قسط: 6
وہ لاونچ میں بیٹھی تھی کہ تبھی اچانک آتی ٹک ٹک کی آواز پر اس نے پلٹ کر داخلی دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے کائنات اندر آ رہی تھی – اسے دیکھتے ہی عنیزہ کے چہرے کے زاویے بگرے تھے –
وہ صوفے سے اٹھ کر وہاں سے جانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر کائنات کے الفاظ پر اس کے قدم رک گئے تھے – بیٹھ کر بات سن لو تمہارے مطلب کی بات کرنے آئی ہوں – وہ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے بولی – مجھے نہیں سننی تمہاری کوئی بات – مجھے اچھے سے پتا ہے تم اگر فرجاد کی غیر موجودگی میں آئی ہو تو مجھے باتیں سنانے ہی آئی ہوگی کیونکہ فرجاد کے سامنے تو تم بہت اچھی بنتی ہو –
ایسی لڑکی جس کے منہ میں زبان نہیں ہے پر پتا کیا کائنات واقع تمہارے منہ میں زبان ہے بھی نہیں کیونکہ تمہارے منہ زہر ہے جسے تم اپنی باتوں اور الزاموں کے زریعے میری زندگی میں گھول دیتی ہو – آج عنیزہ کو بھی اپنے اندر کی بھراس نکالنے کا موقع ملا تھا اور وہ اچھے سے کائنات پر وہ بھراس نکال بھی رہی تھی –
ہاہاہا تم سہی کہہ رہی ہو میں واقع تمہاری زندگی میں زہر گھول رہی ہوں کیونکہ مجھے تم فرجاد کی زندگی سے دور چاہیے ہو اور جب تک تم اس کی زندگی میں ہو تب تک میں یوں ہی تمہاری زندگی میں زہر گھولوں گی – پہلے ہستے اور بعد میں ایک دم سیریس ہوتے وہ بولی تو عنیزہ کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ آئی تھی –
یہ سب کہتے بھولو مت کائنات کہ اگر آج میں یہاں ہوں تو صرف تمہاری وجہ سے ہوں – میں اصل حقیقت سے بے خبر ہوں مگر یہ ضرور جانتی ہوں کہ میرے بابا بےقصور تھے – میں نہیں جانتی میرے بابا اور فرجاد کے بابا کے درمیان کوئی لڑائی ہوئی بھی تھی یاں نہیں مجھے یہ ضرور یقین ہے کہ میرے بابا جو توقیر انکل سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتے تھے وہ بھلا قتل کیسے کر سکتے ہیں انہیں –
عنیزہ بنا ڈرے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی جبکہ کائنات اس کی بات پر ہستے ہوئے زور زور سے تالیاں بجانے لگی – واہ تمہیں تو بہت کچھ پتا ہے مگر مزے کی بات بتاوں تمہیں ابھی بھی بہت کچھ نہیں پتا – تم نے سہی کہا تمہارے بابا نے فرجاد کے بابا کا قتل نہی کیا تھا کیونکہ ان کا قتل میں نے کیا تھا –
کائنات اس کان کے قریب چہرہ کرتی سفاک لہجے میں بولی جبکہ عنیزہ اس کی بات پر کانپ کر رہ گئی تھی – ارے ارے کانپ کیوں رہی ہو ابھی پوری بات تو سن لو – تمہارے بابا بھی بھاگنے کے چکر میں بالکنی سے نہیں گرے تھے بلکہ میں نے دھکا دیا تھا انہیں اور وہ مر گئے – چچ چچ بڑے آئے تھے وہ دونوں میری حقیقت فرجاد کو بتانے والے میں نے انہیں کچھ بولنے کے قابل ہی نہ چھوڈا –
اور ایک اور بات ان دونوں کو مارنے بعد میں نے خود فرجاد کو فون کرکے وہاں بلایا تھا اور من گھڑت کہانی گھڑتے کہا کہ مجھے انکل نے ملنے بلایا تھا مگر جب میں وہاں پہنچی تو تمہارے ڈیڈ کے ہاتھ میں پسٹل تھی اور توقیر انکل زمین پر خون میں لت پت پڑے تھے – مجھے دیکھتے تمہارے بابا نے بھاگنے کی کوشش کی اور بھاگنے کے چکر میں بالکنی سے گرے اور مر گئے –
وہ اس کے ارد گرد گھومتی اسے اپنی خوفناک حقیقت بتا رہی تھی جبکہ عنیزہ تو یہی سن کر صدمے میں تھی کہ اس کے بابا کا قتل ہوا تھا اور کرنے والی اس کے سامنے کھڑی تھی – تمہیں چھوڈوں گی نہیں میں – جان سے مار ڈالوں گی میں تمہیں –
وہ ایک دم حوش میں آتی زخمی ناگن کی طرح پھنکاتی اس کی طرف بڑھی تھی مگر کائنات نے اس کا ہاتھ بیچ میں ہی پکر لیا تھا – سوچ سمجھ کر ہاتھ اٹھانا کیونکہ تم شاید بھول رہی ہو کہ فرجاد میرے اشاروں پر چلتا ہے – وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی بولی جبکہ عنیزہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسے جان سے ہی مار دے –
میں سب کچھ فرجاد کو بتا دوں گی – عنیزہ نے اسے وارن کرتے کہا – شوق سے بتاو پر سچ تو یہ ہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ فرجاد تمہاری بات کو کوئی اہمیت نہیں دے گا –
خیر میں چلتی ہوں بتانے تو تمہیں یہ آئی تھی کہ پرسوں فرجاد دوسرے شہر جا رہا ہے آفس میٹنگ کے لیے اور یہ اچھا موقع ہوگا تمہارے لیے بھاگنے کے لیے – اور ہاں اپنے بیٹے کو بھی لیتی جانا ساتھ کیونکہ میں اسے پال نہیں سکتی –
اگر تمہیں نہیں جانا تو یہ ضرور سوچ لینا کہ بہت جلد فرجاد تم سے سلال کو چھیننے والا ہے اور مجھ سے شادی کرکے میری گود میں ڈال دے گا سلال کو مگر مجھے تمہارے بیٹے سے کوئی لگاو نہیں اور تم ہی کہتی ہو کہ مجھ میں زہر ہے آگے تم سمجھدار ہو – وہ اسے کہتی وہاں سے چلی گئی تھی اور عنیزہ پیچھے فرش پر گرنے کے انداز میں بیٹھتی زور زور سے رونے لگی –
وہ کتنی بے بس تھی کہ اپنے باپ کا بدلہ بھی نہ لے سکتی تھی – توقیر انکل اور اس کے باپ کی قاتل کھلے عام گھوم رہی تھی – اور وہ بے قصور ہوتے ہوئے ہر ظلم برداشت کر رہی تھی –
:::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
سلال اس کی گود میں سو رہا تھا اور وہ اپنی کل کی کائنات کے ساتھ ہوئی گفتگو سوچنے میں گم تھی کہ تبھی فرجاد ڈریسنگ روم سے باہر نکل تھا – سلال کو جھولے میں ڈالو اور ادھر آو بیڈ پر –
وہ بیڈ پر بیٹھتا اس سے بولا جو اس کی آواز پر سوچوں سے باہر آئی تھی – فرجاد کی بات پر وہ کانپ گئی تھی مگر وہ کچھ کہہ اور کر بھی نہیں سکتی تھی سوائے اس کے قربت برداشت کرنے کے –
مگر بس آج کی رات ہی اسے برداشت کرنی تھی یہ قربت کیونکہ وہ اپنا مائنڈ بنا چکی تھی کل یہاں سے بھاگنے کا – وہ سلال کو جھولے میں لیٹاتی چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی بیڈ کے پاس پہنچی کہ تبھی فرجاد نے اس کی بازو سے اسے پکرتے ایک جھٹکے میں اپنے پہلو میں اسے گرایا تھا اور اگلے ہی لمحے اس پر قابض ہوا تھا –
::::::::::::: ::::::::::::: ::::::::::::::::: :::::::::::::: :::::::::::
وہ صبح سے فرجاد کے جانے کا انتظار کر رہی تھی اور اس کے جانے کے دس منٹ بعد ہی وہ اپنا بیگ لیتی جس میں اس کے اور سلال کے کچھ کپڑے ضرورت کی چیزیں اور کچھ رقم تھی جو اس نے الماری سے نکالی تھی –
یہ بیگ اس نے کل ہی پیک کر لیا تھا – وہ باہر لان میں نکلی تاکہ گارڈ کو دیکھ سکے مگر شاید اس کی قسمت آج اچھی کیونکہ دونوں گارڈ ہی باہر نہیں تھے – وہ فوراً سے اندر بھاگی اور سوئے ہوئے سلال کو ایک ہاتھ سے اٹھاتی دوسرے میں بیگ پکڑے باہر نکلی اور جلدی سے گیٹ کھولتی وہاں سے دور جا چکی تھی –
::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::
وہ آئیر پوٹ کے رستے میں ہی تھا جب اسے یاد آیا کہ امپورٹنٹ فائل تو گھر ہی رہ گئی – ڈرائیور کو اس نے فوراً گاڑی ریورس کرنے کو کہا تھا – اس کا سیکٹری جو اس کا قابل اعتماد بھی تھا وہ بھی اس کے ساتھ تھا –
وہ فائل لینے واپس گھر پہنچا تو گیٹ کے باہر پہنچتے ہی اسے گیٹ کھلا ملا اور گارڈ بھی غائب تھے – وہ فوراً گاڑی سے نکلتا اندر کی جانب بھاگا تھا – اندر جا کر اسے کہیں بھی عنیزہ نظر نہ آئی – ہر جگہ دیکھتے وہ اسے ساتھ آوازیں بھی دے رہا تھا مگر وہ ہوتی تو جواب دیتی –
عنیزہ کے ساتھ سلال کو بھی غائب دیکھ اس نے غصے سے مٹھیاں میچ لیں تھی – یعنی وہ بھاگ گئی تھی اور ساتھ سلال کو بھی لے گئی تھی – وہ گھر سے باہر غصے سے نکلا کہ تبھی سامنے سے گارڈ آتا دیکھائی دیا – کہاں مرے تھے تم اور شفیق کدھر ہے ؟؟ گارڈ کے پاس پہنچتے وہ غصے سے بولا –
وہ صاحب جی میں سیگرٹ لینے گیا تھا اور شفیق آج چھٹی پر ہے – گارڈ نے ڈرتے ڈرتے کہا – دفع ہو جاو شکل گم کرو اپنی – سیگرٹ کے بغیر مر نہیں جاتے تم – تمہیں میں نے عنیزہ کی رکھوالی کے لیے رکھا تھا –
جاہل انسان بھاگ گئی ہے وہ – اور اب تم بھی دفع ہو جاو اس سے پہلے تمہیں موت دے دوں اپنے ہاتھوں سے – وہ آپے سے باہر ہوتا بولا جبکہ گارڈ فوراً دم دبا کر بھاگا تھا – وہ بھاگنے کے انداز میں گاڑی کے پاس پہنچا تھا – اجمل گاڑی تیز چلاو اور بس سٹیشن چلو جلدی – وہ گاڑی میں بیٹھتا ڈرائیور سے بولا –
اسے یقین تھا کہ عنیزہ بس سٹیشن گئی ہو گی کیونکہ بس سٹیشن یہاں سے قریب تھا – سر سب کچھ ٹھیک ہے ؟؟ اسے غصے اور پریشانی میں دیکھ اس کے سیکرٹری نے پوچھا – بس دعا کرو عنیزہ مجھے مل جائے پھر وہ نہیں سہی رہنے والی – وہ غصے سے دانت چباتا بولا جبکہ سیکرٹری کو معملہ سنگین لگا تھا – اس لیے چپ کر گیا –
:::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::
وہ بس سٹیشن پہنچتے وہاں موجود ایک ایک بس چھان چکا تھا مگر عنیزہ کہیں نہ ملی – وہ وہاں بنے انچارج آفس میں گیا – ابھی یہاں سے کتنی گاڑیاں نکلی ہیں ادھے گھنٹے میں ؟؟ اندر جاتے ہی اس نے بنا کوئی دوسری بات کیے پوچھا –
جی ایک ہی نکل ہے پندرہ منٹ پہلے – اگلے بندے کے جواب پر وہ گاڑی کے نمبر اور کس جگہ جا رہی ہے ساری ڈیٹیل لیتا واپس بھاگتا گاڑی میں بیٹھتا ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا اور ڈرائیور کو اپنی جگہ پر بیٹھا چکا تھا -؛
:::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::
وہ بس میں سوئے ہوئے سلال کو کس کر اپنے سینے میں بھینجے بیٹھی تھی – اس کے چہرے پر خوف رقم تھا کہ جیسے ابھی فرجاد اس تک پہنچ جائے گا اور سلال کو چھین لے گا – وہ منہ میں درود کا ورد کرتی جا رہی تھی –
اچانک ہی بس کے سامنے ایک گاڑی نے رستہ روکا تھا اور بس ڈرائیور نے جلدی سے بریک لگائی تھی – یوں اچانک بریک لگنے پر سب مسافروں کی چیخ نکلی تھی کچھ تو ڈرائیور کو کوسنے بھی لگ گئے تھے جبکہ عنیزہ کا دل نا خوشگوار انداز میں دھڑکا تھا –
:::::::::::::::: :::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::
اس نے فل رش ڈرائیور کی تھی اور مطلوبہ بس تک پہنچ کر اس کے آگے وہ گاڑی لاتا رستہ بند کر چکا تھا – بس کے رکتے ہی وہ اپنے سیکرٹری کو اپنے ساتھ آنے اشارہ کرتا گاڑی سے باہر نکلا تھا اور بس کی جانب چل پڑا –
بس کے پاس پہنچتے ہی بس کنڈکٹر اس کے پاس آیا – کیا مسلہ ہے بھائی تجھے کیوں یوں بلا وجہ رستہ روکا ہمارا ؟؟ بس کنڈکٹر نے اس سے سختی سے پوچھا – بکواس بند کرو مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ میری بیوی ہے اندر بس میں یاں نہیں – وہ کنڈکٹر سے کہتا بس میں چڑھ گیا تھا –
عنیزہ جو لاسٹ میں بیٹھی تھی اسے دیکھ چکی تھی اور اس کو یہاں دیکھ عنیزہ کا سانس سینے میں اٹگ گیا تھا – اس نے فوراً اپنا منہ چھپایا تھا – وہ ایک ایک سیٹ کو چیک کرتے پیچھے پہنچا تو عنیزہ پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں پھر سے غصے سے لال ہو گئی تھیں – اگلے ہی پل وہ اس کا بازو پکر اسے کھڑا کر چکا تھا –
اپنے پکرے جانے پر عنیزہ کی رنگت اڑی تھی – سلال کو اس سے چھینتے اس نے اپنے پیچھے کھڑے سیکرٹری کو اسے پکرایا تھا – سلال کے دور جانے پر وہ تڑپ اٹھی تھی – میرا بچہ !! چٹاخ ! وہ اس سے پہلے آگے ہوتی سلال کو پکرتی فرجاد نے بھری بس کے سامنے اس کے منہ پر تھپر رسید کیا تھا – تھپر کی آواز پر بس میں جہاں پہلے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں وہاں سناٹا چھا گیا تھا –
تھپڑ اتنا شدید تھا کہ وہ گرنے لگی تھی مگر فرجاد نے اس کی بازو کو پکڑے اسے سیدھا کھڑا کیا تھا اور اس کے بال پیچھے سے ڈوپٹے سمیت اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیے تھے – کیا لگا تھا تمہیں ؟؟
تم اتنی آسانی سے میری قید سے بھاگ جاو گی ؟؟ تمہیں پہلے بھی کہا تھا میں نے کہ یہ قید تمہاری موت کے بعد ہی ختم ہو گی یاں میری موت کے بعد – وہ اس کے بالوں کو گرفت میں رکھے غصے سے بولا جبکہ ساری بس ان کو دیکھ رہی تھی – مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ – خدا کے لیے بخش دیں مجھے –
بہت سہہ لی میں نے بنا کسی گناہ کے سزا – اب میں اور نہیں برداشت کر سکتی – مجھے دور جانا ہے آپ سے آپ کی قربت سے اور آپ کی قید سے – آج عنیزہ نے بھی ہمت دیکھا دی تھی – بند کرو بکواس – تمہارے ساتھ کچھ دن نرم کیا رہ لیا تم سر پر ہی چڑھ گئی – اب تمہیں میں بتاوں گا گھر سے بھاگنے کی سزا کیا ہوتی ہے –
وہ اس کے بالوں کو گرفت سے ازاد کرتا بولتا اس کو کہنی سے پکڑے کھنچتے ہوئے بس سے اتارنے لگا جبکہ وہ چیختی چلاتی رہی تھی – بس میں بیٹھے کچھ لوگ اسے رحم بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے جبکہ کچھ یہ تماشہ انجوائے کر رہے تھے – چھوڈیں مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ –
وہ اسے گاڑی میں زبردستی بیٹھانے لگا تو وہ چیختے ہوئے بولی – چٹاخ ! اس کے چیخنے پر فرجاد نے ایک اور تھپڑ اسے دے مارا تھا – چپ کرو خبردار جو آواز نکلی تمہاری – بیٹھو گاڑی میں ورنہ تمہیں یہیں چھوڈ کر سلال کو لے جاوں گا –
فرجاد نے اسے دھمکی دیتے کہا جبکہ اس کی دھمکی کام بھی کر گئی تھی اور وہ فوراً گاڑی میں بیٹھی تھی – ڈرائیور واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا اور اس کے ساتھ والی سیٹ پر فرجاد کا سیکرٹری جبکہ فرجاد پیچھے عنیزہ کے ساتھ ہی سلال کو تھامے بیٹھا تھا –
عنیزہ چوڑ نگاہوں سے اس کی گود میں سوئے سلال کو دیکھ رہی تھی مگر اس کی ہمت نہیں تھی کہ وہ مانگ لیتی سلال کو – ابھی تو فرجاد چپ چاپ بیٹھا تھا گاڑی میں مگر وہ جانتی تھی کہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی گھر جا کر اس کی خیر نہیں تھی –