قسط: 3
” چلو بھی مومل کہا نہ بھائی کچھ نہیں کہیں گے کل تو اس لیے ڈانٹ دیا کیوں کہ انہیں پسند نہیں ہے کھانے کے وقت باتیں کرنا ورنہ میرا بھائی بہت کیوٹ ، پولائٹ اور بہت اچھے ہیں “ مومل جو باہر ڈائینگ ہال جانے سے منع کر رہی تھی مشل نے اسے منانے کی بھر پور کوشش کرتے آخر میں دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولا – ” آپی مجھے ڈر لگتا ہے آپ کے بھائیوں سے میں نہیں جا رہی باہر میں کمرے میں ٹھیک ہوں “ مومل نے پھر سے صاف انکار کیا تھا -” پہلے تو مجھے آپی بولنا بند کرو میں صرف تم سے دو سال بڑی ہوں اور دوسری بات تمہاری پہلی ملاقات اچھی نہیں رہی نہ ان سے اس لیے ڈر رہی ہو مگر سچ میں میرا یقین کرو میرے بھائی بہت اچھے ہیں چلو تم میرے ساتھ اب میں تمہاری کوئی بات نہیں سن رہی چلو جلدی جوتا پہنو “ مشل نے اس کا ہاتھ پکڑ بیڈ سے نیچے اتارتے اسے کہا اور مومل بھی خاموشی سے اس کی بات ماننے لگی – سب لوگ ناشتہ کر کے فارغ ہو چکے تھے مشل اور مومل ہال میں دوسرے سے باتوں میں مصروف بیٹھی تھیں جبکہ پاس ہی ہمدان اور بی ڈی کسی موضوع پر بحث کر رہے تھے – ” بھائی اپ کو پتہ ہے اج مومل ناشتے کے لیے نہیں ارہی تھی کیونکہ اسے لگتا ہے اپ اسے پھر سے کل کی طرح ڈانٹیں گے حالانکہ اپ نے اسے اکیلی کو تو نہیں ڈانٹا تھا مجھے بھی ساتھ ڈانٹا تھا پر یہ بیچاری تو صبح ا ہی نہیں رہی تھی زبردستی لے کے ائی ہوں “ وہ دونوں جو ایک دوسرے کے ساتھ کسی امپورٹنٹ بات پر بحث کر رہے تھے مشل کی بات پر دونوں نے بیک وقت مومل کی طرف دیکھا تھا –
” ارے سسٹر اپ ہم سے کیوں ڈر رہی ہے اگر اپ اس دن کے واقعے کی وجہ سے ڈر رہی ہیں تو ائی ایم سو سوری دراصل اس دن ہم نے اپ کو غلط سمجھا تھا لیکن اب دیکھیں نا ہم نے اس کے بعد اپ سے کسی طرح کی کوئی سختی نہیں کی اس دن ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی اور دیکھیں اگر اس دن وہ غلط فہمی نہ ہوتی تو نہ جانے اپ اس وقت کہاں ہوتیں کہاں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوتیں جو کچھ ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے اور مجھ سے ڈرنے کی تو بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ میں بہت نائس پرسن ہوں نہیں یقین تو مشل سے پوچھ لیں ہاں اپنی اپنی ڈیوٹی پہ ہوتا ہوں تو میں سخت ہو جاتا ہوں کیونکہ ڈیوٹی کے اگے کوئی چیز نہیں اور اگر ڈیوٹی پر تھوڑا سا بھی نرم پڑ جاؤں نا تو یہ بی ڈی میری جان نکال دے گا کیونکہ اسے پسند نہیں نا کام کے وقت مستیاں ویسے میں بڑا چل پرسن ہوں “ مشل کی بات کا بی ڈی نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن حمدان نے فورا سے اپنے اپ کو کلیئر کرنے کی کوشش کی جب کہ اس کی بات پر مومل ہلکا سا مسکرائی تھی اور بی بی کہ دل سے یہ اواز ائی تھی کہ کاش یہ وقت تھم جائے اور وہ اس ہوشربا کو ہمیشہ ایسے ہی دیکھتا رہے –
” ہاں بالکل مومل تو میں اس انسان سے ڈرنے کی تو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے یہ تو پورے کا پورا نمونہ ہے اور اگر یہ تمہیں کچھ کہے نا تو تم مجھے بتانا اس کی ہڈی پسلی توڑنا میرا کام ہے “ مشل کی بات پر ہمدان نے اسے گھورا اور پھر سے مومل سے مخاطب ہوا – ” اس ڈائن کی باتیں نہ سنو یہ تو ویسے بھی مجھ سے جلتی ہے پوری کی پوری بلبتوری ہے “ حمدان نے بھی اپنا پورا بدلہ نکالا تھا جبکہ مشل کا منہ تو اس بستی پر پورے کا پورا سرخ ہو چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس سے کوئی کرارہ جواب دیتی بی ڈی نے ان دونوں کو چپ کروایا تھا – ” بند کرو تم دونوں اپنی بکواس اور مس مومل آپ بےفکر رہیں یہاں اپ کو کوئی بھی ہرٹ نہیں کرے گا ان فیکٹ اس دن کے لیے سوری ہمیں واقعی ہی غلط فہمی ہوئی تھی ہم اپ کو کوئی جاسوس سمجھ کر اٹھا لائے تھے لیکن یہاں میں ہمدان کی بات کو دہراؤں گا کہ واقعی جو ہوتا ہے ہماری بہتری کے لیے ہوتا ہے اگر اس دن ہم اپ کو نہ لاتے تو یقینا یا تو وہ لوگ اب تک پہنچ جاتے جن سے بچنے کے لیے آپ بھاگیں تھیں یا پھر کسی اور انسان نما جانور کا اپ شکار بن جاتیں ائی ہوپ اپ سمجھ چکی ہوں گیں “ بی ڈی کی بات سن مومل نے اہستہ سے اپنی گردن ہاں میں ہلائی یعنی واقعی میں وہ ان کی بات کو سچ مانتی تھی –
اپ صحیح کہہ رہے ہیں میں نے اس وقت اپنے اللہ سے مدد مانگی تھی اور اپ اللہ کی بھیجی ہوئی مدد ثابت ہوئے میں اپ کا یہ احسان کبھی نہیں اتار پاؤں گی بی ڈی بھائی “
ایان خان !!
” میرا نام ایان خان ہے اور دوسری بات میں تمہارا بھائی نہیں سو اج کے بعد میرے نام کے اگے یہ بھائی کا دم چھلا مت لگانا بی بی نے اس کی بات بیچ میں ٹوکتے اپنا نام بتایا جب کہ مشل اور حمدان کی انکھیں پوری کی پوری کھلی رہ چکی تھیں بی ڈی کب کسی کو اپنا نام لینے دیتا تھا یہاں تک کہ حمدان اور مشکل کو بھی اس چیز کی اجازت نہ تھی مشل تو ویسے ہی اسے بھائی کہتی جب کہ حمدان تو ایک بار بی ڈی سے مار بھی کھا چکا تھا اس کا نام لینے پر – مومل کو سمجھ نہ ایا کہ وہ بی ڈی کو کیا کہے اسی لیے اس نے خاموش رہنا بہتر سمجھا – بی بی کو اٹھ کر جاتا دیکھ مشل اور ہمدان تیر کی تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے گئے اخر اب اس سے حساب بھی تو لینا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::
” رکو بی ڈی ہماری بات سنو “ وہ جو بھی اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا ہمدان کی آواز سن اس نے پلٹ کر دیکھا جہاں ہمدان اور مشل اپنے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے انکھیں چھوٹی کی ہے اسے دیکھ رہے تھے – کیا؟؟ اس نے ان دونوں کو خود کو گھورتا دیکھ کندھے اچکاتے پوچھا – ” یہ کیا کہہ رہے تھے تم نیچے ایان خان تمہارا نام ایان خان ہے اور ہم تمہیں ایان بلائیں تو ہمیں مار پڑتی ہے ہاں حالانکہ ہم تمہارے رشتے دار ہیں میں تمہارا کزن اور یہ تمہاری بہن ہے لیکن ہمیں تمہارا نام لینے پر پابندی ہے اور اس کل کی ائی لڑکی کو تم اپنا نام لینے دے رہے ہو بی ڈی یہ تو زیادتی ہوئی “ ہمدان نے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ گھماتے ہوئے ایکٹنگ کرنے کی اخیر کی تھی جبکہ مشل اس کی باتوں پر ہاں میں سر ہلا رہی تھی جیسے اس کا بھی یہی نقطہ نظر ہو بی ڈی کو تو ان دونوں کو دیکھ ہنسی ا رہی تھی لیکن وہ ہونٹوں کا کونا دانتوں میں دبائے اپنی ہنسی چھپا گیا تھا –
” تم لوگوں کو اس سے کیا پرابلم ہے میری مرضی میرا نام میں جس سے مرضی کہوں اسے لینے پر جس پر مرضی پابندی لگاؤں میرا نہیں خیال کہ تم لوگوں کا اس پر لڑنا بنتا ہے اور ویسے بھی بی ڈی میرا نام دہشت کا نام ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میری ہونے والی بیوی مجھ سے ڈر کر مجھے پکارے میں چاہتا ہوں وہ میرا نام محبت سے لے مجھے چاہت سے پکارے بی ڈی کی بات سن پہلے تو ہمدان اور مثل نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا لیکن جیسے ہی بات سمجھ میں ائی وہ دونوں بی ڈی کو دیکھ ایک دم چیخ پڑے واٹ ؟؟ ہونے والی بیوی ؟؟کیا سچ میں؟؟ انہیں سمجھ نہیں ارہا تھا وہ کیسے ری ایکٹ کریں جب کہ بی ڈی نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے کندھے اچکائے – ” بس مینے فیصلہ کر لیا ہے شادی کا اب اور اپنے جزبات سے نہیں بھاگ سکتا وہ میری محبت ہے اور مجھے وہ اپنے زندگی میں چاہیے “ ” او بھائی اپ سوچ نہیں سکتے میں کتنی خوش ہوں یہ ہمدان تو کہہ رہا تھا کہ اپ اس سے شادی نہیں کریں گے جب کہ میں نے تو کہ دیا بھائی پسند کرتے ہیں تو شادی بھی کریں گے ہی مانتی ہوں کسی زمانے میں اپ نے کہا تھا کہ اپ کو شادی وادی کے چکر میں نہیں پڑنا لیکن بھئی بندے کا موڈ بھی تو چینج ہو ہی سکتا ہے اور سچ بتاؤں مجھے مومل بہت پسند ہے اور وہ تو میری دوست بھی بن چکی ہے اور بھائی میں اپ کو بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں “ مثل تو پاگلوں کی طرح اپنی ایکسائٹمنٹ بیان کرنے لگی لیکن پھر اچانک اس کے چہرے پر پریشانی چھا گئی –
” پر بھائی مومل کیسے مانے شادی کے لیے میرا مطلب کہ وہ نہیں مانے گی اس شادی پر “ مشل نے دماغ میں ائی بات بی ڈی سے کہہ دی جبکہ ہمدان نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی – ” اب یہ تمہارا کام ہے مثل کہ اپنے بھائی کی ہونے والی بیوی کو تم اپنے بھائی کی بیوی بننے پر کیسے مناتی ہو “ بی ڈی نے سارا کا سارا بوجھ مشل کے نازک کندھوں پر ڈال دیا جو صرف دکھنے میں نازک تھے – جب کہ بی ڈی کے کہنے پر مشل نے فورا بھاؤ میں اتے اپنی شرٹ کا کالر پکڑ کر کھڑا کرتے ہاں میں سر ہلایا – ” جی جی بھائی یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اپ نے ٹینشن نہیں لینی مومل کو منانا میرا کام بس اپ اپنی شیروانی پسند کریں ہم اسی ہفتے نکاح کریں گے اب اپ دیکھتے جائیں کہ میں مومل کو مناتی کیسے ہوں “ مشل کے کہنے پر بی ڈی نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے گلے لگایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر مشل نے کہہ دیا ہے تو اس کا مطلب وہ مومل کو منا لے گی – جبکہ مشل اور بی ڈی کو گلے لگتا دیکھ حمدان نے بھی مسکراتے ہوئے پیچھے سے انہیں ہگ کیا تھا – ان کی یہی تو چھوٹی سی دنیا تھی اور اب اس میں مومل نے بھی شامل ہونا تھا –
:::::::::::::::::::::::::
وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اخر مومل کو کیسے منانا ہے – بی ڈی کے سامنے تو کل اس نے شوخی دکھاتے حامی بھر لی تھی کہ مومل کو منانا اس کا کام ہے مگر اب حقیقت اسے اس بات کی پریشانی تھی وہ اخر مومل کو منائے تو منائے کیسے مگر اب جو بھی تھا اسے مومل کو منانا ہی تھا اخر اس نے شوخی جو مار دی تھی اور اپنے شوخی کا پاس بھی رکھنا تھا – ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کے اچانک اس کی انکھیں چمکی تھی جیسے اس کے شیطانی دماغ میں کوئی بہت اچھا جگاڑ ایا تھا اب اس کا رخ مومل کے کمرے کی جانب تھا – آخر دماغ میں ائی دلیلوں سے منانا بھی تو تھا اور اسے پورا یقین تھا وہ یہ کام اسانی سے کر لے گی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::
مومل اس وقت حمدان کے ساتھ لان میں بیٹھی چائے کی ساتھ باتیں انجوائے کر رہی تھی – اسے حمدان کے بارے میں مشل کی نمونے والی بات بالکل ٹھیک لگی تھی وہ تقریبا ادھے گھنٹے سے لان میں ہمدان کے ساتھ بیٹھی تھی اور اس ادھے گھنٹے میں ہمدان نے اسے اتنا ہسایا تھا کہ اب تو مومل کے پیٹ میں درد ہونے لگا تھا – وہ نہ جانے اسے کون کون سے قصے سنا رہا تھا اسے واقعی حمدان ایک جولی پرسن لگا احمد کی طرح وہ بھی اسے بالکل بہنوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا ابھی احمد اسے کوئی اور اپنا پرانا قصہ سنا کر ہنسنے پر مجبور کرتا اس سے پہلے مشل کی اواز نے حمدان کو خاموش ہونے پر مجبور کیا – ” مومل تم یہاں بیٹھی ہو میں تمہیں تمہارے کمرے میں ڈھونڈ رہی تھی “ مشل نے اتے ہی مومل سے سوال کرتے پاس پڑی کرسی کو اپنے بیٹھنے کے لیے سیدھا کیا – ” جی مشل دراصل حمدان بھائی مجھے یہاں لان میں لے ائے ویسے بھی میں کمرے میں بور ہو رہی تھی تو یہاں ان کے ساتھ اگئی تم سچ کہہ رہی تھی مشل ہمدان بھائی واقعی میں ہی بہت فنی ہیں انہوں نے تو مجھے ہسا کر پاگل کر دیا ہے “ مشل کی بات کا جواب دینے کے ساتھ ہی مومل ہنستے ہوئے ہمدان کے بارے میں بتانے لگی –
جبکہ یہ مشل کا ہی زور تھا جو مومل اس کے نام کے ساتھ اپ اور اپی کا دم چھلا ہٹا چکی تھی – ” ہاں بالکل میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا یہ بالکل نمونہ ہے “ مشل نے بھی کندھے اچکاتے حمدان کے بارے میں رائے دی – ” ہا ہا ہا ہو گئی تمہاری بکواس تمہیں تو ویسے ہی مجھ سے جلن ہوتی ہے جب دیکھو میرے بارے میں الٹا سیدھا بولتی رہتی ہو اگر میں نمونہ تو تم کیا ہو تم بھی تو نمونی ہو بلکہ تم بلبتوری ہو ائی بڑی مجھے کہنے والی کہ میں نمونہ ہوں “ مشل کی بات سن ہمدان کو تو جیسے اگ ہی لگ گئی جس کو اس نے اپنی زبان کے ذریعے باہر نکالتے مشل پر پوری کی پوری بمباری شروع کر دی – ” تم نہ اپنی بکواس بند رکھو ابھی مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی مجھے اپنی دوست سے بات کرنی ہے “ مشل نے اسے گھورتے ہوئے چپ کرواتے اپنا رخ مومل کی طرف کیا اخر اب اس سے بات بھی تو کرنی تھی – ” مومل مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے “ مشل نے اپنی بات کی تمہید باندھتے ہوئے مومل سے کہا ” ہاں کہو مشل اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے “ مومل نے سمائل پاس کرتے مشل کو بات جاری کرنے کا کہا –
” وہ دراصل مجھے تم سے پوچھنا تھا تمہارا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے میرا مطلب کہ تم نے کبھی سوچا ہے تمہیں کیسے لڑکے سے شادی کرنی ہے “ مشل کو سمجھ نہیں ا رہا تھا وہ اخر مومل کو اپنی بات کیسے سمجائے – جبکہ مومل اس کی باتوں پر حیران ہو رہی تھی – ” کیا مطلب شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے مجھ جیسی لڑکی کیا سوچے گی اور اگر میں سوچ بھی لوں تو میرے بارے میں کون سوچے گا اخر کون ایک اندھی لڑکی کو اپنی بیوی بنانا چاہے گا اور میں ایسی فضول باتیں نہیں سوچتی “ ” نہیں نہیں مومل ایسا تھوڑی ہوتا ہے اخر تمہیں شادی تو کرنی ہی ہے تم اتنی خوبصورت ہو کوئی بھی لڑکا تم سے شادی کرنے کے لیے راضی ہو جائے گا ویسے میرے پاس تمہارے لیے ایک بہت اچھا رشتہ ہے یقین کرو لڑکا تمہیں بہت خوش رکھے گا اور سب سے بڑی بات کہ تم ہمیشہ کے لیے میرے پاس رہ جاؤ گی پلیز یار تم شادی کے لیے ہاں کر دو “ مومل کی بات سنتے مشل نے جلدی سے اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے کہ کوئی بھی لڑکا اس سے شادی کے لیے راضی نہیں ہوگا اخر وہ اس کے بھائی کی محبت تھی وہ اس کو کیسے دس ہارٹ کر سکتی تھی –
” یہ اپ کیا کہہ رہی ہیں مشل میں نے کبھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی مجھے کوئی شادی وادی کرنی ہے “ مومل نے مشل کو منع کرتے ہوئے کہا – ” ارے کیوں نہیں کرنی شادی کیا ساری زندگی یوں ہی رہو گی پاگل لڑکی بنا شادی کے کیسے ساری زندگی گزارو گی تم خود ہی تو کہتی ہو تمہیں یہاں زیادہ دیر نہیں رہنا تمہارا وہ کزن برادر جلد ہی تمہیں ڈھونڈ لے گا اور اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن یار وہ اخر کب تک تمہیں اپنے ساتھ رکھے گا ایک دن تو اس کی بھی شادی ہونی ہے اور اگر اس کی بیوی اچھی نہ نکلی وہ تمہیں برداشت نہ کر سکی تو وہ تمہارا بوریا بستر اٹھوا کر گھر سے باہر نکلوا دے گی اور بھائی جتنے مرضی اچھے ہوں بیویوں کے انے کے بعد بدل ہی جاتے ہیں وہ تو پھر تمہارا کزن برادر ہے میں تمہیں بتا رہی ہوں نا میرے پاس بہت اچھا رشتہ ہے ان فیکٹ لڑکا بہت ہی اچھا ہے اور ہینڈسم بھی تم سوچ رہی ہو گی کہ کون سا لڑکا ہے میرے پاس تو یار میرا اپنا خود کا ہینڈسم بھائی حمدان کے بارے میں مت سوچنا میں اپنے بھائی کی بات کر رہی ہوں بی ڈی بھائی کی اوہ سوری تمہارے لیے تو وہ ایان ہیں نا تو بتاؤ تم کرو گی میرے بھائی سے شادی وہ تمہیں بہت خوش رکھیں گے اور تمہارے کزن کو تم نہیں مل رہی نا تو کیا ٹینشن میرا بھائی ہے نا وہ تمہارے کزن کو ڈھونڈ لے گا پھر اپنے بھائی سے مل لینا ایسے ہی اتنی بڑی دنیا میں وہ تمہیں کہاں ڈھونڈے گا اور اگر وہ تمہیں نہ ڈھونڈ پایا تو اسی لیے کہہ رہی ہوں شادی کر لو ویسے بھی میرا بھائی بہت اچھا ہے اور جانتی ہو وہ تمہیں پسند بھی کرتے ہیں “ مشل تو پوری رشتے والی انٹی ہی بن گئی تھی اس نے اج بس مومل کو شادی کے لیے راضی کرنا تھا زیادہ بولنے کی عادت تو اسے شروع سے تھی تو بس دلیلیں دینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا اور مومل کو بھی مشل کی بات بالکل ٹھیک لگی اخر کب تک وہ دوسروں کے سہارے پر رہتی اور احمد بھائی نہ ڈھونڈ پائے اسے تو اگر ڈھونڈ بھی لیا تو مشل کی بات بالکل ٹھیک تھی ان کی بھی تو شادی ہونی ہے اور اگر ان کی بیوی اسے پسند نہ کرے تو واقعی میں ہی وہ کہاں جائے گی –
” پر مشل میں کیسے ایان بھائی سے شادی کر سکتی ہوں میرا مطلب ایان سر سے اور تم نے کہا وہ مجھے پسند کرتے ہیں بھلا ایک شخص ایک اندھی لڑکی کو کیسے پسند کر سکتا ہے “ مومل نے پھر سے شادی سے ننھا سا انکار کیا – جبکہ اس بار مشل کی بجائے ہمداد نے اس کی بات کا جواب دیا جو کب سے وہ دونوں کی باتیں سن رہا تھا – ” مومل تم بالکل فکر نہ کرو مشل بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے بی ڈی واقعی تمہیں بہت پسند کرتا ہے اور وہ تمہیں بہت خوش بھی رکھے گا اس بات کی گارنٹی تو تمہارا یہ بھائی دیتا ہے میں نے تمہیں بہن کہا ہی نہیں بلکہ بہن مانا ہے اس لیے اپنے اس بھائی پر بھروسہ کرتے تم شادی کے لیے ہاں کرو “ ” اور ویسے اپس کی بات ہے بی ڈی سے شادی کر کے تمہیں بہت سے فائدے ہونے والے ہیں “ ہمدان نے اسے بھائی کا مان دیتے ہوئے شادی کے لیے راضی ہونے کو کہا اور اخر میں راز دارانہ لہجے میں شادی ہونے کے فائدے کے بارے میں بتانے لگا – اچھا وہ کون سے ؟؟ مومل نے حیرت سے پوچھا – ” مطلب تمہاری وہ ساری خواہشیں جو پوری نہیں ہوئی وہ تم بی ڈی سے کروا سکتی ہو “ اب کی بار مشل نے جواب دیا – مثلا ؟؟ مومل کو ابھی بھی سمجھ نہیں ائی تھی جبکہ اس کے اس طرح پوچھنے پر حمدان اور مشن نے ایک دوسرے کو شرارتی نظروں سے دیکھا – ان کی نظروں سے واضح تھا کہ اب بی ڈی کی خیر نہیں اور پھر دونوں مل کر مومل کو الٹی سی تھی پٹیاں پڑھانے لگے جو ان کے مطابق شادی کے فائدے تھے – مگر آنے والا وقت گواہ تھا کہ مستقبل میں بی ڈی کی خیر نہیں تھی اور وہ انہیں مومل کو شادی کے لیے منانے کا کہہ کر پچھتانے والا تھا –