قسط: 10
مہندی کا فنگشن حویلی کے سامبے والے خالی پلاٹ میں ٹینٹ لگا کر کیا گیا تھا – ساجدہ کی مہندی کی رسم کے بعد سب لڑکیاں ڈھولکی لے کر بیٹھ گئی تھیں اور بہت سے شرارتی لڑکے بھی ان کے ساتھ گانے اور ناچنے کے لیے بیٹھ گئے تھے –
شہریار بھی معصومہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا تھا جبکہ عارش ، عرش اور علی وہاں رکھی کرسیوں پر بیٹھے تھے – عارش تو جب سے مہندی شروع ہوئی تھی معصومہ کو ہی دیکھی جا رہا تھا – پتا نہیں کیوں مگر اس کی نظریں ہٹ ہی نہیں رہی تھیں اس سے –
پہلے تو کبھی اس نے اسے غور سے بھی نہیں دیکھا تھا اور آج وہ اس سے نظریں ہٹا ہی نہیں پا رہا تھا – دوپہر کے واقع کے بعد سے نا جانے اس کے دل کو کیا ہوگیا تھا جو صرف نعصومہ کو سوچ رہا تھا –
یہ سب بھی ٹھیک تھا مگر اسے تو معصومہ کا شہریار سے ہس ہس کر بات کرنا اس کے ساتھ سلفیاں لینا اور ان دونوں کا ہر جگہ جڑ جڑ کر بیٹھنا بھی برا لگ رہا تھا – ابھی بھی معصومہ اور شہریار کو ایک ساتھ دیکھ اسے برا لگ رہا تھا جو ڈھولکی پر مل کر گانے گا رہے تھے –
اسے خود پر اختیار نہیں رہا تو تھک کر وہ اٹھتا عرش لوگوں سے ایسکیوز کرتا وہاں سے چلا گیا تھا مگر وہ وہاں اکیلا نہیں تھا جو معصومہ کو دیکھ رہا تھا ایک اور شخص بھی تھا جس کی نظریں معصومہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں – لیکن اس کی نظروں میں عارش کی طرح چاہت نہیں بلکہ حوس تھی –
واہ عابد تو تو سمجھا تھا کہ شاہوں کی تینوں لڑکیاں پیاری ہیں مگر ان کی یہ چوتھی لڑکی تو سب کو پیچھے چھوڈتی ہے – عابد معصومہ کے چہرے پر نظریں گاڑے خود سے مخاطب تھا – مریم پریزے اور کنزہ تینوں ہی بہت پیاری تھیں – کوئی بھی ان پر دل ہار بیٹھتا مگر معصومہ کی خوبصورتی کا الگ ہی لیول تھا –
دوسرا اس کی خوبصورت آنکھوں میں رہتی شرارت اور حسین چہرے پر رہتی معصومیت اسے اور دلکش بناتی تھی – ابھی بھی وہ سب چیزوں سے بے خبر ڈھولکی پر گانے گانے میں مصروف تھی – بنا یہ جانے کہ کوئی اس کو بری حوس زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::::
رات سب ہی تقریباً رات کے تین چار کر بعد سوئے تھے اسی لیے اگلے دن دوپہر تک سب سوئے تھے – دوپہر کو اٹھ کر وہ سب سے پہلے شہریار لوگوں کے کمرے میں گئی تھی – کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے وہ بیڈ پر الٹا لیتا نظر آیا –
وہ غصے سے آگے بڑھتی بیڈ کے قریب جاتی اس کے کندھے کو زور زور سے ہلانے لگی – شیری اٹھو بدتمیز انسان – میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم مجھے ساری رات کی لی گئی تصویریں سینڈ کرنا مگر تم نے نہیں کیں – وہ غصے سے اس کے کندھے ہلاتے بولی – عارش جو صبح سات بجے سویا تھا ابھی گہری نید میں تھا جب اسے کوئی اپنا کندھا زور زور سے ہلاتا محسوس ہوا –
اس نے ایک دم سائیڈ چینج کی تھی جبکہ معصومہ جو اسے شہریار سمجھ اس کے بال کھنچنے کے لیے اس کے بال پکر چکی تھی مگر شہریار کی جگہ عارش کو دیکھ اس کی چیخ نکلی تھی – ہائے میں مر گئی خارش بھائی مطلب بارش بھائی ممم…مطلب عارش بھائی میں سمجھی کہ شیری ہے –
وہ اسے دیکھ کر ڈرتے ہوئے بولی – عارش نے شیری کی شرٹ پہن رکھی تھی اور پھر دونوں بھائیوں کی جسامت بھی سیم تھی بلکہ چاروں کزنز کی جسامت سیم تھی اسی لیے معصومہ کو وہ شیری لگا تھا جبکہ آنکھ کھلتے ہی معصومہ کا چہرہ دیکھ کر عارش کا دل تو جیسے کھل اٹھا تھا –
اٹس اوکے اچھا ہوا تم نے اٹھا دیا میں کافی دیر سے سو رہا تھا – وہ اٹھ کر بیٹھتا مسکرا کر بولا اور اس کے یوں مسکرانے پر معصومہ کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا – عارش بھائی آپ ٹھیک تو ہو نہ ؟؟ معصومہ نے آنکھیں بڑی کیے پوچھا – بلکل ٹھیک ہوں تمہیں جو دیکھ لیا اٹھتے ہی –
وہ پھر سے سمائل پاس کرتا بولا جبکہ معصومہ کو لگا تھا وہ اب بے ہوش ہو جائے گی – ممم…میں چلتی ہوں – وہ اس کے رویے پر کنفیوز ہوتی بولی اور فوراً کمرے سے نکلی تھی – کمرے سے باہر آتے ہی اس نے پلٹ کر پھر سے پیچھے دیکھا تھا جہاں وہ اسے ہی دیکھتے مسکرا رہا تھا –
پتا نہیں کیا ہو گیا ہے خارش بھائی کو لگتا ہے نید نہیں پوری ہوئی ان کی جو بہکی بہکی باتیں کر رہے تھے بلکہ سمائل کر رہے تھے اور وہ بھی مجھے دیکھ کر – وہ سیڑھیاں اترتی خود سے بڑبڑا رہی تھی جبکہ اوپر کمرے میں عارش اس کے جانے کے بعد دل پر ہاتھ رکھتا ہس دیا تھا –
تو دے دی تم نے دغا مجھے – وہ اپنے دل سے مخاطب تھا پھر خود پر ہستا واش روم میں گھس گیا –
::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::
بارات پر تو سب لڑکیوں نے اخیر ہی کر دی تھی تیار ہو کر پیارے لگنے کی – عارش بھائی شیری کدھر گیا ؟؟ معصومہ اپنی فراک سنبھال کر چلتی اس کے پاس آکر بولی – جبکہ عارش کو تو وہ اپنے پسند کیے گئے میرون رنگ کے فراک میں پرستان کی پری ہی لگی تھی –
وہ خود بھی قیامت دھا رہا تھا وہاں موجود لڑکیوں پر – بلکہ وہ چاروں شاہ زادے ہی محفل کی رونق بنے ہوئے تھے – ان چاروں نے بلیک کلر کے تھری پیس پہن رکھے تھے جس میں وہ اور ڈیشنگ لگ رہے تھے – مجھے نہیں پتا – تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟؟ عارش نے جواب دیتے سوال پوچھا –
ویسے اس نے جھوٹ بولا تھا کہ اسے نہیں پتا کہ شیری کہاں ہے – ہلانکہ اسے پتا تھا کیونکہ وہ دیکھ چکا تھا اسے بابا اور چاچو کے ساتھ باہر جاتے – وہ نہ مجھے تصویریں بنوانی تھی – اس کے کیمرے کا رزلٹ اچھا ہے اس لیے – معصومہ معصومیت سے بولتی اسے حد درجہ پیاری لگی تھی –
تو آو میں بنا دیتا ہوں تمہاری تصویریں اس میں کیا بات ہے – میرے کیمرے کا رزلٹ زیادہ اچھا ہے شیری سے – وہ اپنا موبائل نکال کر بولا جبکہ معصومہ کو تو وہ صبح سے حیران کر رہا تھا – ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ عارش نے اسے سارے دن میں ایک بار بھی نہ ڈانٹا ہو بلکہ وہ تو اس سے مسکرا مسکرا کر بات کر رہا تھا – آپ واقع میری پکچرز بنائیں گے ؟؟ معصومہ نے کنفرم کرنا چاہا –
ہاں تو اور کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں – عارش نے سنجیدہ ہوتے کہا – نہیں نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی چلیں پھر وہاں چلیں ہال کی وہ جگہ بہت پیاری ڈیکوریٹ ہے ویو اچھا آئے گا –
وہ عارش کو واپس سیریس ہوتا دیکھ جلدی سے بولی – اوکے چلو – عارش اسے چلنے کا اشارہ کرتے بولتا خود بھی اس کے پیچھے چل پڑا – کافی ساری ڈفرنٹ پوز میں پکچرز بنانے کے بعد وہ معصومہ کو ساری پکچرز دکھا رہا تھا –
واہ عارش بھائی بہت پیاری ہیں ساری پکس کاش آپ کل بھی مجھے یہ آفر کرتے – وہ خوشی سے بولتی آخر میں اداس ہوئی تھی – کوئی بات نہیں تم کل ولیمے پر مجھ سے بنوا لینا پکس – عارش اس کی اداسی دور کرتا بولا –
