Just for you

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

مشل اور حمدان نے مل کر مومل کو منا لیا تھا اور اب وہ دونوں بی ڈی کے ساتھ باہر گئے ہوئے تھے اپنی ٹریٹ لینے جس میں بی ڈی کی جیب خالی ہونے والی تھی مگر بی ڈی آج کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ مشل اور حمدان نے مومل کو منانے کی یہی شرط رکھی تھی – انہوں نے تو مومل کو بھی ساتھ آنے کا کہا تھا مگر مومل نے انکار کر دیا تھا اور اس وقت وہ اپنے کمرے بیٹھی بور ہو رہی تھی ان گزرے کچھ دنوں میں مشل نے اسے اکیلے رہنے ہی نہیں دیا تھا اب تو اس کا بھی کمرے میں دل گھبرا رہا تھا تو باہر جانے کا سوچتے اس نے بیڈ سے نیچے اتر چپل پاؤں میں پہنی تھی اس کا ارادہ لان میں جا کر تازہ ہوا میں بیٹھنے کا تھا اسے زیادہ تو نہیں پتا تھا کہ کتنے قدموں کے فاصلے پر کیا ہے مگر وہ کوشش کر سکتی تھی گھر میں ملازم بھی نہیں تھے جو وہ انہیں آواز دے کر بلا لیتی اس لیے خود ہی ہمت کرتی وہ کمرے سے باہر نکلی تھی اس کا ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھ رہا تھا ابھی اس نے چند قدم ہی اُٹھائے تھے کہ اس کا پیر سامنے پڑی کسی چیز سے بہت بُری طرح ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن بگرا اور وہ بُری طرح منہ کے بل گری تھی اور اس کا سر سامنے پڑے ٹیبل سے زور سے لگا – اور وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہوئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::
تقریباً آدھے گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تھا وہ ابھی بھی گھر میں اکیلی تھی اور وہیں زمین پر پڑی تھی اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں مگر یہ کیا اسے دھندلا دھندلا نظر آرہا تھا اس نے حیرت سے اپنی انکھوں کو چھوا تھا اور پھر سے بار بار آنکھیں بند کرتے کھولیں تھیں اب تو اسے بلکل صحیح نظر آرہا تھا – اسے سمجھ نہیں آرہا تھا آخر وہ کیسے ری ایکٹ کرے خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے اور اس وقت اس کی زبان سے یہی بات نکلی تھی ( ” بے شک تم اپنے مالک کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے “ ) وہ خوشی سے اپنے ہاتھوں کو الٹا سیدھا کر کے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر سامنے دیوار میں فٹ کیے ہوئے شیشے پر گئی وہ جلدی سے اٹھ کر اس شیشے کے سامنے جا کھڑی ہو گئی اور حیرت سے اپنا عکس دیکھنے لگی –
کیا واقع یہ عکس اس کا تھا ؟؟ کیا وہ واقع اتنی خوبصورت تھی ؟؟ وہ کبھی شیشے میں نظر آتے اپنے ہونٹوں کو چھوتی تو کبھی اپنی آنکھوں کو کتنے سالوں بعد اس نے اپنا عکس دیکھا تھا وہ خوش ہوتی پلٹی ہی تھی کہ گھر پر نظر جاتے ہی اسے پریشانی نے گھیر لیا تھا – وہ ان سب کو یہ بات نہیں بتا سکتی تھی کہ اس کی بینائی واپس آ چکی ہے ورنہ وہ لوگ نجانے کیا کرتے وہ مانتی تھی وہ سب بہت اچھے ہیں مگر اگر وہ انہیں بتاتی تو وہ سب اس پر شک کرتے کہ ایسے کیسے ممکن ہے کسی کی آنکھوں کی بینائی خود بخود واپس آ جانا اسے تو خود ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا تو دوسروں کا تو شک خود بنتا تھا – اب تو وہ شادی کے لیے بھی ہاں کر چکی تھی –
پر وہ اب انکار نہیں کر سکتی تھی اور ویسے بھی اگر اس کے انکار کرنے پر ان لوگوں نے اسے گھر سے نکال دیا تو وہ کہاں جائے گی تو اس سے بہتر تھا شادی کر لینا باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا اسے بس کسی کو پتا نہیں لگنے دینا تھا کہ اب وہ دیکھ سکتی ہے شادی کے بعد بھی نہیں –
::::::::::::::::::::::::::::
” یار مومل سچ میں بہت مزہ آیا ہمیں تم بھی ساتھ چلتی یار سچ میں بھائی کا منہ دیکھنے والا تھا آج سارے اگلے پچھلے حساب پورے کیے ہیں میں نے اور میرے بڈی نے – پوری جیب خالی کروا کر آئے ہیں بھائی کی “
مشل جو ابھی پیلس میں داخل ہوئی تھی سامنے صوفے پر مومل کو بیٹھا دیکھ اس کے پاس جاکر دھرم سے صوفے پر گرتے بتانے لگی – جبکہ مومل تو اس لڑکی کو دیکھتی رہ گئی تھی جو بلیک کلر کی پینٹ شرٹ پر ریڈ کلر کی جیکٹ پہنے اس کے ساتھ بیٹھی تھی بالوں کو ٹیل پونی میں قید کیے میک اپ سے پاک چہرے لیے وہ مومل کو اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور کر گئی تھی کہ سامنے موجود لڑکی خوبصورتی کی مورت تھی جبکہ بات کے دوران مسکراتے ہوئے اس کی گالوں پر پرتے ڈمپل اسے اور خوبصورت بناتے تھے –
لیکن اس پر کچھ بھی ظاہر کیے بغیر مومل اس کی بات پر فقط مسکرائی تھی – ” نہیں مشل میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں میرے باہر جانے کا کیا فائیدہ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں “
مشل سے بات کرتے اس نے بلکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ اب وہ دیکھ سکتی ہے – ابھی مشل اس سے کچھ اور کہتی کہ داخلی دروازے سے
حمدان اور بی ڈی داخل ہوئے بی ڈی تو آرام سے چلتا مشل اور مومل کے صوفے کے بلکل سامنے والے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا جبکہ حمدان سے تو چلنا مشکل تھا کیوں کہ اس کے دونوں بازو شوپنگ بیگ سے بھرے ہوئے تھے حتہ کہ اس کی گردن میں بھی شوپنک بیگ کی سٹرپ ڈالی ہوئی تھیں جو کہ یقینً مشل کے کام تھے وہ ہمیشہ اپنے شوپنگ بیگ حمدان سے ہی اٹھواتی تھی –
” پکرو اپنے بیگ میں تو تم دونوں بہن بھائی کا نوکر ہوں نہ جو سارے بیگ میرے حوالے کرتے خود نوابوں کی طرح اندر چلے آئے “ حمدان نے بی ڈی کے ساتھ بیٹھتے غصے سے سارے بیگ زمین پر رکھتے دونوں کو گھورتے کہا – جس کے جواب میں مشل نے اس کی طرف دل جلاتی سمائل پاس کی – مومل نے سامنے بیٹھے دونوں خوبرو نوجوانوں کو دیکھا حمدان کو تو وہ اس کی آواز سے پہچان چکی تھی جبکہ دوسرا یقینً ایان تھا جس سے اس کی شادی ہونی تھی اس نے اس پر بس ایک نظر ڈالی تھی اور جلدی سے نظریں جھکا گئی ایک تو اس کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی تھی دوسرا بی ڈی کی بے باک نظریں اسی پر تھیں جس سے وہ کنفیوز ہو رہی تھی –
” مومل تمہیں پتا ہے تمہارے شادی کے سارے جورے بھائی نے خود سلیکٹ کیے ہیں سچ میں یار بہت پیارے ہیں تم تو اس میں پوری کی پوری قیامت لگو گی “ مشل کی پہلی بات پر جہاں وہ حیران ہوئی تھی وہیں دوسری آخری بات پر اس کے گال گلابی ہوئے تھے – ” ہاہاہا اوہ مائے گاڈ مومل تم شرما رہی ہو – سو سویٹ یار “ مشل نے اسے پھر سے چھیرا تھا – اس کے شرمانے پر بی ڈی کے دل کی بھی بیٹ مس ہوئی تھی –
” مومل تمہیں مزے کی بات بتاوں کل سے شادی کے فنگشن شروع ہوں گے اور تمہارا یہ بھائی لڑکی والا ہو گا اور یہ چڑیل لڑکے والی ہو گی – کل مایوں کریں گے پرسوں مہندی اور اگلے دن جمعہ کو ہم نکاح کی رسم کریں گے پھر ہفتے کو ولیمہ ہوگا – تو چلو تمہارا ابھی سے پردہ شروع ہے بی ڈی سے “ حمدان نے اسے ساری تفصیل بتاتے آخر میں اسے کھڑا کیا تھا اور اپنے ساتھ اسے لے کر جانے لگا – کیا مطلب پردہ ہو گا ؟؟ بی ڈی نے ایکدم سے ان کا رستہ روکا تھا –
” اوہ ہیلو میں دلہن کا بھائی ہوں تو یہ میرا فیصلہ ہے کہ میری بہن سے تمہارا پردہ ہے اب جاؤ شاباش اپنا کام کرو “ بی ڈی کو کڑارا سا جواب دیتے حمدان مومل کو وہاں سے لے گیا تھا جبکہ بی ڈی کی حالت دیکھنے والی تھی جس کو دیکھ مشل سے اپنی ہسی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی – ” بات تو بلکل صحیح کہہ کر گیا ہے حمدان اب مومل کا آپ سے پردہ بنتا ہے اب جائیں شاباش کمرے میں اپنے اور آرام کریں دو دن کی ہی تو بات ہے پھر تو ہمیشہ کے لیے آپ کے سامنے اور پاس رہے گی –
بلکہ آرام کیوں کرنا ہے آپ نے تو آج اس ٹکلے کا کام تمام کرنا ہے نا میں بھیجتی ہوں اس حمدان کو کہ اس کے ڈینجر بننے کا وقت آگیا ہے “ بی ڈی کو کہتے وہ مومل کے روم کی طرف بڑھی تھی کیوں کہ حمدان مومل کو اس کے کمرے میں ہی لے کر گیا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::
اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں وہ وجود خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک کھڑکی سے دو وجود اندر داخل ہوئے – ” دیکھو تو اس ٹکلے کو کتنے غریبوں کی نیدیں حرام کر کے خود آرام سے سو رہا ہے “ حمدان جو اس وقت بلیک پینٹ پر بلیک ہڈی پہنے اور کالے رنگ کے کپڑے کو منہ پر نکاب کی طرح باندھے ڈینجر کے روپ میں تھا سںامنے بیڈ پر لیٹے گنجے آدمی کو دیکھ ہلکی آواز میں غصے سے بولا جبکہ بی ڈی بھی جو حمدان کے جیسے ہی گیٹ اپ میں تھا سرخ آنکھیں لیے سامنے لیٹے وجود کو دیکھ رہا تھا – بی ڈی کے اشارے پر ڈینجر نے آگے بڑھ کر اس آدمی کو جھنجوڑ کر اٹھایا تھا – کون ہے کون ہے ؟؟ اس آدمی نے ہر بڑا کر اٹھتے کہا – تیری موت !! بی ڈی سفاک لہجے میں جواب دیا – تتم بب..بی ڈ…ڈی ہو ؟؟ اس آدمی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا –
” ارے واہ بڑی جلدی پہچان گئے تم تو ویسے میں بھی ادھر ہی ہوں مسٹر ٹکلے “ ڈینجر نے اس کا دیہان اپنی طرف کراوایا – تم ککون ہو ؟؟ ” ارے مجھے نہیں پہچانا میں ڈینجر ہوں یار ڈینجر یعنی خطرہ اور جہاں بی ڈی ہو گا وہاں ڈینجر تو ہو گا نہ اور جہاں ڈینجر ہو گا وہاں بی ڈی ہو گا “ ڈینجر اس آدمی کے ساتھ بیٹھتے پہلی بات تو ا ایسے بولا جیسے اس کے بچپن کا دوست ہو مگر آخری بات کہتے اس کا لہجہ پُراسرار تھا – ” ہاں تو مسٹر حمدان سنا ہے آپ کو بڑا شوک ہے نہ لوگوں کی زمینیں ہتھیانے کا اور انہیں بلیک میل کرنے کے لیے ان کے گھر عورتوں کو بے آبرو کرتے ہو “ بی ڈی کو بات کرتے ہاتھ میں چاکو لیے اپنی طرف آتا دیکھ وہ آدمی جس کا نام بھی حمدان تھا ڈر کے مارے روتے بی ڈی کے پاوُں میں بیٹھ گیا –
” بی ڈی مجھے معاف کر پلیز معاف کردو میں سب کو ان کی زمینیں واپس کر دوں گا پر مجھے مت مارو “ وہ آدمی موت کو سامنے دیکھ زندگی کی بھیک مانگنے لگا – ” اچھا تجھے چھوڈ دیں تجھ کمینے کو جس نے خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیے اور اب خود موت کو دیکھ تمہیں ڈر لگ رہا ہے کمینے انسان “ بی ڈی کی بجائے ڈینجر نے آگے بڑھ اس شخص کے منہ پر دو تھپر لگاتے کہا جبکہ بی ڈی اپنے منہ سے کپڑا ہٹا چکا تھا جس کا مطلب تھا اب اس آدمی کی سانسیں ختم ہونے کا وقت آ چکا ہے – بی ڈی کی طرح ہمدان نے بھی اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا تھا اور اس آدمی کو
پکر بی ڈی سے کچھ فاصلے پر گھٹنوں کے بل بٹھاتے پیچھے سے اس کا منہ اُپر کیا جس سے اس کی گردن واضح ہوئی –
وہ آدمی اپنے آپ کو چھوڈانے کی کوشش کرتے چیخ رہا تھا مگر کمرہ ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے آواز کمرے سے باہر نہیں جا رہی تھی – ” گڈ بائے مسٹر حمدان “ بی ڈی نے اپنا چہرہ اس کے منہ کے قریب لاتے سفاکیت سے کہتے اگلے ہی لمہے اس کی گردن پر چاکو چلا چکا تھا جس سے اس شخص کا پورا وجود درد کی وجہ سے جھٹکے کھاتا نیچے زمین پر گرا تھا – ” مر گیا سالا میرے نام کو بدنام کرتا ہے “ ڈینجر نے اس کے تڑپ تڑپ کر مرنے کے بعد اس کی لاش کو دیکھ کہا – ” ہمم چلو ہم بھی چلیں “ بی ڈی نے اسے کہتے واپس اپنے چہرے کو کور کیا تھا اور ڈینجر بھی اپنے چہرے کو کور کرتے بی ڈی کے پیچھے کھڑکی کی طرف بڑھا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::
وہ وہاں گاڈی میں ان دونوں کا انتظار کر رہی تھی اس کا کام اس آدمی کے گھر اور اس کے آس پاس کے کیمروں کو ہیک کرنا تھا جو وہ سر انجام دے چکی تھی اور اب آرام سے گاڈی کی بیک سیٹ پر لیٹی مزے سے
اپنی فیورٹ سلنٹی کھا رہی تھی کہ وہ دونوں گاڈی میں آکر بیٹھے تھے –
” چلو مشل کیمروں کو صحیح کر دو کام ہو گیا “ حمدان نے پیچھے منہ کرتے اس سے کہا جس پر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود ٹیب پر کچھ انگلیاں چلائیں – ہو گیا بڈی ویسے مزے کی بات بتاوُں مینے کارٹون موویز ڈاونلوڈ کی ہے یہاں کسی کے وائے فائے کے سگنل بہت اچھے آرہے تھے اب گھر جا کر دیکھیں گے ساتھ کچھ سنیک بھی کھائیں گے پر تمہارے کمرے میں تم میرے کمرے میں گند بہت ڈالتے ہو “ مشل نے حمدان کو خوش ہوتے بتایا جس کے بدلے میں حمدان کا ری ایکشن بھی خوشی سے بھر پور تھا –
جبکہ بی ڈی جو گاڈی ڈرائیو کر رہا تھا ان دونوں پر تاسف کرتا رہ گیا جو ابھی تک کارٹون کے دیوانے تھے ایسا نہیں تھا کہ انہیں انٹر نیٹ کی سہولت نہیں تھی ان کے پاس ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی اس وقت بھی ان کی گاڈی میں ڈیوائس موجود تھی مگر ان دونوں کو مفت کی چیزوں سے عشق تھا اسی لیے آس پاس کے وائے فائے کو ہیک کرتے رہتے تھے – اب وہ جانتا تھا دونوں نے ہی گھر جاتے کمرے میں گھس جانا تھا اور ساری رات موویز دیکھنی تھی اور اگلا سارا دن انہوں نے سونا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial