قسط: 9
باقر صاحب کو وہ اپنے ساتھ پیلس ہی لے کر جا رہے تھے – انہوں نے تو منع کرنے کی بہت کوشش کی مگر بی ڈی نے یہ کہہ کر انہیں چپ کروا دیا کہ جب ہم لوگوں کو ضرورت تھی آپ نے ہماری مدد کی ہمارا خیال رکھا اور اب ہم پر فرض ہے کہ ہم بھی اپ کا خیال رکھیں ویسے بھی باپ کو بیٹوں کے پاس رہنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے – بی ڈی کی بات پر باقر صاحب تو چپ ہوگئے تھے اور اب وہ سب پیلس ہی جا رہے تھے – پیلس پہنچتے ہی بی ڈی باقر صاحب کو سہارا دیتے اندر لے گیا جبکہ مناہل ابھی تک گاڈی میں بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی –
” باہر نکلو گی گاڑی سے یا پھر تمہیں انویٹیشن دینا پڑے گا “ وہ جو اپنے اور حمدان کے رشتے کو لے کر سوچوں میں گم تھی کہ اچانک ہی حمدان کی سخت آواز نے اسے سوچوں سے باہر نکالا – ” جی نکل رہی ہوں “ مناہل جلدی سے کہتی گاڑی سے باہر نکلی اور اندر کی طرف بھاگ گئی – حمدان نے آنکھوں میں بنا کوئی کوئی تاثر لیے اسے جاتے دیکھا –
::::::::::::::::::::::::
وہ کمرے میں آیا تو مومل بیڈ پر خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی – کیا بات ہے جانِ خان اُداس کیوں بیٹھی ہو ؟؟ ایان نے اس کے پاس آتے محبت سے پوچھا – ” نہیں اُداس تو نہیں ہوں ویسے ہی مجھے خاموش رہنا اچھا لگتا ہے “ مومل نے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہا – ” اچھا ایسی بات ہے تو یار اپنی عادت بدلو مجھے تو تم ہر وقت مجھ سے باتیں کرتی چاہیے ہو “ بی ڈی نے بیڈ پر لیٹتے سر اس کی گود میں رکھتے کہا – جبکہ اس کی اس حرکت پر مومل خود میں سمٹی تھی –
” پر میں اتنی باتیں کہاں سے لاؤں گی ؟؟ مجھے شروع سے خاموشی پسند ہے “ مومل نے بڑی معصومیت سے پوچھا جس پر ایان کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا – ” خاموشی تو مجھے بھی پسند ہے میں بھی کسی کی زیادہ بات نہیں سنتا نہ کسی سے بات کرتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے باتیں کرو اور میں تمہیں سنوں “ ایان کی بات پر مومل مسکرائی تھی – ” میں کوشش کروں گی کہ خود کو اپ کی پسند میں ڈھال لوں “ مومل نے فرمابرداری سے کہا جس پر بی ڈی اس کے ہاتھ کا محبت سے بوسہ لیا –
::::::::::::::::::::::::::::::
” مناہل کیا بات ہے اب تو انکل بھی ٹھیک ہیں پھر اتنی خاموش کیوں ہو؟؟ “ مشل نے جب مناہل کو کب سے خاموش بیٹھے دیکھا تو اس سے پوچھنے لگی وہ دونوں اس وقت مشل کے کمرے میں تھیں – مشل کے پوچھنے پر مناہل نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ اس کے گلے لگتی ہچکیوں سے رونے لگی – ” مناہل کیا ہوا یار کیوں رو رہی ہو – انکل کی وجہ سے اگر پریشان ہو تو یار اب تو وہ بلکل ٹھیک ہیں پھر کیوں رو رہی ہو ؟؟ “ مشل اسے چپ کروانے کی کوشش کرتے بولی –
نہیں مناہل بابا تو ٹھیک ہیں پر حمدان نہیں ٹھیک وہ بدل گیا مشل میرج غلطی کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے وہ مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا میں کیا کروں مشل میرا دل کر رہا ہے خود کو کچھ کر لوں جب سے اس کی آنکھوں میں خود کے لیے محبت کی جگی نفرت اور غصہ دیکھا ہے – میں کیا کروں مشل ؟؟ میں کیا کروں ؟؟ مناہل نے ہچکیاں بھرتے اسے اپنے رونے کا سبب بتایا جبکہ مشل کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کہہ کیا رہی ہے – ” کیا کہہ رہی ہو مناہل سہی سے مجھے ساری بات بتاو “ مشل نے اسے خود سے دور کرتے پریشانی سے پوچھا – جس پر مناہل نے اسے شروع سے لے کر آخر تک ساری بات بتائی – ” کیا ؟؟ تم نے بڈی کو تھپڑ مارا ؟؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئی تھی تو کسی کی باتوں پر یقین کر بیٹھی “ مشل نے حیرت کی زیادتی سے پوچھا – ” بس یار سچ میں پاگل ہو گئی تھی اور اب مجھے اس کی بیگانگی تکلیف دے رہی ہے “ مناہل نے دکھ سے کہا – تو تمہیں کیسے پتا چلا کہ حمدان بھائی تمہیں چیٹ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ لڑکی جھوٹ بول رہی تھی ؟؟ مشل نے دماغ میں چلتا سوال پوچھا –
” ایان بھائی نے بتایا تھا نکاح سے پہلے اور اس لڑکی سے وڈیو کال پر سب کلئیر کروایا تھا اس نے خود قبول کیا کہ وہ مجھے اور حمدان کو دور کرنا چاہتی تھی “ مناہل نے آنسوں کو صاف کرتے کہا – ” تم نے واقع غلط کیا مناہل پر تم فکر نہ کرو میں بڈی سے بات کروں گی “ مشل نے اسے دلاسہ دیتے کہا – ” نہیں مشل تم کوئی بات نہیں کرو گی یہ میری سزا ہے کہ اب میں اس شخص کی بیگانگی جھیلوں جس کی محبت پر میں نے شک کیا “ مناہل نے اسے منع کرتے کہا جس پر مشل نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا –
::::::::::::::::::::::::::
باقر صاحب کو گھر آئے تین دن ہو چکے تھے ان تین دنوں میں سب کچھ ٹھیک تھا مگر اگر کچھ ٹھیک نہیں تھا تو وہ حمدان کا مناہل کے ساتھ رویہ تھا ان تین دنوں میں حمدان نے مناہل سے کوئی بات نہیں کی تھی نہ ہی وہ اس کی کسی بات کا جواب دیتا وہ بس اسے نظر انداز کر رہا تھا جبکہ مناہل کو اسکی یہ بے رخی اندر ہی اندر تکلیف دے رہی تھی – اس وقت مشل اور حمدان بی ڈی کے پاس اس کے آفس موجود تھے جبکہ مناہل اور مومل باہر لاونچ میں بیٹھیں باتوں میں مصروف تھیں –
کہو بی ڈی کیا بات ہے کیوں بلایا ہمیں ایسے اچانک ؟؟ کیا کوئی نیا شکار ملا ہے ؟؟ حمدان نے بی ڈی سے پوچھا – ”پہلی بات آج کے بعد تم مجھے ہر وقت بی ڈی نہیں کہو گے سوائے مشن کے وقت اور دوسری بات شکار تو واقع ملا ہے مگر پہلے اس کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے ہوں گے تم لوگوں کو اس لیے تم دونوں جاسوسی کرنے جاو گے “ – وہ تو ٹھیک ہے مگر جانا کہاں ہے ؟؟ حمدان نے پھر سے پوچھا – ” اس شخص کے ابائی گاوں جانا ہے تم لوگوں کو کیوں کہ ہمارا اگلا ٹارگٹ اس گاوں کا زمیندار ہے جو ایک گینگ چلانے کا کام کرتا ہے جس کا کام بچوں کو چھوٹی عمر میں نشے کا عادی بنانا ہے اور وہ تمام کام اپنے گاوں اور گھر سے کرتا ہے یعنی اس کے کچھ ملازم بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور تمام نشہ اس کی حویلی میں موجود ہے اب تم لوگوں کو اس کی حویلی میں رہ نوکر بن کر جانا ہے تمہارے رہنے کا انتظام کر دیا ھائے گا اور حویلی میں گھسنے کا بھی جاو تم دونوں اب تم دونوں کے پاس تین دن ہیں اپنی تیاری مکمل کر لو “ بی ڈی انہیں ساری بات بتا کر چپ ہوا تو دیہان ان دونوں کے چہروں پر گیا جو گاوں کا نام سن اور اس میں رہنے کا سن کر پورے کے پورے گھبراہٹ سے پیلے پڑے تھے –
” نہیں بی ڈی پلیز یہ ظلم نہ کرو گاؤں نہیں بھیجو وہاں نہیں رہ سکتے ہم “ حمدان تو باقاعدہ اس کے پاوں میں گرتا گڑگڑا کر بولا جبکہ مشل نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی – ” جی بھائی پلیز گاؤں مت بھیجیں وہاں مچھر بہت ہوتا ہے اور دھوپ مٹی سے سارا رنگ خراب ہو جاتا ہے – اور آپ تو پھر وہاں کام کے لیے بھیج رہے ہو میرے ناڈن خراب ہو جائیں گے مجھے نہیں جانا گاؤں مجھ سے گھر کے کام نہیں ہوں گے “ مشل نے بھی پوری منتیں کرتے کہا جبکہ بی ڈی پر کسی بات کا اثر نہیں ہوا – ” ہو گیا یا کچھ اور یہ سب تب سوچنا تھا جب مجھے شادی پر تم لوگوں نے تنگ کیا تب تم لوگ بھول گئے تھے کہ میں بی ڈی ہوں اب بُھگتو اور خبر دار جو ایک اور لفظ بھی نکالا زبان سے نہیں تو جو تم لوگ وہاں ایک ماہ کے لیے جا رہے ہو نہ وہ میں مدت بڑھا کر دو ماہ کر دوں گا اب جاو “ بی ڈی نے انہیں دھمکی دیتے کہا جس کا اثر لیتے وہ دونوں رونی صورت لیے آفس سے باہر نکلے تھے –
:::::::::: :::::::::::::
حمدان اس وقت لاونچ میں ٹرپلیسٹ صوفے پر رونی صورت لیے بیٹھا تھا – کہ تبھی احمد وہاں آیا تھا – اسلام و علیکم !! حمدان کیسے ہو ؟؟ احمد نے اس کے پاس آتے خوش اخلاقی سے پوچھا – واعلیکم اسلام !! حمدان نے سلام کا جواب دیے پھر سے سر نیچے جھکا لیا – میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیسے ہو ؟؟ احمد نے پھر سے اس کا حال پوچھا – ” میں بلکل بھی ٹھیک نہیں دوست مت پوچھو بس مجھ سے میں غم میں ہوں “ حمدان نے ڈرامے بازی کی حد کرتے کہا جبکہ احمد نے اس کی اداکاری پر مسکراہٹ چھپائی تھی – ” اچھا مومل کدھر ہے دراصل یہ اس کے کچھ تحفے ہیں جو میں امریکہ سے لے کر آیا تھا وہ ہی اسے دینے ہیں “ احمد کی بات پر حمدان نے مومل اور بج ڈی کے کمرے کی طرف اشارہ کیا کیوں کہطوہ کچھ دیر پہلے ہی مناہل کے ساتھ کمرے میں گئی تھی –
بی ڈی اپنے آفس جا چکا تھا جبکہ مناہل باقر صاحب کے کمرے میں تھی – شکریہ ! حمدان سے کہتے احمد اوپر کی جانب بڑھ گیا – ابھی احمد کو گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مشل اپنے کمرے سے باہر نکلتی حمدان کے پاس آئی تھی اور اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے اس کے کندھے پر سر رکھتے اپنے دونوض بازو اس کے گرد حائل کر گئی – ” بڈی سر میں درد ہو رہا ہے سوچ سوچ کر کہ کیسے گاوں میں رہیں گے مجھے تو ابھی سے محسوس ہو رہا ہے کہ میں کالی ہو رہی ہوں اور میری سکن خراب ہو رہی ہے – مجھے نہیں جانا یار “ مشل نے اس کے پاس آتے رونا رویا جو خود تب سے یہی سوچ رہا تھا – ” کیا کر سکتے ہیں پاٹنر بی ڈی نے کہہ دیا ہے تو مطلب جانا ہی پڑے گا “ حمدان نے دکھی لہجے میں کہا – ” اور تم جاو تھوڑی دیر سو جاو سر درد ٹھیک ہو جائے گا تمہارا “ حمدان نے تھورا سا سر موڑتے اپنے کندھے پر رکھے اس کے سر پر بوسہ دیتے کہا –
جبکہ مومل سے مل کر آتا احمد یہ منظر دیکھ وہیں رک گیا تھا – سامنے بیٹھی لڑکی جس کے لیے اس کا دل جزبات رکھتا تھا وہ اپنے کزن کے گرد کیسے بازو ڈال کر بیٹھی تھی اور اس کا کزن اس کے سر پر بوسہ بھی دے رہا تھا – مگر وہ یہ سوچ خود کو ڈپٹ گیا کہ وہ کون ہوتا ہے یہ سوچنے والا کہ مشل کس کے ساتھ کس طرح رہتی ہے اگر وہ پسند کرتا تھا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں وہ بھی اسے پسند کرتی ہو شاید وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو وہ کوئی نہیں ہوتا تھا کچھ کہنے والا – احمد جلدی سے سیڑھیاں اتر داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا حمدان نے روکنے کی کافی کوشش کی مگر وہ کام کا کہہ کر چلا گیا – مشل بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے اسے پرواہ بھی نہ ہو وہ رُکتا ہے یاں نہیں –
:::::::::: :::::::::: ::::::::::::
ایان کمرے میں آیا تو مومل کے پاس بیڈ پر کچھ تحفے پڑے دیکھے – یہ کون لایا ؟؟ اس نے نارمل لہجے میں پوچھا – ” وہ خان جی احمد بھائی لائے تھے میرے لیے امریکہ سے تو آج مجھے دے کر گئے ہیں – انہیں شاید جلدی تھی جانے کی بیٹھے بھی نہیں ٹھوڑی دیر کے لیے میں نے بہت کہا مگر کہتے پرسوں آ جاوں گا مگر آج ٹائم نہیں “ مومل جلدی سے اسے بتایا مگر آخر میں اس کا لہجہ اداس ہو گیا – ” اچھا تو اس میں اداسی کیسی جب احمد کہہ کر گیا ہے کہ پرسوں آ جائے گا تو کیوں تم اداس ہو رہی ہو “ بی ڈی کے کہنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا – ” وہ تو ہے مگر مجھے ان سے باتیں کرنی تھیں ابھی “ مومل نے معصومیت سے کہا جبکہ بی ڈی مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا –
” تو تم مجھ سے باتیں کر لو “ بی ڈی کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی – کیا باتیں کروں آپ سے ؟؟ مومل نے حیا آلود لہجے میں کہا – ” کسی بھی قسم کی “ بی ڈی نے اس کے چہرے کو محبت بھری نظروں سے تکتے کہا – اچھا تو پھر آپ کا دن کیسا گزرا ؟؟ مومل نے فوراً پہلا سوال کیا – ” بہت اچھا تم بتاو تمہارا کیسا دن گزرا ؟؟ ویسے لال رنگ میں کھلا گلاب لگ رہی ہو جانِ خان “ بی ڈی نے محبت سے اس کی تعریف کی جو لال رنگ کی فراک پہنے ہوئی تھی اس کےطتمام کپڑے بی ڈی اپنی پسند سے لایا تھا – شکریہ ! مومل نے شرماتے ہوئے کہا – ہاہاہا بیوی تم شرماتی بہت ہو اور پھر میری نیت خراب ہوتی ہے تم پر – ویسے ہئیر سٹائیل کس نے بنایا تمہارے ؟؟ بی ڈی نے اس کا ہئیر سٹائل چھوتے پوچھا جو اسے بہت جچ رہا تھا – ” مناہل نے بنایا ہے کہہ رہی تھی روز بنائے گی نئے نئے ہئیر سٹائل – “ مومل نے اسے خوشی سے بتایا – ” اچھا واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے “ بی ڈی کے کہنے پر مومل اور پرھوش ہوئی –
آپ کو پتا ہے ؟؟ ” نہیں مجھے نہیں پتا تم بتاو “ بی ڈی بیڈ پر نومل کی طرف رخ کرتے لیٹ اپنا ایک بازو سر کے نیچے رکھے سر تھوڑا سا اٹھائے اسے دیکھتا بولا اسے پتا تھا اب مومل سارے دن کی روداد سنانے والی ہے وہ صرف کہتی تھی کہ میں زیادہ نہیں بولتی – مگر جب وہ بولنا شروع کرتی تو بنا روکے بولتج جاتی تھی پر بی ڈی تو خود چاہتا تھا وہ اس سے ڈھیڑ ساری باتیں کرے اسی لیے سکون سے لیٹا اس کے چہرے کو نظروں کے حصار میں رکھتا وہ مسکرا کر اس کی ساری باتیں سن رہا تھا –
::::::::: :::::::::: :::::::::::::
سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے – آج حمدان اور مشل کو اپنے مشن کیلئے گاوں چلے جانا تھا تھا اسی لیے وہ دونوں بھی اس سوگ میں آج خاموش بیٹھے تھے – ناشتے سے فارغ ہوتے وہ دونوں اپنا سامان لے آئے تھے جو وہ کل ہی لنڈے سے لائے تھے تا کہ وہاں واقع غریب لگیں اسی لیے پرانا بیگ اور پرانی چیزیں لے آئے تھے مگر پہلی بار لنڈہ بازار جا کر وہ دونوں تو لنڈے کے فین ہو گئے تھے اور ہر ماہ وہاں جا کر چیزیں لے کر آئیں گے ابھی بھی وہ گاوں کے لیے سامان کے ساتھ اپنے لیے اور بھی کافی چیزیں لے کر آئے تھے – وہ دونوں مومل کے پاس آئے تو مشل نے اسے کس کر گلے لگایا –
” اچھا دوست پھر ہم جلدی ملیں گے بس میرے لیے دعا کرنا “ مشل نے ڈرامائی انداز اس سے کہا – ارے مشل تم اور حمدان بھائی تو مری گھومنے جا رہے ہو نہ پھر اتنی دکھی کیوں ہو ؟؟ مومل کی بات پر مشل اور حمدان نے آنکھیں پھاڑے بی ڈی کی طرف دیکھا – مطلب انہیں مشن پر بھیج وہ اپنی بیوی کو یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ٹرپ پر جا رہے ہیں اور وہ بھی مری – ان دونوں کا دل کیا زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مار کر روئیں – ” ہاں وہ تو ہے بس ہم تمہیں مس کریں گے نہ بہنا “ حمدان نے مومل کے سر پر ہاتھ رکھتے بات سنبھالتے کہا مگر بی ڈی کو گھورنا نہیں بھولا تھا جس کا بی ڈی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا – مشل مومل کے بعد مناہل کے گلے لگتی دور ہوئی –
مناہل کی نظریں حمدان پر تھیں مگر وہ تو روز کی طرح اسے نظر انداز کر رہا تھا – ابھی وہ مل رہے تھے احمد بھی آگیا اور بلند آواز انہیں سلام کرتا ان کے پاس آیا – مومل تو اس کی آواز سن خوش ہو گئی تھی – ”آ جاو بھائی تم بھی مل لو ہم لوگ گھومنے پھرنے جا رہے ہیں تو مہینہ تمہیں ہماری شکل دیکھنے کو نہیں ملے گی “ حمدان نے آگے بڑھتے اسے گلے لگاتے کہا – کون کون جا رہا ہے ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – ” میں اور مشل جا رہے ہیں “ حمدان کے بتانے پر اس نے مشل کی طرف دیکھا تھا – جو آج بلکل مختلف حلیے میں تھی –
پینٹ شرٹ کی بجائے آج وہ شلوار قمیز اور ڈوپٹے میں ملبوس تھی اور بالوں کی چُٹیا بنائی ہوئی تھی – اس کا یہ روپ دیکھ حمدان اسے دیکھتا ہی رہ گیا – ” چلو یار سامان رکھ دیا ہے نوکر نے گاڈی میں “ مشل کہتی حمدان کے پاس آئی جس نے اس کی طرح آج شلوار قمیز پہنی تھی – ” مجھ سے نہیں ملنا کیا تم دونوں نے “ بی ڈی کہنے پر ان دونوں نے اس کی جانب دیکھا – ” نہیں ہم نہی مل کر جا رہے آپ سے آپ سے ہم ناراض ہیں “ مشل نے منہ بناتے کہا – جس پر بی ڈی مسکرایہ کیوں کہ وہ جانتا تھا بس کہنے کی بات ہے وہ دونوں اسے ملے بغیر کہیں نہیں جاتے تھے اور وہی بات ہوئی اگلے ہی کچھ سیکنڈ میں وہ دونوں اس کے گلے لگ چکے تھے – ” بس آپ کا دل رکھنے کے لیے مل کر جا رہے ہیں – چلو بڈی چلیں دیر ہو رہی ہے “بی ڈی سے کہتے وہ حمدان سے مخاطب ہوئی اور وہ دونوں باہر کی جانب روانہ ہوئے – مناہل تو کب کی حمدان کی نظر اندازی دیکھ وہاں سے باقر صاحب کے کمرے میں جا چکی تھی –