ہائےے شکریہ عارش بھائی – وہ خوشی سے کہتے جانے لگی تھی مگر عارش نے اسے روکا تھا – رکو کہاں جا رہی ہو ؟؟ عارش کے پوچھنے پر اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا – کیا مطلب کہاں سٹیج پر جا رہی ہوں – معصومہ نے اسے بتایا – رکو میرے ساتھ بھی پکس بنوا لو – چلو سیلفی لیتے ہیں –
عارش اسے پاس بلاتا بولا جبکہ معصومہ کو تو یقین نہیں آ رہا تھا یہ عارش ہی ہے مگر وہ خاموشی سے اس کے پاس آتی ساتھ کھڑی ہو گئی –
اور پھر اس کے ساتھ کافی ساری سیلفیز بنائیں تھیں اس نے سب سیلفیز میں دونوں کے چہروں پر بھر پور مسکراہٹ تھی – معصومہ نے تو سیلفی کے لیے سجائی ہوئی تھی مسکراہٹ مگر عارش کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ تھی –
::::::::::::::::::: ::::::::::::::: :::::::::::::::: :::::::::::
معصومہ تمہیں آج کچھ یاد آیا ؟؟ رخصتی کے بعد سب واپس گھر آگئے تھے اور اس وقت کمرے میں سب لڑکیاں بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں تبھی مریم نے معصومہ سے ہستے ہوئے پوچھا –
ہاہاہا ہاں یار میں ساری بارات پر اصغر بھائی کی شادی یاد کرتی رہی ہوں – مریم کی بات پر معصومہ ہستے ہوئے بولی –
کیوں بھئی کیا تھا ایسا ہماری شادی پر جسے تم یاد کرتی ہستی رہی ؟؟ اصغر کی بیوی ملائکہ نے حیرت سے پوچھا – جس پر معصومہ ہستے ہوئے اسے وجہ بتانے لگی –
::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
اصغر کی شادی پر معصومہ کو مہندی کی رات ہی بہت بری نظر لگ گئی تھی اور وہ بہت بیمار ہو گئی – اگلے دن کیونکہ گھر کوئی تھا نہیں سب نے بارات پر جانا تھا اسی لیے اسے بھی تیار کر کے سب ساتھ لے گئے تھے –
بخار کی وجہ سے اسے زکام بھی ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے خود بخود اس کی آنکھوں سے بری طرح پانی نکل رہا تھا ایسے جیسے وہ رو رہی ہو – وہ سٹیج کی طرف منہ کیے بیٹھی بار بار اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی مگر اس کی آنکھوں سے پانی نکلنا بند ہی نہیں ہو رہا تھا –
مریم جو اس کے پاس طبعت پوچھنے آئی تھی اسے دیکھ حیران ہوئی تھی – معصومہ کیا ہوا ہے ؟؟ رو کیوں رہی ہو ؟؟ وہ حیرت اور پریشانی سے اس سے پوچھنے لگی – کچھ نہیں مریم بس ویسے ہی آنکھوں سے پانی نکل رہا ہے پر پتا نہیں کیوں نکل رہا ہے –
میں اتنی بار آنکھیں پونچھ چکی ہوں مگر کوئی فائیدہ ہی نہیں – معصومہ زکام زدہ آواز میں بولی –
اچھا چلو تم اچھے سے آنکھیں صاف کرو اور کوشش کرو کہ نہ نکلے پانی آنکھوں سے ورنہ لوگ غلط سمجھیں گے تمہارا منہ بھی ایک تو سٹیج کی طرف ہے – مریم اس سے کہتی آخر میں ہس دی جس پر معصومہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::: ::::::::::
ہاہاہا کوئی نہیں معصومہ کوئی کچھ بھی کہتا میں نے تمہیں غلط نہیں سمجھنا تھا – ملائکہ ساری بات سنتی ہستے ہوئے بولی – اچھا وہ کیوں بھابھی ؟؟ معصومہ اور مریم نے ایک ساتھ پوچھا جبکہ پریزے اور ملائکہ کی چھوٹی بہن جو آج ہی آئی تھی مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھیں –
کنزہ کا سر درد کر رہا تھا اس لیے وہ دادی کے پاس جا کر سو گئی تھی کیونکہ اسے پتا تھا کچھ بھی ہو جاتا اس کی نانی اور نانا کے کمرے میں شور نہیں ہو سکتا تھا اور وہ سکون کی نید لے سکتی تھی – ارے اس لیے کیونکہ مجھے پتا ہے میرے علاوہ کوئی میرے شوہر کو منہ نہیں لگائے گی –
