Luta hai dil ko teri ada ny

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

وہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی کھانا بنانے میں مصروف تھی کیونکہ اس کے شوہر کے آنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا اور گھر آتے ہی اسے کھانا چاہیے ہوتا تھا وہ بھی اسی کے ہاتھ کا بنا – اس کا بیٹا کب سے رو رہا تھا اور ملازمہ اسے چپ کرواتے کرواتے تھک گئی تھی مگر اسے تو ابھی بس اپنی ماں چاہیے تھی –
اپنے بیٹے کی رونے کی آواز سن کر اس کے ہاتھ اور جلدی جلدی سے کام کر رہے تھے تا کہ جلدی سے کام ختم کر کے وہ اپنے بیٹے کو اٹھا سکے – ابھی وہ بریانی دم پر لگاتے پیچھے ہٹی ہی تھی کہ تبھی باہر سے اسے اپنے شوہر کی چنگارتی ہوئی آواز آئی تھی جو غصے میں اسے آوازیں دے رہا تھا –
وہ بھاگ کر کچن سے باہر نکلی مگر سامنے ہی وہ اپنے بیٹے کو اٹھائے کچن کی جانب ہی آ رہا تھا – کدھر مری ہوئی تھی تم ؟؟ بچے کے رونے کی آواز نہیں آرہی تھی تمہیں ؟؟ اس کو سامنے دیکھتے ہی وہ بھرکنا شروع ہو گیا تھا – جج..جی وہ مم…می…میں کھا….نا بنا ررر…رہی تھی آآ…آپ کے لیے –
اس نے نظریں نیچی رکھے ڈرتے ڈرتے کہا – بھاڑ میں جائے کھانا – بھوکا نہی مر جانا تھا میں نے اگر تم کھانا نہ بناتی تو – پکرو سلال کو اور آج کے بعد اگر تم نے میرے بیٹے سے لاپرواہی برتی تو جان نکال دوں گا تمہاری – اپنے باپ کو تو میں کھو چکا تمہارے باپ کی وجہ سے مگر اپنے بیٹے کی آنکھوں میں تمہاری وجہ سے ایک آنسوں بھی برداشت نہیں کروں گا –
سلال کو اسے پکراتے وہ اسے تنبیہ کرتا بولا جبکہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ سلال اس کی بھی اولاد ہے اور بھلا ایک ماں کب اپنی اولاد کی آنکھوں میں آنسوں برداشت کر سکتی ہے مگر وہ صرف یہ سوچ ہی سکی کہنے کی ہمت اس میں نہیں تھی اگر کہہ بھی دیتی تو عزاب اس کی نازک جان نے ہی جھیلنا تھا – جاو اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو – جاو جا کر اسے سلاو –
اسے وہیں اپنی جگہ کھڑا دیکھ وہ چیختے ہوئے بولا جبکہ اس کے یوں بولنے پر وہ ڈر کے مارے ایک دم کانپ گئی تھی مگر پھر فوراً وہاں سے سلال کو گلے لگائے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی – سلال کو سلا کر نیچے آجانا وہیں کمرے میں نہ مری رہنا – نیچے آکر کھانا وغیرہ ٹیبل پر سیٹ کرنا کیونکہ کائنات آ رہی ہے اور وہ یہیں ڈنر کرے گی میرے ساتھ اور خبردار جو تم نے ڈنر کے وقت اپنی منہوس شکل اسے دیکھائی تو –
بلا وجہ اس کا موڈ خراب کرو گی – ابھی وہ سیڑھیوں کے درمیان میں ہی پہنچی تھی کہ پیچھے سے اپنے شوہر کے الفاظ پر اس کے قدم تھمے تھے اور کائنات کا نام سن کر اس نے تکلیف اور غم سے آنکھیں زور سے میچ لیں تھیں –
..اس کی آدھی بلکہ ساری تکلیفوں کی وجہ ہی وہ لڑکی تھی مگر وہ بے بس تھی کیونکہ وہ اس کے شوہر کی چاہت تھی اور شوہر بھی وہ جس کے لیے وہ صرف ایک بدلہ تھی اور کچھ نہیں – اس کی تو اپنے شوہر کے نزدیک ایک جوتی کی بھی اوقات نہیں تھی –
وہ مجبور تھی سب سہنے کے لیے مگر اتنا وہ جان گئی تھی کہ آج کی رات پھر اس پر بھاری تھی کیونکہ کائنات نے جاتے ہوئے پھر اس کے شوہر کو اس کے خلاف بھرکا جانا تھا جس کا نتیجہ اس کی نازک جان نے سہنا تھا –
ابھی سے رات کا سوچ کر اس کا پورا وجود کانپ گیا تھا – وہ ایسی تو نہیں تھی ڈرنے والی بلکہ وہ تو بہت بہادر تھی کسی سے نہ ڈرنے والی اپنے بابا کی لاڈلی مگر اب اس گزرے ڈیڑھ سال میں وہ ایسی ہو گئی تھی کہ ہوا کی آواز سے بھی ڈر جاتی تھی اور وہ وجود جو پہلے بھرا بھرا ہوتا تھا اب تو مانو ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا –
شروع میں تو اس کو سارے دن میں ایک روٹی ملتی تھی وہ بھی سوکھی مگر پھر جب وہ امید سے ہوئی تو اسے دو وقت کا کھانا دیا جانے لگا مگر اس ظالم نے اپنے ظلم کم نہ کیے – اب بھی سلال کے پیدا ہونے کے بعد ہی اسے اجازت ملی تھی جب دل کرے کچھ بھی کھا لے کیونکہ سلال کو اس نے فیڈ کروانا ہوتا تھا اسی لیے اس کے شوہر نے اس کو اپنے بیٹے کے لیے اتنی چھوٹ دے دی تھی –
وہ سلال کو فیڈ کروا کر سلاتی خود کمرے سے باہر نکل گئی تھی کیونکہ اب اسے ٹیبل بھی سیٹ کرنا تھا ٹائم پر ورنہ جسم پر موجود پرانے بیلٹ کے نیل کے نشانوں کے ساتھ کچھ نئے نشان بھی بن جانے تھے –
:::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::
زرا سا جھوم لوں میں !!
ارے نہ رے نہ رے نہ !!
زرا سا گھوم لوں میں !!
ارے نہ رے نہ رے نہ !!
آتجھے چوم لوں میں !!
ارے نہ بابا نہہہہ……
وہ مست سی آنکھیں بند کیے اپنے کمرے میں کانوں پر ہیڈ فون لگائے ساتھ ساتھ ناچتے ہوئے اپنے دوپتے کے دونوں سروں کا پکرے اسے گول گول کھما رہی تھی کہ آخر میں ڈوپٹے کو گھماتے ہوئے پیچھتے مڑتے ہی اسے ایک دم جھٹکا اس انداز میں دیا کہ جیسے کسی کو اس کے زریعے قریب کرنا چاہتی ہو مگر جب واپس ڈوپٹہ کھینچنے پر واقع ہی اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی ہو ڈوپٹے کے درمیان تو اس نے آنکھیں کھولیں تھیں مگر ڈوپٹے میں عارش کو پھسا دیکھ اس کا گانا بیچ میں ہی دم توڑ گیا تھا –
ایک تو اس کھڑوس نے اسے گانا گاتے دیکھ لیا تھا بلکہ سن لیا تھا اور اسے اچھے سے یاد تھا عارش نے کافی مرتبہ اسے گانا گانے سے منع کیا تھا – آج تو پھر وہ پکری گئی تھی گانا گاتی اوپر سے گانے کے بول بھی سونے پر سہاگا تھے –
خارش بھائی مم…میرا مطلب عارش بھائی وہ میں وہ …. یہ میں تو نہیں گا رہی تھی یہ تو میں ہوں ہی نہیں میرا مطلب میں ہی ہوں پر وہ !! ڈوپٹے کے پلو چھوڈو گی یار پھاڑ دوں ؟؟
معصومہ تو بوکھلاہٹ میں نا جانے کیا سے کیا بول رہی تھی اور نہ ہی اسے عارش کی کمر کے گرد لپٹے اپنے ڈوپٹے کا بھی ہوش رہا تھا – وہ بول ہی رہی تھی کہ تبھی عارش نے اس کی بات بیچ میں کاٹتے گرجتی آواز میں کہا – ہہہ..اں ہٹاتی ہوں نہ –
.. عارش کے کہنے پر اس نے جلدی سے اپنے ڈوپٹے کا ایک پلو چھوڈ دیا تھا جس سے ڈوپٹا عارش کی کمر کے گرد سے ہٹ گیا تھا – اچھے سے لو ڈوپٹہ – یہ اچھے سے اوڑھنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ناچتے ہوئے اسے گھمانے کے لیے اور نہ ہی زمین پر جھاڑو دینے کے لیے –
عارش نے زمین پر جھولتے اس کے ڈوپٹے کو اٹھا کر اس پر پھنکتے ہوئے کہا – سوری بھائی – سر پر ڈوپٹہ لیتے اس نے جلدی سے معافی مانگی تھی – تم کب …… !! پلیززز عارش بھائی ڈانٹیے گا مت میرا موڈ آج بہت اچھا ہے – اس سے پہلے کہ عارش اس کی کلاس لیتا معصومہ جلدی سے بولی تھی –
ڈانٹوں نہ تو اور کیا کروں ؟؟ تم کب سدھرو گی معصومہ ؟؟ نام تمہارا معصومہ ہے اور حرکتیں تمہاری شیطانوں والی ہے – اور زرا یہ تو بتاو آج کس بات پر موڈ اچھا ہے تمہارا ویسے تو ہر وقت ہی اس طرح کا موڈ ہوتا ہے تمہارا اور کس خوشی میں یوں جاہلوں کی طرح گا کر ناچ رہی ہو ؟؟ ایسا ہو سکتا تھا کہ معصومہ کو ڈانٹنے کا کوئی موقع عارش اپنے ہاتھ سے جانے دے –
وہ صغراں خالہ کی بیٹی ساجدہ کی شادی ہے نہ اس کی شادی میں میں اور شہریار ڈانس کریں گے اسی لیے پریکٹس کر رہی تھی – معصومہ نے اسے خوش ہوتے وجہ بتائی جیسے کہ وجہ سننے کے بعد تو عارش کچھ کہے گا ہی نہیں – ٹانگیں نہ توڑ دوں گا تم دونوں کی اگر تم دونوں نے وہاں ڈانس کرنا تو دور سوچا بھی تو وہ بھی اس بے ہودہ گانے پر –
اور خبردار جو تم نے وہاں کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو – شریف اور سلجھی ہوئی لڑکیوں کی طرح رہنا وہاں – سمجھی ؟؟ معصومہ جو عارش کے ڈانس کرنے سے منع کرنے پر برے برے منہ بنا رہی تھی اس کے آخر میں پوچھنے پر جلدی سے ہاں میں سر ہلا گئی – چائے چاہیے تھی مجھے سر درد کر رہا تھا مریم کو دیکھنے آیا تھا یہاں کہ کہیں تمہارے پاس نہ ہو مگر یہاں آکر تو اور سر گھوم گیا میرا –
سر کو ہاتھ کی انگلیوں سے مسلتے ہوئے کہتے وہ کمرے سے باہر نکلا تھا جبکہ معصومہ نے پیچھے سے اسے زبان چڑھائی تھی –
ٹھنڈی ٹھنڈی پون !!
جلتا ہے یہ بدن !!
جی چاہتا ہے بنا لوں !!
تجھ کو اپنا سجن !!
معصومہ میں یہیں ہوں ابھی – وہ جو عارش کے جاتے ہی پھر شروع ہو گئی تھی عارش کے پھر سے کمرے کے دروازے کے سامنے آکر بولنے پر وہ بنا ادھر اُدھر دیکھے واش روم میں بھاگ گئی تھی جبکہ عارش نہ میں سر ہلا کر رہ گیا تھا – وہ واقع نہیں سدھر سکتی تھی –
::::::::::::::: :::::::::::::: :::::::::::::::::::: :::::::::::::::
معصومہ آج بھی میں تمہیں چھوڈ آوں گا – وہ جو عرش سے کہہ رہی تھی اسے یونی چھوڈ کر آنے کے لیے شہریار کے کہنے پر اسے دیکھنے لگی جو اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کر رہا تھا – اوکے پھر عرش بھائی میں جا رہی ہوں شیری کے ساتھ – وہ جلدی سے شہریار کا اشارہ سمجھتی بولی –
لیکن ابھی تو تمہارا موڈ تھا میرے ساتھ جانے کا – عرش نے آنکھیں چھوٹی کیے پوچھا – ہاں تو موڈ کا کیا ہے بدلتا رہتا ہے بندے کا – میرا بھی بدل گیا – اس نے کندھے اچکا کر کہا جس پر عرش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی –
اوکے تم چلی جاو شیری کے ساتھ مجھے بھی عارش کے ساتھ ضروری میٹنگ کے لیے نکلنا ہے اور ہاں شیری گاڑی آرام سے چلانا اور گڑیا کو یونی چھوڈتے ہی آفس آنا سیدھا اگر دیر سے آئے تو تنخواہ کاٹ لوں گا – معصومہ کے سر پر پیار کرتے ہوئے بولتے اس نے آخر میں شیریار کو وارن کرتے کہا – کیا بھائی اپنے بزنس میں بھی ٹائمنگ کی پابندی اور سیلری کٹنے کا ڈر –
قسم سے پتا نہیں کیوں مجھے اور مانو کو آپ کے اور عارش جیسے بھائی ملے – عرش کی بات پر شہریار احتجاج کرتا بولا – زیادہ زبان نہ چلاو اور چلو جلدی نکلو تاکہ جلدی آفس پہنچو – عرش نے اس کے احتجاج کو کسی خاطے میں نہ لاتے کہا جس پر وہ دکھی دل سے منہ لٹاتا باہر نکلا تھا – اوکے بھائی میں چلتی ہوں بائے بائے اور ہاں خارش بھائی سے دور رہا کریں کیونکہ وہ آپ کو بھی سڑیل بنا رہے ہیں –
شہریار کے جاتے ہی معصومہ عرش کے پاس جاتی اس کے گلے لگتی بولی جبکہ عارش کو خارش کہنے پر عرش نے اسے پیار بھری گھوری سے نوازہ تھا – بری بات بیٹا بھائی ہے بڑا ایسے نہیں کہتے – چلو شاباش جاو دیر ہو رہی ہے –
عرش نے اس کے سر پر بوسہ دیتے پیار سے سمجھایا جس پر وہ دانت نکالتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی جبکہ عرش اس کے دانت نکالنے پر ہی سمجھ گیا تھا کہ اس کے سمجھانے کو اس نے ایک کان سے ڈال کر دوسرے سے نکال دیا تھا –
:::::::::::::::: :::::::::::::: :::::::::::::::: :::::::::::::::::::
یار تم کیوں عرش بھائی سے کہہ رہی تھی کہ وہ تمہیں چھوڈنے جائیں جب کہ تمہیں پتا ہے کہ میں چھوڈنے جاتا ہوں تمہیں یونی – گاڑی میں بیٹھے شہریار نے معصومہ سے ناراضگی بھرے لہجے میں کہا جبکہ معصومہ اس کی بات پر اسے گھور کر رہ گئی تھی – ہو گیا تمہارا ؟؟
مجھے بھی سب پتا ہے کہ اتنی کوئی تمہیں مجھ سے چاہت نہیں ہے اور نہ ہی تم اتنی مجھے امپورٹنس دیتے ہو کہ جس کی بنا پر اپنا سارا کام چھوڈ کر مجھنے چھوڈنے جاو یونی – اچھے سے پتا ہے مجھے کہ مہوش کے لیے جاتے ہو مجھے چھوڈنے یونی – تاکہ اس کا دیدار کر سکو – سچ بتاوں تو اگر میری سہیلی تمہیں پسند نہ کرتی ہوتی نہ تو میں کبھی بھی تمہارے ساتھ یونی نہ آیا کرتی –
معصومہ نے تو ایک پل میں شہریار کی کر کے رکھ دی تھی جبکہ وہ آگے سے کھسیانی ہسی ہس دیا تھا – نہیں نہیں میری چندہ میری گڑیا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور تمہاری محبت میں ہی تمہیں چھوڈنے آتا ہوں –
شہریار نے اس کے گال کھنچتے لاڈ سے کہا کیونکہ اسے پتا تھا اگر معصومہ ناراض ہو جاتی تو وہ کبھی بھی یونی نہ آسکتا اور نہ ہی مہوش کو دیکھ سکتا تھا – بس بس ٹھیک ہے زیادہ لاڈ نہ کرو مجھ سے –
بڑے ہو نہ تم مجھ سے اس لیے چھوڈ رہی ہوں – معصومہ نے احسان کرنے والے لہجے میں کہا جبکہ شہریار کے لیے یہی بہت تھا – رات کو تمہارے لیے آئس کریم لاوں گا – شہریار نے اس کا موڈ اور اچھا کرنے کے لیے کہا –
ٹھیک ہے پر چار لانا میری اکیلی کی باقی کی دیکھ لینا کہ باقی لوگوں کے لیے کتنی لانی ہے – معصومہ نے فوراً چہکتے ہوئے کہا – ٹھیک ہو گیا اب موڈ اچھا کر لو یار – شہریار کے کہنے پر معصومہ نے بڑی سی سمائل کرتے اسے دیکھائی تھی جس پر وہ خود بھی مسکرا دیا تھا –
:::::::::::::: :::::::::::::: ::::::::::::::: :::: ::::::::::::::::
وہ اور مہوش دونوں ہی گراونڈ میں بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں جس میں زیادہ تو ان کی خواہشوں کا زکر تھا – تجھے پتا ہے رانجھے میری سب سے بڑی خواہش کون سی ہے ؟؟ اچانک معصومہ نے مہوش سے پوچھا –
وہ اور مہوش ایک دوسرے کو ہیر رانجھا کہتیں تھیں – مہوش اس کا رانجھا اور وہ مہوش کی ہیر تھی – نہیں تو تو خود ہی بتا دے – مہوش کے جواب پر اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا –
یہی کہ کسی ٹھنڈی چاندنی رات میں تیرے ساتھ واک کروں اور ڈھیر ساری باتیں کریں ناولز کے بارے میں ، اپنے لائف پاٹنر کے بارے میں ، اور اپنے خوابوں کے بارے میں – اور وہ وقت کبھییییی ختم نہ ہو – وہ ہے نہ کہ
سرد چاندنی رات ہو !!
ہلکی ہلکی برسات ہو !!
تیز ہوا کا ساز ہو !!
دوست میری کا ساتھ ہو !!
ہاتھوں میں ہاتھ ہو !!
ناولز کی بات ہو !!
کاش کبھی حقیقت میرا یہ خواب ہو !!
(از خود )( مانیہ خان )
معصومہ کے خواہش بتا کر آخر میں شعر پڑھنے پر مہوش نے آگے ہوتے اسے گلے لگایا تھا – ہائےےےے لو یو ہیرے – تو اتنی مجھ سے محبت کرتی ہے ؟؟ لڑکیاں اپنے پاٹنر کے ساتھ سوچتی ہیں ایسی واک اور تو میرے ساتھ – مہوش کے پیار سے پوچھنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا – ہاں بلکل بہت پیار ہے مجھے تم سے –
اتنا کہ اگر تم اور شیری ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے ہوتے نہ تو میں نے تمہیں اپنی دیورانی یا جھٹھانی بنانا تھا – میری جہاں مرضی شادی ہوتی مگر ہائےے یہ خواب ہی رہے گا میرا اب – معصومہ کے کہنے پر مہوش کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بکھری تھی –
کیوں بھئی خواب کیوں حقیقت بھی بن سکتا ہے اگر تم عارش بھائی سے شادی کر لو تو – مہوش کے کہنے پر معصومہ کے منہ سے بے ساختہ استغفار نکلا تھا – توبہ اللہ معاف کرے کیسی منہوس باتیں کر رہی ہو –
اللہ نہ کرے میری اس کھڑوس سے قسمت پھوٹے – اور بہن تو اتنی بھی عزیز نہیں ہوئی مجھے کہ میں تیرے لیے اس خارش سے شادی کر لوں –
معصومہ کے ترپ کر کہنے پر مہوش کا ہس ہس کر برا ہال تھا جبکہ معصومہ تو عارش عرف خارش نامہ لے کر بیٹھ گئی تھی اور مہوش کو اپنے دکھ سنا رہی تھی جو وہ مشکل سے ہسی ضبط کرتے سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ اظہارِ افسوس بھی کر رہی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial