قسط: 4
وہ بیس منٹ کا رستہ دس منٹ میں تہ کرتا گھر پہنچا تو سامنے لاونچ میں ہی اسے وہ سلال کو گود میں لے کر بیٹھی نظر آئی – وہ روتے ہوئے پاس کھڑی ملازمہ سے پانی لیتی سلال کے منہ پر ہلکا ہلکا چھڑکاو کر رہی تھی –
کیا ہوا سلال کو ؟؟ وہ اس کے پاس جاتا پریشانی سے پوچھنے لگا – اس کی طبعت بہت خراب ہو گئی ہے بے ہوش ہو گیا ہے – وہ روتے ہوئے بولی – جلدی چلو اسے ہسپٹل لے کر چلتے ہیں – اگر صبح بتا دیتی تو اتنا بیمار نہ ہوتا سلال مگر نہیں تمہیں کسی چیز کی پرواہ ہی کہاں ہے –
اگر کچھ ہوا نہ میرے بیٹے کو تو تمہاری خیر نہیں زندہ تمہیں زمین میں دفن کر دوں گا – وہ غصے سے اس پر چیختا بولا جبکہ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی – چلو اب اٹھو – اس کے غصے سے کہنے پر وہ جلدی سے سلال کو اٹھاتی اس کے پیچھے نکلی تھی –
:::::::::::: :::::::::::: ::::::::::::: :::::::::::::::::::::
اس نے جی بھر کر شوپنگ کی تھی اور عارش نے بھی اسے نہیں روکا تھا اس نے اپنا اور شہریار کا مہندی کا ڈریس میچ کر کے لیا تھا – عارش نے بھی بنا کچھ کہے پے منٹ کر دی تھی –
وہ اسے ہر وہ چیز بنا بہس کے لے کر دے رہا تھا جس پر وہ ہاتھ رکھ رہی تھی بلکہ اس نے تو اسے بارات اور ولیمے کے ڈریس لینے میں ہیلپ بھی کی تھی اور تقریباً دونوں ڈریس ہی معصومہ نے اس کی پسند سے ہی لیے تھے – عارش نے اسے سب کچھ لے کر دیا تھا بس ساڑھی نہیں لینے دی تھی اس نے معصومہ کو –
اس بات پر اس کا منہ بھی بنا ہوا تھا – اور اب وہ منہ پھولائے اپنے لیے جوتے پسند کر رہی تھی – وہ والی ہیلز دیکھاو بھائی – اس نے سامنے نظر آتی گرے کلر کی تین سے چار انچ کی باریک ہیل والی جوتی کی طرف اشارہ کرتے سیل بوائے سے کہا – نہیں اسے چھوڈ کر کچھ اور لو وہاں گاوں میں تم سے پہنی نہیں جائے گی –
عارش نے منع کرتے کہا – میں پہن لوں گی پر مجھے یہی لینی ہے – معصومہ کے ضدی لہجے میں کہنے پر اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا جو اس کی نرمی پر چوڑ ہو رہی تھی – لے لو پر ایکسٹرا جوتا لے لینا احتیاط کے طور پر –
وہ اسے وہیں جھاڑ پلانے والا تھا مگر جب معصومہ نے اس کی گھوری پر معصوم شکل بنائی تو اپنا ارادہ بدلتا اس سے بولا جس پر وہ خوشی سے چہک اٹھی تھی –
ساری شاپنگ کمپلیٹ کرکے وہ اسے فوڈ کورنر لے آیا تھا کیونکہ اسے شدید بھوک لگی تھی اور معصومہ کا بھی اسے پتا تھا کہ اسے تو ویسے ہی ہر وقت بھوک لگی رہتی تھی دوسرا وہ باہر کے کھانے کی بہت شوقین تھی وہ جب بھی باہر کہیں جاتی کھانا ضرور کھاتی تھی – معصومہ کے کہنے پر اس نے پیزا ہی منگوا لیا تھا پھر پیزا کھاتے ہی وہ دونوں واپس کے لیے نکل گئے تھے –
::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::
ہاسپٹل جاتے ہی ڈاکٹر نے سلال کو ایڈمٹ کر لیا تھا اور اب اس کے ننھے ننھے ہاتھوں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی – اسے موسمی تبدیلی سے بخار ہوا تھا ابھی دسمبر کا سٹارٹ تھا اور اس کی پہلی سردی تھی اسی لیے وہ بیمار ہو گیا تھا –
وہ تو بہت کئیر کرتی تھی اس کی – اسے اچھے سے گرم کپڑوں میں لپیٹ کر رکھتی تھی مگر پھر بھی اسے سردی لگ گئی تھی – مگر وہ بھول گئی تھی کہ اسے اپنی بھی کئیر کرنی تھی سردی سے کیونکہ سلال کو اس نے دودھ پلانا ہوتا تھا – ڈاکٹر نے اسے یہی وجہ بتائی تھی کہ اس کی یہی لاپرواہی سلال کے لیے مسلہ بنی ہے –
وہ اس وقت ہاسپٹل بیڈ کے پاس پڑے سٹول پر سلال کا ہاتھ تھام کر بیٹھی تھی جس پر ڈرپ لگی ہوئی تھی – وہ آنکھوں میں آنسوں لیے بار بار اس کا ماتھا اور ڈرپ والا ہاتھ چومتی – وہ سائیڈ پر کھڑا کب سے اسے دیکھ رہا تھا – بس کرو ٹھیک ہے وہ – رونا بند کرو – وہ اس کے قریب پہنچ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا نرم لہجے میں بولا – اس ڈیڑھ سال میں اس نے پہلی بار اس سے نرم لہجے میں بات کی تھی –
اور وہ جو کب سے خود کو قصور وار سمجھتی خود پر ضبط کیے بیٹھی تھی اس کے نرم لہجے پر اچانک کھڑی ہوتی روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی تھی – اس کے یوں گلے لگنے پر وہ ایک دم سٹل ہوا تھا – اسے بلکل بھی اس سے اس حرکت کی امید نہیں تھی – فرجاد میری لاپرواہی میرے بیٹے کی جان کے لیے خطرہ بن گئی –
میں کیسے خود کو معاف کروں – اگر میرے بچے کو کچھ ہو جاتا تو ؟؟ اگر میرا سلال میری لاپرواہی کی وجہ سے مجھ سے دور ہو جاتا تو میں مر جاتی فرجاد میں مر جاتی – مجھے معاف کردیں میں نے لاپرواہی برت لی سلال کو لے کر پلیز مجھے معاف کر دیں – وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اس کے سینے ہر سر رکھے بول رہی تھی جبکہ فرجاد بلکل سن سا کھڑا تھا –
اس نے آہستہ سے اپنے دونوں بازو اس کی قمر کے گرد باندھے تھے – اٹس اوکے عنیزہ سلال بلکل ٹھیک ہے – اور لاپرواہی تم سے زیادہ میری تھی – مجھے خیال کرنا چاہیے تھا کہ تمہیں سردی لگنے سے سلال کو بھی سردی لگ سکتی ہے –
تم چپ کر جاو – اٹس اوکے بس شکر کرو وہ بلکل ٹھیک ہے اب اور ہمارے ساتھ ہے – عنیزہ کے سر کو سہلاتا وہ اسے دلاسہ دیتے بولا – عنیزہ کو بھی اس کے بولنے پر اچانک ہوش آیا تھا اور وہ فوراً اس سے دور ہوئی تھی – اس کا دور ہونا نا جانے کیوں فرجاد کو برا لگا تھا مگر وہ چپ رہا – سوری میں جزباتی ہو گئی تھی –
وہ شرمندگی سے سر نیچے کیے بولی جبکہ فرجاد بنا کچھ بولے ہاسپٹل روم سے باہر نکل گیا تھا – اور وہ پھر سے سلال کے پاس سٹول پر بیٹھ گئی تھی –
::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::
وہ سب کو خوشی سے اپنی شوپنگ دیکھا رہی تھی – پریزے اور مریم دونوں کچن میں کھانا بنا رہی تھیں رات کے لیے – اور باقی سب اس کی شوپنگ دیکھ رہے تھے – یہ دیکھو شیری میں تمہارے لیے اور اپنے لیے مہندی کا میچنگ ڈریس لائی ہوں –
وہ شہریار کے سامنے اپنا اور اس کا مہندی کا ڈریس رکھتی خوشی سے بولی – واہ یار بہت پیارا ہے یہ – وہ بھی دگنی خوشی کا اظہار کرتا بولا – ہائے ایوری ون – ہم آگئے واپس – وہ سب باتوں میں مگن تھے کہ تبھی اچانک کسی کی آواز نے انہیں متوجہ کیا تھا اور سب نے ایک ساتھ مڑ کر داخلی دروازے کی جانب دیکھا تھا اور وہاں اکرم شاہ اور علی کو دیکھ سب کے چہرے کھل اٹھے تھے –
کچن میں کھڑیں پریزے اور مریم بھی جلدی سے باہر نکلیں تھیں – سب باری باری ان سے ملے تھے سوائے معصومہ کے – معصومہ بیٹا آپ نہیں ملو گی دادا سے – اکرم شاہ اس کی طرف دیکھتے باہیں پھیلائے بولے – نہیں میں نہیں مل رہی آپ دونوں سے ہی – میں ناراض ہوں – وہ آگے سے بنا ان کے گلے لگے وہیں صوفے پر بیٹھی ناراضگی سے بولی – کیوں میری جان کا ٹوٹا کیوں ناراض ہے ہم سے ؟؟
دادا جان اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے پیار سے پوچھنے لگے جبکہ دوسری جانب اس کے علی بھی بیٹھ گیا تھا – اکرم صاحب کے سوال پر معصومہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے – اور ایک دم سے اس نے رونا شروع کر دیا – اس کے یوں رونے پر سب لوگ ہی پریشان ہو گئے تھے – نہیں کرنی مجھے آپ سے بات –
آپ اچھے دادا نہیں ہو اور نہ ہی علی بھائی اچھے بھائی ہیں – میں نے کہا تھا کہ مت جائیں لندن میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی – مگر آپ چلے گئے – تین ماہ کا کہہ کر گئے تھے اور پانچ ماہ بعد آ رہے ہیں – مجھ سے بات بھی نہیں کی اور آپ کو پتا ہے آپ کے پیچھے عارش بھائی نے مجھے اتنی بار ڈانٹا اور آپ تھے ہی نہیں جن سے میں ان کی شکایت لگاتی – نہ آپ تھے نہ علی بھائی جو میری سنتے –
شہریار کی ان پر چلتی نہیں امیاں ساری پہلے ہی ان کو سر آنکھوں پر بیٹھاتی ہیں اور عرش بھائی کے تو وہ ویسے ہی دوست ہیں – وہ سوں سوں کرتی انہیں اپنے ناراض ہونے کی وجہ بتانے لگی – میں صدقے میرے کاکے کے – سوری گڑیا اپنے علی بھائی کو لاسٹ ٹائم معاف کر دو اب نہیں ناراض کرتا آپ کو –
اور لندن جانا ضروری تھا ہمارا بزنس کے لیے اور پھر یہ بات جھوٹ ہے کہ ہم نے آپ سے بات نہیں کی کیونکہ ہم تو کہتے تھے آپ سے بات کرنی ہے پر آپ ہی نہیں کرتی تھیں ہم سے بات – علی اسے اپنے ساتھ لگاتا پیار سے بولا – ہاں تو میں ناراض تھی – وہ نکھرا دیکھاتے بولی – اچھا بابا معاف کر دو اپنے بوڑھے دادے کو –
اکرم صاحب اسے گلے لگاتے بولے اور اس کی ساری ناراضگی اڑی تھی – کون کہتا ہے کہ آپ بوڑھے ہو ؟؟ آپ تو ابھی بھی جوان ہو میرے ہینڈسم دادا – وہ ان سے لاڈ کرتی بولی – اور یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ اکرم صاحب ابھی بھی اپنی عمر سے بہت حد تک کم لگتے تھے کیونکہ انہوں نے خود کو فٹ رکھا ہوا تھا اور ان کی طرح سفیبہ بیگم بھی فٹ تھیں وہ بھی اپنی عمر سے کم لگتیں تھیں –
یہ تمہاری دادی ہی کہتی ہے مجھے کہ بوڑھے ہو گئے ہیں آپ – اکرم صاحب نے سفینہ بیگم کی طرف دیکھتے شرارت سے کہا جس پر انہوں نے انہیں باز رہنے کا آنکھوں سے تنبیہ کیا تھا – ہاہاہا سوری دادا پھر میں کچھ نہیں کہہ سکتی یہ آپ دونوں میاں بیوی کا معاملہ ہے – وہ ہستے ہوئے شرارت سے بولی جس پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھری تھی –
اچھا لاڈو میں تمہارے لیے تحفے بھی لایا ہوں تو اسی بات پر مجھے بھی معاف کر دو – علی نے معصوم شکل بناتے کہا جس پر وہ ہسی ضبط کرتی احسان کرنے والے انداز میں مانی تھی جس پر علی نے اس کے بال بگاڑے تھے اور وہ کھلکھلا کر ہسی تھی – ساری خواتین محبت سے اپنے بچوں کا آپس میں پیار محبت دیکھ رہیں تھیں –
ان سب کے درمیان کھڑی پریزے تو بس چپ چاپ سب سے نظریں بچاتی علی کو دیکھنے میں مگن تھی – پچھلے پانچ ماہ کی دید کی پیاس بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی – وہ پسند کرتی تھی علی کو مگر یہ بات وہ سب سے چھپاتی تھی یہاں تک کہ خود سے بھی –
مگر وہ پاگل یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ بھی اسے اتنی ہی شدت سے چاہتا ہے مگر اظہار سے ڈرتا تھا – اچھا پھر ہم لوگ فریش ہو کر آرام کر لیں – رات کو مل لیں گے عرش ، عارش اور باقی سب سے وہ سب بھی ابھی آرام کر رہے ہیں –
اکرم شاہ کے کہنے پر سب نے ہاں میں سر ہلایا تھا اور وہ دونوں ہی اٹھ کر اپنے اپنے کمرے کی جانب چل دیے –
دادی اور آسیہ تائی بھی علی اور دادا کے پیچھے گئی تھیں تاکہ دادی اپنے خاوند اور آسیہ بیگم اپنے بیٹے کو کپڑے وغیرہ دیں فریش ہونے کے لیے – ان کے جاتے ہی سب عورتیں اپنے کاموں میں مگن ہو گئی تھیں جبکہ معصومہ شہریار کے ساتھ مل کر اپنی شاپنگ کمرے میں لے کر جانے لگی –
:::::::::::: ::::::::::::: ::::::::::::::: ::::::::::::::::::
رات کی چائے پینے کے ساتھ سب لوگ باتوں میں مصروف تھے – بھئی یہ کنزہ کہاں ہے نظر نہی آ رہی صبح سے – اکرم صاحب نے کنزہ کی غیر موجودگی محسوس کرتے پوچھا – وہ ساجدہ کی شادی ہے نہ بس اسی لیے گاوں گئی ہوئی ہے –
سب لوگ وہاں ضد کر رہے تھے کہ اسے بھیجو آخر اس کی پھپھو کی بیٹی کی شادی ہے تو پھر اس نے کہا وہ جانا چاہتی ہے تو میں نے بھیج دیا اسے – دادی نے انہیں تفصیل سے بتایا – اچھا اچھا ماشاللہ اچھی بات ہے اگر وہ اپنے رشتوں کو نبھانا چاہتی ہے تو – اکرم صاحب خوش ہوتے بولے –
دادا جان میری سالگرہ آ رہی ہے اور مجھے تحفے میں آپ سے گاڑی چاہیے کیونکہ مجھے اپنی یونی جانے میں مسلہ ہوتا ہے – یہ شہریار بہت دیر لگاتا ہے چھوڈنے جانے میں – معصومہ نے اچانک دادا جان کے سامنے اپنی خواہش رکھی تھی – اس سے پہلے کہ دادا جان اس کی خواہش پوری کرتے عارش بول پڑا تھا –
کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں گاڑی کی – اگر شہریار دیر کرتا ہے تو کل سے میں تمہیں چھوڈنے جاوں گا یونی اور لے کر بھی آوں گا – عارش کے یوں اچانک بولنے پر وہ اپنا غصہ ضبط کرتی رہ گئی تھی – مگر آپ کو میری وجہ سے مسلہ ہو گا عارش بھائی – میں خود چلی جایا کروں گی نہ – اب میں بڑی ہو گئی ہوں –
معصومہ نے اسے منانے کی کوشش کرتے کہا – باقی سب خاموشی سے ان دونوں کو سن رہے تھے – پہلے سہی سے چلنا تو سیکھ لو پھر گاڑی چلانا – اگر تمہیں گاڑی دی تو روز ہی تھانے کے چکر لگیں گے ہمارے کیونکہ آپ محترمہ کسی نہ کسی کا ایکسیڈنٹ کر کے آ جائیں گی –
اور رہی بات بڑے ہونے کی تو کہاں سے بڑی ہو تم ؟؟ صرف قد سے حرکتیں تمہاری بیس کی ہو کے دس سال کی بچی والی ہیں – عارش کے ڈانٹبے پر وہ منہ پھلا کر ایک دم کھڑی ہوئی تھی – آپ کو تو مجھ سے پتا نہیں کون سا مسلہ ہے ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں – کسی سے بات نہیں کرنی مجھے –
سب چپ چاپ ان کی سن رہے ہیں – کسی نے نہیں منع کیا انہیں – وہ آنکھوں میں آنسوں لیے ناراضگی سے بولتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ شہریار جلدی سے اس کے پیچھے گیا تھا – گاڑی والا مشورہ شہریار کا ہی تھا کیونکہ اس کا آفس ورک بہت ہوتا تھا اور اسے مسلہ ہوتا تھا معصومہ کو چھوڈنے جانے میں –
وہ اس کے پیچھے گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ ناراض ہو گئی ہے سب سے اور اب رو رہی ہو گی کمرے میں جا کر – اتنا نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا تمہیں عارش کر دیا نہ بچی کو دکھی – روزینہ بیگم نے عارش سے کہا – اوہ مما پلیز یار وہ تو ہے ہی پاگل اس کا یہ مطلب نہیں ہم لاڈ پیار میں اس کے پاگل پن میں اس کا ساتھ دیں – بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے عارش بھابھی – کچھ زیادہ ہی بچپنہ ہے اس میں –
اخر کب تک ایسے رہے گی آخر کل کو شادی بھی کرنی ہے اس کی ہم نے – ہم تو برداشت کر لیتے ہیں اگلے گھر والے نہیں کریں گے – رابعہ بیگم نے عارش کے کہنے پر اس کا ساتھ دیتے کہا – بس کر دو سب میری معصوم بچی کے پیچھے پڑ گئے ہو – دادا جان نے سب کو چپ کرواتے کہا – توبہ دادا جان معصوم اور وہ –
مجھے تو حیرت ہے نا جانے کس کم عقل نے اس کا نام معصومہ رکھا ہے – عارش کی بات پر سب بڑوں کا قہقہہ چھوٹا تھا – بیٹا جی وہ کم عقل آپ ہی ہو – کیونکہ جب معصومہ پیدا ہوئی تھی تو آپ نے ہی ضد کرتے اس کا نام معصومہ رکھا تھا –
روزینہ بیگم نے ہستے ہوئے کہا جبکہ ان کی بات پر عارش پہلے تو حیرت سے انہیں دیکھنے لگا پھر ہس دیا – واقع میں کم عقل تھا – اس کے کہنے پر سب کے پھر قہقہے گونجے تھے –