ملائکہ کے جواب پر ان سب کا قہقہ چھوٹا تھا – ہاہاہا جی بلکل آپ ہی لگاتی ہیں انہیں منہ اور وہ آپ کو اور اس کا نتیجہ بھی اب سامنے ہی ہے – معصومہ آنکھ دبا کر بولتی اس کی پریگنٹسی کی طرف اشارہ کر گئی جبکہ اس کی بات پر ملائکہ کے گال لال ہوئے تھے – بے شرم کہیں کی کچھ شرم کرو –
ملائکہ اس کے کندھے پر چپٹ لگاتی بولی – ارے بھابھی کسے سیکھا رہی ہیں شرم ؟؟ اس کا اور شرم کا دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہے – شرم بھی کتراتی ہے اس کے پاس آنے سے – ملائکہ کی بات پر پریزے نے جواب دیا تھا –
ہاں بلکل ایسا ہی ہے مجھے تو شرم نہیں آتی میں بہت بے شرم ہوں – لوگوں کے شوہر بے شرم ہوتے ہیں میرے والے معملے میں میرا شوہر شرمیلا ہو گا اور میں بے شرم –
تم سب بیویاں اپنے شوہر سے کہو گی کہ اے جی کچھ شرم کریں کوئی دیکھ لے گا وغیرہ وغیرہ – میرے والے نے مجھے کہنا ہے معصومہ شرم کر لو بس کر دو – کوئی دیکھ لے گا – ہاہاہا اس نے تو یہ بھی کہنا ہے کہ یا اللہ مجھے میری بیوی سے بچا –
معصومہ ہستے ہوئے انہیں اپنے مستقبل کا نقشہ کھینچتے بتانے لگی جس پر وہ سب توبہ توبہ کہتیں ہس پڑیں تھیں مگر ان کے علاوہ بھی کوئی ہس رہا تھا اس کی باتوں پر – وہ تھا عارش جو کمرے میں مریم کو بلانے آیا تھا مگر معصومہ کی باتوں پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی –
یہ تو مستقبل میں دیکھیں گے جان عارش کہ کون یہ سب کہتا ہے – وہ ہلکی آواز میں بڑبڑایا تھا – اور مریم کو بنا بلائے واپس پلٹ گیا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::: ::::::::::::::
عرش اور مریم گاوں کے پاس والے شہر میں گئے ہوئے تھے کیونکہ رات کا ولیمہ تھا اور مریم کا پرفیوم ٹوٹ گیا تھا –
عرش سے ضد کر کے وہ شہر گئی تھی تاکہ پرفیوم لے سکے اپنا – اسے تو کہا تھا پریزے اور معصومہ نے کہ وہ ان کا یوز کر لے مگر ان کے پرفیوم سے اسے الرجی تھی – اسی لیے وہ اپنا پرفیوم لینے آئی تھی –
مگر پچھلے بیس منٹ سے اسے کوئی پرفیوم پسند آیا ہی نہیں تھا – بھائی کوئی اچھا والا دیکھاو نہ ان سب کی خوشبو نہیں اچھی – وہ آخر تنگ آتی بولی – باجی اچھا تو پھر رومینس ہی ہے –
دکاندار کی بات پر اس کے کان تک لال ہوئے تھے – یہ کیا بکواس ہے – وہ غصے سے بولی جبکہ عرش جو کال سن کر آیا تھا اس کے غصے پر حیران ہوتا پاس آیا – کیا ہوا مریم ؟؟ اس نے پوچھا –
یہ دکاندار دیکھیں کیسی گندی بات کر رہا ہے – وہ اس کا دیہان دکاندار کی طرف کرتی بولی – کیا کہا ہے تم نے ؟؟ عرش دکاندار سے سختی سے پوچھتے بولا – میں تو کچھ بھی نہیں کہا سر بس باجی نے کہا کہ کوئی اچھا سا دیکھاو پرفیوم اور میں نے کہا کہ اچھا تو پھر رومینس ہی ہے –
دکاندار بیچارہ پریشانی سے اسے بتانے لگا – جبکہ عرش کو سمجھ آگئی تھی اس کی بات کی – او ہو مریم یہ پرفیوم کا نام ہے – وہ مریم کی طرف پلٹتا اسے سمجھاتے بولا – مجھے نہیں لینا اسے کہیں مجھے بلیو لیڈی دے ورنہ رہنے دے –
وہ منہ پھلا کر بولی – ٹھیک ہے باجی شکر ہے ایک ہی پڑا ہے مگر آپ کے لیے ہے بلیو لیڈی – دکاندار شکر کرتے بولتا اس کو پرفیوم دے چکا تھا اور عرش بل پے کرتا مریم کو لیے دکان سے بکل گیا تھا –