Just for you

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

ارم اپی ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟ آخر اس نےہمت کرتے سوال کر ہی لیا تھا –
اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا ارم اسے اپنےساتھ کہیں لے کر جا رہی ہے –
پہلے کبھی اس کی یہ تایا زاداسے اپنے ساتھ گلی کی نکر تک نہیں لے جاتی تھی –
اور آج وہ اسے ناجانے کتنی دیر سے کہاں لے جا رہی تھی –
وہ بھی رات کے وقت اس لیے تجسس سے تنگ مومل اس سے سوال کر بیٹھی –
” تم اپنی زبان بند کر کے بیٹھو جہاں بھی لے کر جا رہی ہوں وہاں پہنچ کر خود دیکھ لینا اوہ ! مجھے یاد آیا تم تو اندھی ہو تم کیسے دیکھو گی “
مومل کو چپ کروا آخر میں اس کا مزاق بناتے وہ ہسنے لگی – ہر بار کی طرح اس بار بھی مومل کی آنکھوں میں اپنے اندھے پن کا مزاق بننے پر آنسو
آگئے – جنہیں اس نے بےدردی سے صاف کیا تھا – تھوڑی ہی دیر بعد اسے
گاڑی رکتی محسوس ہوئی – ارم نے گاڈی سے نکل اس کی طرف کا دروازہ کھولا –
”چلو جلدی سے باہر نکلو “ ارم نےبولنے کے ساتھ اس کا بازو پکر اسے باہر نکالا تھا –
باہر نکل اسنے اپنے ہاتھ میں فولڈ چھڑی کو سیدھا کیا –
” یہاں کھڑی رہو تھوڑی دیر “ ارم نے اسے گاڈی کے پاس ہی کھڑا کرتے قوفت بھرے لہجے میں کہا –
” آ..آپی ی..یہ ک کون سی ججگہ ہے “ مومل دیکھ تو نہیں سکتی تھی
مگر وہاں سنائی دینے والی گیدڑوں کی خوفناک آوازیں سن
اسے اتنا تو پتا چل گیا تھا کہ یہ کوئی سنسان علاقہ ہے – ” ارے مومل تم تو اندھی کے ساتھ ساتھ ہکلی بھی ہو گئی “ ارم پھر سے اس پر ہستے ہوئےبولی
اور اس کے سوال کو نظر انداز کر گئی – ” آپی بب بتائیں نا مجھے کہاں لے کر آئی ہیں “
اس بار مومل نے ڈرنے کے سںاتھ روتے ہوئے پوچھا تھا –
” تجھے زیادہ موت پری ہے جاننے کی تو سن تجھے ہم نے بیچ دیا ہے تو تجھے تیرے گاہک کے
حوالے کرنے آئی ہوں اچھا ہے نہ ہمارے سر سے تمہارا منہوس سایہ مٹے گا “ ارم تو نا جانے کیا کیا بول رہی تھی مگر مومل کے کانوں میں تو ایک ہی فکرا گونج رہا تھا ” ہم نے تمہیں بیچ دیا ہے “
وہ مانتی تھی کہ تایا کی فیملی کو وہ کبھی پسند نہیں تھی – تیرہ سال کی تھی وہ جب
اس کے ماں باپ کی کار ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئی تھی اس وقت مومل بھی ان کے ساتھ تھی – اس حادثے میں ہی اس نے اپنی آنکھیں کھو دی تھیں – اس کی خوبصورت
رنگوں سے بھری زندگی بے رنگ ہو گئی –
اس دن کے بعد سے اس کا بچپن ختم ہو گیا تایا نے اسے دنیا دیکھاوے کے لیے ساتھ
تو رکھا مگر صرف اس کے بابا کی جائیداد کی خاطر –
تایا تائی اور ارم اس سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے – مگر آج اسے یقین نہی
آرہا تھا کہ وہ اسے بیچ چکے ہیں – آپی یی…یہ آ..اپ کیا کک..کہہ رہی ہو ؟ مم..مزاق
کر رہی ہو نا مجھ سے ؟ اس نے آس بھرے لہجے میں اس سے پوچھا شاید ابھی
وہ ہس کر کہہ دے کہ میں تو مزاق کر رہی ہوں – ہاہاہا تیرا میرا مزاق ہے کیا ؟؟جو میں تجھ سے مزاق کروں گی ؟؟ ” ارے میں تو شکر کروں گی تیرے جانے کے بعد کیوں کے تو میری زندگی سے جائے گی تو ہی احمد میرا ہو پائے گا ورنہ اسے تو بس تم ہی نظر آتی ہو “
” بس احمد کے امریکہ جانے کا انتظار تھا ہمیں اس کے ہوتے ہوئے تجھے ٹھیکانے
نہیں لگا سکتے تھے نہ اب پرسوں جب وہ آئے گا تو کہہ دیں گے تو بھاگ گئی “
تمہیں تمہارا عاشق ساتھ لے گیا “ ارم اس کی آخری امید پر پانی پھیرتی اسے اپنی پلںننگ سے اگاہ کرنے لگی –
جبکہ مومل تو یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ احمد بھائی کا اس سب سے کیا لینا دینا .
احمد دراصل ان کا پھوپھی زاد تھا جو مومل کو اپنی بہنوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا مگر احمد سے ارم محبت کرتی تھی اس لیے اس کی مومل سے انسیت
دیکھ غلط مطلب نکال بیٹھی تھی -اسی وجہ سے اسے مومل اور زہر لگتی تھی –
مومل تو ارم کی باتوں سے صدمے میں چلی گئی تھی مگر یہ وقت ہوش سے کام لینے کا تھا اس لیے اس نے جلدی سے ارم کو خود سے دور دھکادیا تھا جس سے ارم کا سر زور سے گاڈی کے بونٹ پر لگا – مومل جلدی سے اپنی سٹک سے زمین ٹٹولتے وہاں سے بھاگنے لگی – جبکہ ارم میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس کا پیچھا کر پاتی وہ اپنے سر کو تھام کر وہیں زمین پر بیٹھ گئیجس سے خون نکل رہا تھا – وہیں دوسری طرف مومل بس اللّہ کو یاد کیے بھاگی جا رہی تھی – وہ کافی دیر سے بھاگ رہی تھی –
ناجانے کتنی ہی مرتبہ وہ بڑی طرح گری بھی تھی – اس دوران اس کی سٹک بھی ناجانے کہاں گر گئی – مگر اس وقت اسے صرف اپنی عزت کی فکر تھی – اب تو اس کے پاؤں بھی دُکھنے لگے تھے اس لیے وہ ایک درخت کو ٹٹولتے اس کے ساتھ ہی بیٹھنے لگی تھی کہ پاس پڑے پتھر پر اس کا پاؤں آیا تھا جس کی وجہ سے اس کا پیر بُڑی طرح مڑا
اور اس کے منہ سے اچانک چیخ نکی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کک…کون ہو تتم لوگ ؟ اس شخص نے ڈرتے ہوئے سامنے والوں سے پوچھا تھا جو اسے ناجانے زبردستی کہاں لے آئے تھے – وہ تو کلب سے نکل کسی سے ملنے جا رہا تھا ویسے بھی اسے دیر ہو رہی تھی کہ اچانک اسکی گاڈی روک وہ دونوں اسے زبردستی اپنے
ساتھ لے آئے تھے یہاں تو دور دور تک کسی زی روح کا نشان بھی نہ تھا اور سامنے والوں
کے ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ اس کے چہرے پر خوف پھیلا ہوا تھا – اس کے سوال پر سامنے والوں نے کوئی تاثر نہ دیا کہ تبھی وہاں دو اور لوگ آئے تھے –
ہمارے مہمان کو زیادہ ہمارا انتظار تو نہیں کرنا پڑا نا ؟؟ آنے والوں میں سے ایک نے پوچھا . مگر اس کے لہجے میں کچھ ایسا ضرور تھا جس سے سامنے زمین پر گھٹنوں
کے بل بیٹھے شخص کے رونگٹے کھرے ہو گئے تھے – کک…کون ہو تم ؟؟ اس شخص نے پھر سے اپنے ڈر پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے سامنے والے سے پوچھا – ” سنا ہے تمہیں اپنے نفس پر قابو نہیں ہے اور تمہیں معصوم کلیوں سے کھیلنے کا بہت شوق ہے “ سامنے والے نے بے حد سفاک لہجے میں اس سے پوچھا تھا – جبکہ اس کی بات پر اس شخص کے چہرے کا رنگ اُڈا تھا – تت..تمہیں کیسے تتم کک…کون ہو ؟؟
اس شخص نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا جس پر سامنے والے نے سفاک لہجے میں کہا تھا –
بلڈی ڈیول
جس پر اس شخص کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئی تھیں – بلڈی ڈیول کو کون نہیں جانتا تھا بلڈی ڈیول یعنی موت – لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے وہ موت کا دوسرا
نام نہیں بلکہ موت اس کا دوسرا نام تھی – مگر آج تک کسی نے اسے دیکھا نہیں تھا –
اسے دیکھنے کا شرف دو طرح کے لوگ رکھتے تھے ایک جسے وہ چاہتا تھا اور دوسرے وہ جس کو اگلے جہان پہچانا ہوتا –
مگر اس کا ٹارگٹ صرف بُڑے لوگ تھے اور سامنے موجود شخص اب اس کا ٹارگٹ تھا کیوں کہ اسنے ایک دس سال کی بچی کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر مار دیا تھا – اور اپنے پیسے کے زور پر معملا رفع دفع کروا دیا تھا – مگر بلڈی ڈیول کی عدالت سے نہیں بچ پایا اور اسے اب سزائے موت کی سزا سنا دی گئی تھی – ” چل آج تیری حوس کا علاج کرتا ہوں تجھے معصوم بچوں کی معصومیت چھیننے کا بہت شوق ہے نہ آج میں تجھ سے تیری زندگی ہی چھین لوں گا “
بلڈی ڈیول نے اس کی گردن اپنی مضبوط گرفت میں لیتے سرد لہجے میں کہا –
” نہن..نہیں پپ…پلیز مجھے معاف کر دو تمہیں خدا کا واسطہ “سامنے والے نے گڑگڑاتے اس سے زندگی کی بھیک مانگی -” خدا ! تب خدا یاد نہیں آیا جب ایک معصوم کی
عزت اور زندگی دونوں چھین رہا تھا چل اب تیرا وقت ختم “ یہ کہتے ہی اس نے ساتھ
والے کے ہاتھ سے کچھ پکڑا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ اس شخص کے گلے پر اس چیز کو
پھیر چکا تھا – بلڈی ڈیول نے ہاتھ میں پکڑے چاکو کو چاند کی روشنی میں دیکھا تھا جو خون سے تر ہو چکا تھا کہ تبھی چیخ کی آواز سن اس نے اور اس کے دوسرے ساتھی نے پچھے مڑ کے دیکھا تھا جہاں ایک لڑکی درخت کے ساتھ بیٹھی تھی اس کا رخ ان ہی کی جانب تھا –
” بی ڈی لگتا ہے اس لڑکی نے سب دیکھ لیا ہے یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہو گا “ ساتھ والے نے بلڈی ڈیول سے کہا – ” ہمم اس لڑکی کو پیلس کے ٹورچر روم لے کر چلو میں بھی آتا ہوں اور ہاں ڈینجر اسے بیہوش کرنا مت بھولنا “بی ڈی یعنی بلڈی ڈیول نے ساتھ والے کو اس کے نام سے مخاطب کرتے کہا اور واپس سے اس شخص کی جانب متوجہ ہوا تھا جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا – اور نیچے بیٹھ کر اس نے سامنے والے کی دونوں آنکھوں میں چاکو مارا – یہ اس کا طریقہ تھا کہ صبح پولیس کو پتا چل سکے اس بد بخت نے آخری بار بلڈی ڈیول کو دیکھا تھا – مزید وہ لاش کے بازو پر بی ڈی لکھ رہا تھا تا کہ یہ بات یقینی ہو کہ اسے بی ڈی نے ہی مارا ہے -وہ ہمیشہ لاش پر اپنی مہر چھوڈتا مگر آج تک اسے کوئی پکر نا پایا تھا وجہ ثبوت نہ ہونا تھا ان دو نشانیوں سے وہ اسے پکڑنے سے رہے کیوں کہ آج تک اسے دیکھنا تو دور اس کا اصل نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا – اپنا کام مکمل کرتے اس نے وہاں پہلے سے موجود آدمیوں کو لاش لے جانے کا اشارہ کیا تھا جو اسے لے کر بھی آئے تھے –
اس کے اشارہ کرتے ہی وہ دونوں آدمی اس شخص کی لاش کو لے گئے تھے – ان کے
جاتے ہی وہ اپنی گاڈی میں بیٹھ اسے سٹارٹ کر چکا تھا – اس کا رخ پیلس کی طرف تھا اسے ابھی اس لڑکی سے بھی نپٹنا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ اپنا پاؤں پکڑے وہیں زمین پر بیٹھ گئی تھی اسے اپنے اندھے ہونے پر بہت رونا آ رہا تھا – ابھی وہ اپنی قسمت پر ماتم کر رہی تھی کہ اسے اپنے قریب قدموں کی آہٹ سنائی دی اس سے پہلے کہ وہ ڈر کے مارے چیختی آنے والے نے اس کی ناک پر
کچھ رکھا تھا اور وہ حوش و حواص سے بے گانہ ہو گئی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کہاں ہے وہ لڑکی ؟؟ اس نے پیلس آتے ہی ڈینجر سے پوچھا تھا – ” بی ڈی تمہارے کہنے کے مطابق میں نے اسے ٹورچر روم میں رکھا ہے “ ” چلو میرے ساتھ زرا اس لڑکی
سے نپٹ لیں “ اس نے ڈینجر کو جواب دیتے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا جسے سنتے ہی ڈینجر اس کے ہم قدم ہوا تھا – ٹورچر روم پہنچتے ہی اس کی نظر سامنے کرسی پر بندھی لڑکی پر گئی تھی – جو ابھی تک بیہوشی کی حالت میں تھی . اسے دیکھتے ہی بی ڈی نے ڈینجر کو اشارہ کیا تھا جسے سمجھتے ڈینجر نے پانی سے بھرا گلاس اس لڑکی کے منہ پر پھینکا – پانی منہ پر پرتے ہی اسے ہوش آنے لگا تھا- آہستہ سے آنکھیں کھول اس نے اپنے ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تھی مگر اس کے ہاتھ بندھے ہونے کے سبب وہ انہیں حرکت دینے سے قاصر تھی – جب کہ اس کے آنکھیں کھولتے ہی اس کی آنکھیں دیکھ بی ڈی بھی چند پل کے لیے ساکت ہو گیا تھا – ایسا نہیں اس نہیں کہ اس نے کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی وہ خود بھی خوبصورتی کی مثال تھا اس کی گرے آنکھیں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی تھیں مگر سامنے موجود لڑکی کی سکائے بلیو آنکھیں دیکھ وہ چند پل کےلیے ان کی خوبصورتی میں کھو گیا اور اس پر لڑکی کا خوبصورتچہرا وہ واقع اس وقت کوئی پرستان کی پری لگ رہی تھی –
بی ڈی جلدی سے اس جادو گرنی کے سحر سے نکلا تھا جس کے حسن نے بی ڈی جیسے شخص کو بھی چند پل کے لیے اپنا اسیر کر لیا تھا – اے لڑکی کون ہو تم ؟؟ اس کے بولنے سے قبل ڈینجر نے اس لڑکی سے سوال کیا – کک…کون ہو آپ لوگ؟؟ اور میں کہاں ہوں ؟؟مومل نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا اسے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ ارم نے اسے جنہیں بیچا تھا کہیں وہ ان لوگوں کے ہاتھ تو نہیں لگ گئ ؟؟
” تم سے جتنا پوچھا گیا ہے اس کا جواب دو اپنا سوال نامہ بند کرو“ اور بتاؤ کیا نام ہے تمہارا ؟؟ اور تم وہاں کیا کر رہی تھی ؟؟ مم…م..میرا نام مم….مو…مل ہے -اس کے نام بتانے پر اس بار بی ڈی کی جانب سےسرد لہجےمیں سوال آیا تھا – تو مس مومل تم نے وہاں کیا دیکھا تھا ؟؟ ” پوچھے کے انداز سے صاف ظاہر تھا جیسے کہا گیا ہو کہ اگر تم نے کچھ دیکھا بھی ہے تو بھول جاؤ کہ تم نے کچھ دیکھا تھا “ مم…میں نن…نے ککچھ
نہیں دیکھا آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟؟
” دیکھو لڑکی زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں سیدھی طرح سمجھا رہا ہوں کہ اگر تم نے پولیس کو اس بارے میں بتایا تو تم جانتی نہیں میں تمہاری حالت کیا کروں گا “
میں سچ کہہ رہی ہوں کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا – میں کیسے کچھ دیکھ سکتی ہوں ؟
اس بار مومل نے بنا ڈرے کہا تھا – کیوں ؟؟ تم کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟؟ کیا تم اندھی
ہو جو تم دیکھ نہیں سکتی ؟؟
” ہاں کیوں کہ میں اندھی ہوں میں نہیں دیکھ سکتی میں نہیں جانتی تم کس بارے
میں بات کر رہے اور کس جگہ کی بات کر رہے ہو “ مومل نے روتے ہوئے کہا تھا – جبکہ اس کے خود کو اندھا کہنے پر بی ڈی اور ڈینجر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا – ” بی ڈی مجھے لگتا ہے یہ جھوٹ بول رہی ہے – تا کہ ہم اسے چھوڈ دیں “ ڈینجر نے اپنے
دل آئی بات کہہ دی – میں جھوٹ نہیں بول رہی – میرا یقین کرو مومل نے جلدی سے
انہیں یقین دلانے کی کوشش کی تھی –
اچھا زرا مجھے یہ بتاؤ آدھی رات ایک ویرانے میں ایک اندھی لڑکی کا کیا کام ؟؟
بی ڈی کے پوچھنے پر مومل نے اپنے ساتھ ہوا سارا واقع سنا ڈالا – ” تمہیں لگتا ہے میں پاگل ہوں جو تمہاری بات پر یقین کر لوں گا “ ” میں سچ کہہ رہی ہوں خدارا میرا یقین کرو مجھے جانے دو “ مومل نے پھر سے سامنے والے سے التجا کی تھی – ” دیکھتے ہیں تمہاری بات میں کتنی سچائی ہے ڈینجر ڈاکٹر کو بلاؤ ابھی پتا چل جائے گا کون کتنا سچا ہے “ بی ڈی ڈینجر کو حکم دیتے ٹورچر روم سے نکل گیا تھا اور اس کے پیچھے ہی ڈینجر اپنا فون نکالتے اس پر کچھ ڈائیل کرتے باہر نکل گیا تھا – پیچھے مومل اپنی قسمت پر ماتم کرتی رہ گئی تھی جو نجانے اسے اب کس نوڑ پر لے کر جانے والی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ڈاکٹر نے آکر مومل کے اندھے پن کی تصدیق کر دی تھی جسے سننے کے بعد بی ڈی کچھ
لمہوں کے لیے کچھ بول ہی نا پایا تھا – کیا سچ میں اتنی خوبصورت آنکھیں دیکھنے کی
نعمت سے مرحوم تھیں ؟؟ ” دیکھا میں سچ کہہ رہی تھی مگر آپ لوگوں کو یقین نہیں تھا “ڈاکٹر کے بتاتے ہی مومل فوراً بولی – مومل کے بولنے پر بی ڈی نے اس کی جانب دیکھا تھا – ڈاکڑ ان کے اپنے گینگ کا تھا تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی تھی –
ڈینجر !
” اس لڑکی سے پوچھ کر اسے چھوڈ آؤ اس کے گھر “ ” نہیں مجھے گھر نہیں جانا میں آپ کو بتا چکی ہوں میرے تایا ابو لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے اگر میں گھر واپس گئی تو وہ لوگ مجھے پھر سے بیچ دیں گے آپ لوگ مجھے دارلامان چھوڈ آئیں “ بی ڈی جو ڈینجر کو حکم کر وہاں سے جانے والا تھا مومل کی بات سن اس کے قدم وہیں رک گئے تھے ہاں واقع وہ لڑکی گھر نہیں جا سکتی تھی مگر دارالامان کے حالات بھی اسے بہت اچھے سے معلوم تھے وہ اسے دارالامان بھی نہیں بھیج سکتا تھا –
” ڈینجر پیلس کے بند کمروں میں سے ایک کمرہ اس لڑکی کے لیے تیار کروا دو یہ آج سے یہیں رہے گی “ بی ڈی کی بات سن ڈینجر اور مومل دونوں حیران رہ گئے تھے ” نہیں مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے دارلامان بھیج دیں میں وہاں رہ لوں گی “ مومل نے جلدی سے منع کرتے کہا – اس کے منع کرنے پر بی ڈی نے غصے بھری آنکھوں سے اسے دیکھا تھا –
” جس دارلامان کو تم اپنے لیے سیف سمجھ رہی ہو نہ وہاں لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے تمہیں پتا چل جائے نہ تو تم اس کے پاس سے گزرنے سے بھی ڈرو تم جیسی اندھی تو اور آسان حدف ہو گی ان لوگوں کے لیے سو چپ چاپ یہاں رہو یہاں تمہاری عزت اور جان دونوں مہفوظ ہیں انسانیت کے ناطے تمہاری مدد کر رہا ہوں تم بے فکر رہو تم یہاں سیف ہو “
مگر میں کیسے … ؟؟ ” بس مینے جو کہنا تھا سو کہہ دیا “ مومل جو اعتراض کرنے ہی لگی تھی بی ڈی نے اسے بولنے سے پہلے ہی چپ کروا دیا تھا –
اور خود کمرے سے باہر نکل گیا تھا – بی ڈی کے جاتے ہی ڈینجر بھی باہر نکل چکا تھا –
اور باہر جا کر اس نے ملازمہ کو مومل کو باہر لانے بیھجا تھا اس دوران ڈاکٹر کب کا جا چکا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
گھر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اسے اماں نے دیکھا تھا – ہائے میں مر گئی ارم میری بچی یہ تیرے سر پر کیا ہوا ؟؟ اماں جلدی سے بھاگ کر اس کے قریب گئی تھیں
جبکہ ان کے بولنے پر ابا بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے – ” یہ سب اس اندھی کا
کیا کرا ہے سالی بھاگ گئی مجھے دھکا دے کر میرا سر گاڈی میں لگا اور چوٹ لگ گئی “ ارم نے غصے سے دانت پیستے کہا جیسے دانتوں کے نیچے مومل کو چبا رہی ہو – ” ہائے ہائے اللّہ پوچھے تجھے مومل میری پھول سی بچی کو چوٹ پہنچائی تو نے “ اماں تو
فوراً مومل کو بدعائیں دینا شروع ہو چکی تھیں – ” وہ سب تو تھیک ہے مگر وہ
بھاگ کیسے گئی اسے تو کچھ نظر بھی نہیں آتا “ ابا جو تب سے خاموش بیٹھے تھے بولے – ” پتا نہیں کہاں گئی ؟؟
پہلے تو چوٹ کی وجہ سے میں اس کے پیچھے نہ جا پائی مگر تھوری دیر بعد درد برداشت کررتے اسے ڈھونڈنے گئی تھی مگر وہ مجھے کہیں نہیں ملی بہت ڈھونڈا پر پتا نہیں کہاں گئی تھک ہار کر سر پر پٹی کروا کر گھر واپس آئی ہوں ” چلو دفع کرو اسے تم آرام کرو میری بچی اچھا ہوا اس منہوس کا سایہ ہمارے سر سے ٹلا “ اماں نے ارم کو پیار کرتے ہوئے کہا –
” وہ سب تو تھیک ہے مگر اب اس آدمی کا کیا کرنا ہے جس سے اس کے پیسے لیے ہیں اب تو ہم کافی رقم خرچ بھی کر چکے ہیں “ ابا کی ٹینشن سے بھری آواز گونجی – ” بلکل ابا میں بھی یہ ہی سوچ رہی ہوں اور سچ بتاوں میں اسی لیے وہاں سے جلدی بھاگ آئی
کہ کہیں وہ آدمی ہی نہ آ جائے “ ارم نے ابا کی بات پر جلدی سے کہا – ” چلو ابھی تم آرام کرو باقی کی بعد میں سوچیں گیں “ ابا نے کہتے بات ختم کی اور اپنے کمرے کی طرف بھر گئے – ان کے جاتے ہی ارم بھی اپنے کمرے کی جانب چل دی جبکہ اماں وہیں
بیٹھیں مومل کو کوسنیں لگیں –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بی ڈی !
بی ڈی میری بات سنو – ڈینجر نے بی ڈی کے پیچھے ہی ٹورچر روم سے نکلتے اسے پکارا –
” ڈینجر میرا ابھی بات کرنے کا کوئی موڈ نہیں اور نہ ہی میں تمہارے کسی سوال کا جواب دینے والا ہوں “ بی ڈی نے اکتائے ہوئے لہجے میں ڈینجر سے کہا – ” کیا مطلب
تمہاری اس بات کا تمہیں جواب دینا ہو گا “ تم کیسے کسی اجنبی کو ہمارے پیلس میں رکنے کی اجازت دے سکتے ہو ؟؟ وہ بھی ایک لڑکی کو ؟؟
” میرا موڈ خراب نہ کرو حمدان ابھی میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں “ اب کی بار اس نے ڈینجر کا ریل نیم لیتے کہا مگر لہجہ جوں کا توں تھا – ” دیکھو بی ڈی تم اسے کہیں اور بھیج دو جہاں وہ محفوض رہے مگر یہاں نہیں یار یہاں اسے رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے “ حمدان عرف ڈینجر نے سمجھانے والےانداز میں اسے کہا –
” مجھے سمجھانے کی کوشش مت کرو پہلی بات کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں
دوسری اور آخری بات بی ڈی کے گھر سے زیادہ سیو جگہ اس کے لیے کوئی نہیں “ اب بات ختم جاؤ اور اپنا کام کرو “ بی ڈی اپنی بات مکمل کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا – جبکہ ڈینجر ابھی بھی اس رستے کو پُر سوچ انداز میں دیکھ رہا تھا جہاں سے ابھی بی ڈی گیا تھا -یہ نہیں تھا کہ ڈینجر کو مومل سے کوئی مسلہ تھا اسے تو بس بی ڈی کے فیصلے پر حیرت تھی کیوں کہ بی ڈی اور کسی لڑکی پر بھروسے کرے اور اوپر سے
اسے پیلس میں رہنے کی اجازت بھی دے یہ بات ہضم نہی ہوئی – کیوں کہ بی ڈی کے نزدیق بس ایک ہی صنف نازک کی اہمیت تھی جو اس کی بہن تھی – مگر توبہ یا اللّہ وہ نازک تو بلکل بھی نہیں تھی –
یہ ساری باتیں اس کے دماغ کا دہی بنا رہی تھیں – مگر اچانک ہی اپنے دماغ میں آنے والی سوچ کے تحت اس نے آنکھیں پھارے ڈی کے کمرے
کے بند دروازے کو دیکھا – کہیں بی ڈی کو اس لڑکی سے ….. اس سے آگے وہ سوچ
بھی نہیں پایا تھا – نہیں نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟حمدان ملک تو پاگل ہو گیا ہے کچھ بھی سوچ رہا ہے – اس نےاپنے دماغ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیاں پیٹتے کہا –
ویسے ہو بھی سکتا ہے – نہیں ایسا کیسے ممکن ہے ؟ ویسے کوئی حرج بھی نہیں –
اپنے کمرے کی جانب بڑھتے اپنے خیالوں میں گم اپنی ہی باتوں میں الجھا وہ اس کچھ دیر پہلے والا ڈینجر بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا – جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا –
کیوں کہ اس وقت وہ ڈینجر نہیں حمدان تھا – جو اپنے زہن میں چلنے خیالات پر کبھی مسکراتا تو کبھی پاگلوں کی طرح نہ میں گردن ہلاتا -آخر تھک ہار کر اپنی سوچوں پر لعنت بھیج وہ سونے کے لیے اپنے بستر میں گُھس گیا کیوں کہ بس کل کی ہی
تو بات تھی پھر اس کی پاٹنر نے آ جانا تھا – اور اس کے ساتھ مل کر اب اسے
اس بات کا پتا لگانا تھا کہ آخر بی ڈی کے دماغ میں چل کیا رہا ہے –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial