Just for you

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

وہ سب بیٹھے آپس میں باتوں میں مصروف تھے کہ بی ڈی کے فون پر مشل کی کال آنے لگی جسے اس نے بنا تاخیر کے اٹھایا تھا – ” ہاں مشل بولو کیا بات ہے اور تم دونوں اندر کیا کر رہی ہو باہر آو کھانا شروع کریں “ بی ڈی نے فون اٹھاتے ہی مشل کو بولنے کا موقع دیے بغیر کہا – ” بھائی میں اور مناہل فارم ہاؤس نہیں ہیں ہم دونوں ہاسپٹل جا رہی ہیں “ مشل کی بات سن بی ڈی کو حیرت ہوئی – کیا بات ہے ہاسپٹل کیوں جا رہی ہو ؟؟ اور وہ بھی بنا بتائے ؟؟ بی ڈی نے جلدی سے مشل سے پوچھا – ” بھائی باقر انکل کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے مناہل کو ابھی ان کے ڈرائیور کی کال آئی تھی وہ تو اکیلی جا رہی تھی میں زبردستی ساتھ گئی ہوں آپ لوگوں کو بتانے کا وقت نہیں تھا مناہل کا رو رو کر برا حال ہے ہم بس ہاسپٹل پہنچنے والے ہیں تو میں نے سوچا آپ کو انفارم کر دوں “ مشل نے ایک سانس میں اسے ساری بات بتائی تھی –
” اوکے گڑیا تم لوگ پہنچو ہاسپٹل میں اور حمدان بھی آتے ہیں تم ٹینشن نہ لو “ بی ڈی نے مشل سے کہتے کال کاٹی تھی جبکہ حمدان اور احمد اسے سوالی نظروں سے دیکھ رہے تھے – کیا ہوا ایان کیا کہہ رہی تھی مشل ؟؟ حمدان نے پریشانی سے پوچھا جبکہ احمد کا خیال کرتے اس نے اسے بی ڈی کی بجائے ایان کہا تھا – ” باقر انکل کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے انہیں ہاسپٹل لے کر گئے ہیں مشل اور مناہل بھی وہیں گئی ہیں میں نے اسے کہا ہے کہ ہم بھی پہنچتے ہیں “ بی ڈی نے کھڑے ہوتے بتایا حمدان بھی اس کی بات سن فوراً کھڑا ہو گیا – مگر مومل ؟؟ حمدان نے مومل کی طرف اشارہ کرتے بی ڈی سے کہا – جس پر بی ڈی نے احمد کی طرف دیکھا –
” احمد اف یو ڈونٹ مائنڈ تم مومل کو گھر چھوڈ دو گے میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتا ہوں اور پلیز ہمارے آنے تک تم گھر مومل کے پاس ہی رہنا “ بی ڈی کے کہنے پر احمد فوراً ہاں میں سر ہلایا – ” کیوں نہیں یار افکورس لے جاوں گا گھر اور میں تو خود اپنی کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتا ہوں تم بے فکر رہو “ احمد نے اسے تسلی دیتے کہا جس پر بی ڈی اور حمدان جلدی سے ہاسپٹل جانے کے لیے روانہ ہوئے احمد اور مومل بھی ان کے پیچھے ہی فارم ہاؤس سے نکلے تھے –
::::::::::::::::::::::::::::::
احمد اور مومل گھر کی جانب روانہ تھے کہ اچانک مومل نے شرارت سے احمد کی جانب کی طرف دیکھا – ” بھائی ویسے آپ بلیو پینٹ کوٹ میں بہت ہینڈسم لگ رہے ہو اور اس پر یہ بلیک چشمہ اور جیل سے سیٹ کیے بال کیا بات ہے بھائی کوئی بھی لڑکی دیوانی ہو جائے آپ کی “ مومل نے احمد کی طرف منہ کرتے مسکراہٹ چھپاتے کہا – جس پر احمد نے پہلے تو مسکرا کر اسے دیکھا مگر جب اس کی باتوں پر غور کیا تو اس کا اچانک بریک پر پاوں آیا تھا – مومل ابھی تم نے کیا کہا ؟؟ مطلب تم کو کیسے پتا میں اس وقت کس رنگ کے کپروں میں ہوں اور میں نے عینک لگائی ہے مطلب تم….. احمد نے حیرت سے اس سے پوچھا اسےسمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے جبکہ مومل کا قہقہہ اچانک گاڈی میں گونجا – اوہ میرے کیوٹ بھائی کیا ہوا شوک لگ گیا آپ کو ؟؟ مومل نے شرارت سے اس کے گال کھینچتے کہا –
تم دیکھ پا رہی ہو ؟؟ احمد نے حیرت سے پوچھا – ” بلکل یقین نہیں تو چاہے ٹیسٹ کر لیں “ مومل نے پھر ہستے ہوئے کہا – یہ کتنے ہیں ؟؟ احمد نے اس کے سامنے تین انگلیں کرتے پوچھا – ” تین ہیں “ مومل نے آرام دہ لہجے میں کہا – مومل میری گڑیا مجھے یقین نہیں آرہا کیسے ہوا یہ معجزہ ؟؟ اور کب سے تم دیکھ پارہی ہو ؟؟ احمد نے خوشی سے بھرپور لہجے میں مومل سے ایک ساتھ سارے سوال کر دیے جس پر مومل اسے شروع سے ساری بات بتانے لگی – ” وہ سب تو ٹھیک ہے مومل مگر کب تک تم ایسے کب تک یہ بات سب سے چھپاو گی ؟ کب تک تم یہ ڈرامہ کرو گی میری مانو تو تم کوئی اچھا سا وقت اور موقع دیکھ سب کو بتا دو “ احمد جو گاڈی ڈرائیو کرنے کے ساتھ اس کی بات سن رہا تھا پوری بات سن اسے مشورہ دیتے بولا جس پر مومک نے ہاں میں سر ہلایا – ” جی بلکل بھائی مگر ابھی میں نہیں بتا سکتی کچھ دنوں میں کوشش کروں گی –
ویسے آپ کو پتا ہے حمدان بھائی بہت اچھے ہیں بلکل اپ کی طرح میرا خیال رکھتے ہیں مشل اور مناہل بھی بہت اچھی ہیں مگر مشل سے میری زیادہ دوستی ہے مجھے نہ وہ آپ کے لیے بہت اچھی لگتی ہے آپ نہ اس سے شادی کر لو “ مومل نے اسے سب کے بارے میں بتاتے آخر میں اسے مشل سے شادی کرنے کا آئیدیا دیا جس پر احمد نے مسکرا کر اسے دیکھا – تم نے سب کا بتا دیا مگر یہ بتاو ایان کیسا ہے تمہارے ساتھ اور تم سچ نیں خوش ہو نہ ؟؟ احمد نے پہلے شرارت سے کہتے آخری بات سنجیدہ لہجے میں پوچھی – ” جی بھائی بہت ںچھے ہیں وہ اور میرا خیال بھی بہت رکھتے ہیں میں سچ میں خوش ہوں آپ ٹینشن نہ لو “ مومل کے بتانے پر احمد پرسکون ہو گیا ایان واقع اچھا لڑکا تھا اس کی بہن کے لیے بزنس کی دنیا میں اس کو ہر کوئی جانتا تھا اور آج تک اس کے بارے میں احمد نے بھی کوئی بُری بات نہیں سنی تھی اسے ایان مومل کے لیے بلکل پرفیکٹ لگا تھا –
::::::::::::::::::::::::::
وہ ہاسپٹل پہنچے تو ریسیپشن سے پوچھ باقر صاحب کے روم کی طرف گئے جہاں وہ زیرِ علاج تھے – کوریڈور میں پہنچتے ہی انہیں مشل اور مناہل نظر آئیں جو وہاں رکھی کرسیوں پر بیٹھی تھیں – مناہل کا رو رو کو برا ہال تھا جبکہ مشل اسے اسے دلاسہ دے رہی تھی – وہ دونوں جلدی سے ان کے پاس پہنچے – کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر کیسی طبعیت ہے انکل کی ؟؟ ” حمدان نے مشل سے پوچھا – ابھی تک تو کچھ نہیں کہا اندر ٹریٹمنٹ چل رہا ہے “ مشل نے اداس لہجے میں اسے بتایا –
بی ڈی اور حمدان بھی وہیں کھڑے ہوتے ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے – ابھی انہیں انتظار کرتے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر آئے – ڈاکٹر کیا ہوا ہے انکل کو ؟؟ حمدان نے جلدی سے آگے بڑھتے ڈاکٹر سے پوچھا – ” انہیں سوئیر ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ تو شکر کہ انہیں ٹائم سے لے آئے آپ لوگ ورنہ ہم کچھ نہیں کر پاتے اب تو وہ اللّہ کے کرم سے ٹھیک ہیں “ ڈاکٹر کی بات سن ان چاروں نے سکھ کا سانس لیا – کیا ہم مل سکتے ہیں ان سے ؟؟ بی ڈی نے ڈاکٹر سے پوچھا –
” نہیں ابھی نہیں مگر صبح مل سکتے ہیں آپ سب لوگ “ ڈاکٹر کی بات پر انہوں نے ہاں میں سر ہلایا – ” مشل تم اور مناہل گھر جاو میں اور حمدان یہاں ہیں تم لوگ جاو گھر اور صبح آ جانا “ بی ڈی کے کہنے پر مناہل نے فوراً نفی میں سر ہلایا. – نہیں میں نہیں جاوں گی مجھے یہیں رہنا ہے بابا کے پاس میں نہیں جاوں گی گھر – مناہل کے کہنے پر بی ڈی نے مشل کی جانب دیکھا – ” مشل بچے تم چلی جاو گھر مومل بھی پریشان ہو رہی ہو گی “ بی ڈی کے کہنے پر مشل نے ہاں میں سر ہلایا –
:::::::::::::::::::::::::::::
پیلس میں داخل ہوتے ہی اندھیرے نے اس کا ہی اس کا رخ مومل اور بی ڈی کے کمرے کی جانب تھا تاکہ دیکھ لے کہ مومل سو گئی یا نہیں – ابھی وہ تیسری سیری پر پہنچی تھی کہ اوپر سے نیچے آنے والے وجود سے بری طرح ٹکرائی اس سے پہلے کہ وہ گرتی سامنے والے نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسے گرنے سے بچایا تھا – گرنے کے ڈر اس نے آنکھیں زور سے بند کیں مگر جب خود کے گرد اس نے کسی کے بازوں کا حصار محسوس کیا تو فوراً سے پہلے خود کو سامنے والے کی گرفت سے آزاد کیا –
وہ جو مومل سے کافی دیر باتیں کرنے کے بعد اسے سونے کا کہتے خود نیچے گیسٹ روم کی طرف جا رہا تھا جو ملازم اسے بتا چکا تھا – ابھی وہ سیڑھیاں اتر ہی رہا تھا کہ کسی کا نازک وجود اس سے ٹکرایا جو شاید اوپر کی طرف جا رہا تھا – وہ تو شکر تھا کہ وہ سیرھیاں آہستہ اتر رہا تھا اسی لیے جلدی سے سامنے والے کو گرنے سے بچانے کو اس کی کمر کے گرد بازو ڈال گیا مگر اگلے ہی لمحے اس وجود نے اسے خود سے دور کیا –
کون ہے ؟؟ ” جو آدھی رات بد روحوں کی طرح منڈلا رہا ہے “ مشل کو لگا شاید کوئی ملازم ہے اسی لیے غصے سے بولتے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کر چکی تھی مگر سامنے والے کو دیکھ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا – تم !! جبکہ احمد بھی اسے اپنے سامنے دیکھ حیران تھا – بھلا وہ یہاں کیسے ؟؟ تم یہاں ؟؟ احمد نے بھی حیران ہوتے پوچھے – ” کیا مطلب میں یہاں میرا گھر ہے میں یہاں نہیں ہوں گی تو اور کون ہو گا مگر تم یہاں کیسے ؟؟ اوہ چوری کرنے آئے ہو گے چور کہیں کے “ مشل نے کڑے تیوروں سے گھورتے کہا – ” او ہیلو میڈم میں کوئی چور نہیں ہوں اس دن بھی غلطی سے بیگ ایکسچینج ہو گئے تھے میری کوئی غلطی نہیں تھی اور ابھی بھی میں یہاں چوری کرنے نہیں ایا بلکہ میری بہن کا گھر ہے یہ مومل کا بھائی ہوں میں “ احمد نے بھی سخت لہجے میں اسے کہا –
” اوہ تو تم مومل کے بھائی ہو خیر تم یہاں کیسے تمہیں کیسے پتا چلا مومل کا ؟؟ “ مشل نے جاسوسی انداز میں پوچھا – تمہارے بھائی کی مدد سے ہی پتا چلا ہے اور کچھ ؟؟ احمد نے بے زاری سے پوچھا کیوں کہ اسے نید بہت آ رہی تھی اور مشل کا سوال نامہ بند نہیں ہو رہا تھا – جبکہ مشل نے اس کے لہجے پر اسے گھور کر دیکھا اور سائیڈ سے ہوتی سیڑھیاں چڑھنے لگی – اس کے جاتے ہی احمد نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمائیاں تھی – ” اوہ تو نخرے والی تم یہاں رہتی ہو “ مسکراتے ہوئے ہلکی آواز میں کہتے وہ گیسٹ روم کی طرف بڑھ گیا –
::::::::::::::::::::::::::
صبح ہوتے ہی احمد مومل سے مل کر اور اس سے ملنے آتے رہنے کا وعدہ کر کے جا چکا تھا – مشل کا ارادہ گھر مومل کے پاس رہنے کا تھا اسی لیے وہ ہاسپٹل نہیں گئی تھی – وہاں ہاسپٹل میں بی ڈی لوگوں کو باقر صاحب سے ملنے کی اجازت مل گئی تھی – اور وہ تینوں اس وقت ان کے روم کے تھے – مناہل تو باقر صاحب کے بیڈ کے لاس رکھی کرسی پر بیٹھ ان کے سینے پر سر رکھے کب سے رو رہی تھی جبکہ حمدان کوفت بھری نظروں سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا – ” بس کرو مناہل میں ٹھیک ہوں میری جان کیوں رو رو کر خود کی طبعیت خراب کر رہی ہو چلو شاباش رونا بند کرو “ باقر صاحب نے مناہل کے آنسو صاف کرتے نقاہت بھری آواز میں کہا –
بی ڈی اور حمدان کو دیکھ باقر صاحب نے بی ڈی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا – ایان بیٹا مجھ پر ایک احسان کرو گے ؟؟ باقر صاحب کی بات پر بی ڈی جلدی سے ان کے ہاتھ تھام گیا – جبکہ مناہل نے اپنی کرسی بی ڈی کے بیٹھنے کے لیے خالی کی تھی اور خود حمدان سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہو گئی – ” ایسے مت کہیں انکل آپ حکم کریں التجا نہ کریں میرے لی آپ میرے بابا کی جگہ ہیں آپ کی ہر بات میرے لیے حکم ہے آپ بس حکم کریں “ بی ڈی نے مودبانہ لہجے میں ان سے کہا –
جس پر باقر صاحب نےبی ڈی کے پیچھے کھڑی مناہل کی طرف دیکھا – ” مناہل بیٹا آپ باہر جاو مجھے ایان سے ضروری بات کرنی ہے “ باقر صاحب کی بات پر مناہل ہاں میں سر ہلاتی روم سے باہر چلی گئی – ” ایان بیٹا میری طبعیت ہر وقت خراب رہتی ہے اس بار بھی بس میرے اللّہ نے مجھے ایک موقع دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو محفوظ ہاتھوں میں دے دوں تو میں چاہتا ہوں تم مناہل کی ذمہ داری لے لو اور اس کی شادی کسی اچھے لڑکے سے کروانا اگر مجھے کچھ ہو گیا تو “ باقر صاحب کی بات پر بی ڈی نے پیچھے مڑ کر حمدان کی طرف دیکھا جو باقر صاحب کی جانب ہی متوجہ تھا –
” باقر انکل آنے وقت میں کیوں میرے پاس ابھی بہت اچھا لڑکا ہے مناہل کے لیے اور وہ مناہل کا خیال بھی رکھے گا آپ بس اجازت دو میں ابھی نکاح خواں کو بلا کر مناہل کا اس سے نکاح کروا دیتا ہوں “ بی ڈی بات جہاں باقر صاحب کے چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ لانے کا سبب بنی وہیں حمدان کے دل کی دھڑکن روک گئی – ” ہاں بیٹا کیوں نہیں تم بتاو کون ہے وہ لڑکا میری تو اجازت ہے ابھی نکاح کر دو نیرے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی کی بات ہوگی کہ میری بیٹی میری زندگی میں اپنے گھر کی ہو جائے گی “ باقر صاحب کی بات پر بی ڈی کھڑا ہوا تھا اور حمدان کے پاس جاتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے آگے لایا تھا –
یہ ہے وہ لڑکا انکل – تو بتائیے کیسا لگا آپ کو اپنا داماد ؟؟ بی ڈی نے مسکراتے ہوئے کہا – حمدان کا تو حیرت اور صدمے سے برا حال تھا جبکہ باقر صاحب کا خوشی کے مارے برا حال تھا – ” کیوں نہیں بیٹا مجھے خود حمدان بہت پسند ہے بس میں نے اسی لیے اس کا نام نہیں لیا کہ کہیں یہ کسی اور میں انٹرسٹڈ نہ ہو “ باقر صاحب کی بات پر بی ڈی بھی مسکرایہ -” نہیں انکل یہ کسی میں انٹرسٹڈ نہیں سوائے آپ کی بیٹی کے “ باقر صاحب تو بی ڈی بات سن حیرت سے حمدان کو دیکھنے لگے – ” کیوں بھئی برخودار مجھے پتا بھی لگنے نہیں دیا – اگر بتا دیتے تو مینے کون سی منع کر دینا تھا تم میرے بیٹے کی طرح ہو اور مجھے بھلا کیا مثلہ ہونا تھا – ایان تم بلاو نکاح خواں کو ابھی نکاح ہو گا اور مناہل کو اندر بھیجو میں اسے بھی نکاح کے لے راضی کرتا ہوں “ باقر صاحب کے کہنے پر بی ڈی سر ہلاتا روم سے باہر نکلا جبکہ حمدان بھی اس کے پیچھے ہی نکلا تھا – مناہل کو اندر بھیج بی ڈی نکاح خواں کو کال کرنے لگا تھا کہ حمدان نے اسے روکا –
” یہ سب کیا تھا بی ڈی مجھ سے پوچھے بغیر تم کیسے انکل کو ہاں کہہ سکتے ہو “ حمدان کی بات پر بی ڈی نے دونوں بازو سینے پر باندھے اسے دیکھا -” کیوں کیا تم مناہل کو پسند نہیں کرتے ؟؟ “ ” کرتا تھا مگر اب نہیں جس لڑکی کو مجھ پر یقین نہ ہو بلکہ کسی بھی راہ چلتے کی بات پر یقین کر لے مجھے اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں رکھنا “ حمدان نے غصے سے کہا – ” ہو گیا یا کچھ اور چپ چاپ نکاح کے لیے راضی ہو جاو ورنہ اور بھی بہت سے آپشن ہیں میرے پاس مناہل کا نکاح کروانے کے لیے –
“ بی ڈی حمدان سے سخت لہجے میں کہتا فون پر کال ملائے وہاں اے چلا گیا کیوں کہ وہ جانتا تھا حمدان اب انکار نہیں کرے گا اس نے وار بھی تو ایسا کیا تھا – تھوڑی ہی دیر میں مناہل کا نکاح حمدان سے ہو چکا تھا رخصتی ابھی تہ نہیں پائی تھی – مشل کو فون کت کے سب بتا دیا گیا تھا وہ اور مومل تو بہت خوش تھے یہ خبر سن کر آخر ان کی دوست ہمیشہ کے لے ان کے پاس رہنے والی تھی جبکہ مشل کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اس کے بھائی کو اس کی محبت مل گئی –
مناہل کو باقر صاحب نے النی قسم دے کر منایا تھا ورنہ وہ تو انکار کر رہی تھی – وہ بس اس ڈر سے انکار کر رہی تھی کیوں کہ حمدان کو تھپر مارنے کے بعد اس کا جو ری ایکشن تھا وہی اس کی جان نکالنے کے لیے بہت تھا اب بھی حمدان کی شکل سے پتا چل رہا تھا وہ کتنے غصے میں ہے – اس کا بس نہیں چل رہا تھا وقت واپس پیچھے لے جائے – کاش وہ حمدان کو تھپڑ نہ مارتی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial