Luta hai dil ko teri ada ny

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

دادی ! میری پیاری دادی ! میری جان ! میری لاڈو ! کیا کر رہی ہیں – سفینہ بیگم اپنے کمرے میں بیٹھیں تسبیح کر رہی تھیں کہ تبھی معصومہ اندر آتی ان کے پاس بیڈ پر بیٹھتی انہیں سائیڈ سے ہگ کرتے لاڈ سے بولی جبکہ دادی کو پتا چل گیا تھا کہ ضرور اسے کوئی کام تھا جس کے لیے انہیں مسکا لگایا جا رہا تھا –
کیا بات ہے میری گڑیا ؟؟ کیوں مجھے مکھن لگا رہی ہو ؟؟ دادی نے مسکراتے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کے گال کو تھپکتے ہوئے پوچھا – اوہ دادی آپ کتنی سمجھدار ہیں – مجھے نہ شاپنگ پر جانا ہے اور مما پیسے نہیں دے رہیں اور بابا سے مانگنے سے بھی منع کر رکھا ہے مجھے انہوں نے کہ اگر مانگے تو میری خیر نہیں –
وہ کہتی ہیں کہ پرانے کپڑے پہنو ساجدہ کی شادی پر مگر آپ ہی بتاو نہ دادی پرانے کپڑے کیسے پہنوں میں ساجدہ باجی کی شادی پر کیونکہ سب نے اصغر بھائی ( ساجدہ کے بھائی ) کی شادی پر دیکھے ہوئے ہیں میرے وہ کپڑے –
دادی کے پوچھنے کی ہی دیر تھی کہ معصومہ اپنا دکھرا رونے کے انداز میں بتانے لگی – میں صدقے میری جان کے تم بتاو کیا کیا لینا ہے تم نے بلکہ ایسا کرتی ہوں میں کہ تمہیں کسی کے ساتھ مال بھیج دیتی ہوں تم خود لے آو جو لینا ہے اور پیسے میں دوں گی اپنی لاڈو کو کیونکہ تمہاری ماں نے مجھ سے مانگنے سے منع نہیں کیا نہ –
اپنی تسبیح سائیڈ پر رکھتے دادی اس سے بولیں تھیں جبکہ معصومہ کی خوشی کا کوئی ٹھیکانہ ہی نہیں رہا تھا – اوووووو لو یو ہو گیا دادی آپ سے – بہت شکریہ بہت شکریہ میں ابھی تیار ہو کر آئی تب تک آپ دیکھو کسی کو جو مجھے مال لے جائے – وہ خوشی سے چہکتی دادی کے گال چومتے ہوئے کہتے وہاں سے بھاگ گئی تھی جبکہ دادی اس کی خوشی دیکھ مسکرا دی تھیں –
ابھی وہ کمرے سے باہر نکل کر کسی کو دیکھنے جانے ہی لگی تھیں کہ تبھی عارش ان کے کمرے میں داخل ہوا تھا – وہ ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور اس کی عادت تھی آفس واپسی پر سب سے پہلے دادی سے ملنے کی – اچھا ہوا عارش تم آگئے- میرا ایک کام کر دو گے ؟؟ عارش کو پیار کرتے دادی نے کہا –
جی دادی آپ حکم کریں – اس نے فرمابرداری سے کہا – بیٹا معصومہ کو شاپنگ پر لے جاو اسے کچھ شاپنگ کرنی ہے – دادی کی بات پر عارش کا دل تو کیا منع کر دے کہ وہ اس پاگل کو نہیں لے کر جائے گا کہیں مگر پھر بھی ان کی عزت میں چپ رہا – ٹھیک ہے دادی اسے کہیں باہر آ جائے میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں اس کا –
اس نے بنا کوئی برا تاثر دیے کہا – اچھا تم رکو میں تمہیں پیسے دے دوں اس کی شاپنگ کے وہ تو گم کر دے گی – دادی اس سے کہتیں الماری کی جانب بڑھنے ہی لگیں تھیں کہ اس نے ان کا ہاتھ تھام کر روک لیا – کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟؟ میرے پیسے اور آپ کے پیسے الگ تھوڑی ہیں – میں کروا دوں گا اسے شاپنگ اور بے فکر رہیں اس کی پسند کی ہر چیز لے کر دوں گا اسے منع نہیں کرتا –
اب بھیجیں اسے باہر میں انتظار کر رہا ہوں اس کا باہر – وہ پہلے ناراضگی سے اور بعد میں مسکرا کر کہتا آگے ہوتے ان کے ماتھے پر لب رکھتا کمرے سے نکل گیا جبکہ دادی نے ملازمہ کے زریعے معصومہ کو باہر جانے کا پیغام بھیج دیا تھا –
::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::: :::: :::::::::::::::
مریم میرے لیے ایک کپ چائے بنا دو – مریم اپنے کمرے میں بیٹھی کورین ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھی کہ تبھی عرش اس کے کمرے میں آتا بولا – عرش کے اچانک آنے پر اس نے بوکھلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر چلتا ڈرامہ بیک کرتے ڈوپٹہ سہی سے لیا تھا – کیا ہوا بیگم بوکھلا کیوں رہی ہو ؟؟
کیا دیکھ رہی تھی لیپ ٹاپ پر ؟؟ مریم اور عرش کا نکاح دو سال پہلے ہی ہوا تھا لیکن رخصتی ابھی پینڈنگ تھی – کچھ نہیں میں نے کیا دیکھنا ہے ڈرامہ ہی دیکھ رہی تھی – مریم نے خود کو نارمل کرتے کہا – اچھااااا تو زرا دیکھاو مجھے کون سا ڈرامہ دیکھ رہی تھی تم – عرش نے اچھا کو کھینچتے ہوئے اس کے پاس سے لیپ ٹاپ اٹھاتے کہا جبکہ مریم کا سانس رکا تھا –
آپ کو چائے پینی تھی نہ تو آئیں میں بنا دوں یہ کیوں دیکھ رہے ہیں – مریم نے پریشانی سے کہا – پی لیں گے چائے بھی زرا دیکھنے تو دو مجھے تم کون سا ڈرامہ دیکھ رہی تھی – عرش نے کہتے واپس ڈرامہ نکالا تھا مگر اگلے ہی لمحے سکرین پر چلتے منظر کو دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھیں کیونکہ سامنے سکرین پر کورین ڈرامہ My Demon کا کسنگ سین چل رہا تھا –
تم یہ سب دیکھتی ہو ؟؟ اس نے حیرت سے مریم کو دیکھتے پوچھا – نہیں عرش میں نہیں دیکھتی وہ تو جب آپ آئے تو اچانک یہ سین آگیا اسی لیے ورنہ میں اس طرح کے سین آگے کر دیتی ہوں – مریم بےچارگی سے اپنی صفائی دیتے بولی – اسے لگا تھا کہ عرش اسے ڈانٹے گا مگر اس کی حالت دیکھ عرش کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – اف میری جان تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو میں کچھ نہیں کہہ رہا تمہیں –
مریم کے ڈرنے پر عرش اس کے پاس آتا بولا جس پر وہ بھی پر سکون ہوئی تھی مگر یہ پر سکونی کچھ دیر کے لیے تھی کیونکہ اچانک ہی عرش اس کی کمر کے گرد بازو ڈال کر اسے اپنے قریب کرتا اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے چکا تھا – عرش کے عمل پر مریم کا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر مارتی اسے خود سے دور کرنے لگی مگر عرش کو اس کے ہاتھوں کے نازک حملوں سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا –
بلکہ وہ تو اچھے سے خود کو سراب کرتا پیچھا ہٹا تھا – عرش کے دور ہوتے ہی وہ زور سے زور سے سانس لینے لگی – کافی سویٹ ہو یار تم مجھے تو ڈر ہے کہ مستقبل قریب میں مجھے شوگر ہی نہ ہو جائے – اپنے نیچلے ہونٹ پر آنگوٹھا پھیرتے وہ مریم کو دیکھتا آنکھ دبا کر بولا – آپ بہت برے ہیں عرش بہت برے – اب آپ کو چائے بھی نہیں ملے گی جائیں یہاں سے –
وہ شرم اور غصے سے لال ہوتی بولی جبکہ عرش کا قہقہہ بے ساختہ تھا – ارے اب چائے کس کو چاہیے ساری تھکاوٹ اتر گئی میری تو – مریم کے چائے بنانے سے انکار کرنے پر وہ بولا – جائیں یہاں سے آپ ورنہ امی کو بلا کر ان کو بتا دوں گی آپ کے بارے میں – عرش کو ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ وہ اسے دھمکی دیتے بولی جبکہ اس کی دھمکی پر عرش نے قہقہ لگایا تھا –
بلا لو تائی امی کو مگر یہ بتاو کہو گی کیا ان سے یہ کہ میرے شوہر نے مجھے کس …. پلیزززز عرش چپ کر جائیں – اس سے پہلے عرش جملہ پورا کرتا مریم اپنے منہ کو دونوں ہاتھوں میں چھپاتی بولی –
ہاہاہا اوکے جان میں کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ میں جا رہا ہوں کمرے سے مگر ہاں اب تم تیاری پکرو کیونکہ بہت جلد دادا دادی سے رخصتی کی بات کرنے والا ہوں اب اور انتظار نہیں ہوتا – وہ اس کے پاس سے گزرتے وقت اس کے کان میں بولتا کمرے سے نکل گیا تھا جبکہ مریم کے دل کی دھڑکن اور سانسیں ابھی بھی اپنی اصل ترتیب پر نہیں آئی تھیں –
::::::::::::::: :::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::
صبح اچانک ہی سلال کو تیز بخار ہو گیا تھا – اس کا تو خیال تھا کہ گھر رکھی دوائی سے بخار اتر جائے گا مگر اب دوپہر ہو رہی تھی اور سلال کے بخار میں فرق نہیں آیا تھا بلکہ اور بڑھ گیا تھا –
اسے اب واقع ٹینشن ہونے لگی تھی – روتے ہوئے سلال کو کندھے سے لگائے وہ خود بھی روتی ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی – بخار کے سبب وہ دودھ بھی نہیں پی رہا تھا – بی بی جی آپ صاحب کو فون کر کے بلا لیں تاکہ وہ سلال صاحب کو ہسپٹل لے جائیں –
ملازمہ جو کب سے اسے ادھر سے ادھر ٹہلتا دیکھ رہی تھی بولی – میرے بلانے پر نہیں آئیں گے – اس نے ایک ہاتھ سے سلال کو تھامے دوسرے سے اپنے آنسوں صاف کرتے کہا – آپ کے کہنے پر نہ آئیں لیکن سلال بیٹے کے لیے آ جائیں گے – ملازمہ کی بات اسے ٹھیک لگی اسی لیے وہ ہاں میں سر ہلاتی جلدی سے لینڈ لائنڈ کے پاس گئی تھی –
مگر مجھے تو ان کا نمبر ہی نہیں آتا – فون کے پاس جاتے جب وہ اسے اٹھانے لگی تو اسے یاد آیا کہ اسے تو اپنے شوہر کا نمبر آتا ہی نہیں – یہ پاس والی ڈائیری میں لکھا ہے بی بی جی پہلے پیج پر – اس کے پریشانی سے کہنے پر ملازمہ نے بتایا جبکہ وہ نمبر ڈائل کرتی کال ملانے لگی –
::::::::::::::: :::::::::::::::::: :::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::
وہ اپنے آفس میں بیٹھا کچھ فائلز ورک دیکھ رہا تھا کہ تبھی کائنات بلیک ٹائٹ پینٹ اور ریڈ ٹی شرٹ کے ساتھ ریڈ ہیل پہنے اس کے آفس میں داخل ہوئی – کائنات کو دیکھ کر اس نے سمائل پاس کی تھی – کیسے آنا ہوا آج میرے آفس میں ؟؟ اس نے کائنات کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے پوچھا –
بس سوچا آج کچھ وقت تمہارے ساتھ گزار لوں – کائنات نے اپنے کرل کیے بالوں کو سیٹ کرتے ایک ادا سے کہا – واہ اچھی سوچ ہے – اور سناو کیسی جا رہی ہے لائف ؟؟ اس نے فائل سائیڈ پر رکھتے کائنات سے پوچھا – زرا اچھی نہیں جا رہی – تم بتاو مجھے تم کب شادی کر رہے ہو مجھ سے اور کب چھوڈو گے اس منہوس کو – کائنات کی بات پر اس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی تھی –
دیکھو کائنات میں نے پہلے ہی کہا تھا تمہیں کہ وہ لڑکی میرا بدلہ ہے اس کو مرتے دم تک میں تکلیف دینا چاہتا ہوں اس لیے اسے طلاق نہیں دے سکتا – اور دوسری بات ابھی سلال چھوٹا ہے اسے ماں کی ضرورت ہے تو جب تک سلال تھوڑا بڑا نہیں ہو جاتا تب تک تم سے شادی نہیں کر سکتا پھر اسے میں سلال سے دور کرتے فارم ہاوس رکھوں گا اور تم سے شادی کر لوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں تم اسے برداشت نہیں کر سکتی اپنے پاس –
اس نے کائنات کا ہاتھ تھام کر سمجھاتے ہوئے کہا – تو ابھی میں بھی تو سلال کو سنبھال سکتی ہوں نہ – کائنات نے چہرے پر سلال کے لیے چاہت سجائے کہا – بلکل تم اسے سنبھال لو گی مگر ابھی اسے اپنی اصل ماں چاہیے کیوں وہ مکمل طور پر مدر فیڈ پر ہے دوسرا دودھ اس کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے تو اس لیے تمہیں ابھی ویٹ کرنا ہو گا – اس نے کائنات کو پھر سمجھاتے کہا جبکہ اس بار کائنات نے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے اوکے کہا تھا –
چلو نہ آج لنچ باہر کریں ہم دونوں – کائنات نے اسے کہا جس پر وہ مسکرا کر گردن ہلا گیا – اس سے پہلے کہ کائنات کچھ اور بولتی فون کی آواز نے اسے متوجہ کیا تھا – ایک منٹ کائنات میں کال سن لوں – وہ اسے کہتا فون کان سے لگا گیا – ہیلو ہاں ہاجرہ خیر تھی ؟؟ اس نے فون اٹھاتے ہی پوچھا کیونکہ لینڈ لائنڈ سے ہاجرہ یعنی ملازمہ ہی کال کرتی تھی – ممم..میں ہوں – وہ جو ہاجرہ کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا آگے سے اس کی آواز سن اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے –
تم نے کیوں فون کیا ؟؟ اس بے غصے سے کہا جبکہ اس کے غصے پر وہ دوسری طرف کھڑی بھی کانپ گئی تھی – وو..وہ سلال – اس سے رونے کی وجہ سے جملہ مکمل بھی نہیں ہو رہا تھا جبکہ ادھر وہ یوں اس کے روتے ہوئے سلال کا نام لینے پر ایک دم آفس چئیر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا –
کیا ہوا ہے سلال کو ؟؟ اس نے پریشانی سے پوچھا – ببب…بخار ہے صبح سے دودھ بھی نہیں پی رہا – اور بس روئی جا رہا ہے – وہ روتے ہوئے بتانے لگی – تو تم مجھے پہلے نہیں بتا سکتی تھی اب بتا رہی ہو خیر میں آرہا ہوں وہ اس پر غصہ کرتے بولا مگر دوسری جانب سے اس کی چیخیں سن اس کا سانس سینے میں اٹکا تھا کیونکہ وہ چیختے ہوئے سالاس کا نام پکار رہی تھی –
فون کو اپنے کورٹ کی جیب میں رکھتے وہ تیزی سے آفس سے نکلنے لگا کہ کائنات نے اس کا ہاتھ پکرا تھا – کہاں جا رہے ہو تم ؟؟ ہمیں تو لنچ پر جانا تھا – کائنات نے حیرت سے کیا مگر اس نے غصے سے ہاتھ چھڑایا تھا – میرا بیٹا وہاں بخار میں تپ رہا ہے اور تمہیں لنچ کی پڑی ہے – وہ غصے سے کہتا بنا اس کی سنے آفس سے نکل گیا جبکہ پیچھے وہ غصے سے پاوں پٹختی رہ گئی تھی –
::::::::: ::::::::::::::::: ::::::::::::: :::::::::::::: ::::::::::::
وہ تیار ہو رہی تھی کہ تبھی ملازمہ نے اسے دادی کا پیغام دیا کہ جلدی سے باہر چلی جائے صاحب گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں – .ملازمہ کے جاتے ہی وہ بھی اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر لیتی کمرے سے باہر نکل گئی –
وہ باہر گاڑی کے پاس پہنچی تو اندر عارش کو بیٹھا دیکھ اس کی آنکھیں پوری ہی کھل گئی تھیں اور وہ الٹے پاوں واپس ہونے لگی تھی مگر عارش کی گرجدار آواز نے اس کے پاوں جکڑے تھے – چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو اگر شاپنگ کرنی ہے تو کھا نہیں جاوں گا تمہیں – عارش کے کہنے پر اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے اسے گاڑی کے کھلے شیشے سے دیکھا –
نہیں وہ میں بعد میں شہریار کے ساتھ چلی جاوں گی -اس کے کہنے پر عارش نے اسے گھوری سے نوازہ تھا – اگر کرنی یے شاپنگ تو بیٹھو گاڑی میں ورنہ میں بھی دیکھتا ہوں کون کرواتا ہے تمہیں شاپنگ – پرانے کپڑوں میں گزارو گی شادی – اسے واپس جاتا دیکھ عارش نے دھمکی دی تھی جو کام بھی کر گئی تھی اور وہ چپ چاپ منہ بناتی گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتی بیٹھ چکی تھی اور عارش نے گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھائی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial