قسط: 10
بی ڈی نے وہاں ان کے رہنے کے لیے ایک چھوٹے سے گھر بندو بست کر دیا تھا جس میں ایک کمرہ واشروم اور چھوٹا سا کچن اور چھوٹا سا ہی ہہ صحن تھا – کمرے میں دو چارپائیاں کے علاوہ ایک کرسی اور چھوٹا سا ٹیبل تھا پنکھے کی سہولت بھی میسر نہ تھی چارپائیوں پر ہاتھ والی پکھیاں پڑی تھیں – کچن میں بھی سامان کے نام پر کھانا بنانے اور کھانے کے لیے کچھ برتن ہی تھی جبکہ گیس کی سہولت بھی میسر نہ تھی لکڑیوں سے جلنے والا ایک چولہا صحن میں دیوار کے ساتھ رکھا گیا تھا – گھر دیکھ مشل اور حمدان ایک بار پھر بی ڈی کو کوسنے لگے اور ساتھ خود کو بھی کہ شادی پر آخر اسے پریشان ہی کیوں کیا – اگر تب خیال کرتے تو اس وقت یہاں نہ ہوتے –
::::::::::::::::::::::::::::::
اس وقت وہ دونوں عابد نامی آدمی کے ساتھ محمود بیگ کی حویلی میں موجود تھے – عابد کو بی ڈی نے ان دونوں کو محمود کی حویلی میں گُھسانے کا کام دیا تھا – اسی لیے وہ اس وقت حویلی میں ان دونوں کو لیے حاظر تھا – انہیں انتظار کرتے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ محمود بیگ بیٹھک میں داخل ہوا – ہاں بھائی عابد آج کینج آنا ہو گیا تیرا ؟؟ ( ہاں بھئی عابد آج کیسے آنا ہوا تمہارا ؟؟ ) محمود بیگ نے اپنی بھاری آواز میں صوفے پر بیٹھتے پوچھا –
” جناب اے دونوں میرے کزن دے بچے نے تے ایناں نو میں ایتھے تھاڈے کول ایس لی لے آیا واں کہ تُسی ایناں دوناں نوں اپنی حویلی ویچ کم تے رکھ لو بڑی میربانی ہووے گی تاڈی “ ( جناب یہ دونوں میرے کزن کے بچے ہیں اور میں ان کو آپ کے پاس اس لیے لایا ہوں کہ آپ ان دونوں کو اپنی حویلی میں کام پر رکھ لیں بڑی مہربانی ہو گی آپ کی ) عابد محمود کے سامنے سر جھکائے کہا – اچھا کی کم کر سکدے نے دونوں ؟؟ ( کیا کام کر سکتے ہیں دونوں ؟؟) محمود نے ان دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جو سر جھکائے کھڑے تھے –
” جناب اے رانی اے تے ایس نو کھانا پکانا بہت چنگا آندہ اے تے ایدا نام امجد اے بارہویں جماعت پاس وے توسی اینو اپنا منشی رکھ لو حساب کتاب بہت چنگا وے ایدہ تے ایماندار وی بہت اے “ ( جناب یہ رانی ہے اس کو کھانا پکانا بہت اچھا آتا ہے اور اس کا نام امجد ہے بارہویں جماعت پاس ہے آپ اسے منشی رکھ لو ایماندار بھی بہت ہے ) عابد نے فوراً بی ڈی کا پڑھایا سبق دھڑایا – ” اچھا چل تو کینا ایں تے رکھ لینا واں دوناں نوں آخر تین پیڑیاں تو تادا خاندان سادا وفادار ریا اے “ ( اچھا تم کہتے ہو تو رکھ لیتا ہوں دونوں کو آخر تین نسلوں سے تمہارا خاندان ہمارا وفادار رہا ہے ) محمود صاحب کی بات پر ان تینوں کے چہروں تو مسکراہٹ آئی تھی مطلب اب حویلی تک رسائی ممکن ہو گئی تھی – وہ تینوں شکریہ کہتے جانے لگے کہ پیچھے سے محمود بیگ کی آواز نے ان کے قدم روکے –
” سن عابد ایناں دوناں نوں کل سویرے آٹھ وجے پیج دیویں کل توں کم شروع اینا دوناں دا “( ”سنو عابد ان دونوں کو کل صبح آٹھ بجے بھیج دینا کل سے کام شروع ہو گا ان کا “) ” جی صاحب جی کل اسی پورے ٹیم تے آ جاواں گے “ ( جی صاحب جی کل ہم پورے ٹائم پر آ جائیں گے ) محمود بیگ کی بات پر اب کہ حمدان نے پنجابی میں جواب دیا اور پھر وہ تینوں وہاں سے نکل گئے
:::::::::::::::::::::::::
”مناہل میری بات سنو “ ایان جو باقر صاحب کی خیرت معلوم کرنے کے ساتھ ان کے سے کچھ ادھر اُدھر کی باتیں کر کے ان کے کمرے سے باہر نکلا تو سامنے سے مناہل کو آتا دیکھ اس سے بولا – جی ایان بھائی ! مناہل کیا حمدان اور تمہارے درمیان ابھی بھی ناراضگی چل رہی ہے ؟؟ ایان کے سوال پر مناہل نے سر جھکائے ہاں میں سر ہلایا – ” تم بے فکر رہو گڑیا اس کو تو میں سبق سیکھاتا ہوں “ بی ڈی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے حمدان پر غصہ ہوتے کہا –
” نہیں بھائی آپ کچھ نہیں کہنا انہیں ان کا حق ہے مجھ سے ناراض ہونا پلیز آپ کچھ مت کہیے گا حمدان کو “ مناہل نے اسے منع کرتے کہا – ” چلو تمہاری مرضی ورنہ میں اس کے کان کھینچنے کا ارادہ کر چکا تھا خیر اگر کبھی بھی حمدان کی طرف سے کوئی مسلہ کوئی شکایت ہو تو میری بہنا سب سے پہلے میرے پاس آئے گی اور فکر نہیں کرنی کسی چیز کی بس ایسے ہی تمہیں نکھڑے دیکھا رہا ہے تمہیں – پر ایک بات ہے میں پہلے والی مناہل کو مس کر رہا ہوں جو ہر وقت ہستی مسکراتی رہتی تھی یہ مناہل نہیں پسند مجھے جو خاموش رہتی ہے تو گڑیا خوش رہا کرو اب تمہیں دکھی نہ دیکھوں میں ٹھیک ہے “ بی ڈی کے کہنے پر مناہل نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا جسے دیکھ بی ڈی نے بھی ہلکی سی سمائل لاس کی جس سے اس کی دائیں گال کا ڈمپل واضح ہوا –
:::::::::::::::::::::::::
حمدان اور مشل حویلی میں اپنے اپنے کام پر اگ چکے تھے – مشل کو کھانے پکانے کی جگہ کمروں کی صفائی کے لیے رکھ لیا تھا جو اس کے لیے اور زیادہ اچھا تھا حویلی میں جانچ کرنے کے لیے جبکہ حمدان کو محمود نے اپنے منشی کے طور پر رکھ لیا تھا – ابھی مشل سارے کمروں کی صفائی کرکے فارغ ہوئی ہی تھی کہ محمود بیگ کی بیگم صفیہ نے اس کو پکارا –
” نوری او نوری ایدر آ کے میری گل سن “ ( نوری او نوری ایدھر آ کر میری بات سنو ) جی بیگم جی !! مشل فوراً سے پہلے ان کے پاس پہنچی – ” پتر جا میرے شاکر دا کمرہ صاف کر دے او آندہ ہی ہووے گا شہر توں “ ( بیٹا جاو میرے شاکر کا کمرہ صاف کر دو وہ آتا ہی ہو گا شہر سے ) صفیہ بیگم نے اسے نرم لہجے میں کہا – یہ حویلی بڑی ضرور تھی مگر یہاں رہنے والے بہت کم لوگ تھے – محمود بیگ اس کی بیوی بیٹا اور ایک اس کی مرحوم بہن کی بیٹی جس کا رخسانہ تھا – صفیہ بیگم اور رخسانہ سے مل کر وہ اتنا تو جان چکی تھی کہ وہ دونوں ہی بہت اچھی اور نیک عورتیں تھیں – ” جی بیگم صاحبہ جی میں ہُنی کر دینی واں کمرے دی صفائی مگر کمرہ کیڑا وے نیکے صاحب دا ؟؟ “ ( جی بیگم صاحبہ جی میں ابھی کر دیتی ہوں کمرے کی صفائی مگر کمرہ کون سا ہے چھوٹے صاحب کا ) مشل نے اپنا پراندہ گماتے کہا –
”نی سکینہ جا اینوں شاکر دا کمرہ وکھا دے “ ( سکینہ جاو اسے شاکر کا کمرہ دکھا دو ) صفیہ بیگم کے کہنے پر سکینہ نام کی نوکرانی اسے شاکر کا کمرہ دیکھا چکی تھی اور وہ کمرے کی صفائی کرنے کے لیے کمرے کے اندر داخل ہو گئی –
:::::::::::::::::::::::
آج بی ڈی گھر میں ہی تھا اور اس وقت بیڈ پر نیم دراز بیٹھا مومل کو دیکھ رہا تھا جو اپنے بال بنا رہی تھی – ” خان جی !! جی جان جی !! مومل کے اچانک پکارنے پر بی ڈی نے اسی کے انداز میں جواب دیا جس پر اس کے گال گلاب ہوئے تھے – وہ خان جی میں بال کٹوا لوں اپنے ؟؟ مجھ سے سنبھالے نہیں جاتے “ اس نے اپنے کمر سے نیچے آتے کالے سلکی بالوں میں سے برش نکالتے کہا جبکہ مومل کی ڈیمانڈ پر بی ڈی کے ماتھے پر بل آئے تھے – ” نہیں بلکل نہیں کٹوانے اور خبر دار جو دوبارہ ایسا سوچا بھی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا “ بی ڈی سخی سے کہنے پر مومل اچانک ڈر گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے –
” مجھ سے سنبھالے نہیں جاتے اتنے بڑے ہیں “ اس نے آہستہ آواز میں وجہ بتائی – ” جو بھی ہو مگر تم نہیں کٹواو گی بال اور رہی بات سنبھالنے کی تو میں سنبھال لوں گا مگر دوبارہ یہ بات تمہاری زبان پر نہ آئے “ اسے پھر سختی سے کہتے وہ بیڈ سے اتر کر اس کے پاس پہنچا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے سٹول پر بیٹھی تھی – ” لاو میں کر دیتا ہوں کنگھی تم سے نہیں ہو رہی نہ “ اس کے ہاتھ سے برش لیتے اس نے اب کہ نرم لہجے میں کہا – وہ مومل کے بال برش کر کے دوبارہ بیڈ کی جانب بڑھنے ہی والا تھا کہ مومل کی بات پر اس نے حیران ہوتے اسے دیکھا – سوری کون کرے گا مجھے ؟؟ کیا کیا پھر سے بولنا کیا کون بولے گا ؟؟ بی ڈی نے حیرت سے پوچھا –
سوری کون بولے گا ؟؟ مومل نے پھر سے اپنی بات دہرائی – کس خوشی میں سوری بولوں ؟؟ ” آپ نے مجھ سے سختی سے بات کی اس لیے “ مومل نے بھی جتاتے لہجے میں کہا – ” تمہاری بات ہی غلط تھی لہجہ سخت کرنا پڑا “ بی ڈی نے اسے واضح کیا – ” تو بھی معافی مانگیں ورنہ کمرہ چھوڈ کر پورانے کمرے میں چلی جاوں گی – ویسے بھی یہ تہہ تھا کہ شادی کے بعد آپ نے مجھ سے سختی سے بات کی یا ہماری لڑائی ہوئی اور غلطی چاہے کسی کی بھی ہو معافی آپ ہی مانگو گے “ مومل کی بات پر بی ڈی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں –
میں نے کب تم سے یہ سب تہہ کیا تھا ؟؟ مشل اور حمدان بھائی نے شادی کے لیے مناتے ہوئے کہا تھا – مومل کے کہنے پر بی ڈی نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا – اوکے سوری مجھے سختی سے بات نہیں کرنی چاہے تھی – بی ڈی کے معافی مانگنے پر مومل کا چہرہ کھل سا گیا جسے دیکھ بی ڈی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نے گھر کیا –