Just for you

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

وہ ڈائینگ ٹیبل پر شرمائی گھبرائی بیٹھی تھی جبکہ بی ڈی نظریں اس کے جُھکے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں اور سب کے درمیان بی ڈی کی یہ حرکت مومل کو ااور پزل کر رہی تھی – مشل اور مناہل بھی ڈائینگ ٹیبل پر موجود تھیں جبکہ حمدان تو صبح ہوتے ہی فارم ہاوس چلا گیا تھا ساری رات اس نے کیسے صبر کیا تھا وہی جانتا تھا اس کا بس چلتا تو وہ رات کو ہی فارم ہاؤس چلا جاتا مگر جانتا تھا اگر ںبھی گیا تو صبح بی ڈی اس کو سزا کے طور پر اس کی ہیوی بائیک واپس لے لیتا اسی لیے بیچارے نے مشکل سے ہی سہی پر رات گزار لی تھی مگر فجر پڑھتے ہی وہ فارم ہاؤس روانہ ہو گیا تھا – ” بس کر دیں بھائی آپ کی ہیں مگر کیا اب میری پیاری سی کیوٹ سی بھابی کو نظروں سے ہی کھا جائیں گے بس کر دیں نظر نہ لگا دینا آپ میری بھابھی کو “ مشل جو بی ڈی کو ہی دیکھ رہی تھی شرارتی لہجے میں بولی –
” بے فکر رہو بیٹا محبت بھری نظریں نہیں لگتیں اور ویسے بھی میری بیوی ہے یار میں جیسے مرضی دیکھوں اور جتنی مرضی دیر دیکھوں مجھے کون روک سکتا ہے “ بی ڈی نے بنا مومل کے چہرے سے نظریں ہٹائے کہا – ” اچھا نہ بس کریں ناشتہ کرنیں دیں میری بھابھی کو اور خود بھی ناشتہ کریں “ مشل جو مومل کے ساتھ ہی بیٹھی تھی مومل کے گرد اپنی باہیں پھیلاتے بولی – ” اچھا بھئی تم کہتی ہو تو میں اپنی گڑیا کی بات مان لیتا ہوں ورنہ میرا ارادہ تو بس نظروں کی بھوک پیاس ختم کرنے کا تھا جو ختم ہی نہیں ہوتی – پر کوئی بات نہیں یہ کام میں اپنے کمرے میں کر لوں گا “ بی ڈی نے بے باکی سے کہتے مومل کو سر سے پاوں تک لال کر گیا تھا – مناہل اس دوران خاموشی سے ناشتے کرتے ان کی باتیں انجوائے کر رہی تھی –
بی ڈی نے اپنا دیہان ناشتے کی طرف کیا اور اپنے لیے پراٹھا اٹھایا – اس کی عادت تھی صبح کو ہیوی ناشتہ کرنے کی – مشل اور حمدان تو لائیٹ ہی ناشتہ کرتے تھے اسی لیے بس بی ڈی کے لیے ہی پراٹھے بنائے جاتے تھے –
بی ڈی کے ناشتے کی طرف متوجہ ہونے پر مومل نے بھی سُکھ کا سانس لیا تھا اور خود بھی ناشتہ کرنے لگی جو مشل اس کے سامنے رکھ چکی تھی –
::::::::::::::::::::::::::
وہ چاروں بھی فارم ہاؤس کیلیے روانہ ہو چکے تھے – حمدان تو ویسے بھی وہیں تھا تو بی ڈی نے اسے واپس آنے سے منا کر دیا تھا – ولیمے کا پروگرام کینسل کرتے بی ڈی نے انہیں پیسوں کا غریبوں میں کھانا تقسیم کروا دیا تھا اور وہ سب خود فارم ہاؤس میں بار بی کیو پارٹی کرنے کا تھا – اور وہیں بی ڈی کا کوئی خاص مہمان بھی آنے والا تھا جس کا بی ڈی اور حمدان کے علاوہ کسی کو علم نہ تھا –
” مومل بھائی نے تمہیں کیا منہ دیکھائی دی ہے ؟؟ ہمیں بھی دیکھاؤ “ فارم ہاوس پہنچ بی ڈی اور حمدان باربی کیو بنانے میں بزی ہو چکے تھے جبکہ مشل مناہل اور مومل وہیں پاس لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھیں تھیں – تبھی باتوں کے دوران اچانک مناہل نے پوچھا – جس پر مومل نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا جہاں خوبصورت گولڈ کی نفیس چین تھی جس میں تین چھوٹے بارش کی بوند کی شکل کے ڈائیمنڈ لگے تھے بے شک وہ بہت خوبصورت تھی –
” واؤ یار بہت خوبصورت ہے “ مشل اور مناہل نے ایک ساتھ کہا تھا – شکریہ پتا کیا وہ کہہ رہے تھے کہ ایک اور تحفہ باقی ہے جو تمہیں بہت پسند آئے گا – میں بہت ایکسائیٹد ہوں پتا نہیں کیا ہو گا پر پھر دل بھی اداس ہوتا ہے کہ میں کون سا دیکھ سکتی ہوں یہ تحفہ بھی تو نہیں دیکھ سکتی مگر میں محسوس کر سکتی ہوں اور یہ بات ہی مجھے خوشی دیتی ہے – مومل نے ایکسائیٹد ہوتے کہا مگر پھر کہیں انہیں شک نہ کو جائے اسی لیے جلدی سے آخر میں لہجے میں افسوس لاتے جھوٹ بولا – ” اوہو یار پلیز ایسی باتیں نہ کیا کرو ویسے مجھے بتاو میرے بھائی کیسے لگے تمہیں ؟؟ مشل نے اس کا دیہان ہٹانے کی کوشش کرتے شرارتی لہجے میں پوچھا – ” اچھے ہیں “مومل نے شرماتے ہوئے ہلکی آواز میں کہا – ” اچھے ہا بہت اچھے ہاں بتاو بتاو “ اس بار مناہل نے بھی شرارتی انداز میں کہا –
” بہت اچھے ہیں “ مومل نے پھر سے ہلکی آواز میں کہا – اور رومینٹک کتنے ہیں ؟؟ ” پلیز یار تنگ مت کرو نہ “مشل کی بات پر مومل نے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاتے حیا آلود لہجے میں کہا – جس پر مناہل اور مشل کے بلند قہقے گونجے تھے جبکہ ان کے قہقہہ لگانے پر بی ڈی اور حمدان نے حیرت سے پیچھے مُر کر دیکھا تھا – انہیں کیا ہو گیا جو یوں چُڑیلوں کی طرح ہس رہی ہیں ؟؟؟ حمدان نے حیرت سے بی ڈی سے سوال کیا جس پر بی ڈی کندھے اچکاتے باربی کیو کی طرف متوجہ ہو گیا – جیسے کہنا چاہتا کو مجھے کیا پتا – حمدان بھی اپنے ہاتھ میں پکرے پنکھے سے کوئیلوں کو ہوا دینے لگا –
:::::::::::::::::::::::
مناہل کو فارم ہاؤس کے اندر جاتا دیکھ حمدان بھی جلدی سے اس کے پیچھے گیا تھا جبکہ بی ڈی نے پر سوچ نگاہوں سے اسے جاتے دیکھا تھا – وہ اپنے دیہان میں جا رہی تھی کہ اچانک کسی کے پیچھے سے ہاتھ پکرنے پر رکی تھی – وہ اچھے سے جان گئی تھی کہ ہاتھ پکرنے والا کون تھا – ” ہاتھ چھوڈو میرا حمدان “ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا – ” نہیں چھوڈوں گا جب تک تم میری بات نہیں سنتی میں ہاتھ نہیں چھوڈوں گا “ حمدان نے ڈیٹھائی سے کہا –
” تمہارا مسئلہ کیا ہے تمہیں سمجھ نہیں آ رہی مینے کہا میرا ہاتھ چھوڈو “ مناہل نے غصے سے کہتے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے چھوڈایا تھا – ” مسئلہ میرے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ ہے جو تم مجھے اگنور کر رہی ہو دو دن ہو گئے ہیں مجھے برداشت کرتے کم سے کم انسان دوسرے کی بات بھی سن لیتا ہے – لیکن نہیں تمہیں تو میری بات بھی نہیں سننی تمہیں تو مجھ پر یقین ہی نہیں ہے “ حمدان نے بھی اپنے اندر کا غبار نکالا تھا – ” ہاں مجھے نہیں سننی تمہاری کوئی بات ہو گئی تسلی مل گیا سکون اب جاو دماغ خراب نہ کرو میرا “ مناہل نے بے زاری سے کہتے جانا چاہا جس پر حمدان نے پھر سے اس کا ہاتھ پکر اسے روکا تھا – ” مناہل تم مجھ پر شک کر رہی ہو اپنی محبت پر تمہیں میری محبت میرے خلوس پر شک ہے اور اس لڑکی پر یقین ہے جسے تم جانتی بھی نہیں اور مجھ پر تمہیں یقین نہیں جسے تم بچپن سے جانتی ہو – ا
گر یقین دلانے کے لیے میں تمہیں اس لڑکی سے گواہی دلانے کی بات کروں تو تم کہتی ہو کہ میں اسے زبردستی مجبور کر کے لاوں گا – یار سچ میں میں اسے نہیں جانتا وہ لڑکی مجھے تمہاری نظروں میں گرا رہی ہے کیوں کہ میں نے تمہارے لیے اسے چھوڈا اسی لیے وہ تمہیں میرے خلاف کر کے اس چیز کا بدلہ لینا چاہتی ہے سچ میں یار وہ فوٹوز فیک ہیں “ حمدان نے اسے یقین دلانے کی بھر پور کوشش کرتے کہا مگر مناہل تو کچھ سننے اور کسی بات پر بھی یقین کرنے موڈ میں نہیں تھی – ”حمدان میرا ہاتھ چھوڈو “ مناہل نے ساری بات سننے کے باوجود سپاٹ لہجے میں کہا – ” نہیں میں نہیں چھوڈوں گا جب تک تم میرا یقین نہیں کرتی “ حمدان نے بھی ضدی لہجے میں انکار کیا – ”حمدان مینے کہا میرا ہاتھ چھوڈو “ اس بار مناہل کی آواز میں غصے کی جھلک تھی –
نہیں میں نہیں چھوڈوں گا حمدان نے پھر انکار کیا کہ تبھی فضا میں تپھر کی آواز گونجی – ” تمہیں سمجھ نہیں آرہی مینے کہا میرا ہاتھ چھوڈو “ مناہل نے دوسرے ہاتھ سے اسے تھپر مارتے غصے سے کہا مگر جیسے ہی نظر حمدان کے سرخ ہوتے چہرے پر گئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کر چکی ہے – د…دی…دیکھو حم….حمدان میں نے جان بو…بوجھ کر نہیں کی…..کیا و…وہ اچانک …… – ڈر اور شرمندگی کے مارے مناہل نے بولنا مشکل ہوا تھا – اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا – جبکہ حمدان سرخ انکھوں سے مناہل کو دیکھ رہا تھا – ہمت کیسے ہوئی تمہاری ؟؟ حمدان کے بولنے پر مناہل نے ہمت کرتے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے کچھ کہنا چاہا –
” دی….دیکھو حم….حمدان “ بکواس بند اور ہاتھ مت لگانا مجھے – تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ہاں وہ اس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے ؟؟؟ تم نے اچھا نہیں کیا مس مناہل تم نے اچھا نہیں کیا “ حمدان نے اس کے بازو پر رکھے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے خود سے دور کرتے اس کی بات کاٹتے غراتے ہوئے کہا جبکہ مناہل روتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی – اس سے پہلے وہ کچھ بولتی بی ڈی آواز نے اسے روکا تھا – یہاں کیا ہو رہا ہے ؟؟ بی ڈی کی بھاری آواز پر دونوں نے پیچھے دیکھا تھا جہاں بی ڈی دونوں بازو سینے پر لپیٹے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا – جس پر حمدان نے تو بنا کچھ بولے وہیں کھڑا رہا جبکہ مناہل اپنی روئی ہوئی آنکھیں چھپاتی وہاں سے بھاگ گئی – کیا بات ہے حمدان میں کل سے دیکھ رہا ہوں تم دونوں کو کیا کوئی بات ہوئی ہے تم دونوں میں ؟؟ بی ڈی نے حمدان کے پاس آتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا – ”
کوئی بات نہیں ہوئی بی ڈی تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے تم چھوڈو اور یہ بتاو وہ آیا کہ نہیں ابھی تک “ حمدان نے جھوٹ بولتے بات ٹالی تھی اور بی ڈی کا دیہان دوسری طرف کرنے کی کوشش کی – جو بی ڈی بہت اچھے سے سمجھ چکا تھا مگر اس نے بھی زیادہ کریدنے کی کوشش نہ کی ” نہیں ابھی تک نہیں آیا “ ابھی بی ڈی نے اسے جواب دیا ہی تھا کہ باہر گاڈی کی آواز سنائی دی – ” لگتا ہے اگیا چلو چلتے ہیں باہر “ بی ڈی حمدان سے کہتے اسے لیے باہر کی طرف نکلا تھا –
::::::::::::::::::::::::::
وہ آنا تو نہیں چاہتا تھا مگر اسے انویٹیشن کارڈ دینے گھر پر آیا گیا تھا اسی لیے وہ مروت کے مارے جارہا تھا مگر اسے حیرت تھی خان گروپ کمپنی کے ساتھ اس کی کوئی ڈیل بھی نہیں تھی پھر بھلا ایان خان کے ولیمے کا کارڈ اسے کیوں موصول ہوا اور فنگشن بھی کسی فارم ہاؤس میں تھا خیر جو بھی تھا اس کا ارادہ وہاں زیادہ دیر رکنے کا نہیں تھا – وہ اپنی سوچوں میں گم فارم ہاؤس پہنچا تھا اور گیٹ کے قریب جاتے ہی اس نے گاڈی کا ہارن بجایا جس پر چوکیدار نے فورا دروازہ کھولا تھا اور اس نے گاڈی آگے بڑھائی تھی – اندر پہلے سے دو گاڑیاں موجود تھیں –
گاڈی سے باہر نکلتے اس نے آس پاس دیکھا تھا وہاں کسی کا نام و نشان نہ تھا کہ تبھی وہاں ایان اور حمدان آئے تھے – ” آئیے آئیے مسٹر احمد امید کرتے ہیں آپ کو اڈریس ڈھونڈنے تکلیف نہیں ہوئی ہو گی “ ایان نے آگے بڑھتے حمدان سے ہاتھ ملاتے کہا – ”جی مسٹر ایان مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اڈریس ڈھونڈنے میں “ احمد نے خوش دلی سے جواب دیتے حمدان سے بھی ہاتھ ملایا تھا – ” کوئی اور نظر نہیں آرہا کیا میں جلدی آگیا ہوں یا زیادہ ہی لیٹ ہو گیا جو سب چلے گئے “ احمد نے حیرت سے پوچھا – ” نہیں نہیں تم بلکل لیٹ نہیں ہوئے دراصل ہم نے بلایا ہی نہیں کسی کو یہ تو ہماری فیملی گیدرنگ ہے آو نہ اندر “ ایان نے جواب دیتے اسے فارم ہاؤس کی بیک سائید پر بنے لان کی طرف اشارہ کرتے کہا – جبکہ احمد حیران سا یہ بات سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں سے ان کی فیملی میں شامل ہو گیا –
:::::::::::::::::::::::::::
لان میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر وہاں میز کے گرد رکھی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھی لڑکی پر گئی – اپنی گڑیا کو سامنے دیکھ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا اس نے جلدی سے اس کی طرف بڑھتے بےساختہ اسے پُکارا – مومل جو وہاں اکیلی بیٹھی تھی مشل ابھی مناہل کو بلانے اندر گئی تھی اور وہ وہاں بیٹھی ایان کے بارے میں سوچتی خود ہی مسکرا رہی تھی کہ اچانک اپنے نام کی پکار پر اس کے کان کھڑے ہوئے تھے –
اسے لگا یہ آواز اس کے کانوں کا دھوکہ ہے بھلا احمد بھائی یہاں کیسے ؟؟ مگر جیسے ہی دوبارہ وہی پکار سنی تو جلدی سے وہ کرسی سےکھڑی ہوئی تھی اس کا بس چلتا تو بھاگ کر اپنے بھائی کے پاس جاتی جس نے ساری زندگی اس کی کئیر کی تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کا بھائی کیسا دیکھتا ہے مگر وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتی کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتی تو وہ سب لوگ جان جاتے کہ اب وہ دیکھ سکتی ہے اور پھر کہیں پھر سے اسے کوئی جاسوس سمجھ واپس اسے ٹورچر روم میں نہ ڈال دیتے – ” مومل میری گڑیا میری جان تم ٹھیک ہو نہ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ٹھیک ہو نہ تم اور تم یہاں کیسے پہنچی ؟؟ “ حمدان نے اس کے پاس آتے اسے اپنے گلے لگاتے ایک ہی مرتبہ سب سوال کیے تھے جبکہ مومل بھی اس کے سینے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی –
جی بھائی میں بلکل ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں اور بس بھائی آپ کو پتا ہے تایا ابو لوگوں نے مجھے بیچ دیا تھا میں وہاں سے بھاگ گئی بس اتنا شکر ہے کہ ایان لوگوں کے کو مل گئی ورنہ پتا نہیں میں آج کہاں اور کس حال میں ہوتی – مومل نے اس کے سینے سے ہی لگے جواب دیا – بی ڈی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مومل کو احمد سے دور کر اپنے اندر چھپا لیتا مگر خود پر جبر کر خاموش رہا آخر جو بھی تھا وہ اس کا بھائی تھا چاہے سگا نہیں تھا مگر اس نے بھائیوں کی طرح ہی مومل کا خیال رکھا اور اب بھی وہ اس کے ملنے پر اتنا خوش تھا بس یہی دیکھ وہ چپ چاپ کھڑا تھا – جانتا ہوں میں سب جانتا ہوں اسی لیے تو میں ماموں کے گھر سے اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو گیا ہوں وہاں ان لوگوں کو دیکھ میرا دم گھٹتا تھا – احمد نے مومل سے کہتے اسے خود سے دور کیا تھا – اور خود ایان کی طرف گیا تھا – ” ٹھینک یو مسٹر ایان اینڈ حمدان میں آپ لوگوں کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا آپ لوگوں نے میری بہن کا اتنا خیال رکھا “ احمد نے بی ڈی سے عاجزانہ لہجے میں کہا – جبکہ بی ڈی اس کی بات پر مسکرایہ تھا –
” شکریہ کیسا وہ تمہاری بہن ہونے کے ساتھ اب میری بیوی بھی ہے تو اس کا خیال رکھنا میرا فرض ہے مسٹر احمد “ بی ڈی نے مسکراتے ہوئے مومل کی طرف دیکھ کر کہا – جبکہ احمد تو حیرت سے کبھی ایان کو دیکھتا تو کبھی مومل کو جو سکائے بلیو کلر کی خوبصورت میکسی میں ہلکا ہلکا میک اپ کیے کھڑی تھی – اس نے پہلے مومل کے حلیے پر دیہان نہیں دیا تھا مگر اب اسے دیکھ احمد واقع حیرت میں مبتلا ہوا تھا – تو مطلب آپ کی شادی مومل سے ہوئی ہے مسٹر ایان ؟؟ احمد نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا – جس پر ایان نے کندھے اچکائے تھے –
احمد جلدی سے مومل کے لاس جاتے اس کا ہاتھ تھام چکا تھا – مومل کیا تم اس شادی سے خوش ہو ؟؟ اس نے بے چینی اور لریشانی سے پوچھا کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں ہوئی – جی احمد بھائی میں خوش ہوں یہ میرا خیال بھی رکھتے ہیں سب لوگ بہت اچھے ہیں اور میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہوئی آپ بے فکر رہیں – مومل نے بھی اپنے ہاتھ کو پکڑے احمد کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھتے اسے تسلی دیتے کہا جس پر احمد کو بھی سکون ملا اور اس نے ایان کو مسکرا کر دیکھا – ” شکریہ دوست بہت شکریہ “ احمد نے ایان کے گلے لگتے خوشی سے کہا جس پر ایان نے بھی اس کی پیٹھ پر تھپکی دی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial