قسط: 7
عارش اپنی ضد کا پکا نکلا تھا – وہ اب خود معصومہ کو یونی چھوڈنے جاتا اور لے کر بھی آتا – معصومہ نے تو بہت احتجاج کیا تھا مگر اس کی کسی نے نہ سنی – پچھلے ایک ماہ سے اب اسے عارش کے ساتھ ہی جانا پڑتا تھا – وہ تو کہہ کر پچھتائی تھی گاڑی کا – کم سے کم عارش کے ساتھ تو نہیں جانا پڑتا تھا اسے –
ایک تو اسے عارش کے ساتھ جاتے ہوئے موت پڑتی تھی دوسرا جب اس کی یونی کی لڑکیاں اس کے پاس آ کر بار بار عارش کے بارے میں پوچھتی تھیں اور اسے اس بات پر چڑھ ہوتی تھی بھلا کیا ضرورت تھی خارش صاحب کو کہ وہ اسے یونی کے اندر تک چھوڑنے جائے شہریار بھی تو اسے چھوڑنے اتا تھا وہ تو اسے نہیں یونی کے اندر تک چھوڑنے جاتا تھا بلکہ گاڑی وہیں سے لے جاتا تھا واپس مگر عارش عرف خارش کو تو جیسے اس سے کوئی ویر ہی تھا کیونکہ بقول معصومہ کے وہ عجیب لگتی تھی جب عارش چھوٹے بچوں کی طرح اسے یونی کے اندر تک چھوڈنے جاتا اور ایک سوچ اس کی یہ بھی تھی کہ عارش صاحب جان بوجھ کر اسے اندر چھوڈنے جاتے کیونکہ انہیں شوق تھا یونی کی لڑکیوں کو اپنی جانب اٹریکٹ کرنے کا –
اسے سمجھ نہیں اتی تھی کہ اخر وہ لڑکیاں جو عارش کو دیکھ آہیں بھرتیں تھیں اور اس سے بار بار عارش کا پوچھتیں اس کا نمبر مانگتی تھیں آخر انہیں عارش میں کیا نظر اتا تھا اتنا کوئی خاص بھی نہیں تھا وہ –
مگر یہ سب صرف معصومہ کی ہی سوچ تھی کیونکہ عارش واقعی مردانہ حسن کا مجسمہ تھا یوں تو سارے ہی شاہ برادرز ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر عارش اور عرش کی تو بات ہی کچھ اور تھی عارش کزنز میں سب سے بڑا تھا جبکہ عرش اور علی دونوں ہم عمر تھے اور عارش سے ایک سال چھوٹے تھے علی اور عرش میں محض ایک ماہ کا فرق تھا ویسے تو عارش ، عرش ، علی اور شہریار چاروں میں بہت بنتی تھی لیکن عرش اور عارش کی زیادہ اچھی بونڈنگ تھی اور اسی بات کا معصومہ کو دکھ تھا کیونکہ اس کا بھائی ہمیشہ اپنے دوست کی سائیڈ لیتا تھا وہ جب بھی اسے عارش کی شکایت لگاتی اب بھی جب اس نے عرش سے کہا تھا کہ اسے عارش کے ساتھ یونی نہیں جایا کرنا تو بجائے اس کے کہ وہ اس کی بات مان لیتا بلکہ وہ اسے ہی سمجھانے لگ گیا تھا –
ابھی بھی وہ برے برے منہ بناتی یونی کے لیے تیار ہو رہی تھی کیونکہ عارش صاحب اسے پیغام بھجوا چکے تھے جلدی تیار ہونے کا – اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ عارش سے کہہ دے گی کہ وہ اسے یونی کے اندر چھوڈنے نہ جایا کرے کیونکہ اب وہ چھوٹی بچی نہیں رہی تھی مگر اسے یہ بھی پتا تھا کہ خارش نے اس کی بات نہیں ماننی تھی – خیر اسے آج خوشی بھی تھی اس بات کی کہ وہ لوگ کل شادی اٹینڈ کرنے کے لیے گاوں جانے والے تھے اور اسے آج یونی سے چھٹیاں بھی لینی تھیں –
:::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::
عرش سنیں ! وہ اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے سے مریم کی آواز سنائی دی – جی جانِ عرش وہ اس کی جانب پلٹتا چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا جبکہ اس کے طرزِ مخاطب پر مریم کے گال لال ہوئے تھے –
شرم کریں کچھ کسی نے سن لیا تو کتنا برا لگے گا – وہ اسے گھوری سے نوازتی بولی – تو سن لیں میں ڈرتا نہیں کسی سے – اپنی بیوی کو بلایا ہے میں نے اس نام سے کسی اور کی بیوی کو نہیں جو مجھے ڈر ہوگا – وہ اس کو اپنے قریب کرتا کمر کے گرد بازو پھیلائے بولا جبکہ مریم اس کی گرفت سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی – چھوڈیں عرش کوئی آجائے گا – وہ پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھتی بولی –
اس سے پہلے کہ عرش کچھ بولتا اچانک علی اپنے کمرے سے نکلا تھا – اوہ سوری سوری لو بڈز یو مے کیری آن میں نے کچھ نہیں دیکھا – وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا شرارت سے بولتا پاس سے گزرا تھا اور مریم نے عرش کی گرفت کمزور محسوس کرتے خود کو فوراً اس سے دور کیا تھا – علی جو ابھی پاس سے گزرا تھا ایک دم واپس آیا تھا –
میں نے کچھ نہیں دیکھا مگر ضروری نہیں کوئی اور بھی کچھ نہ دیکھے – وہ شرارت سے کہتا عرش کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ دم دبا کر وہاں سے بھاگا تھا – دیکھا میں کہہ رہی تھی کوئی دیکھ لے گا پر نہیں آپ کب سنتے ہیں میری – ہائے میں اب علی بھائی کے سامنے کیسے جاوں گی – وہ عرش پر غصہ کرتی بولی جس پر وہ دانت نکالنے لگا – اچھا غصہ نہ کرو جان – یہ بتاو کیا کہنا تھا تم نے ؟؟
وہ اس کے گال کھنچتا پیار سے بولا – ہاں تو پہلے سن لیتے میری بات مگر نہیں آپ اپنا ٹھرکی پن نہ دیکھائیں ہو ہی نہیں سکتا – وہ منہ پھیلا کر بولتی عرش کو بے حد کیوٹ لگی تھی – اس کا دل کیا تھا آگے ہو کر اس کے پھولے پھولے گال چوم لے مگر وہ اپنی پہلے سے ناراض بیوی کو اور ناراض نہیں کر سکتا تھا –
اچھا نہ سوری جان بتاو کیا کہنا تھا – وہ سوری کرتا پھر سے بولا – مجھے شاپنگ پر جانا ہے – کل ہم نے گاؤں کے لیے نکل جانا ہے اور میں نے ابھی تک اپنے جوتے نہیں لیے ڈریسز کے ساتھ – عرش کے دوبارہ پوچھنے پر وہ اسے معصومیت سے اپنی پروبلم بتانے لگی – تو پریشانی کیسی میں ابھی گاڑی کی کیز لے کر آتا ہوں تم تب تک چادر لے آو – میں ابھی اپنی کیوٹ سی بیوی کو لے جاتا ہوں شاپنگ پر –
جوتوں کے علاوہ بھی جو مرضی لینا – وہ اسے خوش کرتا بولا جبکہ مریم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی – اوہ تھینک یو سو مچ عرش تھینک یو سو مچ آپ بیسٹ ہو – وہ خوشی سے بولتی جانے لگی کہ عرش کی بات پر رکی تھی – کبھی وہ بھی بول دیا کرو جو میں سننا چاہتا ہوں – عرش کے منہ بگار کر کہنے پر اس نے مسکراہٹ چھپائی تھی – آپ کے خوابوں میں ہی بولوں گی وہ جو آپ سننا چاہتے ہیں –
وہ ہستے ہوئے کہتی وہاں سے بھاگ گئی تھی جبکہ عرش پیچھے اس کی بات پر سر جھٹکتا مسکرا دیا تھا – یہ تو آنے والا وقت بتائے گا بیگم کہ تم میرے خوابوں میں اظہار کرو گی یاں حقیقت میں – وہ ہلکے سے خود سے بڑبڑاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا –
::::::::::::: :::::::::::::::::::: ::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
وہ اسے گھسیٹتے ہوئے گھر کے اندر لے کر آیا تھا جبکہ ایک ہاتھ سے سلال کو بھی اس نے تھام رکھا تھا – سیکرٹری کو وہ اکیلے ہی اپنے بی حاف پر میٹنگ پر بھیج چکا تھا – ہاجرہ ! ہاجرہ ! وہ لاونچ میں پہنچتے ہی اسے صوفے پر پھینکنے کے انداز میں چھوڈتا ہاجرہ کو آوازیں دینے لگا –
صوفے پر زور سے گرنے سے اس کے پیٹ میں درد کی لہر اٹھی تھی اور اس نے بے ساختہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا تھا – فرجاد کے آوازوں پر ہاجرہ فوراً حاضر ہوئی تھی – پکرو سلال کو اندر کمرے میں لے جاو – وہ سلال کو اسے پکراتا بولا جبکہ وہ سلال کو پکرتی رحم بھری نظروں سے عنیزہ کو دیکھتی وہاں سے چلی گئی تھی –
ہاجرہ کے جاتے ہی وہ واپس عنیزہ کی طرف مرتا اسے بازو سے پکرتے کھڑا کر چکا تھا – بہت پر نکل آئے ہیں تمہارے ؟؟ بھاگنا چاہتی تھی میری قید سے ؟؟ تمہارے ساتھ کچھ دن نرمی کیا دیکھائی تم تو اپنی اوقات ہی بھول گئی مگر تم شاید اوقات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بھول گئی کہ میں اگر نرمی دیکھا سکتا ہوں تو تمہیں واپس تمہاری اوقات بھی دیکھا سکتا ہوں –
وہ سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑے غصے سے بولا تھا – اس کے یوں بولنے پر عنیزہ کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ آئی تھی – اوقات !! اوقات تو دیکھا چکے آپ بہت پہلے سے – مگر میری نہیں اپنی – چٹاخ ! وہ بھی آگے سے غصے میں ہی بولی تھی مگر اس کی بات پر فرجاد نے زور دار تھپر اس کے گال پر رسید کیا تھا –
یہ یہ ہی اوقات ہے آپ کی کہ ایک بے بس اور لاچار عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ، اس پر ظلموں کے پہاڑ توڑتے ہیں ، اس پر زندگی تنگ کرتے ہیں – بنا کسی وجہ کے بنا اس کے کسی گناہ کے – وہ گال پر ہاتھ رکھتی نفرت سے اسے دیکھتی بولی تھی – بند کرو اپنی بکواس –
اپنے باپ کا بدلہ چکا رہی ہو تم – اپنے قاتل باپ…… بس ! بس ! بہت ہوگیا – بہت سہہ لیے آپ کے ظلم اور بہت سن لی آپ کی اپنے باپ کے خلاف باتیں مگر اب نہیں – اب نہیں سنوں گی اپنے باپ کے بارے میں ایک بھی لفظ آپ کے منہ سے – قاتل میرا باپ نہیں بلکہ آپ کی محبوبہ ہے – اس نے مارا ہے میرے اور آپ کو باپ کو – اور سارا الظام ڈالا میرے باپ کے سر پر – خود کو بچا کر اس نے میری زندگی برباد کر دی –
فرجاد جو ابھی بول رہا تھا مگر جیسے ہی اس نے عنیزہ کے بابا کو قاتل کہا عنیزہ اس کی بات بیچ میں ہی ٹوکتی بولی – غصے کے سبب بولنے سے اس کا پورا وجود اور لہجہ کانپ رہا تھا – بہت زبان نہیں چل رہی تمہاری – تمہیں کیا لگتا ہے تم کہو گی اور میں مان لوں گا کہ تمہارا باپ بے قصور ہے – اور تمہیں شرم نہیں آتی ایک بے قصور لڑکی پر الظام لگا رہی ہو –
مگر کیسے آئے گی تمہیں شرم آخر تم بھی تو اپنے بے غیرت باپ کا خون ہو – بہت دیکھ لی تمہاری بدتمیزی اور زبان درازی – اب تمہیں بتاتا یوں گھر سے بھاگنے اور مجھ سے زبان چلانے کی سزا کیا ہے – وہ اس کا منہ دبوچتے ہوئے بولتا ایک دم پیچھے ہٹا اور اپنا بیلٹ اتاڑ کر اپنے ہاتھ پر لپیٹ چکا تھا –
وہ جو خود کو بہادر بنائے کھڑی تھی یوں اس کے بیلٹ اتاڑنے پر اس کا سانس رکا تھا – اسے اپنی فکر نہیں تھی – اب تو عادت ہو گئی تھی اسے اس مار پیٹ کی مگر ابھی اس کے ساتھ ایک اور وجود تھا – اسے اپنے اندر پل رہے وجود کی فکر تھی – فرجاد نے ایک دم بیلٹ کو جھٹکا دیتے ہوا میں بلند کیا تھا اس سے پہلے کہ وہ اسے عنیزہ کے وجود پر مارتا عنیزہ ایک دم زمین پر بیٹھتی خود کو اپنے بازوں سے کور کرتی چیخی تھی – نہیں فرجاد پلیز نہیں – بے بی مر جائے گا –
وہ خوف سے کانپتے ہوئے روتے ہوئے بولی جبکہ اس کے الفاظ پر فرجاد کا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا تھا – کیا کہا تم نے ؟؟ کون سا بے بی ؟؟ وہ بیلٹ سائیڈ پر پھنکتا زمین پر اس کے قریب بیٹھتے پوچھنے لگا – میرا بے بی – وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے روتے ہوئے بولی – تت…تم پھر سے ایکسپیکٹ کر رہی ہو ؟؟
حیرانگی کے سبب فرجاد سے بولنا مشکل ہوا تھا – جبکہ اس کے پوچھنے پر عنیزہ نے روتے ہوئے ہی ہاں میں سر ہلایا تھا – اس نے کتنے خود سے وعدے کیے تھے کہ کسی طرح بھی فرجاد کو پتا نہیں لگنے دے گی اس بچے کا – مگر وہ یہاں بے بس ہوئی تھی کیونکہ اگر نہ بتاتی تو وہ اپنا بچہ کھو دیتی –
ایدھر دیکھو میری طرف اور سچ سچ بتاو کیا تم سچ کہہ رہی ہو ؟؟ فرجاد نے اس کا چہرہ دبوچے اپنی طرف دیکھنے پر اسے مجبور کرتے کہا – ممم…میں سچ کہہ رہی ہوں – وہ اٹکتے ہوئے بولی – ابھی پتا چل جائے گا کہ تم سچ بول رہی ہو یاں جھوٹ – ابھی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں وہ ہی بتائے گی کہ تم واقع امید سے ہو یاں نہیں –
مگر یاد رکھنا اگر تم امید سے نہ ہوئی تب بھی تمہاری خیر نہیں اور اگر ہوئی تب بھی – وہ سخت لہجے میں بولتے اس کے پاس سے اٹھتا ڈاکٹر کو کال کرنے لگا جبکہ وہ وہیں بیٹھی روتی رہی –
:::::::::::::::::::: :::::::::::::::: :::::::::::: :::::::::::::::::
یہ بے بی کس کا ہے ؟؟ ڈاکٹر جسے اس نے عنیزہ کے چیک اپ کے لیے بلایا تھا سلال کو دیکھتے پوچھنے لگی – ہمارا بیٹا ہے – فرجاد نے سلال کو دیکھتے جواب دیا – کیا ایج ہے آپ کی وائف کی ؟؟ ڈاکٹر نے فرجاد سے اگلا سوال کیا – جبکہ ڈاکٹر کے سوال پر فرجاد نے پیچھے مڑ کر بیڈ پر لیٹی عنیزہ کو دیکھا –
کیونکہ اسے خود نہیں پتا تھا عنیزہ کی ایج کیا ہے – 18 سال ہے میری عمر – فرجاد کے خود کو دیکھنے پر وہ خود ہی اپنی عمر بتاتے بولی – اس کے جواب پر ڈاکٹر اور فرجاد دونوں کو جھٹکا لگا تھا – فرجاد کو بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی کم عمر تھی اور کم عمری میں ہی اس نے سلال کو پیدا کیا تھا –
وٹ آر یو سیریس ؟؟ کیا آپ کا پہلا بے بی 17 سال کی عمر میں ہوا تھا ؟؟ ڈاکٹر نے حیران ہوتے عنیزہ سے پوچھا جس پر وہ ہاں میں سر ہلا گئی جبکہ فرجاد خاموشی سے کھڑا تھا – آپ کو پتا بھی ہے کہ یہ کتنا خطرناک ہے کم عمری میں پریگنٹ ہونا چلیں شکر اللہ کا کہ اس نے آپ کو صحت و تندرستی سے اتنا پیارا بیٹا دیا مگر لگتا ہے نہ تو آپ کو اپنی جان پیاری ہے اور نہ ہی آپ کو اپنی بیوی کی جو ابھی پہلا بے بی پانچ ماہ کا ہے اور آپ لاگوں نے نیکسٹ بےبی کرلیا –
ڈاکٹر اس پر اور فرجاد پر غصہ ہوتی بولی – ڈاکٹر کی بات پر جہاں وہ شرمندہ ہوئی تھی وہیں فرجاد کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – مطلب وہ واقع پھر سے باپ بننے والا تھا – یہ بہت رسکی ہے آپ کے لیے – آپ کی حالت اور عمر آپ کو اس چیز کی اجازت نہیں دیتیں – میری مانیں تو ابھی ابورشن کروالیں – نیکسٹ پھر پلان کر لیجیے گا –
کیونکہ آپ کی حالت دیکھ صاف پتا لگ رہا ہے کہ اگر آپ نے کونٹینیو کی اپنی پریگنٹسی تو آپ کے اور بچے دونوں کے لیے اچھی نہیں ہوگی – آپ کی جان کو خطرہ ہے اس میں – میری صلاح یہی ہے ابورشن کروالیں – ڈاکٹر اسے سمجھاتے ہوئے بول رہی تھیں اس سے پہلے کہ فرجاد ڈاکٹر کی بات پر کچھ بولتا وہ بول پڑی تھی –
نہیں ڈاکٹر مجھے یہ بے بی چاہیے پھر چاہے میری جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو – میں اپنی اولاد کا قتل نہیں کر سکتی اپنے ہاتھوں سے – وہ ڈاکٹر کو انکار کرتے بولی جبکہ فرجاد کو اس کے جواب پر حیرت ہوئی تھی اسے واقع توعق نہیں تھی اس سے اس جواب کی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ماں تھی اور ماں کے لیے اپنی اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا پھر چاہے وہ اولاد ابھی دنیا میں آئی بھی نہ ہو –
ٹھیک ہے آپ کی مرضی لیکن اتنا ضرور کریے گا کہ ہیلدی چیزیں کھائیں اور مسٹر فرجاد آپ کی بھی یہ ڈیوٹی ہے کہ اپنی وائف کا خیال رکھیں اور ان کو ہیلدی چیزیں دیں تاکہ ان کی صحت اچھی ہو اور ڈیلیوری میں کومپلیکیشنز نہ ہوں – ڈاکٹر پہلے اس سے جبکہ بعد میں فرجاد سے بولیں جس پر وہ ہاں میں سر ہلا گیا –
.
یہ ڈائٹ پلین لکھ دیا ہے اسے فولو کرنا ہے آپ نے اور کسی بھی قسم کا کام نہیں کرنا – خاص کر ہر قسم کی ٹینشن سے دور رہنا ہے -ٹھیک ہے تو میں بھی چلتی ہوں اب – ڈاکٹر ڈائٹ پلین لکھ کر دیتیں کھڑی ہوتی بولیں –
آئیں میں آپ کو چھوڈ آتا ہوں – فرجاد ڈاکٹر سے کہتا انہیں لیے باہر نکل گیا جبکہ عنیزہ نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے پیٹ پر ہاتھ رکھا تھا – اور پھر اپنے پاس لیٹے سلال کو اٹھاتی جو اپنے ہاتھ پاوں چلاتا کھیل رہا تھا وہ اسے چٹا چٹ چومنے لگی –