قسط: 8
اسے ہوش ایا تو انور صاحب اس کو اپنے بیڈ کے پاس صوفے پر بیٹھے دکھائی دیے – وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھی تھی – ڈیڈ ! خان ؟؟ اس نے اٹھتے ہی ان سے سب سے پہلے خان کا پوچھا جب کہ خان کی جانے کا سن اس کا اس طرح سے ری ایکٹ کرنا انور ملک کو ٹھٹکا رہا تھا –
وہ تو چلا گیا گھر اور اب تو شاید وہ گاؤں کے لیے بھی نکل گیا ہو – مگر تم کیوں ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو ؟؟ انہوں نے اخر دل اور دماغ میں چلتا سوال اس سے پوچھ ہی لیا تھا – کیونکہ جسے میں پسند کرتی ہوں وہ خان ہی ہے ! دیا کے الفاظوں پر انور ملک نے پوری آنکھیں گھولے اسے دیکھا تھا –
اپ نے کہا تھا نا کہ اگر مجھے کوئی غریب لڑکا بھی پسند ہوا تو اپ اس سے میری شادی کروا دو گے – تو اب میں اپ کو بتا رہی ہوں کہ مجھے خان پسند ہے اور مجھے وہ چاہیے – اب اپ اسے واپس بلائیں کیونکہ مجھے نہیں منظور اس کا دور جانا –
مگر وہ چلا گیا مجھے چھوڑ کر کبھی نہ واپس انے کے لیے صرف اپ کی وجہ سے – اپ نے کیوں اجازت دی اسے جانے کی ؟؟ دیا کے الفاظ انور ملک پر حیرتوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے – یہ کیا کہہ رہی ہو دیا ؟؟
تم کب سے خان کو پسند کرنے لگ گئی ؟؟ اور کیا خان بھی تمہیں پسند کرتا ہے ؟؟ انور ملک نے ایک ساتھ کئی سوال اس سے پوچھے تھے – پسند نہیں ہے وہ میری – عشق ہے وہ میرا ! عشق ! میرے عشق کو پسند کہہ کر اس کی توہین مت کریں –
پہلے ہی وہ ظالم میرے عشق کو وقتی اٹریکشن کہہ کر اس کی توہین کر چکا ہے اب اپ مت کریں – اور اپ پوچھ رہے ہیں نا کہ کیا وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے ؟؟ تو سن لیں کہ نہیں کرتا وہ مجھے پسند اور اسی بات کا دکھ ہے مجھے –
سنا اپ نے ڈیڈ وہ مجھے پسند نہیں کرتا – وہ نادیہ ملک کو پسند نہیں کرتا میں نادیہ جسے سب پسند کرتے ہیں ہر کوئی میرا دیوانہ ہے مگر وہ نہیں جسے میں پسند کرتی ہوں جس کی میں دیوانی ہوں –
وہ تو پہلے ہی مجھے پسند نہیں کرتا تھا ڈیڈ اور اپ نے دوسرا اسے گاؤں جانے کی اجازت دے دی اب وہ واپس نہیں ائے گا نہیں ائے گا واپس وہ نہیں ائے گا – وہ اپنا منہ ہاتھوں میں چھپا کر روتی انور ملک کو پریشان کر گئی تھی –
رو مت دیا میری گڑیا تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے وہ واپس نہیں ائے گا ؟؟ میں نے تمہیں کہا نا وہ صرف ایک ہفتے کے لیے گیا ہے جلد واپس ا جائے گا – انور ملک نے اپنی ضدی شہزادی کو سمجھانا چاہا – نہیں ڈیڈ وہ نہیں ائے گا –
دیا کی وہی ایک رٹ تھی – دیکھو دیا میں نے اس دن صرف تم سے کہا ہی نہیں بلکہ میں اس بات کو پورا بھی کروں گا – میرے لیے تمہاری پسند واقعی بہت اہمیت رکھتی ہے – اگر واقعی خان تمہاری خواہش ہے تو وہ تمہیں ملے گا یہ تمہارے بابا کا وعدہ ہے اور فکر نہیں کرو وہ ا جائے گا واپس –
انور ملک نے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا جس پر اس نے انسوؤں سے بھری انکھوں سے انہیں دیکھا تھا – پکا نا وہ اجائے گا نا ؟؟
اسے ابھی بھی ڈر تھا اس لیے آنسوں سے بھری آنکھوں میں امید لیے وہ پوچھ رہی تھی جبکہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ انور ملک کا دل خود اداس ہو گیا تھا – انہیں کیوں پتہ نہ چلا ان کی بیٹی خان کو پسند کرتی ہے وہ تو اس کی ہر خواہش اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی پوری کر دیتے تھے پھر اتنی بڑی خواہش کا انہیں علم کیوں نہ ہوا –
انہیں دیا کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہ تھا – وہ خان کو اچھے سے جانتے تھے وہ بہت سلجھا نیک شریف انسان تھا – وہ دیا کے لیے بہتر لگا تھا انہیں ہر لحاظ سے – پھر کیا ہوا جو اس کے پاس دولت نہیں تھی خوشیاں دولت سے تو خریدی نہیں جاتیں –
بس میرا بچہ اب نہیں رونا میں کہہ رہا ہوں نا وہ واپس ا جائے گا اپنے بابا کی بات پر یقین کرو – انور ملک نے اسے اپنے سینے سے لگاتے کہا جب کہ دیا کو ابھی بھی یہی ڈر ستائے جا رہا تھا کہ خان واپس نہیں ائے گا –
:
اقرا پچھلے 15 منٹ سے زوریز کے کمرے میں کھڑی شیشے کے سامنے پڑی پرفیوم کی بوتلوں کو اٹھا اٹھا کر دیکھ رہی تھی لیکن اب اسے اس کام سے بھی الجھن ہونے لگ گئی تھی –
اس نے ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بوتل کو ٹیبل پر رکھتے پیچھے مڑ کر زوریز کو گھورا تھا جو فون کال پر مصروف تھا – اس کے گھورنے پر زوریز نے ہاتھ کے اشارے سے اسے پانچ منٹ اور انتظار کرنے کو کہا جس پر اقرا پاؤں پٹختی صوفے پر جا کر بیٹھ گئی تھی –
پہلے ہی پچھلے 15 منٹ سے وہ اس کے پانچ منٹ ہی ختم ہونے کا ویٹ کر رہی تھی مگر زوریز صاحب کے وہ پانچ منٹ ختم ہو ہی نہیں رہے تھے – بولو بچے کیا بات کرنی تھی ؟؟ زوریز نے فون بند کرتے اس سے پوچھا –
نہیں نہیں ابھی بھی نا کرتے فون بند ابھی کون سا کوئی دیر ہوئی ہے رہنے دیں ابھی اور کر لیں بات – پتہ نہیں کتنی امپورٹنٹ بات ہوگی ؟؟ کر لیں کر لیں میں اپ کو منع نہیں کر رہی اپ کی بہت امپورٹنٹ بات ہے نا مجھ سے بھی امپورٹنٹ ہے –
اقرا کے ناراضگی بھرے لہجے میں کہنے پر زوریز نے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی جبکہ اس کا مسکراہٹ چھپانا اقرا نے بڑے اچھے سے نوٹ کیا تھا – دیکھا دیکھا اب اپ مسکرا رہے ہیں – میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے اپ کی نظر میں اقرا نے ہوا میں بازو ہلاتے ڈرامائی انداز میں کہا جس پر اب زوریز کھل کے ہنسا تھا –
اچھا اچھا سوری میری جان !! سوری میری گڑیا !! بتاؤ کیا بات کرنی تھی ؟؟ زوریز نے معافی مانگتے پوچھا – یہ دیکھیں ! اس نے ایک کارڈ زوریز کے سامنے کیا تھا – جس کو پکڑ کر زوریز اسے چیک کرنے لگا – یہ کیا گڑیا ؟؟
کہاں سے ملا تمہیں یہ ؟؟ زوریز نے ہاتھ میں پکڑے ہمسفر میرج بیورو کے کارڈ کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا – یہ میں جب بازار گئی تھی نہ پرسوں تب مجھے ایک دکان میں ایک عورت نے دیا تھا – میں نے سوچا کیوں نہ آپ کے لیے لڑکی تلاش کروائیں – میری پسند کی کیونکہ وہ فرح مجھے زہر لگتی ہے –
اقرا نے اسے رازداری بھرے لہجے میں کہا جبکہ بات کرتے ہوئے وہ ایک نظر دروازے کو بھی دیکھ رہی تھی – ویسے تو چچی اور فرح ہر وقت اپنے کمرے میں ہی ہوتی تھیں اور فیاض تو صبح کا نکلا رات کو نا جانے کب اتا تھا واپس مگر پھر بھی احتیاط ضروری تھی – پاگل ہو گئی ہو تم ؟؟
چچی لوگوں کو پتا چل گیا نہ تو بلا وجہ تماشہ بنائیں گیئں – زوریز نے اسے سمجھایا – اوہو لالا یہ دیکھو کیا لکھا ہے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی زات برادری کے رشتے میسر ہیں – اور ہمارا کام نہایت رازداری سے کیا جاتا ہے –
تو بس کرو پھر رابطہ جب رازداری کی گرنٹی ہے – اقرا کی ابھی بھی وہی رٹ تھی – ہاں بلکل پہلے رازداری سے کیا جاتا ہے اور شادی کے بعد سب راز کھلتےہیں – زوریز نے منہ بگاڑتے کہا جس پر اقرا ہسی تھی – اس کی ہسی پر زوریز بھی مسکرایا تھا کیونکہ وہ اچھے سے اس کی شیطانی سمجھ گیا تھا –
سدھر جاؤ تم اس طرح کے الٹے سیدھے کام کرو گی تو کسی دن مجھ سے مار پڑے گی تمہیں – زوریز نے اسے گدگدی کرتے کہا جس پر وہ اسے روکتی ہس رہی تھی – اچھا چلو بتاؤ اصل بات کیا بات کرنی تھی ؟؟
زوریز پیچھے ہوتا اس سے بولا – کچھ خاص نہیں بس یہی کہنا تھا اپ سے کہ اپ کہہ رہے تھے نہ کہ اپ میرا ایڈیشن کروا رہے ہیں – تو کہاں تک پہنچا میرا ایڈمیشن ؟ اقرا کے پوچھنے پر اور زوریز نے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا اوہو میں تو بھول ہی گیا تمہارا ایڈمیشن ہو چکا ہے اور اج سے دس دن بعد تمہاری کلاسز سٹارٹ ہوں گی –
زوریز کے بتانے پر اقرا نے انکھیں پھاڑے اسے دیکھا تھا – کیا دس دن بعد میری کلاسز سٹارٹ ہیں اور میں نے ذرا تیاری نہیں کی –
اقرا نے پریشانی سے کہا – ارے ارے فکر نہ کرو تیاری کرنے میں کون سا دیر لگتی ہے تم کل چلنا میرے ساتھ میں تمہیں لے دوں گا چیزیں – زوریز نے اسے بے فکر کرتے کہا –
اچھا ٹھیک ہے ویسے اپ کو پتہ ہے بھائی میں اتنی ایکسائٹڈ ہوں کہ میں اپنی یونی سٹارٹ کرنے والی ہوں اف اللہ کتنا مزہ ایا کرے گا نا – اقرا نے خوشی سے گول گول گھومتے کہا جبکہ زوریز اس کی خوشی پر ہستا اسے گلے لگا چکا تھا –
انہیں گاؤں ائے اج دوسرا دن تھا کل کا سارا دن ان کا گھر کی صفائی کرنے میں گزر گیا تھا اور اج بالاج نے زمینوں پر جانا تھا جبکہ زبرش بھی اس کے ساتھ جانے والی تھی –
شہر جاتے ہوئے بالاج اپنی زمین ٹھیکے پر دی کر گیا تھا جبکہ ٹھیکہ دو سال کا ہونے کی وجہ سے اب اسے دوبارہ سے زمین کو ٹھیکے پر چڑھانا تھا – اور اس سلسلے میں ہی وہ گاؤں ایا تھا – ارادہ تو اس کا اور زرش کا ساتھ زمینوں پر جانے کا تھا مگر اچانک بلاج کو اس شخص کی کال اگئی جسے اس نے زمین ٹھیکے پر دینی تھی –
اس لیے وہ جلدی ہی زمینوں پر چلا گیا تھا بالاج کے جانے کے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد زبرش سارے کام کر کے ختم کرتی دروازے کو تالا لگاتی زمینوں کے رستے پر چل پڑی تھی – ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ اس کے پاس سے بلیک کلر کی پجارو گزری تھی مگر تھوڑا اگے جاتے ہی وہ گاڑی رک چکی تھی –
گاڑی دیکھتے ہی وہ پہچان گئی تھی وہ کس کی گاڑی تھی اس لیے اس کا پورا جسم کانپنے لگ گیا تھا ماضی کی یادیں پھر سے اس کی انکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوئی تھیں – اس کا دل کیا تھا وہ یہاں سے غائب ہو جائے بھاگ جائے کہیں دور چلی جائے مگر پاؤں ہلنے سے انکاری تھے –
زوریز اپنی پجاروں پر ڈیرے کی طرف جا رہا تھا اج وہ گارڈز کو ساتھ نہیں لایا تھا – وہ ڈیرے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک لڑکی اکیلی جاتی نظر ائی اس لڑکی کو دیکھتے ہی اسے زبرش کا گمان ہوا تھا –
مگر وہ تو یہاں گاؤں میں نہیں تھی یہ سوچ اتے ہی اس نے گاڑی اگے بڑھائی لیکن پھر کسی خیال کے تحت اس نے دروازے کے ساتھ لگے شیشے کے ذریعے پیچھے دیکھا تو وہ زبرش ہی تھی – اسے حیرت ہوئی تھی دو سال بعد اس سے واپس گاؤں میں دیکھ کر –
وہ اپنی گاڑی روکتا باہر نکلا اور اپنے قدم زبرش کی طرف بڑھائے تھے – دل میں ایک کمینی سی خوشی تھی کہ وہ اسے سامنے دیکھ کر تڑپے گی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی خوشی بہت جلد ہی ختم ہونے والی تھی –
کیسی ہو دل جانم او سوری زبرش خان ؟؟ زوریز نے جان بوجھ کر اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے اسے دل جانم کہا تھا لیکن اس کے الفاظ پر زبرش نے نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا –
زوریز حیران رہ گیا تھا اس کی انکھوں میں دیکھ کر – کہاں ان نیلی خوبصورت انکھوں میں اس کے لیے محبت کے الگ رنگ نظر اتے تھے لیکن اج ان انکھوں میں نفرت کی چنگاریاں نظر ارہی تھیں –
خبردار جو مجھے اس بےہودہ لفظ سے پکارا تو – میں نور زبرش خان سواتی بالاج خان سواتی کی بہن – سنا اپ نے ؟؟ اور شرم نہیں اتی اپ کو یوں بیچ راستے میں کسی لڑکی کا راستہ روکتے ہوئے؟
زبرش نے تو اپنا سارا غصہ ایک بار ہی اتارنے کا سوچا تھا لیکن پھر اس کے سردار ہونے کا لحاظ کر گئی تھی جبکہ زوریز تو حیران رہ گیا تھا -:وہ تو سوچ رہا تھا کہ اس کے دھوکے پر وہ روتی گڑگڑاتی غموں سے چور لڑکی بن کے ملے گی اس سے –
لیکن یہاں تو سارا معاملہ ہی الٹ تھا وہ کہیں سے بھی اسے دکھی نہیں لگ رہی تھی – بلکہ وہ تو پہلے سے زیادہ مضبوط لگ رہی تھی اسے – اس سے پہلے وہ اسے کچھ کہتا بالاج وہاں پہنچ چکا تھا –
وہ گھر واپس جا کر زبرش کو ہی لینے جا رہا تھا لیکن راستے میں ہی اسے زبرش نظر ائی جب کہ اس کے سامنے کھڑے زوریز کو دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا تھا – وہ بے غیرت اور سنگ دل سردار اخر اب کیا لینے ایا تھا اس کی بہن کے پاس – تمہاری ہمت کیسے ہوئی پھر سے میری بہن سے بات کرنے کی ؟؟
چلے جاؤ یہاں سے اس سے پہلے کہ میں تمہارے سردار ہونے کا بھی لحاظ نہ کروں – اگر تم یہ دیکھنے ائے تھے کہ وہ تمہارے دیے گئے دھوکے کو دل سے لگائے غم کی مورت بنی بیٹھی ہے تو دیکھ لو میں نے تم سے کہا تھا نہ وہ بالاج خان کی بہن ہے کمزور نہیں ہے وہ -اب دفع ہو جاؤ یہاں سے –
بالاج نے غصے سے لال ہوئے چہرے اور زوریز کو کہا جبکہ زوریز ان دونوں بہن بھائیوں کو دیکھ کر رہ گیا تھا اور غصے سے اس نے اپنی مٹھیاں میچ رکھی تھیں – کیوں ایسا ہوا تھا ؟؟
اس کا بدلہ مکمل نہیں ہوا تھا اس نے تو سوچا تھا کہ وہ زبرش کو دھوکہ دے گا تو بالکل ویسے جیسے اس کی بہن تڑپی جیسے اس کی بہن نے انسو بہائے اپنی سسکیوں کو تکیوں میں گم کیا اور پھر ان تمام غموں کے ساتھ خود کو موت کی گہری کھائی میں پھینک دیا بالکل ویسے ہی زبرش بھی اس کے دھوکہ دینے پر کرے گی اور جیسے اپنی بہن کی موت پر اسے تکلیف ہوئی تھی بالکل ویسے ہی بالاج کو تکلیف ہوگی اور تب جا کر اس کا بدلہ پورا ہوتا –
مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا زبرش کے چہرے پر کہیں بھی اسے دکھ نظر نہیں ایا تھا – تم نے تو یہاں سے جانا نہیں ہم خود ہی چلے جاتے ہیں بالاج اسے غصے سے کہتا زبرش کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لے گیا تھا جبکہ زوریز نے ابھی بھی ہاتھوں کی مٹھیاں میچ رکھی تھیں –
اس کی نظروں نے دور تک ان کا پیچھا کیا تھا غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا – غصے سے پاگل ہوتے وہ اپنی گاڑی تک پہنچا اور اپنے مضبوط ہاتھوں کے مکوں کو گاڑی کے بونٹ پر مارتے اپنا غصہ کم کرنے لگا جو کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا – چھوڑوں گا نہیں میں تم دونوں بہن بھائیوں کو –
میری بہن تکلیف میں رہی صرف تمہاری وجہ سے بالاج خان تمہاری وجہ سے میری بہن کی ہستی بستی زندگی غموں کا ساحل بن گئی اور خود تم دونوں بہن بھائی سکون سے جی رہے ہو- نہیں میں نہیں چھوڑوں گا تم دونوں کو – وہ غصے سے کہتا خود سے عہد کر چکا تھا جبکہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ انے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے –