Hook

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 9

تم ٹھیک ہو گڑیا ؟؟ زوریز کے پاس سے اسے لے جاتے تھوڑی دور جا کر بالاج نے زبرش سے پوچھا جس پر اس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تھا –
جی بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں – آخر میں نورِ زبرش ہوں اپ کی نورِ زبرش – اپ کا فخر اور اپ کی مضبوط بہن – زبرش کے مسکرا کر کہے گئے الفاظوں نے بالاج خان کر خوش کر دیا تھا –
ہاں میری جان بالکل سہی کہا تم نے تم واقع میرا فخر ہو اور تم میری مضبوط بہن ہو – بالاج نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا جس پر زبرش نے بھی کس کر اس کے گرد بازو ہائیل کیے تھے –
وہ خوش تھی کہ اس نے زوریز کو منہ توڑ جواب دیا تھا لیکن دل کہیں نہ کہیں دغا دے رہا تھا ، تڑپ رہا تھا ، رو رہا تھا ، گڑگڑا رہا تھا – اس کے دل میں ہوک اٹھ رہی تھی کہ اخر کیوں کیا اس ظالم نے اس کے ساتھ ایسا –
اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ جائے اور اس سے پوچھے – کہ کیا قصور تھا اس کا ؟؟ بدلہ اس نے اس کے بھائی سے لینا تھا تو مہرہ اسے کیوں بنایا ؟؟ لیکن اسے یہ یقین تھا کہ اس کے بھائی کا اس سب میں کوئی قصور نہیں –
ضرور زوریز کی کوئی غلط فہمی ہوگی کیونکہ بالاج کا فخر اگر وہ تھی تو بالاج اس کا فخر تھا – اس کا بھائی کبھی بھی کسی معصوم کی زندگی برباد نہیں کر سکتا تھا – تو جب اسے یقین تھا کہ وہ اور اس کا بھائی غلط نہیں ہیں تو پھر کیوں وہ اس شخص کے پاس جاتی اور اس سے سوال پوچھتی ؟؟
نہیں وہ اتنی گری پڑی تو نہیں تھی – ہاں وہ مضبوط تھی اپنے بھائی کا فخر تھی وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو محبت کا روگ لگا کر بیٹھتیں اپنے سگے رشتوں کی محبت کو نظر انداز کر دیتی ہیں –
وہ اس دو دن کی محبت کے پیچھے اپنے اس بھائی کی سالوں کی محبت نہیں بھول سکتی تھی – پہلے چاہے اس نے ایک بار بنا سوچے سمجھے خودکشی کی غلطی کی تھی مگر اب وہ سمجھدار ہو گئی تھی –
اور ویسے بھی بے وفائی زوریز نے کی تھی اس کے ساتھ اور بے وفاؤں کے پیچھے جانے والوں میں سے وہ نہیں تھی – جو چلا گیا سو چلا گیا – دل کا کیا ہے وہ تو ہے ہی پاگل بلاوجہ اس چیز کی ضد کرتا ہے جو چیز ملنے سے قاصر ہوتی ہے –
تو اس کی طرف سے بھاڑ میں جائے زوریز ، بھاڑ میں جائے اس کا دیا دھوکہ اور بھاڑ میں جائے اس کا دل جو زوریز کے لیے اج بھی اپنے کسی کونے میں وہی احساس رکھتا تھا – اج بھی کیسے زوریز کے سامنے آتے مچل اٹھا تھا لیکن زبرش نے اپنے دل کو لگام ڈالی تھی جس نے زوریز کو دیکھتے زوروں سے دھڑکنا شروع کر دیا تھا –
جس دن سے خان گاؤں گیا تھا اس دن سے دیا بیمار پڑی ہوئی تھی – اج چوتھا دن تھا مگر اس کا بخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا – اس کی حالت دیکھ انور ملک نے خان کو کال کرنے کی کوشش کی مگر اس کا موبائل بند جا رہا تھا –
اب تو انہیں خود بھی فکر ہونے لگ گئی تھی کہ کہیں واقعی خان ہمیشہ کے لیے اپنے گاؤں تو نہیں چلا گیا – انہوں نے جو خان کو گاڑی لے جانے کو کہا تھا خان وہ گاڑی بھی نہیں لے کر گیا تھا ورنہ اس گاڑی میں لگے ٹریسر سے وہ اس کے گاؤں کا پتہ معلوم کر لیتے اور فورا سے پہلے وہاں جا کر اسے واپس لے اتے کیونکہ ان کی بیٹی تکلیف میں تھی اس کی دوری کے سبب لیکن ابھی وہ بے بس تھے –
کسی کو بھی خان کے گاؤں کا پتہ نہیں تھا انہوں نے بہت پتہ کروانے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی اس کے گاؤں کا نام پتا نہیں جانتا تھا – حتی کہ انہوں نے زبرش کی یونیورسٹی جا کر اس کا اڈریس بھی معلوم کروانا چاہا تو وہاں بھی شہر والے گھر کا ہی ایڈریس درج تھا –
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈاکٹر دیا کا چیک اپ کرتی گئی تھی اور وہ دیا کے کمرے میں اسے دیکھنے کے لیے گئے تھے – کمرے میں جا کر انہیں وہ بیڈ پر سوتی ہوئی نظر ائی بخار کے سبب اس کا چہرہ بھی سرخ ہوا پڑا تھا – اسے ایک نظر دیکھتے وہ واپس جانے لگے مگر تب ہی انہیں دیا کی بخار کے سبب ہوئی کمزور سی اواز سنائی دی تھی –
خان نہیں ایا کیا ابھی تک ؟؟ اسے بخار میں بھی خان کی ہی سوچ ستا رہی تھی جبکہ اس کے خان کے بارے میں پوچھنے پر انور ملک نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو چہرے کی طرح ہی سرخ ہوئی انکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی –
میری اس سے بات ہوئی ہے دیا بس دو تین دن تک وہ واپس ا جائے گا – انور ملک نے اس سے جھوٹ بولا تھا حالانکہ ان کی تو خان سے کسی قسم کی بات نہیں ہوئی تھی رابطہ ہی نہیں ہو پایا تھا – میری بھی بات کروا دیں اس سے –
اس نے پھر سے کانپتی ہوئی ہلکی اواز میں کہا جس پر انور ملک بمشکل مسکراتے اس کے پاس گئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا – بیٹا اسے وہاں بہت سے کام ہیں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی میری اس سے بات ہوئی تھی اس کے فون کی بیٹری نہیں تھی تو ابھی اس کا فون چارجنگ پہ ہوگا –
میں تمہاری بعد میں بات کروا دوں گا اور ویسے بھی تین دن تک وہ واپس ا ہی جائے گا – پھر کیوں تم اتنی فکر کر رہی ہو ؟؟ انور ملک اسے اپنے دلاسوں میں لانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ بس وہ خاموش نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی –
ٹھیک ہے ! اس نے بس ایک لفظ جواب دیتے اپنا رخ موڑ لیا تھا جبکہ انور ملک بے چینی اور پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گئے تھے –
یار اب کوئی نیا شکار ملا کیا ؟؟ دیکھ ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور میں ہر عیاشی سے دور ہوں – ڈھونڈ کوئی نیا شکار تیرے بھائی کو اج کل بہت طلب ہو رہی ہے کسی حسین دوشیزہ کی – ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فیاض فون کان کے ساتھ لگائے اپنے دوست سے محو گفتگو تھا –
نہ یار کوئی بھی عیاشی کا سامان نہیں ہے – ویسے وہ جو ایک ہفتے پہلے ہم نے ایک لڑکی اٹھائی تھی وہ تیرے فارم ہاؤس میں ہی ہے کیا ؟؟ اس کے دوست نے پہلے انکار کرتے پھر اس سے پوچھا تھا –
نہیں یار دو دن رکھنے کے بعد میں اسے پھینک ایا تھا فارم ہاوس سے باہر – فیاض نے لاپرواہی سے کہا اچھا ویسے میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ لڑکی ہوتی تو اج کی رات رنگین بنا سکتے تھے – اس کے دوست نے کمینگی سے کہا جس پر فیاض ہنسا تھا – نہیں یار بس دل بھر گیا تھا اس سے اب کوئی اور نیا شکار ڈھونڈتے ہیں –
فیاض کے کہنے پر اس کا دوست سوچ میں پڑ گیا – نہیں ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے – اگر تجھے زیادہ ہی طلب ہو رہی ہے تو اجا پھر اج شہر – مل کر ہیرا منڈی چلتے ہیں – اس کے دوست نے مشورہ دیا جس پر فیاض بھی سوچ میں پڑ گیا –
اچھا چل پھر میں تجھے سوچ کر بتاتا ہوں – فیاض نے اسے کہتے فون کٹ کیا تھا کیونکہ وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہو چکا تھا اور اب اس کا شریف پن شروع ہو چکا تھا – ابھی اس کی گاڑی گاؤں میں داخل ہوتے تھوڑا سا ہی اگے گئی تھی کہ اسے گاؤں کی کچی سرک کے پار زمینوں پر ایک خوبصورت لڑکی نظر ائی –
خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتے اس کی تو نیت ویسے ہی خراب ہو جاتی تھی یہاں تو وہ لڑکی مکمل حسن کا پیکر تھی – اس نے گاڑی روکتے اپنے قدم گاڑی سے باہر نکالے تھے باہر نکل کر اس نے ادھر ادھر دیکھا – اس لڑکی کے علاوہ اسے وہاں کوئی بھی نظر نہیں ایا تھا –
اور اس نے وہ لڑکی پہلے کبھی گاوں میں دیکھی بھی نہیں تھی اس لیے وہ بے فکر تھا اس بات سے کہ وہ اسے پہچان لے گی کہ وہ سردار زوریز کا کزن ہے -اچھا موقع جانتے وہ فورا کھیتوں میں گھسا اس لڑکی کے پاس پہنچا تھا –
ارے او حسینہ یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو ؟؟ اس نے اس لڑکی کے پاس پہنچ کر اس کا بازو پکڑ اپنی طرف اس کا رخ کرتے بیہودگی سے کہا جبکہ زبرش جو اج پھر بالاج کے ساتھ کھیتوں پر ائی تھی مگر بلاج کسی کام کی وجہ سے کہیں گیا تھا اور وہ اکیلی وہاں کھڑی تھی کسی اجنبی کے یوں اپنا بازو پکڑ کر اپنی طرف کرتے بیہودگی بھرے الفاظ کہنے پر وہ ڈر گئی تھی –
ک..کون ہو تم ؟ اس نے خود کو بہادر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے کہا مگر لہجہ پھر بھی تھوڑا سا لڑکھڑا گیا تھا – ہم تو دیوانے ہیں حسن کے اور تمہارا حسن دیکھ کر ہم سے رہا نہ گیا اور تمہاری طرف کھینچے چلے ائے – تو بتاؤ میرے ساتھ چلو گی اج رات کے لیے ؟؟
میرے ساتھ چلو تمہیں منہ مانگی قیمت دوں گا مگر بدلے میں تمہیں اج کی رات اپنا یہ حسین وجود مجھے سونپنا ہوگا – فیاض نے بے شرمی اور بے ہودگی کی ہر حد پار کرتے اسے کہا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے کو چھونا چاہا مگر تب ہی اس کا ہاتھ کسی نے روک لیا تھا –
زبرش کا پورا جسم جوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا – انے والا کوئی اور نہیں بالاج تھا – وہ اپنا کام ختم کر کے واپس ایا تو زبرش کے پاس کسی لڑکے کو کھڑا دیکھ اسے حیرت ہوئی – زبرش کے چہرے پر نظر پڑتے وہ بھاگنے کے انداز میں ان کے قریب پہنچا – مگر جب سامنے والے کو دیکھتے اور اس کے الفاظوں کو سن اس کا دماغ ہی گھوم گیا تھا –
اس نے اؤ دیکھا نہ تاؤ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی طرف اس کا منہ کیا تھا – تمہاری ہمت کیسے میری بہن سے ایسی بکواس کرنے کی ؟؟ میں تمہیں نہیں چھوڈوں گا –
بالاج نے اس کے منہ پر پے در پے مکوں کی برسات کرتے کہا جب کہ فیاض خود کو بچانے کی کوشش کرتا رہا – اور بالاج تو جیسے اج اسے مار دینے کے در پر ہی تھا – سڑک سے گزرتے ایک ادمی کی نظر جب ان پر پڑی تو وہ انہیں چھڑانے کے لیے ان کے قریب پہنچا لیکن بالاج تو کسی طرح بھی اسے چھوڑنے پر راضی نہیں تھا –
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن پر اپنی گندی نظر رکھنے کی میں تمہیں جان سے مار دوں گا – زندگی عذاب بنا دی ہے تم افریدیوں نے ہماری – جان سے مار دوں گا میں تمہیں اج تمہارہ جنازہ ہی تمہارے گھر جائے گا – بکواس کیسے کی تم نے میری بہن کے ساتھ – گھٹیا انسان اج کی تمہاری رات میں رنگین بناتا ہوں –
قبر میں گزارو گے تم اج کی رات قبر میں – بالاج غصے کی حد پار کرتا اس کو بری طرح سے مار رہا تھا بالاج کو کسی طرح نہ رکتا دیکھ وہ ادمی بھاگ کر گاؤں سے کسی کو بلانے کے لیے چلا گیا تھا جبکہ زبرش جو کانپتی ہوئی وہاں کھڑی تھی اسے اچانک ہوش ایا تو اس نے بلاج کو جا کر پکڑا تھا –
چھوڑ دیں بھائی اسے وہ مر جائے گا – اس نے بالاج کو روکتے ہوئے کہا – مر جانے دو اسے یہ مر جانے کے ہی قابل ہے یہ گھٹیا انسان – بلاج کسی طور رکنے پر تیار نہ تھا – بھائی اپ کو میری قسم چلیں یہاں سے مر جائے گا وہ -زبرش نے اسے اپنی قسم دیتے کہا جب کہ اس کے قسم دیتے ہی بالاج کے ہاتھ رک گئے تھے –
اس نے نفرت بھری نگاہ زمین پر چوٹوں کے درد سے آدھے ہوتےفیاض پر ڈالی اور زبرش کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے چلا گیا تھا – تقریبا دس منٹ بعد وہ ادمی گاؤں کے کچھ ادمیوں کو لے کر وہاں پہنچا تو اسے وہاں کہیں بھی بلاج اور زبرش نظر نہیں ائے لیکن فیاض وہی زمین پر ہی پڑا ملا –
لیکن اس کی سانسیں رک چکی تھیں اور پھر پورے گاؤں میں یہ خبر جنگل میں اگ کی طرح پھیل گئی کہ سردار زوریز خان کے کزن اور ہونے والے بہنوئی کو بلاج خان سواتی نے قتل کر دیا ہے –
فیاض کی موت کا سن خان حویلی میں بھونچال اگیا تھا – چچی اور فرح کی چیخیں حویلی کی در و دیوار کو ہلا رہی تھی – زوریز خود حیران تھا اچانک سے فیاض کی موت پر –
اقرا بس خاموشی سے فرح اور چچی کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جو بھی تھا وہ اس کا کزن تھا اور چچی اور فرح کو روتے ہوئے دیکھ اس کی انکھیں بھی نم ہو رہی تھی – زوریز کو جب پتہ چلا کہ فیاض کا قتل بالاج خان نے کیا ہے تو اس کا غصے سے برا حال تھا –
اسے یہ لگ رہا تھا کہ بالاج نے اس سے بدلہ لینے کے لیے فیاض کو مار ڈالا – چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں بالاج خان – تم نے میرے کزن کو قتل کیا ہے سردار زوریز کے کزن کو – تم دیکھنا تمہیں ایسی چوٹ دوں گا کہ ساری زندگی نہیں بھول پاؤ گے –
زوریز خیالوں میں بالاج سے مخاطب تھا جبکہ اس کی آنکھوں اور الفاظوں میں اس وقت بالاج کے لیے نفرت صاف نظر ارہی تھی –
فیاض کی موت کے دو دن بعد پنچایت لگائی گئی تھی زوریز پنچایت میں بیٹھا اپنے سامنے موجود بلاج کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جبکہ بالاج کو تو دو دن سے کچھ سمجھ ہی نہیں ا رہا تھا –
کیونکہ جب وہ فیاض کو وہاں چھوڑ کر ایا تو وہ اچھا خاصا تھا ہاں اس کے جسم پر چوٹیں تھیں لیکن اتنی نہیں کہ اس سے اس کی جان چلی جاتی ہے – گھر میں زبرش بھی اس کے لیے بے حد پریشان تھی –
ہاں تو بولو بالاج خان تم مانتے ہو اس بات کو کہ تم نے فیاض خان کا قتل کیا ہے پنچایت میں ائے دوسرے گاؤں کے سردار نے بالاج سے پوچھا جس پر بالاج نے فورا نا سر ہلایا تھا – نہیں میں یہ قبول نہیں کرتا کیونکہ میں نے اس کا قتل نہیں کیا –
بالاج نے پُر اعتماد لہجے میں کہا جب کہ اس کے انکار پر زوریز نے اپنی مٹھیاں میچ لی تھیں- تم کیسے انکار کر سکتے ہو گاؤں کے آدمی نے خود تمہیں اسے مارتے ہوئے دیکھا ہے – زوریز ایک دم غصے سے کھڑا ہوتا بولا – اس نے مجھے اسے مارتے ہوئے دیکھا قتل کرتے ہوئے نہیں – اور جو اس کو میں نے مارا وہ سہی مارا –
یہ میں اعتراف جرتا ہوں کیونکہ وہ اسی قابل تھا – میری بس چلتا تو واقع میں اسے مار دیتا مگر کسی کی قسم نے روک لیا – بالاج نے بھی اسی غصے سے جواب دیا تھا – جھوٹ مت بولو تم نے ہی اس کا قتل کیا ہے اور کیا تم وجہ بتاو گے کہ کس وجہ سے تم نے فیاض کو پیٹا ؟؟
زوریز کے پوچھنے پر بالاج کچھ نہ بولا – وہ کیسے بھری پنچائیت میں اپنی بہن کے بارے میں بات کر سکتا تھا – تمہاری چپ ہی بتا رہی ہے تم جھوٹ بول رہے ہو اور تمہیں کیا لگتا ہے تم یہاں مکر جاؤ گے اور ہم تمہاری بات مان لیں گے تو تمہاری یہ غلط فہمی ہے –
زوریز نے غصے سے کہا – اس سے پہلے بالاج کچھ کہتا دوسرے گاوں کے سردار نے اسے چپ کروایا تھا – چپ رہو تم بالاج خان – تم مجرم ہو اور تمہارے خلاف گواہ بھی موجود ہے جبکہ تمہارے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت اور گواہ نہیں ہے –
اس لیے تمہیں وہ سزا قبول کرنی پڑے گی جو سردار زوریز خان تمہارے لیے منتخب کرے گا – ہاں تو زوریز خان کیا آپ کو خون کے بدلہ خون چاہیے ؟؟ اس سردار نے پہلے بالاج کو چپ کراتے بعد میں زوریز سے پوچھا تھا –
نہیں مجھے خون کے بدلے خون نہیں چاہیے – بلکہ میں سردار زوریز خان اس پنچایت میں کھڑا بالاج خان سے اپنےکزن فیاض خان افریدی کا قتل کرنے کے جرم میں اس کی بہن کو ونی میں مانگتا ہوں – زوریز نے بالاج خان کی انکھوں میں دیکھتے بلند اواز اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس کی اواز پر پنچایت میں ایک دم سے خاموشی نے اپنا بسیرہ کیا تھا –

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial