج اسے کچن میں رکھے چھوٹے سے ٹیبل کے گرد رکھی دو کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھاتا ہوا بولا – پھر تھوڑی ہی دیر تک دونوں بہن بھائیوں نے مزاق مستی کرتے ناشتہ کیا تھا جبکہ بالاج نے زبرش کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا تھا –
اچھا تو رات تم کہہ رہی تھی نہ کہ تمہیں گاوں نہیں جانا تو کوئی بات نہیں تم نہ جانا – میں اکیلا چلا جاوں گا گاوں – ویسے بھی زمینوں کے کچھ کام ہی تو نپٹانے ہیں –
ایک ہفتے تک میری واپسی ہو جائے گی تب تک کے لیے میں ساتھ والی آنٹی سے کہہ دیتا ہوں تمہارے پاس آ کر رہ لیا کریں گی –
رہنے کو تو تم اکیلی رہ لو گی مگر مجھے تمہاری فکر رہے گی – کھانا ختم کرتے خان نے زبرش کو سنجیدگی سے دیکھتے کہا جس پر اس نے نہ میں سر ہلایا تھا – نہیں بھائی میں اب آپ کے ساتھ جاوں گی –
میں نے رات کو بہت سوچا اور پھر یہ ہی فیصلہ کیا کہ میں جاوں گی گاوں – میں کیوں بھاگ رہی ہوں اپنے گاوں جانے سے – وہ میرا گاوں ہے پھر کیا ہوا جو وہ وہاں رہتا ہے – میں اب پرانی زبرش نہیں رہی –
آپ کے ساتھ میں جاوں گی کیونکہ اب وہاں پرانی زبرش نہیں جائے گی بلکہ وہاں نور جائے گی – زبرش نے پر اعتماد لہجے میں جبکہ اس کے الفاظوں پر اور اس کے اعتماد کو دیکھ بالاج کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی –
یہ ہوئی نہ میری بہادر بہن والی بات – بالاج نے اس کھڑے ہوتے اس کے پاس جاکر اسے گلے لگاتے کہا جس پر زبرش بھی مسکرائی تھی –
ان لوگوں نے رات کو نکلنا تھا گاوں کے لیے اس لیے ناشتے کرنے کے بعد بالاج ملک کے پیلس چلا گیا تھا کیونکہ رات دیر واپسی کی وجہ سے گاڑی وہ لے آیا تھا اس لیے اب اسے جا کر گاڑی اور چابی واپس کر کے آنی تھی –
وہ پیلس کے ہال میں پہنچا تو سامنے ہی صوفے پر انور ملک بیٹھے آنکھوں پر چمشہ لگائے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے – اسلام علیکم سر ! بالاج کے بلند آواز سلام پر انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا – واعلیکم اسلام ! کیسے آنا ہوا بالاج خان ؟؟
آج سے تو تمہاری چھٹیاں نہیں تھیں ؟؟ انور ملک نے اخبار سائیڈ پر رکھتے کہا جس پر بالاج مسکرایا تھا – جی سر بس وہ رات کو گاڑی لے گیا تھا وہی واپس کرنے آیا تھا – بالاج نے مسکرا کر جواب دیا تھا –
کیا ضرورت تھی بیٹا اس کی – تم اپنے ساتھ ہی لے جاتے گاڑی ویسے بھی گھر میں اتنی گاڑیاں ہیں تو – انور ملک کے کہنے پر وہ دل سے مسکرایا تھا – نہیں سر اس کی ضرورت نہیں ہے – اس نے انکار کیا جبکہ اس کے انکار کو انور ملک نے کوئی بھاو نہ دیا تھا – نہیں خان اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے –
تم نے اپنی بہن کے ساتھ جانا ہے تو بس میں کہاں خوار ہو گے – جاو لے جاو گاڑی اور ہاں میں انکار نہیں سنوں گا – انور ملک نے تو جیسے بات ختم کی تھی –
ابھی بالاج پھر سے انکار کرتا کہ ہیل کی ٹک ٹک پر ان دونوں نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں سے دیا اتر رہی تھی – وہ ان کے قریب آتی انور ملک کے ساتھ بیٹھی تھی صوفے پر –
خان تم نے آج اپنا گارڈ والا یونی فورم نہیں پہنا ؟؟ خیر چھوڈو تم اسے بس جلدی سے گاڑی نکالو مجھے میری دوست کی طرف جانا ہے –
دیا کے کہنے پر انور ملک اور بالاج دونوں نے اسے دیکھا تھا – بالاج کو اسے دیکھ خوشی ہوئی تھی کہ سدھر گئی وہ ایک رات میں مگر کون جانتا ہے کہ اندر کیا چل رہا تھا اس کے –
دل کی خاموشی پہ نہ جا !!
راکھ کے نیچے آگ لگی ہے !!
دیا جان خان تو چھٹیوں پر ہے ایک ہفتے کی – انور ملک کی بات پر اس نے پہلے خان کو حیرت سے دیکھا پھر انور ملک کو – کیوں چھٹیوں پر کیوں ؟؟ اس نے نا سمجھی سے پوچھا – اچھا سر میں چلتا ہوں –
انور ملک کے جواب دینے سے پہلے ہی خان وہاں سے اجازت لیتا چلا گیا تھا – کیونکہ بیٹا وہ اپنے گاوں جا رہا ہے – انور ملک کے جواب پر دیا ایک دم کھڑی ہوئی تھی – کس کی اجازت سے جا رہا ہے وہ ؟؟ کس نے دی اسے جانے کی اجازت ؟؟
دیا نے غصے سے پوچھا – کل رات ایسی سیچوئیشن میں بالاج نے بتایا تھا اسے کہ وہ اس کی بات پر غور نہ کر سکی – کیا مطلب کس نے دی ؟؟ میں نے دی ہے – انور ملک نے نا سمجھی سے کہا جبکہ دیا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے –
کیوں دی اجازت اسے ؟؟ وہ اب واپس نہیں آئے گا دیکھ لینا آپ – وہ پاگل یونے کے در پر تھی – کیوں نہیں آئے گا بیٹا ؟؟ آئے گا وہ ضرور آئے گا – انور ملک کو تو دیا کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی – وہ نہیں آئے گا ڈیڈ دیکھ لینا –
وہ مجھ سے دور جانے کے لیے جا رہا ہے – پلیز اسے روکیں – پلیزز ! وہ جان بوجھ کر جا رہا ہے تاکہ مجھ سے پیچھا چھوٹے اس کا – وہ دیا کو چھوڈ کر اس سے جان چھوڈا کر جا رہا ہے –
وہ غصے سے کہتے اپنے بیگ کو زمین پر پٹختی اپنے بال نوچنے کے در پر تھی جبکہ اس کی باتوں کی تو انور ملک کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر اس کی بگرتی حالت دیکھ وہ پریشان ضرور ہو گئے تھے –
اس سے پہلے وہ اسے آگے بڑھ کر تھامتے وہ پینک ہونے کے سبب بے ہوش ہوتی ان کی باہوں میں جھول گئی تھی –
یہ تو اپنی اپنی قسنت کا کمال ہے !!
کسی کو عروج تو کسی کو زوال ہے !!
تم جو لگاتے پھرتے ہو قیمت اس کی !!
کس نے تم سے کہہ دیا کہ عشق بکاو مال ہے ؟؟
پہلے پہل تو سب کچھ اچھا لگتا ہے !!
کوئی نہیں سمجھ پاتا یہ اس کی پرانی چال ہے !!
پھر جب پھس جاتا انسان مکمل اس کے جال میں !!
بن جاتا یہ اپنی ہی جان کا پھر وبال ہے !!
اور جو ڈھل جاتا ہے مکمل اس کے رنگ میں !!
ہوتا اس کی زبان پر یہی اقرار ہے !!
عشق بے مثال ہے عشق بے مثال ہے !!
ازقلم
مانیہ خان ( از خود )
اقرا آج ملازمہ کے ساتھ شاپنگ پر گئی ہوئی تھی جبکہ زوریز نے چار گارڈ بھی ساتھ بھیجے تھے – اسے اپنے کمرے کی سیٹنگ چینج کرنی تھی جس کی وجہ سے اپنی پسند کی چیزیں لینے وہ خود شہر کے بازار گئی تھی –
وہ ایک دکان پر پردے دیکھنے کے لیے گئی تو دکاندار ان کے انے پر کھڑا ہوتا ان کا ویلکم کرنے لگا – جی باجی آپ کو کیا دیکھنا ہے ؟؟
دکاندار کے سوال پر اس نے پر سوچ انداز میں دکان کو دیکھا جہاں پردوں کے ساتھ کپڑوں کے تھان بیڈ شیٹس وغیرہ پڑی تھیں – بھائی وہ والا پردہ دیکھاو جس کو غلطیوں پر ڈالا جاتا ہے –
اس کی بے تکی بات پر دکاندار اسے دیکھ جرم رہ گیا تھا جبکہ ملازمہ نے بڑی مشکل سے ہسی ضبط کی تھی –
سوری باجی میں سمجھا نہیں – دکاندار نے معذرت کرتے کہا – اوہو بھائی کوئی مشکل سوال تو نہیں پوچھا تھا – خیر مجھے اچھے سے پیارے سے پردے دیکھاو – اقرا ایک دم سیرس ہوتی بولی جس پر دکاندار اسے پیارے پیارے مختلف رنگوں میں پردے دیکھانے لگ گیا –
پردے پسند کرتے ان کی قیمت ادا کرتے وہ دکان سے باہر نکلی تو اس کی ٹکر اچانک کسی سے ہوتے ہوتے بچی تھی – ارے او بھائی صاحب دیکھ کر چلو نہ ابھی مجھ نازک اور پیاری سی لڑکی کو گرا دیتے –
مگر کہاں پرواہ اپ لوگوں کو – جاو اپنا کام کرو – ہاں ہاں بس بس اب معافی مانگنے مت کھڑے ہو جانا – وہ نان سٹاپ بولتی وہاں سے جا چکی تھی جبکہ پیچھے وہ ابھی بھی وہیں کھڑا حیرت کا مجسمہ تھا –
کیسی لڑکی تھی وہ ایک دم سے آئی اور نان سٹاپ بولتی وہ گئی تھی اور اسے بولنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا –