Just for you

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

صبح کے نو بج رہے تھے اور وہ تینوں ڈائینگ ہال میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے – مومل کو ناشتہ کمرے میں دیا گیا تھا – حمدان مینے تمہیں ایک کام دیا تھا ؟؟ ہو گیا وہ کام ؟؟ بی ڈی نے حمدان سے اچانک سوال پوچھا – ” ہاں وہ کام ہو گیا بلکہ میں خود گیا تھا اور یقین سے کہہ رہا ہوں وہ کل آئے گا “ حمدان نے بریڈ کا آخری نوالہ نگلتے جواب دیا – وہ تینوں دائینگ ہال سے نکلے ہی تھے کہ تبھی داخلی دروازے سے کوئی داخل ہوا تھا -” ہائے ایوری ون دیکھو کون آیا ہے “ اندر داخل ہونے والی ہستی نے بلند آواز میں سب جو اپنی جانب متوجہ کرتے کہا – جبکہ وہ تینوں اسے حیرت اور خوشی سے دیکھ رہے تھے – مناہل تم یہاں ؟؟ سب سے پہلے مشل نے آگے بڑھ اسے گلے لگایا تھا –
” بس دیکھ لو مینے کہا کل تو میں جا نہیں سکی مہندی پر لیکن اج میں ٹائم سے پہلے جاوں گی اور دیکھو میرا ٹاٹم سے پہلے انا میں صبح صبح ہی آگئی – اور ابھی جانے والی بھی نہیں جلدی کچھ دن رُکوں گی “ مشل کو تفصیل سےجواب دیتے آخر میں اس نے اپنے بیگ کی طرف اشارہ کیا جو ساتھ لائی تھی -” کیوں نہیں مناہل تمہارے بھائیوں کا گھر ہے جب مرضی آو اور جتنے مرضی دن رہو کوئی نہیں روکے گا “ بی ڈی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بھائیوں والی بات حمدان کو دیکھ کہی جس پر اس نے پہلے تو ہاں میں سر ہلایا پر جیسے ہی بھائیوں والی بات پر دیہان گیا اس نے ترپ کر استغفار کہا تھا – جس پر مشل کا قہقہ بلند آواز گونجا جبکہ بی ڈی محض مسکرایا تھا جس سے اس کی دائیں گال کا دمپل واضح ہوا تھا – مناہل نے حمدان کو دیکھ آنکھیں گھمائیں تھیں اور اسے اگنور کر مشل کی طرف متوجہ ہوئی – ” مشی یار مجھے بھی ہماری بھابھی سے ملوا دو “ مناہل کے کہنے مشل اسے مومل کے کمرے میں لے گئی – جبکہ پیچھے حمدان بس بی ڈی کو گھور کر رہ گیا تھا جو جان بوجھ کر اسے مناہل کا بھائی بنانے پر تُلا تھا –
:::::::::::::::::::::::::
” ماشااللہ مشل بھابھی تو بہت پیاری ہیں بلکل گڑیا جیسی انہیں تو بھابی کہنے کا دل بھی نہیں کر رہا “ مناہل نے مومل کی دل سے تعریف کرتے کہا جبکہ مومل محظ مسکرائی تھی – اس کی نظروں کا زاویہ نیچے تھا جبکہ مناہل کو اس بات پر عجیب لگ رہا تھا کہ آخر وہ اسے دیکھ کیوں نہیں رہی -” ہائے بھابھی میرا نام مناہل ہے “ مناہل نے مومل کے سامنے اپنا ہاتھ کرتے کہا – مگر مومل نے کوئی رسپونس نہ دیا جس پر مناہل نے پہلے عجیب نظروں سے اسے دیکھا پھر مشل کو – ” سوری مناہل وہ دیکھ نہیں سکتیں “ مشل نے افسردہ آواز میں مناہل کو بتایا تھا –
جبکہ مناہل تو حیرت سے مومل کو دیکھ رہی تھی – ” مزاق مت کرو یار یہ کوئی مزاق ہے کرنے والا “ مناہل نے مشل کی بات کو مزاق سمجھ کر تھوڑے سخت لہجے میں کہا – ” نہیں وہ جھوٹ نہیں کہہ رہی میں سچ میں نہیں دیکھ سکتی “ اس بار مومل نے اسے جواب دیا -” اوہ مائے گوڈ یار مجھے یقین نہیں آرہا تمہیں دیکھ کر بلکل نہیں لگتا کہ تم دیکھ نہیں سکتی – میرا مطلب زرا بھی کسی کو شک نہیں ہوتا کہ تم دیکھ نہیں سکتی – ایم سو سوری مجھے پتا نہیں تھا “ مناہل نے پہلے حیرت اور پھر آخر میں شردمندگی سے کہا – ” نہیں نہیں کوئی بات نہیں دراصل میں شروع سے ایسی نہیں تھی وہ تو بس ایک ایکسیڈینٹ میں میری بینائی چلی گئی “ مومل نے اس کی شرمندگی دور کرتے کہا سچ تو یہ تھا اسے خود شردمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ وہ سب کو سچ نہیں بتا رہی یہی بات اسے پریشان بھی کرتی اور اسے خود پر غصہ بھی اتا مگر وہ ڈرٹی تھی لیکن یہ تہہ تھا کہ وہ جلد ہی کچھ کرنے والی تھی –
:::::::::::::::::::::::
بارات کا فنگشن بہت اچھے سے اختتام ہوا تھا مناہل اور مشل سرخ اور بلیک فراکیں پہنی تھیں مناہل کی سرخ جبکہ مشل کی بلیک فراک تھی اس پر ان دونوں نے پالر سے تیار ہو کر خوبصورت لگنے کے ریکارڈ توڑ دیے تھے – حمدان سارا فنگشن انہیں تانے دیتا رہا تھا کہ میک اپ سے پریاں لگ رہی ہو منہ دھو کر آو ابھی چڑیلیں لگو گی جس پر وہ دونوں بھی اسے سیلون سے تیار ہونے کا طعنہ اسی انداز میں دیتیں جس پر حمدان کھسیانی ہسی ہس دیتا کبھی نیچرل بیوٹی کہہ کر انہیں چڑانے لگتا –
مومل سے نکاح کی اجازت برائیڈل روم میں ہی لی گئی تھی جبکہ بی ڈی سے سٹیج پر – نکاح کے وقت مومل کا تو رو رو کر برا ہال تھا مگر حمدان نے ایک بھائی ہونے کں فرض نبھاتے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اسے حوصلہ دیا تھا جبکہ نکاح نامے پر سائین کرنے کے بعد مومل حمدان کے کندھے سے لگتی بہت روئی تھی اسے اپنے ماں باپ حد سے زیادہ یاد آئے تھے – مشل اور مناہل جو بڑی سے بڑی بات کو اہمیت نہیں دیتیں تھیں اسے روتا دیکھ ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں -باقر صاحب ہال سے ہی واپس جا چکے تھے پر مناہل رہنے والی تھی – اس وقت وہ سب ایک ہی گاڈی میں واپس پیلس جا رہے تھے بی ڈی کا ارادہ تو الگ جانے کا تھا مگر حمدان نے اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا اور اپنی گاڈی گارڈ کے زریعے گھر بھیج اب خود اس کی گاڈی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوا بیٹھا تھا – مومل مشل اور مناہل کے درمیاں بیک سیٹ پر بیٹھی تھی – جبکہ بی ڈی گاڈی سے باہر کھڑا اپنا غصہ کنٹرول کر رہا تھا اور اس کی حالت دیکھ حمدان کو مزہ آرہا تھا –
” نکلو باہر اور ڈرائیونگ سیٹ پر جاؤ “ بی ڈی نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے اسے باہر نکلنے کا اشارہ کرتے کہا – جبکہ حمدان کندھے اچکاتا باہر نکلا تھا جیسے کہنا چاہتا ہو جیسے تمہاری مرضی – حمدان کے باہر نکلتے ہی بی ڈی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اور حمدان ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا – بی ڈی نے بیک مرر سے پیچھے دیکھا تھا جہاں اس کی نئی نویلی دلہن اس کی بہنوں کے درمیاں سر جھکائے بیٹھی تھی – اس کا گھونگٹ ابھی تک ویسے ہی تھا – اسے کے سراپے پر ایک نظر ڈال اس نے اپنی نظروں کا زاویہ ساتھ بیٹھے حمدان کی طرف کیا تھا – اب تو آنے والے دن ہی گواہ تھے کہ اب حمدان کی خیر نہیں تھی اس نے جتنی چھوٹ اسے دینی تھی وہ دے دی لیکن اب بس وہ اس کو سبق سیکھانے کا انتظام کر چکا تھا – حمدان کی آنے والے دنوں میں ہونے والی حالت سوچ بی ڈی ہونٹوں پر مسکراہٹ نمایاں ہوئی تھی جس سے بے خبر حمدان گاڈی میں چلتے Despasito گانے کو خود بھی زور شور سے گنگنا رہا تھا جس میں مشل اور مناہل اس کا ساتھ بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہیں تھیں –
::::::::::::::::::::::::::
گھر پہنچ کر مشل اور مناہل نے مومل کو بی ڈی کے کمرے میں لے جا کر بیٹھا دیا تھا اور خود کمرے کے باہر کھڑی ہوتیں بی ڈی کا انظار کرنے لگیں – وہ جو گاڈی سے نکل پیلس میں داخل ہونے والا تھا مگر ضروری کال آتی دیکھ وہیں کھڑا کال سننے لگا – جبکہ حمدان گاڈی گیراج میں کھڑی کر کے تیر کی سپیڈ سے اندر گیا تھا – بی ڈی نے اس کی پُھرتی کو عجیب نظروں سے دیکھا تھا – کال ختم کرتے وہ اندر داخل ہوا اس کا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا – اپنے کمرے میں موجود وجود کا سوچ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری مگر جب کمرے کے پاس پہنچ باہر کھڑے ان تینوں پر گئی تو مسکراہٹ کی جگہ حیرت نے لے لی –
” تم تینوں یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ “ اس نے پاس آتے حیرت سے پوچھا – جس پر ان تینوں نے دانت نکالے تھے – ” بھائی ہم اپنے نیگ لینے کھڑے ہیں چلیں جلدی سے چھ لاکھ روپے نکالیں “ مشل نے جلدی سے کہتے اپنا ہاتھ آگے کیا جس کو ان دونوں نے بھی فولو کیا – بی ڈی اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ان تینوں بھیکاریوں کو گھورتے ہوئے دیکھا – ” چھ لاکھ کس چیز کے تم پاگل ہو کیا جو اتنے پیسے مانگ رہی ہو یا میں پاگل ہوں جو تمہیں اتنے پیسے دوں گا “ بی ڈی نے حیرت اور غصے سے ملے لہجے میں کہا – ” اور چلو میں دوں بھی تم لوگوں کو پیسے پر پہلے یہ تو بتاو نیگ کس چیز کا اور تم نے ابھی یہ کیوں کہا کہ اپنے نیگ اور کون سے نیگ لینے ہیں تم لوگوں نے “ بی ڈی بات پر مناہل اپنی انگلی پر اسے نیگ گنانے لگی –
” ایان بھائی دو لاکھ دودھ پلائی کے دو لاکھ جوتا چورائی کے اور دو لاکھ دروزہ روکائی کے “ مناہل نے اسے بتانے کے بعد پھر سے اپنا ہاتھ آگے کیا – کیا کیا ؟؟ دودھ پلائی ؟؟ کہاں ہے دودھ کب پلایا تم لوگوں نے مجھے دودھ جو اب پیسے مانگ رہی ہو ویسے بھی یہ رسم لڑکی کی بہنیں کرتی ہیں اور تمہیں شرم نہیں آتی ایک ایماندار ڈی ایس پی کی بیٹی ہو کر چوری کی بات کر رہی ہو یہ رسم بھی لڑکی کی بہنیں کرتی ہیں اور تیسرا مینے کب کہا میرے دروازے کے باہر کھڑے ہو تو کس چیز کے تم لوگوں کو پیسے چلو نکلو کوئی پیسے نہیں ملنے والے اور اس نمونے کو بھی لے کر نکلو لڑکیوں کی رسموں میں اس کا کیا کام “ اب تو بی ڈی نے بھی انہیں تنگ کرتے کہا -” ارے ارے ارے کس نے کہا کہ ہم نہیں کر سکتے رسم ہم لڑکی کی سہیلیاں ہیں اور نمونہ کسے کہا آپ نے یہ دلہن کا بھائی ہے اور میرا بھی خبر دار جو اسے نمونہ کہا اسے نمونہ کہنے کا حق صرف میرا ہے “ مشل کے اندر کی بہن نے جوش مارا تھا جبکہ اس کے سپورٹ کرنے پر حمدان نے دونوں ہاتھوں سے اس کی بلائیں لیں تھیں –
” دودھ پلائی کی رسم کے لیے لائے تھے ہم دودھ پر اسے چیک کرنے کے لیے تھوڑا سا پیا تھا مطلب تھوڑا سا ٹیسٹ کیا تھا مگر وہ بہت مزے کا تھا اس لیے ہم وہ سارا ہی پی گئے “ مشل نے دانت نکالتے کہا – ” اسی لیے تو ہم نے ہال نے میں رسم نہیں کی رہی بات جوتے چوڑائی کی تو ہم نے کون سا کر لیے ہیں آپ کے پاوں میں ہی ہیں بس نہ برو چپ کر کے پیسے نکالیں ہمیں چینج کرنا ہے یہ ہیوی ڈریس میں اور برداشت نہیں کر سکتی “ مشل نے بات کرتے جب بی ڈی پر کوئی اثر نہ ہوتے دیکھا تو آخری ہتھیار آزماتے اس کے سینے سے لگتی لاڈ سے بولی جس پر بی ڈی نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے بالوں پر لب رکھے تھے – اچھا اچھا ٹھیک ہے میرا بچا میں مزاق کر رہا تھا لیکن میرے پاس پیسے نہیں پر تم لوگوں کے لیے کچھ اور ضرور ہے اس کے لیے ویٹ کرو “ وہ پیار سے اسے خود سے الگ کرتے انہیں وہیں رکنے کا کہتے اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں گیا تھا – وہ تینوں تجسس سے اس کمرے کی جانب دیکھنے لگے تبھی وہ اندر سے باہر نکلا تھا اس کے ہاتھ میں لال رنگ مخمل کی دو لمبی ڈبیاں تھیں جو اس نے لا کر ایک مشل اور مناہل کے حولے کیں تھیں –
” یہ لو بچے اب خوش “ اس نے دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا – ” جی جی بہت بہت خوش لو یو سو مچ بھائی “ وہ دونوں یک زبان ہو کر بولتیں اس کے کندھے سے لگتیں وہاں سے بھاگ گئی تھیں جبکہ حمدان منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا – میرا تحفہ کدھر ہے ؟؟ حمدان نے دکھی آواز میں پوچھا – ” سوری یار تمہارا یاد نہیں رہا “ بی ڈی نے کندھے اچکاتے نارمل لہجے میں کہا – اس کا جواب سن حمدان کا منہ لٹک گیا تھا – ” اچھا نہ مزاق تھا یہ لو “بی ڈی نے اس کے اداس چہرے کو دیکھ تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے اس کے سںامنے چابی کرتے کہا – حمدان نے سوالیہ نظروں سے چابی کو دیکھا تھا – یہ کس چیز کی چابی ہے ؟؟ حمدان کے پوچھنے پر بی ڈی نے اس کا ہاتھ پکر چابی ان میں تھمائی تھی – ” تمہارے فیورٹ موڈل کی ہوی بائیک کی چابی ہے فارم ہاؤس میں کھڑی ہے کل جا کر دیکھ لینا “ اب خوش ؟؟ بی ڈی کی بات سن حمدان کی خوشی کا تو کوئی ٹھیکانہ ہی نہ رہا –
” بہت بہت خوش ہوں یار شکریہ “ وہ خوشی سے کہتے اس کے گلے لگا تھا اور ساتھ ہی اس کی گال چوم گیا – ابے میں تیری محبوبہ نہیں جا اپنا کام کر اور مجھے بھی جانے دے میری بیوی اندر میرا انتظار کر رہی ہے – بی ڈی نے اس کی حرکت پر اسے خود سے دور کرتے گال رگڑتے کہا – جس پر حمدان اسے فلائی کس کرتا وہاں سے بھاگ گیا – بی ڈی مسکراتے اس کی پشت دیکھ تھی – اس کی یہی چھوٹی سی دنیا تھا اور اس کا کل اثاثہ بھی وہ ان پر رعب ضرور جماتا مگر ان سے محبت بھی بے حد کرتا تھا اور یہ بات وہ بھی بہت اچھے سے جانتے تھے اسی لیے تو پوری شادی میں اسے تنگ کیا اور اپنی مرضی سے تمام رسمیں کیں کیوں کہ انہیں معلوم تھا بی ڈی ان کی خوشی دیکھ انہیں کچھ نہیں کہے گا – اپنی نظروں کا زاویہ اب اس نے اپنے کمرے کے دروازے کی جانب کیا تھا جہاں اس کی محبت تھی جو اس کی بیوی کی حیثیت پر اج براجمان ہو چکی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ کمرے میں داخل ہوا تو بیڈ پر بیٹھی مومل کے دل کی دھڑکن تیز ہوئیں تھیں اور ہتھیلیاں پسینے سے تر ہوئی تھیں وہ تو پہلے ہی کافی گھبرائی ہوئی تھی کہ اب تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دل ہی باہر آ جائے گا – بی ڈی نے اسے دیکھا جو سامنے بیڈ پر مہرون لہنگہ پھیلائے روایتی دلہنوں کی طرح بیٹھی تھی – بی ڈی آج بلیک شیروانی پہنی تھی بے شک دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگ رہی تھی – دروزہ لاک کرتے وہ بیڈ کے قریب پہنچ اس پر بیٹھا تھا – کہ مومل اس کے قریب بیٹھنے پر پوری کی پوری کانپ گئی – اس کا کانپنا ایان نے اچھی طرح محسوس کیا تھا ایان نےاس کی گود میں رکھا اس کا نازک اور گھبراہٹ سے سرد پڑتا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیا – ایان کی اس حرکت پر مومل کے گال ایک دم گلابی ہوئے تھے اور دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوا تھا –
” مومل کیا بات ہے آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں ؟؟ بے فکر رہیں اور نارمل ہو جائیں میں آپ کو کچھ نہیں کہنے والا یار شوہر سے کون ڈرتا ہے میں بھیانک بلکل نہیں ہوں “ اسے نارمل کرنے کے لیے بی ڈی نے شرارتی انداز میں کہا جس پر مومل بھی تھوڑی ریلیکس ہوئی تھی مگر دل میں اپنا جھوٹ پکرے جانے کا ڈر بھی تھا کہ کہیں اس کی انکھوں میں درج حیا کے رنگ دیکھ وہ اس کا جھوٹ نہ پکر لے – ” اچھا چلو سب سے پہلے تمہاری منہ دیکھںئی دیتے ہیں مگر اس کے لیے تمہارا گھونگٹ اٹھانا بھی ضروری ہے “ تو اجازت ہے کیا ؟؟ ایان نے بڑی محبت سے اس سے اجازت مانگی تھی – اور اس کی یہ ادا مومل کے دل کو بھائی تھی – مومل نے آہستہ سے اپنا سر ہلایا گویا اجازت دی ہو – جس پر بی ڈی نے مسکراتے ہوئے اس حسینہ کے چہرے سے پردہ ہٹایا تھا جو اس کی نظروں کی پیاس بُجھانے میں رُکاوٹ بنا ہوا تھا – گھونگٹ اٹھاتے ہی وہ ساکت رہ گیا تھا وہ جانتا تھا سامنے بیٹھی لڑکی خوبصورتی کی مورت تھی مگر اس وقت تیار ہو کر وہ بلڈی ڈیول پر بھی بجلیاں گرا رہی تھی –
” مجھے لگتا ہے میرے لیے سب سے زیںدہ خطرناک تم ثابت ہونے والی ہو “ جانتی کو کیوں ؟؟ بی ڈی خمار آلود لہجے میں کہتے آخر میں مومل سے پوچھا – جس پر مومل نے حیرت سے نہ میں سر ہلایا اس کی نظریں ابھی بھی جھکی ہوئی تھیں – کیوں کہ مجھے آج تک کوئی چیز کوئی انسان اپنں اسیر نہیں کر سکا سوائے تمہارے – تم وہ واحد ہستی کو جس نے میری سوچوں میرے دماغ حتہ کہ میرے دل پر قبضہ کر لیا وہ بھی پہلی کی ملاقات میں – تم جانتی ہو مومل مجھے تمہاری آنکھوں سے عشق ہوا ہے – تم چہرہ تو اوپر اٹھاو مجھے ان آنکھوں کو قریب سے دیکھنا ہے “ بی ڈی نے کہنے کے ساتھ اپنی انگلی اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ اس کا چہرہ اوپر کیا – جبکہ مومل تو آنکھوں سے محبت والی بات پر اٹکی تھی – ” آپ کو میری آنکھوں سے کیوں محبت ہوئی ؟؟ یہ تو دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتیں “ مومل کی بات پر بی ڈی آگے بڑھ کر اس کی دونوں آنکھوں پر باری باری بوسہ دیتے پیچھے ہوا تھا – تمہاری یہ آنکھیں چاہے کچھ نہیں دیکھ سکتیں مگر مجھے ان میں اپنی پوری دنیا نظر آتی ہے –
مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے سوائے تمہارے ساتھ کے مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تم دیکھ سکتی کو یا نہیں مجھے بس دل کی آنکھ چاہیے جو میری چاہت میری محبت کو دیکھ سکے “ بولو کیا تم میرا ساتھ دو گی ؟؟ کیا تم میری محبت کی قدر کرتے مجھ سے بھی بدلے میں محبت کو گی ؟؟ میری وفا کں جواب وفا سے دو گی ؟؟ بی ڈی کے اتنے خوبصورت اظہار پر مومل.کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں اور اس کے سوالوں پر اس نے پورے سچے دل سے ہاں میں سر ہلاہا تھا جس پر ایان نے اپنا ماتھا مومل کے ماتھے سے جوڑا تھا – ایک نئی اور خوبصورت زندگی ان کی منتظر تھی مگر ابھی بہت سی تکلیفیں باقی تھیں جس سے دونوں ہی بے خبر تھے –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial