قسط: 5
آج وہ رات دیر سے واپس آیا تھا – سب سو چکے تھے – وہ فریش ہوکر کچن میں گیا کیونکہ اسے شدید بھوک لگی تھی مگر وہاں پریزے پہلے سے ہی موجود تھی – اس کے ہاتھ میں پانی کا جگ دیکھ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پانی لینے آئی تھی – آپ اتنی دیر سے آئے ہیں آج – خیر تھی ؟؟ پریزے نے اس سے پوچھا –
جی کچھ آفس کا کام زیادہ تھا آج اسی لیے اسے دیکھتے دیر ہو گئی – علی نے فرج میں سے فریز کیا گیا کھانا نکالتے جواب دیا جبکہ نظریں نیچے ہی تھیں اس کی – وہ کبھی بھی پریزے کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا –
کیونکہ ایک تو اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اس کی آنکھوں میں اس کے لیے جلتا عشق کا دیا نہ دیکھ لے – اور دوسرا وہ اس کی عزت کرتا تھا اخر وہ عشق تھی اس کا اور عشق کی پہلی شرط ہی عزت کرنا ہے – اس کا یوں نظریں نیچی کر کے بات کرنا ہی پریزے کو بہت پسند تھا – لائیں میں گرم کر دیتی ہوں کھانا –
وہ جگ واپس سلف پر رکھتی بولی – نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں میں ٹھنڈا ہی کھا لوں گا – اس نے اپنے لیے سالن نکالنے کے لیے ایک پلیٹ اٹھاتے کہا – ایسے کیسے کچھ نہیں ہوتا – تھکے آئے ہیں آپ اور بھوک بھی لگی ہے آپ کو –
تو ایسے میں ٹھنڈا سالن اور روٹی نہیں کھائی جائے گی – میں جاگ تو رہی ہوں بنا دیتی ہوں لائیں دیں ادھر – وہ اس کے پاس سے سالن لیتی بولی جبکہ وہ بھی خاموشی سے وہاں پڑے چار کرسیوں والے ٹیبل سیٹ کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ پھرتی سے ہاتھ چلاتی اس کے لیے گرم گرم روٹی بنانے لگی اور دوسری طرف اوون میں وہ سالن بھی رکھ چکی تھی گرم ہونے کے لیے –
روٹیوں کے ساتھ سالن اس کے لیے نکال کر اسے دیتے ساتھ پانی رکھ کر ہٹی تو علی نے اسے کھانا کھانے کی آفر کی جسے اس نے کھا چکی ہوں اب بھوک نہیں کہہ کر رد کر دیا اور اپنے پانی کا جگ اٹھا کر کچن سے نکلنے لگی مگر علی کی آواز پر رک گئی – اف یو ڈونٹ مائنڈ پریزے کیا مجھے چائے بھی بنا دیں گی ؟؟ سر بہت درد کر رہا ہے –
اس کے کہنے پر پریزے نے پلٹ کر اسے دیکھا جو اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا – اچانک نظریں ملنے پر دونوں کی ہارٹ بیٹ تیز ہوئی تھی اور دونوں نے ہی نظروں کا زاویہ جلدی سے بدلہ تھا – میں بنا دیتی ہوں اس میں مائنڈ کرنے والی کیا بات ہے –
وہ واپس آتی جگ سلف پر رکھتی چائے بنانے کا سامان نکالنے لگی جبکہ علی پرسکون ہوتا پھر سے کھانا کھانے لگا – اسے پریزے کی موجودگی اچھی لگ رہی تھی کچن میں اسی لیے سر درد کا بہانا بناتے چائے بنانے کے لیے اسے روک لیا – اور اب پرسکون ہوتا کھانا کھانے لگا –
:::::::::::::::: :::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی رونے میں مصروف تھی جب عارش کا اس کے کمرے کے پاس سے گزر ہوا اور بے ساختہ ہی اس کی نظر معصومہ پر پڑی جو بری طرح رو رہی تھی – وہ پریشانی سے اس کے کمرے میں داخل ہوتا اس کے پاس پہنچا تھا –
کیا ہوا ہے معصومہ تمہیں ؟؟ رو کیوں رہی ہو ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟ عارش نے پریشانی اور فکرمندی سے پوچھا – خارش بھائی عمر مر گیا – میں کیسے یہ دکھ برداشت کروں گی – عارش جو اس کے خود کو خارش کہنے پر گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا اس کی اگلی بات پر اسے حیرت ہوئی تھی –
کون ہے یہ عمر اور کیا رشتہ ہے اس سے تمہارا جو یوں اس کی موت پر رو رو کر آدھی ہو رہی ہو ؟؟ عارش کے اندر کی غیرت اچانک سے ابھری تھی معصومہ کی بات پر – وہ میری محبت ہے ممم….میں کیسے برداشت کروں گی اس کی موت کا صدمہ – میرا دل پھٹ رہا ہے بھائی مجھے سکون نہیں مل رہا –
وہ بنا عارش کے غصے کو سمجھے اپنی ہی بولی جا رہی تھی – بکواس بند کرو اور سہی سے بتاو کون ہے عمر اور کدھر رہتا تھا ؟؟ تم کہاں ملی اسے ؟؟ عارش نے اسے بازو سے پکر کر کھڑا کرتے غصے سے کہا –
میں نہیں ملی اس سے ملتی بھی کیسے وہ میرے ناول کا ہیرو ہے عمر جہانگیر – اور آپ کو پتا ہے عارش بھائی وہ مر گیا میرا عمر مر گیا – وہ روتی ہوئی ہچکیاں بھرتے بولتی عارش کا دماغ خراب کر گئی تھی – یعنی وہ تب سے ایک فرضی کردار کے مرنے ہر رو رو کر ادھی ہو رہی تھی – معصومہ معصومہ میں تمہارا کیا کروں ؟؟
تم تب سے ایک فرضی ہیرو کے لیے رو رہی ہو اور مجھے تب سے پاگل بنا رکھا ہے – خبر دار جو تمہاری اب اواز بھی نکلی تو – چپ کرو اور اب اگر تم روئی تو میں نے تمہارا فون توڑ کر رکھ دینا ہے – عارش کے غصے سے کہنے پر معصومہ ایک دم سیدھی کھڑی ہوتی اپنے آنسوں پونچھ گئی تھی –
میں تو نہیں رو رہی خارش بھائی میرا مطلب عارش بھائی – وہ آنکھیں بار بار جھپک کر کھولتی بولی – روتی ہوئی نظر بھی مت آنا اور جاو میرے لیے فریش جوس لے کر آو – وہ اسے کہتا کمرے سے چلا گیا جبکہ پیچھے معصومہ کا پھر سے منہ لٹک گیا تھا – کتنے بے حس ہیں خارش بھائی –
چل معصومہ اس خارش بارش کو فریش جوس دے کر آئیں – وہ خود سے بڑبڑا کر کہتی کمرے سے نکلی تھی –
:::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::
سلال اب بلکل ٹھیک تھا – فرجاد نے اب عنیزہ کو پانی والے کاموں سے دور رہنے کا حکم سنا دیا تھا – وہ ابھی کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی کہ اچانک اسے قہ آئی تھی اور وہ منہ پر ہاتھ رکھتی سنک کی طرف تیزی سے بڑھی –
الٹی کرتے وہ منہ دھوتی پیچھے ہوئی تھی – وہ اچھے سے اپنی حالت سمجھ رہی تھی – پچھلے تین چار دن سے اس کے ساتھ یہی ہو رہا تھا – کبھی چکر آتے تو کبھی قہ – اسے ڈر تھا کہیں یہ بات فرجاد کو نہ پتا چل جائے کہ وہ پھر سے امید سے ہے –
وہ اچھے سے فرجاد کی سوچ جانتی تھی کہ جیسے ہی سلال اس کے بغیر رہ سکے گا وہ سلال کو اس سے چھین لے گا اور ایسے میں اگر اس دوسرے بچے کا پتہ چلا اسے تو وہ اسے بھی چھین لے گا اس سے –
اس کی پوری کوشش تھی کسی دن موقع دیکھ کر یہاں فرجاد کی قید سے دور جانے کی مگر وہ گھر کے باہر ہمہ وقت گارڈ رکھتا تھا – ابھی بھی وہ سالن کے نیچے چولہا بند کرتی سلف سے ٹیک لگائے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے سوچوں میں مگن تھی –
ابھی سلال پانچ ماہ کا تھا اور ایسے میں دوسرا بےبی آنا اور اسے بھی سنبھالنا اس کے لیے مشکل ہونے والا تھا مگر اسے اپنی اولاد کے لیے ہر مشکل قبول تھی – بس کسی طرح اسے اس قید سے آزاد ہونا تھا – اور کسی ایسی جگہ جانا تھا جہاں پر فرجاد کبھی نہ پہنچ سکے –
::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::
وہ عارش کے لیے جوس بنا کر لے آئی تھی اور اس وقت اس کے کمرے کے باہر کھڑی دروازہ ناک کر رہی تھی – اندر سے کم ان کی آواز پر وہ دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی – عارش نے اسے دیکھا جو اداس چہرا لیا مردہ قدم اٹھا رہی تھی –
اسے دیکھ عارش نے تاسف سے سر ہلایا یعنی وہ ابھی بھی فرضی کردار کی موت کے صدمے میں تھی – ادھر ٹیبل پر رکھ دو – وہ صوفے پر بیٹھا کچھ فائلز کو ریڈ کر رہا تھا – اس لیے معصومہ کو اس نے جوس پاس پڑے ٹیبل پر رکھنے کو کہا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی آگے بڑھنے لگی مگر قالین میں پیڑ اٹکنے سے اس کا توازن بگرا اور ایک دم لڑکھڑانے سے اس کے ہاتھ سے جوس کا گلاس چھوٹا تھا –
ٹیبل پر پڑی فائلز پر سارا جوس گر گیا تھا اور کچھ عارش کے کپڑوں پر بھی گرا تھا – یوں اچانک جوس گرنے پر عارش یک دم کھڑا ہوا تھا اور معصومہ کا منہ پریشانی اور حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا – اس کی ساری ادسی اڑن چھو ہوئی تھی اور اب اداسی کی جگہ پریشانی نے لے لی تھی – ععع….عارش بھائی میں نے جان ببب…بوجھ کر نہیں کیا – پتا نہیں کیسے گر گیا –
قسم لے لیں مجھ سے میری کوئی غلطی نہیں – وہ پریشانی سے بولی مگر عارش نے تو غصے سے مٹھیاں میچ لی تھیں – چلی جاو معصومہ یہاں سے – دفع ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے اس سے پہلے میں تمہیں یہیں زمین میں دفن کر دوں – عارش نے غصے کے سبب لال ہوتی آنکھوں کو معصومہ کے چہرے پر گاڑے کہا اور وہ بھی سیکنڈ سے پہلے کمرے سے غائب ہوئی تھی –
لانت ہو تم پر عارش جو تم نے اس بیوقوف کو کام کہا – وہ خود کو کوستا واش روم کی جانب بڑھ گیا تاکہ کپڑے چینج کرے – یہ تو شکر تھا وہ ساری فائیلز اصل نہیں بلکہ فوٹو کاپی تھیں – ورنہ اج واقع معصومہ نے عارش کے ہاتھوں قتل ہو جانا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::
وہ بیڈ کے ساتھ نیچے کارپیٹ پر لیٹتی تھی مگر جب سے سلال بیمار ہوا تو فرجاد نے اسے بیڈ پر نہ سہی صوفے پر لیٹنے کی اجازت دے دی تھی ورنہ ہر رات فرجاد اس پر اپنی نفرت اور وحشت اتارتا اسے بیڈ سے اتار دیتا تھا اور وہ سردی گرمی ہر موسم میں وہیں کارپیٹ پر سوتی تھی –
آج رات سلال کو ضد چڑھی ہوئی تھی اور وہ اس سے دور ہو ہی نہیں رہا تھا – روز رات وہ اسے جھولے میں سلاتی تھی مگر آج وہ اس سے دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور روئی جا رہا تھا – وہ اسے چپ کروانے میں مصروف تھی – فرجاد کی نید بھی سلال کے رونے پر کھل چکی تھی – کیا ہوا ہے ؟؟ کیوں رو رہا ہے سلال ؟؟
وہ اٹھ کر بیٹھتا پوچھنے لگا – ضد کر رہا ہے – سلاتی ہوں اسے مگر جیسے ہی جھولے میں ڈالوں تو رونا شروع ہو جاتا ہے – اور یہاں صوفے پر میں اس کو ساتھ نہیں لٹا سکتی – وہ سلال کو گلے لگا کر سہلاتی بولی – تو یہاں آ جاو بیڈ پر اور ادھر سو جاو رولا کیوں رہی ہو میرے بیٹے کو – وہ سخت لہجے میں بولا جبکہ اس کے الفاظ پر عنیزہ کو حیرت ہوئی تھی – میں کیسے سوں بیڈ پر –
وہ آہستہ آواز میں بولی – تمہیں برداشت بھی نہ کروں میں یہاں برابر میں اپنے مگر سلال کی وجہ سے کہہ رہا ہوں – اب مرو ادھر منہ کیا دیکھ رہی ہو –
فرجاد کے توہین آمیز لہجے پر اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے اور وہ دکھی دل سے سوئے ہوئے سلال کو سنبھالتی (جو ابھی سویا تھا )صوفے سے کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کے قریب جا کر آرام سے بیٹھی اور پھر لیٹی سلال کو اپنے ساتھ جوڑ کر لیٹا چکی تھی اور خود بنا کمفرٹر کے ہی لیٹی رہی جبکہ سلال پر اس نے اس کا بےبی کمبل دے دیا تھا – کمفرٹر اوڑھو ورنہ پھر تمہاری وجہ سے سلال بیمار ہو جائے گا –
وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی تبھی فرجاد کے کہنے پر اس نے جلدی سے خود پر کمفرٹر اوڑھا – تھوڑی ہی دیر بعد وہ تینوں اپنی اپنی نید میں گم تھے – نید میں ہی فرجاد نے سائیڈ چینج کرتے اپنا بازو عنیزہ کے اوپر رکھا تھا جبکہ عنیزہ کا ہاتھ سوتے ہوئے سلال پر تھا جو ان دونوں کے درمیان میں تھا – وہ تینوں سوتے ہوئے اس وقت مکمل فیملی لگ رہے تھے جیسے دنیا کی بیسٹ فیملی ہوں مگر صبح ہوتے ہی یہ منظر بدل جانا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::
پریزے ، روزینہ تائی اور وہ کچن میں موجود تھیں – تائی اور پریزے تو سبزی بنا رہی تھیں جبکہ وہ سیب کھا رہی تھی – یار پریزے آپی میرے کانوں میں بہت میل پھس گئی ہے – مجھے اونچا سنائی دینے لگ گیا ہے –
میں تو مما سے کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں کہ نکلوا دو میل پر کوئی سنتا ہی نہیں میری – آج بابا آتے ہیں نہ تو ان سے کہوں گی – وہ سیب ختم کرتی باقی کا حصہ دسٹبین میں پھنکتی ہاتھ دھوتے پریزے سے بولی – ہاں یار معصومہ مجھے بھی اونچا سنائی دینے لگ گیا ہے – کل شیریار مجھے آوازیں دے رہا تھا اور مجھے سنی ہی نہیں – پریزے بھی پریشانی سے بولی –
ہائےےےےے اس کا مطلب ہم دونوں کو ٹائم سے ہی کانوں والے آلے لگ جائیں گے – وہ دل پر ہاتھ رکھتی بولی جبکہ اس کے یوں کہنے پر تائی امی کے چہرے پر مسکراہٹ آئے تھی اور پریزے نے بھی فکرمندی سے ہاں میں سر ہلایا – ہائے پریزے باجی میں نے سنا تھا کہ ساس کے کان والے آلے کو چھپا کر اپنی ساس کے سامنے بیٹھ کر اس کی برائی کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے –
افسوس اب یہ مزہ ہم نہیں ہماری ساسیس ہم سے لیں گی – وہ ہمارے پاس بیٹھ کر ہماری چغلیاں کریں گی اور ہمیں پتا بھی نہیں لگے گا – معصومہ نے تو بہت آگے کی سوچ دوڑائی تھی اور پریزے کو بھی مستقبل کی فکر لگا دی تھی مگر اس کی بات پر تائی امی نے مسکراہٹ چھپائی تھی –
نہیں کرتی تمہاری ساس تمہاری چغلی میں گیرنٹی دیتی ہوں – تائی امی نے مسکراہٹ چھپاتے کہا – آپ کو کیسے پتا تائی امی کہ میری ساس میری برائی نہیں کرے گی – اس نے حیرت سے پوچھا –
بس پتا ہے وقت آنے پر تمہیں بھی پتا لگ جائے گا – تائی امی کے کہنے پر وہ کندھے اچکاتی چپ رہی کہ تبھی اس کی نظر باہر سے آتے شیریار پر پڑی – شیری آگیا میں نے شوارما منگوایا تھا اس سے –
وہ خوشی سے بولتی کچن سے باہر بھاگنے کے انداز میں نکلی اور تائی امی نے مسکراتے ہوئے باہر دیکھا جہاں وہ شہریار سے شوارما لیتی خوش ہو رہی تھی اور شیریار اسے تنگ کرتے تھوڑا سا شوارما مانگ رہا تھا اور وہ منہ چڑھاتی اسے منع کر رہی تھی –