قسط: 2
صبح ہوتے ہی بی ڈی اور ڈینجر کہیں جا چکے تھے اور مومل کو کھانا ملازمہ نے کمرے میں ہی دے دیا تھا جو اس نے دو نوالے لے کر چھوڈ دیا – اسے اس وقت یہی فکر تھی کہ اس کا یہاں رہنا سیف ہے یاں نہیں مگر جو بھی ہو اس کے علاوہ کوئی اور آپشن اس کے پاس تھا بھی نہیں – اپنے اللّہ پر یقین رکھتے اس نے خود کو قسمت کے حوالے کرنے کا سوچ لیا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
”جی تو ناظرین آپ کو بتاتے جائیں FB کمپنی کے اونر فواد بلوچ کا رات بے دردی سے قتل ہو چکا ہے – جبکہ لاش کے بازوپر لکھے بی ڈی اور آنکھوں میں کھوپے گئے چاکو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فواد بلوچ کا قتل بی ڈی نے ہی کیا ہے مگر پولیس بی ڈی ڈھونڈنے میں ناکامی کا مسلسل سامنہ کر رہی ہے “ نیوز رپورٹر کی بات سن ارم کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آئی تھی – ” کیا سچ میں Oh my god امی بابا آپ نے سنا ابھی رپوٹر نے کیا کہا “ ارم نے خوشی سے چورلہجے میں امی ابو سے کہا جن کے چہروں بھی ارم کی طرح خوشی سے چمک رہے تھے –
”ہاں سچ میں ارم میں تو کل رات کی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ اگر یہ فواد بلوچ آکر ہم سے لڑنے بیٹھ گیا تو کیا کریں گے اور
اس کے پیسے کہاں سے واپس کرتے جو ہم نے آدھے سے زیادہ خرچ بھی کر لیے ہیں “امی کی بات سن ارم نے ہلایا -” بس پھر کل اسی وجہ سے نہیں آیا ہو گا وہ وہاں چلو ہمیں کیا ہمارا تو وہ حساب ہو گیا ہے سانپ بھی مر گیا لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ہاہاہا “ اپنی بات کہتے آخر میں اس نے قہقہہ لگایا جس میں امی اور بابا کے قہقہے بھی شامل ہوئے –
”بلکل ٹھیک کہا بیٹا ہمارے تو ایک وارے نیارے ہو گئے مومل سے بھی جان چھوٹی اس کی جائیداد بھی ہماری اور فواد سے پچاس لاکھ بھی ہمیں مفت میں ملا “ اکبر صاحب نے ارم کی ہاں میں ہاں ملاتے کہا اور پھر سے ہال میں ان تینوں کے قہقہے گونجے اس بات سے بے خبر کہ اللّہ نے کسی کی پکر کرنی ہو تو اس کی رسی یوں ہی ڈھیلی چھوڈتے ہیں –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بی ڈی اس وقت اپنے گھر والے آفس روم میں بیٹھا تھا – یہ روم پیلس میں خوفیہ حیثیت رکھتا تھا کیوں کہ اس کے بارے میں صرف بی ڈی ڈینجر اور بی ڈی کی بہن جانتے تھے – بی ڈی کے روم کے ساتھ اٹیچ لائبریری میں رکھی ایک کتاب اس دروازے کا لاک تھا جسے تھوڑا سا سرکاتے ہی لائبریری کی ایک دیوار درمیان سے سرکتی ایک دروزے کی طرح کھلتی تھی جس سے اس آفس میں داخل ہویا جاتا اس کتاب کا علم بھی ان تینوں کو ہی تھا –
کل ساری رات اور آج کا پورا دن بھی وہ سمندری آنکھیں اس کی آنکھوں کے سامنے سے جا ہی نہیں رہی تھیں – اور اس بات پر اسے الگ سے غم کھا رہا تھا کہ وہ آنکھیں دیکھنے کی
صلاحیت نہیں رکھتی تھیں نا جانے کیوں مگر اس کا دل شدت سے چاہا کہ وہ ان آنکھوں میں اپنا عکس دیکھے – وہ جتنی کوشش کرتا ان آنکھوں کو بُھلانے کی مگر اتنی ہی ناکامی کا اسے سامنہ کرنا پرتا – اب تو اس کا ضبط بھی جواب
دے چکا تھا اور وہ اچانک آفس روم سے باہر نکل اپنے بیڈ کے پر پڑا پسٹل اُٹھا کر غصے سے بھرا وجود لیے کمرے سے بھی باہر نکل گیا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ جو بی ڈی سے کچھ بات کرنے اس کے کمرے میں جا رہا تھا مگر اسے اپنے کمرے سے غصے میں نکلتا دیکھ اس کے پاس آیا جس نے ہاتھ میں
گن بھی پکر رکھی تھی – بی ڈی کہاں جا رہے ہو اس طرح غصے میں ؟؟ اس نے جلدی سے اس کی بازو پکر کر بی ڈی سے پوچھا – ”حمدان سائیڈ پر ہو جا میں اسے زندہ نہیں چھوڈوں گا “ بی ڈی نے اسے سائیڈ کر جانے
کی کوششش کی – ” ارے بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے اور کیسے مارنے جا رہے ہو رات کے بارہ بجے “اس نے پھر سے اسے روکنے کی کوشش کرتے پوچھا – ”اس لڑکی کو مارنے جا رہا ہوں جس نے کل رات سے جینا حرام کر رکھا ہے میرا “ بی ڈی نے غصے سے بھرا لہجے میں کہا –
کون سی لڑکی ؟؟کہیں وہ رات والی لڑکی تو نہیں ؟؟ کیا نام تھا اس کا ….. ہاں یاد آیا مومل ہاں کہیں اس کی بات تو نہیں کر رہے تم ؟؟ حمدان نے حیرت سے پوچھا بھلا اب اس لڑکی نے کیا کر دیا جو بی ڈی اسے مارنے پر اتر آیا تھا – ”کل رات سے اس کی آنکھوں بار بار میرے زہن میں آرہی ہیں جتنا اسکے خیال کو جھٹلاٹا ہوں اتنا خیال زیادہ آتا ہے اور مجھے یہ منظور نہیں کہ کوئی میرے دماغ پر حاوی ہونے کی کوشش کرے “ ”تمہیں یاد ہے نہ مینے تم سے کہا تھا جس دن کسی نے میری سوچوں پر قابض ہونے کی کوشش کی اسے اسی دن اس دنیا سے ختم کر دوں گا “ بی ڈی کی بات سن حمدان کو پچھلے سال کا واقع یاد آیا جب اس نے بی ڈی سے پوچھا تھا کہ اگر اسے پیار ہو گیا تو وہ کیا کرے گا – جس کے جواب میں بی ڈی نے نہایت سفاکیت سے جواب دیتے کہا تھا ” پیار تو دور کی بات اگر کسی نے میری سوچ پر بھی قابض ہونے کی کوشش کی تو اسے اسی دن اس دنیا سے ختم کر دوں گا “ ابے تو واقع اسے مارنے جا رہا ہے ؟؟ ” تو پاگل تو نہیں ہو گیا نہ ہم نے آج تک کسی بے گناہ کو نہیں مارا اور وہ بے چاری تو پہلے ہی اپنوں کی ستائی ہوئی ہے اور تم اسے مارنے کی بجائے اس کے بارے میں سوچنا بند کرو “ہاں ہاں پتا ہے کوشش کرتے ہو پر نہیں نکلتی سوچوں سے پر تم خود کو کام میں بزی کر لو
“وہ جو اسے سمجھا رہا تھا نہ سوچنے کی صلاح دینے پر جب اسے بی ڈی نے خونخار نظروں سے دیکھا تو جلدی سے صفائی دینے لگا -” دیکھو بی ڈی تب مینے تمہیں کہا تھا کہ اسے یہاں مت رکھو مگر تم نے اپنی سنی مینے اس کے بارے میں ساری معلومات نکلوائی ہیں وہ واقع معصوم ہے اور بہت دکھوں سے گزری ہے “اگر اسے یہاں پر کوئی تکلیف ہوئی تو ؟؟ ” کیا تم بھول گئے کہ تم نے ہی کہا تھا اس کے لیے سب سے سیف جگہ
یہ پیلس ہے “ تو کیا تم اب اپنے ہی مہمان کو مارو گے ؟؟اسے تکلیف پہنچاؤ گے ؟؟ حمدان کی بات بی ڈی کو بھی سہی لگی اب اس میں اس لڑکی کا تو کوئی قصور نہیں تھا اس کا اپنا قصور تھا جو اس کے خیال سے نکل نہیں پا رہا تھا مگر اسے حمدان کا مشورہ سہی لگا کام میں بزی رہنے کا – یہ بات بھی سہی تھی کہ اس لڑکی کو اس نےخود رہنے کی اجازت دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ پیلس سیف ہے اس کے لیے تو وہ اپنے بے قصور مہمان کو کیسے تکلیف پہنچا سکتا تھا – ” اوکے تم جاؤ کمرے میں اور بے فکر رہو میں بھی سونے جا رہا ہوں “حمدان کے کندھے پر تھپکی دے کر کہتے وہ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا – بی ڈی کے جاتے ہی حمدان کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آئی – ” میں نہ کہتا تھا کچھ تو گڑبڑ ہے اوہو بی ڈی کو بھی کوئی بے بس کر سکتا ہے واہ مزہ آ گیا بس اب کل میری پاٹنر بھی آ جائے گی اسے بھی یہ گڈ نیوز دوں گا سن کر خوش ہو گی ہاہاہا “ اپنی پلانگ بناتا وہ بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ارم نے اپنی طرف سے احمد کو مومل کے خلاف کرنے کی پوری کوشش کی – جبکہ احمد کی سمجھ میں خود نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے – جو بھی تھا مگر اسے مومل پر یقین تھا وہ کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتی تھی کسی کے ساتھ بھاگ جانا تو دور کی بات تھی – ارم کے سںامنے تو احمد خاموش رہا مگر دل ہی دل میں اصل بات جاننے کا فیصلہ کر چکا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اج پھر مومل نے ناشتہ اپنے کمرے میں ہی کیا تھا جبکہ اس وقت حمدان اور بی ڈی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور ہی شرارتی نگاہیں بی ڈی کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں – ” حمدان اگر تم نہیں چاہتے کہ میں تمہاری یہ انکھیں تمہارے چہرے سے جدا کر دوں تو میری طرف دیکھنا بند کر کے چپ چاپ اپنا ناشتہ کرو“ اخر جب بی ڈی کا صبر جواب دے گیا تو اس نے دھمکی بھرے لہجے میں حمدان کو وارن کرتے ہوئے کہا –
جبکہ بی ڈی کی دھمکی سن ہمدان بھی اچھے بچوں کی طرح اپنا ناشتہ کرنے لگا لیکن یہ شرافت بھی کچھ لمحوں کے لیے تھی ہمدان اپنی شرارتی نظریں تو کنٹرول کر چکا تھا مگر تھوڑی ہی دیر بعد شرارتی انداز میں اپنے باورچی خان بابا کو بلانے لگا جو اس کی دوسری پکار پر ہی اس کے سامنے موجود تھے – خان بابا آپ نے وہ گانا سنا ہے ؟؟ اس نے خان بابا کو بڑے راز دارانہ انداز میں پوچھا جبکہ بی ڈی اپنی داہنی آبرو اچکائے ناشتہ چھود اسے دیکھنے لگا جیسے جاننا چاہتا ہو کہ حمدان آخر کرنا کیا چاہتا ہے – کون سا گانا صاب جی خان بابا نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا کہ آخر وہ کس گانے کی بات کر رہا تھا – ارے وہ ہی خان بابا آنکھ اُٹھی محبت نے انگرائی لی دل کا سودہ ہوا چاندنی رات میں تیری نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا لٹ گئے ہم تو پہلی محبت میں اس سے پہلے کہ حمدان انہیں پورا گانا گا کر سناتا بی ڈی کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ جلدی سے اپنی جان بچا کر طرف بھاگا اس سے پہلے کہ وہ دروازہ عبور کرتا اندر داخل ہونے والی ہستی کو دیکھ اس کے قدموں کو بریک لگی –
پاٹنر !! اس نے بلند آواز میں کہتے اپنی باہیں پھیلائیں مگر وہ اسے اگنور کیے آگے بڑ کر بی ڈی کے گلے لگی تھی – کیسے ہیں بھائی ؟؟ ” میں نے آپ کو بہت مس کیا “ اس نے لاڈ سے بی ڈی کے گلے لگتے پیار سے کہا – ” میں بلکل ٹھیک بیٹا “ تم سناؤ تمہارا مشن ٹوئر کیسا رہا ؟؟ بی ڈی نے بھی نرم لہجے میں اس سے پوچھا – ” فرسٹ کلاس رہا ویسے بھی میں اپنا مشن پورا کر کے ہی رہتی ہوں چاہے کتنا مشکل کیوں نہ ہو سارے ثبوت لے آئی ہوں اس موٹو پلس ٹکلے کے ہاہاہا “ وہ فخر سے اپنی کارکردگی بتاتے ہسنے لگی مگر اس کی ہسی کو کسی کی آواز نے روکا تھا – مشل کی بچی !! وہ جو تب سے اپنے آپ کو اگنور کیے جانے پر اسی جگہ صدمے میں کھڑا تھا ہوش میں آتے ہی اس نے چیختے ہوئے اس کا نام پکارتے تن فن کرتا اس کے پاس پہنچا – ” کمینی عورت میں یہاں تمہارے آنے کا بے صبری سے انتظار تھا انگلیوں پر گن گن کر دن گزارے ہیں مینے اور تم مجھے ہی اگنور کر رہی ہو “ اس نے لہجے میں غصہ اور دکھ سموئے اس پر چڑھائی کی جبکہ مشل کو اس کی حالت مزہ دے رہی تھی – مگر وہ اسے ناراض نہیں کر سکتی تھی اس لیے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنے ناراض بڈی کے زبردستی گلےلگتی اسے منانے کی کوشش کرنے لگی –
جو اس ٹائم فل غصے میں اسے اپنے سے دور کر رہا تھا – مگر مشل جانتی تھی یہ ناراضگی صرف کچھ دیر کی ہی تھی – ” بس نہ بڈی اب اچھے بچوں کی طرح مان جاؤ ورنہ مینے اپنے والے طریقے سے منانا ہے “ مشل نے اسے گُدگدی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھاتے دھمکی بھرے لہجے میں کہا – اس کی دھمکی کام بھی کر گئی تھی
اور حمدان فوراً اپنی پٹری پر واپس آیا تھا – ” اچھا اچھا ٹھیک ہے مگر نیکسٹ ٹائم ایسا نہ ہو “
اس نے مشل کو وارن کرتے کہا – ان دونوں کو آپس میں مصروف دیکھ بی ڈی تاسُف سے سر ہلاتے وہاں سے جا چکا تھا کیوں کہ یہ تو ہر بار کا ڈرامہ تھا جب بھی مشل کچھ دن بعد گھر آتی تھی یہی سین روپیٹ ہوتے جبکہ
حمدان تو موقع کی تلاش میں تھا بی ڈی کے پیلس سے باہر قدم رکھتے ہی اس نے مشل کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھاتے اسے پچھلے دو دنوں کی روداد سنانے لگا – پہلے تو مشل کو لگا کہ وہ مزاق کر رہا ہے مگر اس کا بڈی اس طرح کا مزاق تو نہیں کر سکتا تھا – اب تو اسے بھی اس لڑکی سے ملنا تھا جو اس کے بھائی کو قابو کرنے کا ہنر رکھتی تھی مگر پہلے اس کا ارادہ فریش ہونے کا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مشل کی تھوڑی ہی دیر میں مومل سے اچھی دوستی ہو گئی تھی اسے مومل ہر لحاظ سے اپنے بھائی کے لیے پسند آئی تھی – بی ڈی کی طرح اسے بھی مومل کی آنکھیں دیکھ یہی دُکھ کھائے جا رہا تھا کہ وہ دیکھنے کی نعمت سے محروم ہیں مگر مومل اسے بہت پسند آئی تھی اور مومل بھی اس اے مل کر بہت خوش تھی پہلے تو اسے یہی پریشانی تھی کہ ملازمہ کے علاوہ یہاں کوئی اور عورت نہیں تھی پر مشل کے آنے سے اس کی پریشانی دور ہو گئی تھی اسے اپنی یہ نئی دوست پسند آئی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اس وقت اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ماموں لوگوں کا حشر کر دے -اسنے آج ہی ماموں لوگوں کی باتیں سنیں تھیں مومل کے لاپتہ ہونے پر اسے ماموں لوگوں پر شک تو پہلے ہی تھا پر ان کی باتیں سن کتنی ہی دیر وہ یقین نہ کر پایا تھا کہ وہ لوگ مومل کو پیچ چکے تھے مگر اگلی
بات پر اسے اور پریشانی نے آگھیرا تھا – اگر مومل وہاں سے بھاگ گئی تھی تو وہ اس وقت کہاں ہو گی اسے حد سے زیادہ مومل کی فکر ہو رہی تھی –
دارلامان ہوسپٹل ہر وہ جگہ جہاں اس کے ملنے کے چانسز تھے اسنے پتا کروایا تھا مگر کوئی فائیدہ نہ ہوا پولیس میں بھی اس نے ایف آئی آر درج کروا دی تھی مومل کے لاپتہ ہونے کی مگر ابھی تک مومل کی کوئی بھی خبر نہیں تھی – ماموں لوگوں پر اس کا غصہ الگ سے بڑھ رہا تھا وہ پولیس میں کمپلین کرتا مگر اس کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اور یہیں وہ بے بس تھا – مگر وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا – اسے مومل کو ڈھونڈننا تھا اپنی گڑیا کو ڈھونڈننا تھا – اسکی کوئی بہن نہیں تھی مگر مومل کو اسنے ہمیشہ اپنی بہن سمجھا تھا –
وہ اچھے سے جانتا تھا ماموں لوگوں کا مومل سے رویہ اسی لیے امریکہ کی بجائے اسنے پاکستان رہنے کو فوقیت دی تاکے مومل کو سپورٹ کر سکے مگر اسکے امریکہ جاتے ہی ماموں لوگ اپنا کھیل کھیل گئے تھے –
اسے بس اب اپنے اللّہ سے امید تھی ایک وہی تو ہیں جو اپنے بندوں کی سنتے ہیں اور ان کی ہر مشکل میں مدد کرتے تھیں اور اسے یقین تھا مومل کو بھی اللّہ جی نے اپنی حفاظت میں رکھا ہو گا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ہال میں دیوار پر لٹکی گھڑی اس وقت رات کے دس کا ہندسہ دکھا رہی تھی – بی ڈی اور حمدان ابھی ڈنر شروع کرنے ہی لگے تھے کہ مشل مومل کو اپنے ساتھ زبردستی کھنچتی دائینگ ٹیبل پر لے آئی – بی ڈی نے بڑی گہری نظروں سے اس ساحرہ کو دیکھا تھا جس کے سحر سے وہ چاہ کر بھی خود کو آزاد نہیں کر پا رہا تھا – ” چپ چاپ بیٹھو یہاں اور ڈنر کرو “ ہر وقت کمرے میں بند پتا نہیں کیسےرہ لیتی ہو ؟؟ مشل نے اسے بی ڈی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھاتے ہوئے کہا –
” مجھے عادت ہے مشل آپی احمد بھائی بھی یہی کہتے تھے کہ مومل کمرے سے باہر نکلا کرو پر میرا دل نہیں کرتا “ اس نے سادہ سے لہجے میں کہتے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں اُلجھائی تھیں –
” اوہ مائے گوڈ مومل تمہارے نیلز کتنے پیارے ہیں ان کی شیپ کتنی پیاری بنائی ہے تم نے “ مومل کے نیلز
دیکھ مشل ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی – ” میں نے نہیں بنائی آپی احمد بھائی بناتے تھے ہر اتوار کو وہ میرے نیلز کی شیپ درست کرتے تھے “ مومل نے اسے تفصیل بتاتے کہا – ” اوہ اچھا ! ویسے احمد تمہارہ بھائی ہے کیا ؟؟؟ پر تم تو کہہ رہی تھی تم اکلوتی بیٹی تھی اپنے موم ڈیڈ کی “
مشل نے جب اس کی ہر بات میں احمد کا نام سُنا تو تجسس کے تحت پوچھ لیا جبکہ اس دوران حمدان اور بی ڈی کھانا کھانے کے ساتھ ان دونوں کی گفتگو بھی دیہان سے سن رہے تھے بی ڈی کو بھی بار بار مومل کی زبان سے احمد نامی لڑکے کا زکر اچھا نہیں لگ رہا تھا – مشل کے پوچھنے پر اس کی نظریں بھی مومل
کے بے داغ چہرے پر ٹک گئیں تھیں جیسے وہ بھی جواب سننا چاہتا ہو – ” نہیں آپی وہ میرے سگے بھائی نہیں ہیں میری پھپھو کے بیٹے ہیں پر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں بلکل چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے مجھے تایا ابو لوگوں کی ڈانٹ اور مار سے بھی بچاتے تھے –
آپ دیکھنا وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے پھر مجھے لے جائیں گے اور میں یہاں سے چلی…..“ ” بس بند کرو اپنی بکواس باتیں اور کھانا شروع کرو دونوں “ اس سے پہلے کہ مومل اور کچھ بولتی بی ڈی کا صبر جواب دے گیا تھا اس نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ڈھارتی آواز میں کہا – جبکہ مومل جو تب سے سمجھ رہی تھی کہ وہ اور مشل اکیلی ہیں بی ڈی کی
دھاڑ پر پوری کانپ گئی تھی – مشل بھی جلدی سے اپنے لیے کھانا نکالنے لگی – ” کول ڈاؤن بی ڈی کیا ہو گیا ہے وہ بات ہی تو کر رہی ہیں “جبکہ حمدان کے سمجھانے والے – انداز پر بی ڈی نے اسے غصے سے دیکھا تھا اور حمدان صاحب کے اندر کی بزرگانہ روح فوراً سے پہلے اپنا بوریا بستر باندھ نو دو گیارہ ہوئی تھی –